ستمبر ۹۸ء
کراچی
وہ تو جس دن سے سیلی کی آمد کی اطلاع آئی تھی گھر میں تیاریاں شروع ہوگئی
تھیں جبکہ اس وقت اس کے آنے میں پورے تین ماہ باقی تھے یہ وقت بیگم صاحبہ
نے اس طرح گزارے کہ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جو انہوں نے بازار کا چکر
نہ لگایا ہو یا اپنے شوہر سعید جاہ سے اس سلسلے میں کوئی بات نہ کی ہو۔
سیلی کی آمد پر اس قدر جوش خروش کیوں نہ ہوتا آخر وہ صباحت اور سعید جاہ کی
اکلوتی بیٹی ڈاکٹر رابعہ کی بیٹی یعنی ان کی نوا سی تھی اور پہلی د فعہ پا
کستان آرہی تھی۔
صباحت جاہ کو اپنے خا ندانی پس منظر پر بہت فخر تھا اور کیوں نہ ہوتا ! ان
کے والد ایک نہایت اعلیٰ اور روایت پسند خاندانی تھے تعلیم نے جس کو اور
چمکا دیا تھا اور یہ ان کی اعلیٰ ظرفی ہی تھی جو انہوں نے اپنی بیٹی کو اس
دور میں تعلیم دلوائی جب ایسا کوئی تصور نہ تھا، مگر اس کے سا تھ ساتھ
انہیں اپنی شا ندار اسلامی اقدار کا بھی خیال تھا لہٰذا انہوں نے اپنے
خصوصی اختیارا ت کے ذریعے کلاس روم میں پردہ ڈلوا رکھا تھا اور اس طرح سے
صباحت جاہ نے ایم اے کیا ۔
ان کی شادی بھی ایک اعلیٰ تعلیمی اور خاندانی پس منظر کے حامل شخص سے ہو ئی
۔ حا لانکہ ان کے شوہر کو ان کے برقعہ اوڑھنے پر سخت اعتراض تھا مگر صباحت
جاہ اپنے والد کی پا سداری اور احترام میں اس کو ترک نہ کرسکیں ۔ یہاں تک
کہ پا کستان وجود میں آ گیا اور صباحت اور سعید جاہ پا کستان چلے آئے۔جبکہ
ان کے وا لد وہیں ھندو ستان میں رہ گئے۔پا کستان آ کر صبا حت جاہ کو ایک
اعلیٰ تعلیمی ادارے کی لیکچرر شپ کی آفر ہوئی جسے انہوں نے قبول کرلیا ۔ اس
موقع پر ان کا رواں رواں اپنے والد کے لیے احسان مندی کے جذبا ت میں ڈوب
گیا۔
بہت جلد وہ اس ادارے کی پر نسپل بن گئیں ۔اس زمانے تک پردے کا رواج بر قرار
تھا لہٰذا یہ ان کے لیے کبھی نکو کا با عث نہ بنتا حالانکہ ان کے شو ہر جو
سول سرونٹ تھے ان کی آ نکھ میں پھا نس کی طر ح چبھتا تھا۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ دونوں کسی جگہ پارٹی میں گئے۔موٹر سے اترتے ہوئے سعید
جاہ نے اپنی بیگم کو برقع اتار کر شریک ہونے پر اصرار کیا جسے بادل
ناخواستہ انہوں نے مان لیا۔پارٹی میں نکو بننے کے خیال سے لامحالہ انہوں نے
اتار کر موٹر میں رکھ دیا ۔ پارٹی مخلوط تھی ، اور ہر کوئی ان کی تعریف کر
رہا تھا جو صباحت جاہ کو اتنی اچھی لگی کہ دل میں چھپی شرمندگی کی برف بھی
پگھل گئی ۔ اور ایسی پگھلی کہ انہیں گھر واپسی پر بر قع پہن کر جانا اچھا
نہ لگا !
