خطے کی صورتحال اور ہمارا طرزِعمل

یہ دنیا یوں تو کبھی بھی جنگوں اور فسادوں سے خالی نہیں رہی اور جدید اور قدیم دونوں زمانوں کی جنگیں انسانی جانوں اورمالوں کے ضیاع کا باعث ہی رہیں ہیں۔ہوس ملک گیری نہ پہلے کم تھی نہ اب ہے لیکن پہلے کی جنگیں کم از کم دو ورنہ دو چار قوموں تک ہی رہتی تھیں جبکہ اب تو اگر کوئی قوم کسی جنگ کا حصہ نہ بھی بنے تو اس سے بہت سارے واسطوں سے کسی نہ کسی طرح متاثر ہوتی ہے۔پاکستان جس خطے میں واقع ہے تو اگر اس میں خوش قسمتی سے کوئی علاقائی جنگ نہ بھی ہو رہی ہو تو کوئی نہ کوئی عالمی طاقت کسی بھی وقت اس طرف آنکلتی ہے اور کوئی جنگ چھڑ جاتی ہے۔افغانستان تو خیرہر وقت کسی نہ کسی عالمی قوت کا میدانِ جنگ بنا رہتا ہے۔ ایران ایک زمانے تک امریکہ کے مفادات کا محافظ رہا اور اب ایک مدت سے دونوں کی نظریاتی اور معاشی جنگ جاری ہے اس سرد جنگ میں کبھی تیزی آتی ہے اور کبھی دھیما پن لیکن تناؤ بر قرار ہی رہتاہے۔ اس سے آگے کبھی عراق، کبھی یمن اور کبھی شام یعنی کوئی نہ کوئی ملک عالمی ریشہ دوانیوں کی آماجگاہ بنتا رہتا ہے۔تیل کے ذخائر سے مالا مال مشرقِ وسطیٰ عالمی طاقتوں کی دلچسپی کا باعث بنا ہی رہتا ہے اور ظاہر ہے کہ خطے کی اس صورتِ حال سے پاکستان مکمل طور پر متاثر ہوتا ہے۔ماضیِ قریب میں تو افغان جنگ نے پاکستان کو بُری طرح متاثر کیا اگر محتاط اندازے کے مطابق بھی بات کی جائے تو ستّرہزار سے زائد کا جانی نقصان ہوا اور یہ ستّر ہزار کا ہندسہ یہی تک محدود نہیں رہتا بلکہ ستّر ہزار خاندانوں کی کم از کم بھی کہا جائے تو دونسلوں تک پھیلتا ہے اور یوں متاثرین کی تعداد لاکھوں سے آگے نکل جاتی ہے۔مالی نقصان کا تخمینہ تو اربوں تک جاتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اربوں کا نقصان کھربوں میں پورا ہو تا ہے آپ کا ملک سالوں پیچھے جا تا ہے اور جب آپ سالوں بعد واپس اُسے اُس حالات تک لاتے ہیں تو دنیا آپ سے اُتنے ہی سال مزید آگے نکل چکی ہوتی ہے اور یوں آپ کا واپسی کا سفر جاری ہی رہتا ہے مکمل نہیں ہو پاتااور قومیں آگے نکلتی ہی رہتی ہیں اور آپ صرف ان کا تعاقب ہی کر سکتے ہیں ان کی برابری حاصل کرنا بظاہر نا ممکن ہو جاتا ہے لیکن ان سب باتوں کا ادراک ہوتے ہوئے بھی ہمارے حکمران پرائی جنگوں میں کودتے رہے ہیں اور آپس کی سیاسی چپقلشوں میں اُلجھتے ہی رہے ہیں اپنے اداروں کو بھی بڑی بیدردی سے انہی مخالفتوں کی نظر کرتے رہے ہیں لیکن اس بار سیاسی قیادت نے ایک بہتر سوچ اور بہتر حکمتِ عملی کا ثبوت دیاجس کو ضرور سراہا جانا چاہیے، جب پاکستان آرمی، ائیر فورس اور نیوی ایکٹ میں ترمیم کو سب نے باہمی رضا مندی سے منظور کیا اگرچہ اس سے پہلے یہ عمل کئی بار ہو چکا تھا کہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی گئی تھی لیکن اس بار تاریخ میں اپنا نام رقم کرانے کے شوق میں اہم ترین اداروں کو بھی ایک دوسرے پر تنقید کا موقع فراہم کیا گیا۔تاہم اس سارے عمل کا اختتام بہر حال ایک اچھے انداز میں ہو گیا جو کہ واقعی قابلِ ستائش ہے اسی رویے کو بحال رکھنے کی ضرورت اس کے بعد بھی رہے گی یہ عمل خوش آئند یوں بھی ہے کہ اگر اس وقت قوم اسی میں اُلجھی رہتی کہ عسکری سربراہوں کی مدت ِملازمت میں توسیع کا ایکٹ ایسا نہیں ایسا ہو یا اس کو منظور کیا جائے یا نامنظور اور عالمی منظر نامے کو پسِ پشت ڈال دیتی تو بے یقینی کی صورت ِحال پیدا ہو سکتی تھی۔