ایران اور امریکا کشیدگی پر بحث ، دہمکیاں و
انتقامی بیانات عروج پر ہیں ، ایرانی جنرل سلیمان قاسمی کی ہلاکت کے ہر
پہلو پر دنیا بھر میں مباحثہ کیا جارہاہے۔ ہلاکت کو غلط و صحیح ثابت کرنے
کے لئے فریقین و ان کے اتحادی جواز فراہم و رَد بھی کررہے ہیں ۔ ان تمام
معاملات کو زیر بحث لانے کے ساتھ اس پہلو کو دیکھنا ہوگا کہ امریکا نے
بغداد سفارت خانے پر حملے کا جس طرح ردعمل دیا ہے ، کیا اس عمل کو کوئی بھی
ملک اپنے مخالف کے خلاف قانونی جواز بناسکتا ہے ؟۔ تو ایسا ہی ہے کہ امریکا
جو عمل کرتا ہے ، وہ پوری دنیا پر اثر انداز ہوتا ہے۔ امریکا نے پاکستان
میں موجود اپنے مخالفین کو ڈرون حملوں سے ہلاک کیا ۔ اسامہ بن لادن کو ہلاک
اور ملا منصور کو حملے میں نشانہ بنایا ۔ یہ سب کچھ پاکستان کی اجازت کے
بغیر کیا ، جس سے بھارت اور افغانستان کو منفی شہ ملی کہ وہ بھی اپنے
مخالفین کے خلاف سرحدی قوانین کا لحاظ کئے بغیر کاروائی کریں ۔ دونوں ممالک
نے عملی طور پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کیں ، لیکن دھول چاٹنا
پڑی ۔ اسی طرح ایران کے ہلاک ہونے والے جرنیل قاسمی بھی ماضی میں پاکستان
کو دہمکیاں دے چکے تھے کہ وہ پاکستان کی حدود کے اندر اپنے مبینہ مخالفین
کو نشانہ بنائیں گے ۔ امریکا، دنیا بھر میں جہاں چاہے ، کمزور ممالک کو
ڈرون حملوں سے نشانہ بناتا رہتا ہے ، اس بار ایران کی ایک اور اہم شخصیت کو
ہدف بنایا ، جس کے بعد ایران نے کھل کر اعلان کردیاکہ وہ وہ اب پراکسی وار
نہیں بلکہ سرعام انتقام لیں گے ۔ ٹرمپ کے سر کی قیمت بھی مقرر کردی ،
امریکی فوج کو دہشت گرد قرار دے دیا ۔ یعنی اب ایران سمجھتا ہے کہ وہ
امریکا کی طرح عالمی قوانین کا لحاظ کئے بغیر انتقام لے گا ۔ یہ موقع
امریکا نے فراہم کیا کہ ایران ردعمل دے ۔ امریکا 52اہداف کو نشانہ بنائیں
یا ایران 32اہداف کو،لیکن یہ سب دنیا میں طاقت کے توازن کو مزید بگاڑ رہا
ہے۔ اوّل تو یہی خیال کیا جارہا ہے کہ ایران ، امریکا کے خلاف کھلی جنگ کی
دہمکی تو دے رہا ہے لیکن عملی طور پر وہ ایسا کچھ نہیں کرسکتا۔ تاہم اہم
امر یہ ہے کہ اب کوئی بھی ملک کسی بھی مخالف ملک پر حملہ آور ہوسکتا ہے اور
اُس کے تئیں ایسا حملہ دہشت گردی کے خلاف ہوگا ۔
جب بھارت نے بالاکوٹ میں دراندازی کی تھی تو وہ بھی اس جارحیت کو درست قرار
دے رہا تھا ، پاکستان نے مناسب کرارا جواب دیا ، لیکن اس بات کا خیال رکھا
کہ بھارت کو سمجھایا جاسکے کہ 27فروری کو ان کے اہم فوجی قیادت بھی نشانے
پر تھی ، پاکستان چاہتا تو نشانہ بنا سکتا تھا ، لیکن ریاست نے تحمل کا
مظاہرہ کیا ۔ یقینی طور پر پاکستان بھارتی فوجی قیادت کو نشانہ بناتی تو اس
وقت خطے میں ایٹمی جنگ چھڑ چکی ہوتی ۔ پاکستان نے اپنی قوت کا درست استعمال
بھی کیا اور دشمن کے دل میں خوف بھی بیٹھا دیا کہ وہ جب چاہے ، کہیں بھی
اپنے ہدف کو ٹھیک ٹھاک نشانہ بنا سکتا ہے۔بھارت کولڈ اسٹارٹ وار میں
پاکستان کی سبک رفتاری سے آگاہ تھا ، لیکن اس کے باوجود بے وقوفی کی تو
ساری دنیا میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہلاک ہونے والے جنرل قاسمی اگر
پاکستان کے خلاف اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے توپاکستانی