ویسے بھی جب آدمیوں سے ہی پردہ نہ رہا تو موٹر میں کس سے پردہ !اور گھر میں
کیا صرف نوکرو ں کے لیے برقعہ اوڑھا جائے؟بیگم کی اس سوچ کو سعید جاہ نے
پڑھ لیا اور برقعہ کا گولہ سا بنا کر مو ٹر سے با ہر پھینکنے لگے مگر اسی
لمحے ان کی حسّ مزاح جا گ اٹھی اور انہوں نے گا ڑی میں پڑا ہوا جو تے کا
فالتو ڈبہّ اٹھایا اور اس میں برقعہ ٹھونس دیا اس مزاح پر دونوں نے ایک
زندہ دل قسم کا قہقہہ لگایا ۔
صباحت جاہ اور سعید جاہ کی اکلوتی بیٹی رابعہ عرف رابی پچھلے بیس برسوں سے
امریکہ میں تھی۔پہلے تعلیم اور پھر ملازمت کے بعد اس کو امریکہ ایسا بھایا
کہ وہیں مستقل رہائش کا پرو گرام بنا لیا شادی بھی وہاں مقیم ایک پاکستانی
ڈاکٹر سے بڑے تزک و احتشام سے ہوئی۔امریکی تہذیب میں مکمل طور پر رنگی ہوئی
رابی کی شادی کا روایتی مشرقی انداز میں انعقاد ہوا ۔ یہ تقریب مقامی افراد
کے لیے حیران کن بھی تھی اور دلچسپ بھی !پھر جب ان کی پہلی بیٹی پیدا ہو ئی
تو اسکا نام دادا دادی کے اصرا ر پر صالحہ رکھا گیا، مگر امریکی معاشرے میں
اتنے ناما نو س نا م کی گنجائش نہ تھی لہٰذا وہ صرف سیلی ہوکر رہ گئی۔دس
سال تک وہ تنہا والدین اور خا ندان کے لیے آنکھ کا تارہ بنی رہی پھر جب
کلثوم دنیا میں آئی تو سب کو ایک نیا کھلونا مل گیا مگر سیلی کی حیثیت میں
کمی نہ ہوسکی بلکہ مزید بڑھ گئی۔ اب سیلی کی عمر سترہ سال تھی ا ور کلثوم
سات برس کی پیاری سی بچّی تھی ۔
یہ دونوں کبھی پاکستان نہ آئی تھیں مگر نانا ،نانی ان کو درجہ درجہ بڑے
ہوتے دیکھا تھا کیونکہ اکثر کسی نہ کسی بہانے وہ دونوں امریکہ کا چکّر لگا
آتے تھے۔ اور اب سیلی کی پہلی دفعہ پا کستان آمد نے ایک نئی لہر دوڑا دی
تھی۔ صباحت جاہ کو چونکہ ٹین ایجرز کے ذوق کا خوب اندا زہ تھا لہٰذا اس کا
کمرہ ٹھیک کرواتے وقت انہوں نے ان تمام با توں کو مدّنظر رکھا جنہیں عام
طور پر نانیاں،دادیاں نہیں رکھتی ہیں۔اور پھر وہ دن بھی آپہنچا جب سیلی کو
آنا تھا۔
ائیر پورٹ پر سیلی کے حلیہ پر ان کو بڑی حیرت ہوئی !!’’چلو جینز تو ٹھیک ہے
مگر...........‘‘صبا حت جاہ کو اس کے لمبے سے کوٹ اور کندھے پر پڑے اسکارف
سے بڑی الجھن سی لگی۔ ’’کوئی با ت نہیں اس وقت تو سفر سے آرہی ہے نا کیسا
بھی حلیہ ہوچلے گا اور پھر ٹین ایجرز تو ہوتے ہی سر پھرے ہیں ! کیا پتہ کب
کیا فیشن بن جائے؟کچھ پتہ نہیں چلتا! خیر یہاں آنے جانے اور گھومنے پھر نے
کے لیے تو اسٹائلش کپڑے سلوائے ہیں وہی پہنے گی۔۔۔‘‘انہوں نے پیار بھرے فخر
سے سوچا۔
تھوڑا آرام کے بعد اس نے ان کے سا تھ باہر آنا جانا شروع کیا تو انہیں بڑی
حیرت ہوئی کہ وہ کہیں آتے جاتے وقت جدید فیشن کے لباس کے او پر بھی وہی اول
جلول سا کوٹ پہن لیتی اور اوپر سے اسکارف لپیٹ لیتی۔ صبا حت جاہ سوچتیں کہ
رابی نے کچھ زیادہ ہی سہما دیا ہے ا س کو یہاں کو ماحول کے بارے میں !