اس کے ساتھ ساتھ خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم نے یہ اعلان بھی کیا کہ پاکستان کسی عالمی تنازعے کا حصہ نہیں بنے گا بلکہ ایران اور امریکہ کے درمیان تناؤ کم کرنے کی کوشش کرے گااللہ تعالیٰ کرے ایسا ہی ہو اور پاکستان عالمی مزاج کو بھی سمجھ سکے اور اپنے ملک اپنے عوام اور اپنی معیشت پرتوجہ مرکوز رکھ سکے۔ موجود ہ مثبت رویے اور طرزِ عمل ہی کی وجہ سے جہاں اس وقت عالمی سطح پر مضبوط سٹاک مارکیٹس میں بھی مندی رہی پاکستان کی سٹاک مارکیٹ میں استحکام رہا،دراصل آج کی دنیا مضبوط معیشت کی دنیا ہے۔قومیں دشمنی کی بنیاد جس بھی وجہ اور نظریے پر رکھیں دوستی کی بنیاد معاشی فوائد پر ہی رکھتی ہیں ورنہ آج بھارت بہت ساری اسلام دشمن اور انسان دشمن کاروائیوں کی وجہ سے آدھی سے زیادہ دنیا کا دشمن بن چکا ہوتا۔اس وقت ہماری پالسیوں میں بھی اس حقیقت کو ضرور دخل ہونا چاہیے بے شک کہ اسلامی ممالک کو فوقیت حاصل ہو لیکن ان کے رویوں اور ان کی ترجیحات کو بھی دیکھنا اور سمجھنا ہے اور یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ ہم امریکہ کی ہر جنگ میں اس کے حامی نہ بنیں بلکہ اپنے قومی تقاضوں کے مطابق اپنی پالیسیاں بنائیں۔اب ہمیں یہ چیز سیکھ لینی چاہیے کہ ہم دوستوں کو ناراض کیے بغیر کیسے اپنے مفادات کا اگر ان سے متصادم بھی ہوں تحفظ کریں۔یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ خود کو اندرونی طور پر مضبوط، متحد اور مستحکم کرنا ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ ہم نا ایشوز کو ایشوز بنا لیتے ہیں یہاں تک اندرونی اور بیرونی دونوں خطرات اور مسائل کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں اور ہماری حکومتیں اور اپوزیشن ایک دوسرے کی مخالفت میں نہ قومی یکجہتی اور نہ قومی سلامتی کو خاطر میں لاتی ہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ ضرورت کے وقت بہت سارے مواقع پر ہم متحد بھی ہوئے ہیں ایسا ہی اب کی بار اندرونی معاملے میں ہوا اور اسی لیے سب بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے متحد اور تیا ر نظر آئے اور قوم یہ اُمید کرتی ہے کہ ہم خطے کے موجودہ حالات اور بین الاقوامی منظر نامے کو اسی طرح پیش نظر رکھ کو قومی فیصلے باہمی اتحادواتفاق سے کریں گے اور عالمی حالات کو سمجھتے ہوئے اپنے قومی مفاد میں کریں گے اور اس بار خطے میں کسی ناموافق حالات کی صورت میں ایک بار پھر اپنے عوام اور قومی وسائل کو پرائی جنگ کا ایند ھن نہیں بنائیں گے اور یہ بھی یاد رکھیں گے کہ ہم نے ہمیشہ اپنی جنگیں خود اور اکیلے لڑی ہیں بلکہ دوسروں کی جنگیں بھی لڑتے رہے ہیں لیکن اب مزید نہیں! اور یہ بھی کہ اپنے اندرونی اور بیرونی تمام قومی مفاد کے معاملات میں اتفاق رائے پیدا کرنا ہے تا کہ دشمن نہ ہماری طرف غلط نگاہ ڈال سکے نہ ہمیں استعمال کر سکے۔
 

Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552485 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.