عزم و ارادے کی قوت سے محروم
حکومتی دعوئے
حقیقت یہ ہے کہ حکمرانوں کی طرف سے دعوؤں کی ست رنگی برسات ہر دور میں
برستی رہی،ہر حکومت نے وعدؤں اور دعوؤں کے لولی پاپ سے عوام کو بہلانے اور
سبز باغ دکھانے کی کوشش کی،حقائق خواہ کچھ بھی ہوں مگر دعویٰ یہی کیا جاتا
رہا کہ حالات بہتر ہیں،عوام خوشحال ہیں،معیشت ترقی کر رہی ہے، لوگوں کی شرح
آمدنی میں اضافہ ہوا ہے،حکومت نے نئے روزگار کے مواقع پیدا کیے ہیں،وغیرہ
وغیرہ، موجودہ حکومت نے بھی سابقہ روایات کو برقرار رکھا اور سوائے بلند
بانگ دعوؤں کے عوام کو کچھ نہ دیا، گزشتہ دنوں صدر محترم نے حیرت انگیز
انکشاف کیا کہ حکومت نے تین برسوں میں معیشت کو مستحکم کردیا ہے،اب یہ بھلا
کیسے ممکن ہے کہ صدر صاحب بولیں اور وزیر اعظم صاحب خاموش رہیں،اگلے ہی دن
وزیراعظم صاحب نے بھی دعویٰ کردیا کہ ہم نے 70 فیصد دیہی آبادی کو خوشحال
کردیا ہے،باقی مسائل بھی حل کردیں گے،کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت
نہیں،اپنے قائدین کی دیکھا دیکھی وزیر خزانہ صاحب بھی ترنگ میں کہہ گئے کہ
غربت میں 14 فیصد کمی واقع ہوئی ہے ۔
مگر حکومتی ذمہ داران کے اِن دعوؤں کو سن کر ہمیں حیرت ہوتی ہے،نہ جانے یہ
لوگ کون سی دنیا میں رہتے ہیں اور کس دنیا کی باتیں کرتے ہیں،جبکہ زمینی
حقائق اور اسٹیٹ بینک سمیت عالمی مالیاتی اداروں کی رپوٹیں کچھ اور ہی نقشہ
پیش کررہی ہیں، جو معیشت کے استحکام،عوامی ترقی و خوشحالی اور غربت میں کمی
کے دعوؤں کے خلاف چیخ چیخ کر معیشت کی تباہی وبربادی کی نشاندہی کررہی
ہیں،گورنر سٹیٹ بینک کہتے ہیں کہ معاشی صورتحال کے جلد ٹھیک ہونے کا کوئی
امکان نہیں ہے، افراط زر میں اضافے، ترقی کی رفتار میں سست روی،پیداوار میں
کمی اور ملازمتوں کے نئے مواقع نہ ملنے کی وجہ سے عوام سخت دباﺅ کا شکار
ہیں،اگر اِس کا فوری سدباب نہ کیا گیا تو نوجوانوں کے پاس سوائے اِس کے اور
کوئی راستہ نہیں بچے گا کہ وہ چوریاں کریں،ڈاکے ڈالیں یا سٹریٹ کرائمز کا
ارتکاب کریں،اسٹیٹ بنک آف پاکستان حکومت کو خبردار کرتا ہے کہ پٹرولیم
مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کی شرح 15 فیصد تک بڑھنے
کا خطرہ ہے،جس سے سماجی اور سیاسی سطح پر بے چینی پیدا ہونے کا خدشہ ہے،
گورنر اسٹیٹ بینک کا یہ بھی کہنا ہے کہ گرانی کے حوالے سے صورت حال حوصلہ
افزا نہیں،ملک میں سرمایہ کاری کا فقدان اور بدامنی مزید بگاڑ پیدا کر سکتی
ہے،جبکہ ملک میں ترسیلات زر کی آمد میں کمی اور سرمائے کا فرار تیز تر ہو
گیا ہے ۔
کچھ اسی قسم کے خیالات کا اظہار گورنر اسٹیٹ بینک سے قبل ایشیائی ترقیاتی
بینک اوراقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام بھی کرچکے ہیں،منیلا سے جاری ہونے
والی ایشیائی ترقیاتی بینک کی 2011ءکیلئے”آﺅٹ لُک“رپورٹ کا کہنا ہے کہ
پاکستانی معیشت کو اہم چیلنجز کا سامنا ہے،حکومت کی طرف سے آمدنی بڑھانے کے
اقدامات میں تاخیر سے مالی خسارہ بڑھ رہا ہے،پاکستان کی معیشت کا تذکرہ
کرتے ہوئے رپورٹ کہتی ہے کہ دیگر ممالک کی نسبت پاکستان غیرملکی سرمایہ
کاری کیلئے پسندیدہ جگہ نہیں اور امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث
پاکستان غیرملکی سرمایہ کاروں کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے،رپورٹ