حالانکہ یہاں پر لوگ کافی بدل چکے ہیں۔ اپنے اس خیال کا اظہار جب وہ اس کے
سا منے کرتیں تو وہ ان کی با ت مذاق میں اڑا دیتی۔
سیلی بھی بڑی عجیب بچّی تھی یا شاید ان دو برسو ں میں بدل گئی تھی۔ باتونی
تو خیر وہ پہلے بھی تھی مگر اب تو بس کرید کرید کر ان سے پرانی باتیں ہی پو
چھتی رہتی۔ اس کو ان تمام چیزوں اور مشاغل سے کوئی دلچسپی نہ تھی جو نانا
نانی نے اس کے لیے جمع کی تھیں ۔ وہ تو بس پرانے البمز پر ڈسکس کرتی کبھی
اپنا خا ندانی شجرہ بناتی ۔ہر وقت پر تجسسّ رہتی ۔ کسی چیز کی تلاش اس کو
ہر وقت گھر کے کونے کھدروں میں مصروف رکھتی۔
آج تو وہ صبح سے ہی اسٹور میں گھسی ہوئی تھی ۔ دوپہر کے کھانے کا وقت قریب
آرہا تھا ۔ وہ اس کو بلوانے کا سوچ رہی تھیں کہ وہ خود’’ نانو نانو!!‘‘
پکارتی ہوئی لاؤنج میں داخل ہوئی ۔وہ سیاہ رنگ کے برقعے میں ملبوس تھی ۔اس
کے ہاتھ میں جوتے کا بوسیدہ ڈبّہ تھا اور اس کا چہرہ خو شی سے دمک رہا تھا
’’کیسی لگ رہی ہوں نانو؟‘‘یہ کہتی ہوئی وہ قدِّ آدم آئینے کے سا منے جاکھڑی
ہوئی ’’یہ آپ کا تھا نا نانو؟کتنا فٹ آیا ہے مجھے ! مجھے اس کی تو تلاش
تھی۔میں بالکل ایسا سلواؤں گی۔ نانو! امریکہ میں ہمیں اپنی شناخت چا ہئیے۔
اس کے لیے ہم نے’’ ینگ مسلم لیڈیز آرگنائزیشن ‘‘ بنائی ہے مگر ہماری سمجھ
میں یہ نہیں آرہا تھا کہ ہم کس طرح اپنی شناخت ان سے الگ بنائیں ! اب میں
یہ لے جاؤں گی تو سب دیکھ کر بہت خوش ہوں گے........‘‘
وہ بول رہی تھی اور صباحت جاہ کو اپنے بوڑھے والد کا ندامت اور شرمندگی سے
بھر پور چہرہ یاد آرہا تھا جو ان کو بے پردہ دیکھ کر زیادہ دن تک جی نہ سکے
تھے۔ مگر اب ان کو یوں محسوس ہوا کہ جیسے ان کے والد کی آنکھوں کے بجھتے
دیپ پھر سے جگمگا اٹھے ہو ں!!!!
ستمبر ۲۰۰۹ء
کینیڈا
رمضان کا دو سرا عشرہ شروع ہو چکا تھا ۔ آج ۴ستمبر ہے اور کینیڈا کے طول و
عرض میں مسلما ن خواتین خصوصاٌ طالبات عالمی یو م حجاب منا رہی ہیں جس کا
فیصلہ چند سال قبل کیا گیا تھا۔ اسکارف جو حجاب کی جدید شکل ہے مسلم خواتین
کا شعار!اسکے خلاف جتنا غلغلہ کیا جارہا ہے یہ اتنا ہی مقبول ہورہا ہے!