عوام کو یقین تھا کہ اس کا جواب بھی بھرپور دیا جاتا ، لیکن یہاں بھی
اشتعال انگیزی کے بجائے بردباری کا مظاہرہ کیا گیا ۔ ایران ابھی ایٹمی طاقت
بنا نہیں ہے ، جب کہ پاکستان بن چکا ہے ، پاک سرزمین پر کوئی بھی ناپاک
نظریں ڈالے گا تو جواب بھی اُسی طرح ملے گا ۔لیکن پاکستان نے افغانستان ،
ایران اور بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کے لئے تحمل و برداشت کی پالیسی
اپنائی۔ تاہم امریکا کو اپنی فوجی طاقت کا زعم ہے ، کھربوں ڈالرز اپنی
عسکری طاقت کو بڑھانے کے لئے لگاتا ہے ۔ یہ سب امریکا کا شوق نہیں ہے بلکہ
خوف ہے ۔ جو خود اُسے دہشت میں مبتلاکررہا ہے۔ امریکا ، کسی بھی ملک کے
داخلی معاملات میں اگر اپنی ٹانگ اڑانا بند کردے تو اُسے کھربوں ڈالرز بے
سود جنگوں پر خرچ نہ کرنا پڑیں ۔ امریکا ، ویتنام، عراق اور افغانستان کی
جنگ میں کھربوں ڈالرز کو بارود میں اڑا چکا ہے ، لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا
، امریکا کو شکست کا سامنا ہوا۔ ویتنام میں بدترین شکست امریکا کے لئے
بھیانک خواب ہے ۔ مشرق وسطیٰ میں اس طرح الجھ چکا ہے کہ دلدل سے نکل نہیں
پارہا ، افغانستان میں افغان طالبان کے ہاتھوں رسوائی کے سامنا ہے ، بند
گلی سے نکلنے کے لئے ہاتھ پیر مار رہا تھا کہ اب کھل کر ایران کے متوقع
انتقامی کاروائی سے بچنے کے لئے امریکی عوام کو خوف سے بچانے کے لئے
سیکورٹی کے ہنگامی اقدامات کررہا ہے۔
اقوام متحدہ کا غیر فعال کردار اقوام عالم کے لئے لمحہ فکرہے کہ دنیا میں
آئے روز نت نئی کشیدگی کو روکنے کے لئے کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔
امریکا و ایران کے درمیان جنگ ہوتی ہے یا نہیں اس بات سے قطع نظر اہم امر
یہ ہے کہ کسی متوقع یا غیر متوقع جنگ کے خدشات سے کروڑوں انسان برہ راست
متاثر ہو رہے ہیں۔خاص طور پر امریکی عوام ، جو پہلے ہی نادیدہ حملوں سے خوف
زدہ رہتی ہے ، اور ان کے خوف کو بڑھانے میں امریکی انتظامیہ بڑھ چڑھ کر حصہ
لیتی ہے کہ کبھی کوئی اسلامسٹ نشانہ بناسکتا ہے تو کبھی روس حملہ کردے گا ،
تو شمالی کوریا کی دہمکیاں الگ ، افغانستان سے خوف زدہ ،تو ایران حملوں کا
ڈر ، امریکی عوام کو نفسیاتی مریض بنا چکی ہے ، جس کے ردعمل کے مظاہرے
اسکولوں ، نائٹ کلب ، سڑکوں اور عوامی مقامات پر نسل پرستی و اسلام فوبیا
کے شکار امریکی دہشت گردی کرتے نظر آتے ہیں۔امریکا انہیں نفسیاتی مریض
سمجھتا ہے، تو ٹھیک ہی سمجھتا ہے کیونکہ امریکا جو ماحول پیدا کرتا ہے، اس
سے فرسٹریشن میں اضافہ ہی ہوتا ہے ، یہی تو انتہا پسندی ہے جو کسی بھی عمل
کے ردعمل میں سامنے آتی ہے۔ امریکا و ایران کے درمیان 40برسوں سے پراکسی
وار جاری رہی ہے ، آئندہ بھی جاری رہے گی اور اس کے اثرات سے عوام متاثر
ہوتے رہیں گے ۔انہی اقدامات کو جواز بنا کر کسی بھی ملک کی سرحد اب محفوظ
نہیں رہی ، جس کا دل چاہے کسی کو بھی دہشت گرد قرار دے کر حملہ کردے ۔
نتائج سے بے پرواہ ہو کر کسی بھی ملک کے ذمے دارا ن کو انسان کی جان پر
کھیل کر اپنی خوف کی حکومت قائم کرنے سے گریز کی راہ اختیار کرنی چاہیے
۔دنیا کا کوئی بھی ملک ہو یا اُس کا شہری ہو ، اُس کے پاس اب یہ جواز موجود
ہے کہ وہ جسے اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے ، اُسے کہیں بھی مارسکتا ہے۔
|