میں رواں مالی سال کے دوران پاکستان میں مہنگائی میں مزید 16 فیصد اضافے کا
عندیہ بھی دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ بجلی کے نرخوں میں اضافے سے
مہنگائی بڑھے گی جبکہ ناقص منصوبہ بندی کے باعث سبسڈیز کا حجم 200 ارب روپے
ہو جائے گا ۔
رپورٹ میں پاکستانی معیشت کی مشکلات کا تذکرہ کرتے ہوئے گزشتہ سال کے سیلاب
کی تباہ کاریوں کا بھی حوالہ دیا گیا ہے اور افراطِ زر کو معیشت کی ترقی کا
دشمن قرار دیا گیا ہے،وفاقی سیکرٹری شماریات آصف باجوہ بھی اعتراف کرتے ہیں
کہ رواں مالی سال کے 9 ماہ کے دوران مہنگائی کی شرح 14.20 فیصد ہو گئی
ہے،دوسری طرف اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کی رپورٹ کہتی ہے کہ پاکستان
میں تین سال پہلے کے مقابلے میں اشیائے ضروریہ کی قیمتی دگنی ہوگئی
ہیں،حکومت نے خوراک انتہائی مہنگی کر دی ہے،حالت یہ ہوچکی ہے کہ سیلاب زدہ
علاقوں کے مکین روٹی کے لئے بھی قرض لینے پر مجبور ہوگئے ہیں اور اِس قرض
کا 70 فیصد روٹی پر خرچ کررہے ہیں،ورلڈ فوڈ پروگرام نے اِس بات پر بھی
افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ملک خوراک سے بھرا ہو ا ہے مگر غریب اِس کے حصول
سے محروم ہیں ۔
قارئین محترم یہ ہیں وہ تلخ زمینی حقائق جو ہماری قومی معیشت کے حقیقی
خدوخال پیش کررہے ہیں،اِن حقائق کی تصدیق اسٹیٹ بینک اور بین الاقوامی
مالیاتی اداروں کی رپورٹیں بھی کررہی ہیں،یہ رپورٹیں جو کچھ لکھ رہی ہیں و
ہ حرف بحرف درست ہے،کیا اِس حقیقت سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ ایک ایسا ملک
جس میں آئے روز خودکش دھماکے ہو رہے ہوں،جس میں سیاستدان جلسے جلوسوں کے
انعقاد سے ڈر رہے ہوں، جہاں عوام اور خواص میں سے کوئی بھی محفوظ نہ
ہو،جہاں بچوں کے اسکولوں سے لے کر ہر اہم عمارت کے سامنے کنکریٹ کے بڑے بڑے
بلاکس رکھے ہوں،جہاں بدامنی،افراتفری،لوٹ ماراور مس منجمنٹ کا راج ہو،وہاں
کون آکر سرمایہ کاری کرے گا،وہاں ترقی و خوشحالی کے دعوئے جھوٹے سیاسی
بیانات تو ہوسکتے ہیں مگر حقیقت نہیں،اَمر واقعہ یہ ہے کہ ملک بدترین مالی
بحران کا شکار ہے،جبکہ عوام کی اکثریت کے حالات زندگی اتنے اجیرن ہو چکے
ہیں کہ اُن کیلئے جسم وجاں کا رشتہ برقرار رکھنا دشوار ہو چکا ہے،وہ پل پل
جیتے اور مرتے ہیں،غریب اور متوسط طبقات کیلئے بچوں کی اعلیٰ تعلیم تو
درکنار، بنیادی اور عام تعلیم بھی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے ۔
بھوک کے ہاتھوں مجبور لوگ اجتماعی خودکشیاں کر رہے ہیں،بے بس والدین اپنی
اولاد کے گلے میں برائے فروخت کا بورڈ لگا کر انہیں سربازار لئے پھرتے
ہیں،چند روز قبل لاہور کی ایک خاتون جب اپنے چھ سالہ بچے کو روٹی کا نوالہ
کھلانے سے قاصر رہی،تو اُس کا گلا دبا دیا،اب تو ایسے آدم خور خاندان کا
بھی انکشاف ہوا ہے جو انسانی مردار اور کتے تک کھاتا رہا ہے،غربت،بھوک اور
مہنگائی کے باعث ایسے کربناک واقعات کا وقوع پذیر ہونا انسانی المیہ اور
حکومت کیلئے شرمناک ہے،اِس پر مستزاد یہ کہ بدامنی، لاقانونیت اور پرائی
جنگ میں کودنے کے نتیجہ میں پھیلنے والی دہشت گردی نے سرمایہ کاری کا عمل