یقین نہ آئے تو اس کالج کے ہال میں چلئے جہاں مسلم طالبات کے سا تھ یکجہتی
کے لیے غیر مسلم طالبات بھی اسکارف میں ملبوس ہیں ۔
جی ہاں! اس سلسلے میں یہاں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا ہے۔رنگا رنگ سماں
ہے!ایک دوسرے کو تحفے میں قسم قسم کے اسکارف دیے اور لیے جارہے ہیں ۔ اس
سرگرمی کی روح رواں ثومی سرخ تمتمایا چہرہ لیے ادھر سے ادھر بھا گتی پھر
رہی ہے! اس اہتمام کی تیاریاں تو پہلے سے ہی ہوگئی تھیں مگر مروہ الشر بینی
نے اپنی جان دے کر اس کو ایک نئی جہت عطا کردی تھی!
ہال رنگ برنگے اسکارف سے ڈھکے سروں سے بھرا ہوا تھا جس کے مشرقی حصّے میں
مروہ کا بڑا سا پو سٹر طالبات کو جذباتی کر رہا تھا اور وہ ہمہ تن گوش تھیں
’’................یہ انسانی حقوق کی کھلی پامالی ہے! یہ کہاں کا انصاف ہے
کہ ایک عورت محض اپنے لباس پہننے کے حق کی و جہ سے قتل کردی
جائے؟..........‘‘ مروہ کا ذکر آتے ہی ہال شیم شیم کے نعروں سے گونج اٹھا
اور ثومی کا لہجہ گلوگیر ہوگیا!
ثومی یعنی کلثوم ! صباحت جاہ کی چھوٹی نواسی!
وہی صباحت جاہ جن کا بر قعہ مذاق مذاق میں جو تے کے ڈبے میں گھسیڑ دیا گیا
تھا جس کا انہیں قلق رہا تھا مگر وہ دو بارہ ان کے جسم کی زینت نہ بن سکا
تھا اور آج بڑے وقا ر سے ایک دو سرے کو گفٹ کیا جارہا تھا۔مگر اس کے درمیان
اٹھاون سال کا وقفہ ہے!
جی ہاں ! جب سیلی نے آج سے بارہ سال پہلے وہ بو سیدہ ڈبہّ اٹھا کر اپنے
نانا اور نانی کے سا منے رکھا تو بڑا عجیب سا منظر سامنے آگیا !
چھیالیس سال پہلے کا واقعہ یاد کر کے نانا تو ہنسنے لگے ،جبکہ نانو رو پڑی
تھیں ۔اپنے آپ کو بے پر دہ کرنے کے احساس نے ان کو اشکوں میں ڈبو دیا اور
سعید جاہ ہکا بکارہ گئے! یہ ٹھیک ہے کہ یہ حر کت ان کی تھی مگر صباحت نے
کوئی احتجاج ،کوئی شکایت کبھی نہ کی تھی؟ انہیں کیا پتہ ؟ یہی احسا س جرم
تو انہیں اس وقت آنسو بہانے پر مجبور کر رہا تھا۔اور یہ کوئی جذبہ ہی تو
تھا کہ وہ فالتو ڈبہ اتنے عرصے بعد بھی آج تک وہ پھینک نہ پائی تھیں!
بہرحال،برقعے کو نئی زندگی اسی وقت مل گئی جب اس نے ٹیلر کے سامنے اس کا
ماڈل رکھا اور پھر کراچی سے امریکہ واپسی کا سفر اپنے نئے بر قعے کے سا تھ
کیا۔ یہی نہیں بلکہ اس کے سوٹ کیس میں کوئی درجن بھر بر قعے تھے جو وہ سب
دوستو ں کے لیے تحفے میں لے جارہی تھی۔
ائرپورٹ پر ڈاکٹر رابی اس کو دیکھ کر ششدر رہ گئیں ! اور پھر بہت کچھ بحث و
مباحثہ ہوا جس کی تفصیل بیکار ہے ! ہاں بس اس کا انجام یہ تھا کہ جینز اور
ٹی شرٹ میں ملبوس ڈا کٹر رابعہ اب سرتاپا نقاب میں ملبوس ہوگئیں ! ایسا بھی
ہوتا ہے ! کبھی کبھار والدین کے بجائے اولاد ہی مشعل راہ بن جاتی ہے! جب
صبغۃاﷲ کا رنگ چڑھا تو معاملات زندگی خودبخو د بہتر ہوتے گئے۔ اس کے بعد
نائن الیون سامنے آتا ہے ، جس نے ردِّعمل کے طو ر پراس سفر کو مزید تیز
کردیا !
