ملائيشيا کے شہر کوالالمپور میں اسلامی ممالک کے سربراہان
کی کانفرنس گزشتہ برس 18سے 19 دسمبر تک جاری رہنے کے بعد اختتمام پذیر
ہوگئی-کانفرنس سے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے اپنے مشہور مکالمے (The
world is bigger then five) سے آغاز کرتے ہوئے خطاب میں کہا کہ " دنیا ان 5
ممالک" سے بہت بڑی ہے- اردگان نے سلامتی کونسل کے "5 ممالک" پر شدید تنقید
کرتے ہوئے کہا دنیا کی "1.7 بلین" آبادی کے فیصلے یہ 5 ممالک کیوں کرتے ہیں؟
اس کانفرنس میں مسلم ممالک کے سربراہان کی طرف سے بہت سی تجاویز بھی پیش کی
گئیں جن میں سب سے اہم تجویز ایران کے صدر حسن روحانی نے پیش کی-ایرانی صدر
حسن روحانی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ معاشی و اقتصادی
پابندیاں مسلم ممالک کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے, مسلم ممالک کو
ایک باہمی معاشی و اقتصادی نظام اپنانا ہوگا, مسلم ممالک کو تجارت کیلئے
اپنی باہمی کرنسی استعمال کرنا ہوگی, ان کا واضح اشارہ مشترکہ کرنسی کے
استعمال کی جانب تھا۔ مشترکہ کرنسی کا نظام دنیا میں کوئی پہلی بار استعمال
ہونے نہیں جا رہا۔ اس وقت یورپی یونین ممالک کی مشترکہ کرنسی "یورو" کا
دنیا کی بڑی اور طاقتور کرنسیوں میں شمار ہوتا ہے- یورپ میں یہ انقلاب
راتوں رات نہیں آیا بلکہ اس کے پیچھے ایک بہت بڑی تاریخ رقم ہے جس کا آغاز
دوسری جنگ عظیم کے فورأ بعد ممکن ہوا- کوئلے اور فولاد کی تجارتی یورپی
کمیٹی جو کہ ان 6 ممالک نے مل کر بنائی تھی اور اس معاہدے کا باضابطہ آغاز
1951 میں پیرس سے ہوا تھا۔ یہ کمیٹی اس وقت یورپی یونین کی شکل میں دنیا کا
ایک طاقتور ترین ادارہ بن چکا ہے اس تنظیم کی کامیابی کا اندازہ ہم اس بات
سے لگا سکتے ہیں کہ اس تنظیم کے بننے کے بعد یورپ کے ان ممالک کے درمیان
آپس میں آج تک کوئی جنگ نہیں ہوئی اور تمام ممالک یورپی یونین کے پرچم تلے
پرسکون زندگی گزار رہے ہیں- یہ وہی یورپ ہے جس نے دنیا کو پہلی اور پھر
دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کی جانب دھکیلا لیکن آج یورپ میں ہر طرف چین
کی بانسری بج رہی ہے- آج اس یورپی یونین کے ارکان کی تعداد 6 سے بڑھ کر 28
تک جا پہنچی ہے اور یہ تمام ممالک معاشی و اقتصادی طور پر خوشحال ہیں, اس
خوشحالی کے یوں تو اور بھی کئی اسباب ہیں لیکن ان میں سے ایک بہت بڑا اور
اہم سبب ان کی مشترکہ کرنسی "یورو" ہے جو اس وقت امریکی ڈالر کو ہر میدان
میں منہ کے بل پچھاڑ رہی ہے۔ یورپی یونین کے 28 میں سے 19 ممالک مشترکہ
کرنسی "یورو" کا استعمال کر رہے ہیں جبکہ تنظیم کے دیگر رکن ممالک نے ایک
دوسرے کے شہریوں کے آنے جانے کیلئے اپنی سرحدوں کو کھولنے کیساتھ ویزہ سسٹم
کی پابندی کو بھی ختم کر دیا ہے- رکن ممالک کے شہری, تاجر اور سیاح ان تمام
ممالک میں آزادانہ سفر کر سکتے ہیں۔ کوالالمپور میں ہونے والی کانفرنس میں
شریک مسلم ممالک کے تمام سربراہان نے کسی ایسی ہی تنظیم کے قیام پر زور دیا
جو کہ تمام اسلامی ممالک کے اختلافات کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکے-
میرے خیال میں کوالالمپور میں ہونے والی یہ کانفرنس کسی ایسی تنظیم کے قیام
کی جانب پہلا قدم ثابت ہوگی۔ جب یورپ میں رہنے والے چند ممالک اپنے باہمی
اختلافات ختم کر کے ایک مشترکہ یونین کے پرچم تلے رہ سکتے ہیں تو دنیا میں
بسنے والے تمام مسلمان جو کے ویسے بھی ایک امت ہیں وہ کیوں نہیں اسلام کے
پرچم تلے اکٹھے ہو سکتے جب یورپی یونین بن سکتی ہے تو اسلامی یونین کیوں
نہیں بن سکتی- میرے خیال میں تمام اسلامی ممالک کے سربراہان کو اب اس بات
کا احساس ہو جانا چاہیے کہ ان کے تمام مسائل کا حل باہمی اتحاد اور بھائی
چارے میں ہی پنہاں ہے اور مجھے لگتا ہے کہ وہ دن زیادہ دور نہیں جب دنیا
اسلامی ممالک کی طاقت کا مظاہرہ کسی ایک مشترکہ تنظیم کی شکل میں دیکھے گی
جو اسلامی ممالک کی تنظیم ۔"او۔ آئی۔ سی" کی طرح غیرفعال اور غیرسنجیدہ
ہونے کے بجائے یورپی یونین کی طرح ایک فعال اور طاقتور ادارہ ہوگا۔ انشاء
اللہ جب یورپ کے تحفظ کیلئے یورپی یونین, ایک مخصوص فرقے کے تحفظ کیلئے
نیٹو اور کمیونزم کے تحفظ کیلئے وارساہ پیکٹ جیسے معاہدے ہو سکتے ہیں تو
اتنی بڑی دنیا میں بسنے والی امُت مسلمہ کے تحفظ اور بقاء کیلئے ایک تنظیم
کیوں نہیں بن سکتی؟ میرے خیال میں اب پوری اسلامی دنیا کو اس بارے میںں
سنجیدگی سے سوچنا ہوگا, مسلمانوں کی موجودہ زوال پذیرانہ کیفیت سے نکلنے کا
واحد حل اور مناسب وقت بھی یہی ہے۔
|