روک کر قومی معیشت کا جوڑ جوڑ ہلا دیا ہے،آج پاکستان کے بدترین مالی بحران
کی سب سے بڑی وجہ مبینہ دہشت گردی کیخلاف امریکی مفادات کی جنگ،اعلیٰ سطح
پر کرپشن اور ہر شعبے میں مس مینجمنٹ ہے،جس کا خمیازہ غریب،متوسط اور سفید
پوش طبقہ مہنگائی،بے روزگاری،غربت اوربھوک کی شکل میں بھگت رہا ہے،یہ ہماری
تباہی و بربادی کی وہ اصل وجوہات ہیں جو حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشی نے ہم
پر مسلط کردی ہیں ۔
چنانچہ اِن حالات میں ارباب اقتدار کی جانب معیشت کے استحکام،70فیصد دیہی
خوشحالی اور14 فیصد غربت میں کمی کے پر فریب دعوئے ایک مذاق ہی معلوم ہوتے
ہیں،کیونکہ معیشت کا استحکام اسٹیٹ بینک اور عالمی اداروں کی رپورٹوں سے
منکشف ہے،جبکہ 70فیصد دیہی خوشحالی کا حال یہ ہے کہ خود وزیر اعظم کے آبائی
شہر ملتان میں اُن کے گھر کے باہر وہ افراد مظاہرہ کررہے ہیں جو 10 ماہ
پہلے آنے والے سیلاب سے متاثر ہوئے اور اُن کی اب تک کوئی خبر گیری نہیں کی
گئی،باقی رہا 14فیصد غربت میں کمی کا معاملہ تو وہ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ
پروگرام کی رپورٹ سے عریاں ہوجاتا ہے،جبکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ پاکستان کی
اقتصادیات کبھی کمزور نہیں رہی،نہ ہی ملک میں وسائل اورٹیلنٹ کی کمی ہے،مگر
اِس کے باوجود ملک غربت، مہنگائی،بے روزگاری اور دہشت گردی کی بھٹی میں جل
رہا ہے،ہماری رائے میں یہ سب سابق فوجی آمر سے ورثے میں ملی ہوئی پالیسیوں
کا تسلسل ہے،جب تک یہ پالیسیاں جاری رہیں گی اور جب تک ہم آئی ایم ایف اور
ورلڈ بینک کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں گے ملک کی سیاست اور معیشت دونوں ہی
برباد اور تباہ حال رہے گی اور عوام اِس کی سزا بھگتے رہیں گے ۔
حقیقت یہ ہے کہ کبھی بھی معاشی ترقی و استحکام ،غربت میں کمی اور خوشحالی
کے حکومتی دعوئے پرجوش بیانات اور خوشنما رنگین اشتہارات کے محتاج نہیں
ہوتے اور نہ ہی انہیں کہنے،بتانے اور گنوانے کی ضرورت ہوتی ہے،کیونکہ اِس
کی گواہی عوام کے پر سکون وطمینان بخش اور ہنستے مسکراتے چہروں سے ملتی
ہے،جن پر آج فکرو ترد اور معاشی پریشانیوں نے تجریدی آرٹ کی آڑی ٹیڑھی
لکیریں کھنچی ہوئی ہیں، لہٰذا ارباب اقتدار کوچاہیے کہ وہ ” ڈنگ ٹپاﺅ“
پالیسی پر عمل پیرا ہونے کے بجائے عوام کے اصل مسائل کا ادراک کریں،یاد
رکھیں دنیا کی کوئی قوم اُس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی جب تک کہ وہ اپنے
محروم طبقات کو مراعات یافتہ طبقوں پر فوقیت نہیں دیتی،وہ حکمران جو اپنے
وعدوں کا پاس نہیں رکھتے اور عوام کے بارے میں سوچنے کے بجائے اپنے بارے
میں سوچتے ہیں وہ کبھی آنے والے کل میں زندہ نہیں رہتے، اچھے حکمران وہی
ہوتے ہیں جو وعدوں اور دعوؤں کے بجائے عملی اقدامات کو ترجیح دیتے
ہیں،ہماری اپنے ارباب اقتدار سے صرف اتنی گزارش ہے کہ وہ خدارا پاکستان کے
بھوکے،ننگے عوام کے زخموں پر مزید نمک نہ چھڑکیں،انہیں دعوؤں اور وعدوں کے
لولی پاپ سے نہ بہلائیں،جھوٹے خواب نہ دکھائیں،کیونکہ لایعنی وعدے اور عملی
اقدامات سے محروم دعوئے عوام کیلئے اُن کے موجودہ مسائل سے زیادہ تکلیف دہ
اور الفاظوں کا ایسا گورگھ دھندا ہیں جو عزم، حوصلے اورارادے کی قوت سے
محروم ہیں ۔ |