بعد میں بہتری کے حصول کے لیے وہ کینیڈا شفٹ ہوگئے تھے جہاں پہنچ کر صالحہ
کی شادی ایک انڈین مسلمان ڈاکٹر سے ہوگئی اور یوں وہ بہت سے مفروضے دم توڑ
گئے جو رابی اور ان کے شوہرکے سامنے سیلی کو با پردہ پا کر ان کے ہمد رد
اور دوست کیا کر تے تھے ’’ .....اس معاشرے میں ہماری بچیوّں کی شادی ویسے
بھی مسئلہ ہے اور یہ پردہ تو مزید رکاوٹ پیدا کرے گا..........‘‘
وغیرہ وغیرہ ۔مگر وہ سب انگشت بدنداں رہ گئے جب سیلی کے لیے پا کستانی اور
غیر پاکستا نی رشتوں کے ڈھیر میں سے انتخاب اس کے والدین کے لئے مسئلہ بن
گیا اور جسے اپنی آبائی مشترک تہذیب کی بنیاد پر انہو ں نے حل کیا اور یوں
اب وہ اپنے شوہر اور دو بچوّں کے ہمراہ خو شگوار زند گی گزار رہی تھی اور
ان سے تین گھنٹے کے سفر کی دوری پر رہتی تھی۔
صباحت اور سعید جاہ ایک سال کے وقفے سے انتقال کر گئے مگر ایک اطمینان کے
سا تھ جو اپنی اقدار اور روایا ت کو مستحکم دیکھ کر حا صل ہوا تھا ۔اور وہ
ننھی ثومی جس نے ہوش سنبھالنے کے بعد گھر میں عملی اسلام کی شکل دیکھی تھی
بارہ سال کی عمر سے ہی برضا اور رغبت شر عی پردہ کرنے لگی تھی، جس پر صباحت
جاہ بہت خو ش تھیں ’’ ....میں نے بھی اسی عمر سے پر دہ شروع کردیا تھا
......‘‘ اور سعید جاہ چھیڑتے کہ ’’....اور اگر اسے بھی تمہاری ہی طرح مجھ
جیسا کوئی باذوق شو ہر مل گیا تو........‘‘ اب اس عمر میں ان کو بھی اپنی
حماقت کا احسا س ہو نے لگا تھا ’’......نہیں !ایسا نہیں ہو سکتا ‘‘ وہ بات
کاٹ کر بول پڑتیں ’’...اب بہت کچھ بدل گیا ہے ۔ اعلیٰ تعلیم یا فتہ اور آن
جاب تو خیر میں بھی تھی مگر اپنے حقوق کا جیسا شعور یہ نسل رکھتی ہے کوئی
بھی ان کا استحصال نہیں کر سکتا.....‘‘ .وہ ثو می کو گلے لگا کر کہتیں
.
آج یہ ہی ثو می اسٹیج پر کھڑی اسلامی ، نسوانی حقوق کی علمبردار بنی
فکروعمل کی راہ متعین کر رہی تھی اور ہال کی آخری نشستوں پر بیٹھی ڈاکٹر
رابی اپنی انیسّ سالہ بیٹی ثومی کو پیا ر سے دیکھ رہی تھیں اور سوچ رہی
تھیں ’’ اﷲ کا وعدہ سچا ہے! جو اس کا سہارا لیتا ہے و اقعی مضبوط ہو جاتا
ہے ! میں اس عمر میں کہاں اتنی گہری سوچ رکھتی تھی ؟ وا ضح اور رو شن راہ
عمل! سچ ہے بہت کچھ بدل رہا ہے......‘‘ |