پاکستان کی خودمختاری کے خلاف بل کی منظوری کیونکر؟

یف اے ٹی ایف کے ڈو مور پر پاکستان نے چند روز قبل قومی اسمبلی سے ایک بل بھی پاس کیا ہے ، دیگر ممالک سے ملزمان کے تبادلے کا باہمی قانونی معاونت (فوجداری معاملات) بل 2019 اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود کثرت رائے سے منظور کیا گیا،وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد خان کا کہنا تھا کہ قانونی معاونت (فوجداری معاملات) بل فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے مطالبے پر منظور کیا گیا۔بل کے تحت کسی بھی ملک کو باہمی قانونی معاونت دو طرفہ طے کردہ اقرار نامے کی بنیاد پر ہوگی، دیگر ممالک سے باہمی قانونی معاونت کے لیے سیکریٹری داخلہ بطور مرکزی اتھارٹی کام کرے گا۔بل کے مطابق پاکستان کسی ملک کو گواہان، مشتبہ افراد اور مجرمان کی جگہ اور شناخت اور انہیں پاکستان منتقل کرنے سے متعلق قانونی معاونت کی درخواست کر سکے گا جب کہ کوئی دوسرا ملک بھی پاکستان میں تلاشی وارنٹ یا شہادت اکٹھا کرنے اور قیدی کی منتقلی کی درخواست دے سکے گا۔بل کے تحت پاکستان مفاد عامہ یا قومی مفاد کو ضرر پہنچنے کے خدشے کی صورت میں معاونت سے انکار کر سکتا ہے۔اپوزیشن نے بل کو پاکستان کی خود مختاری کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں سید نوید قمر اور خواجہ آصف نے اعتراض کیا کہ قانون کے ذریعے پاکستان کی خود مختاری پہ سمجھوتہ کیا جا رہا ہے اس طرح بغیر معاہدے کے کوئی بھی ملک پاکستان سے ملزم منتقل کر لے گا۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے بھی اس بل پر شدید احتجاج کیا تھا اور کہا تھا کہ اہم ایف اے ٹی ایف کی ہر ڈکٹیشن کو نہیں مان سکتے، یہ بل پاکستان کی قومی سلامتی و خود مختاری کے خلاف ہے۔

موجودہ حکمراں جماعت بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے دشموں کے آگے زیر ہوگئی ہے، کم از کم تبدیلی کا نعرہ لگانے والے وزیراعظم عمران خان سے قوم کو یہ توقع ہر گز نہیں تھی،آنکھیں بند کر کے محب وطن قانونی ماہرین سے رائے لیے بغیر قومی اسمبلی میں معلومات اور مجرموں کے تبادلے کا ایک ایسا بل پیش کر دیا گیا ہے جو پاکستان سے زیادہ بیرونی مفادات کے تحفظ کا بل ہے۔اسے روکا جائے اور اسمبلی میں موجود اور اسمبلی سے باہر سیاسی و جمہوری عناصر اپنا کردار ادا کریں ورنہ ملک اور عوام کو بدترین خمیازہ بھگتنا ہو گا۔معلومات اور مجرموں کے تبادلے کا یہ بل ایسے موقع پر پیش کیا جارہا ہے جبکہ امریکہ ایران کشیدگی عروج پر ہے۔اس طرح ایک مرتبہ پھر امریکی جاسوسوں کو تحفظ فراہم کرنے کی سازش تو نہیں کی جارہی؟ ریمنڈڈیوس کی رہائی اور ڈاکٹر عافیہ کی 17 سالہ قید ناحق کا معاملہ قوم بھولی نہیں ہے۔ یہ بل ایسے وقت میں پیش کیا گیا ہے جب اس کی ضرورت قومی سطح پر محسوس نہیں کی جارہی تھی اس بل کے ذریعے ایک طرف پاکستان میں جرم کرنے والے غیر ملکیوں کی بغیر کسی ضروری عدالتی کاروائی کے بغیر محض رسمی کاروائی کے بیرون ملک حوالگی کی راہ ہموار ہو جائے گی اور قومی سلامتی کے خلاف سرگرم عمل بیرونی جاسوس خفیہ طریقے سے فرارکروانے کا راستہ کھول دیا جائے گا جس سے ریمنڈ ڈیوس جیسے واقعات رونما ہونے سے روکنا ممکن نہیں رہے گا۔

پاکستان ٓزاد اور خود مختار ملک ہے لیکن حکمرانوں کی پالیسیوں نے ہمیشہ اسے غلام بنائے رکھا، دوسروں کے مفادات کے تحفظ سے کس کو فائدہ ہو گا؟ ہمارے ملکی مفادات اس قانون کی آڑ لے کر جب چاہے بری طرح روندے اور پامال کیے جائیں گے۔بیرونی طاقتیں ہمیں لقمہ تر سمجھ کر جب چاہیں گی آسانی سے ہڑپ کر جائیں گی۔ ایک طرف تو پاکستان کے ایسے تمام عناصر جو غیر ملکیوں کی مطلوب لسٹ میں شامل ہوں گے ان کی حوالگی قانونی طور پر ممکن ہوجائے گی اور دوسری طرف اس بل سے پاکستان، دشمنوں کے لئے آسان ہدف بن جائے گا اور تیسری جانب اگر ہمیں کسی دوسرے ملک سے اپنا کوئی باشندہ واپس لانا ہوگا تو پاکستان سے کسی بھی طرح کا تعاون کرنے سے انکار کر دیا جائے گا جیسا کہ ابھی تک ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کیس میں ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ بے گناہ امریکہ میں قید ہیں ، کوئی بھی حکومت ڈاکٹر عافیہ کو امریکی قید سے چھڑانے کے لئے تیار نہیں، وزیراعظم عمران خان نے امریکی صدر سے ملاقات کی لیکن عافیہ کے بارے میں کوئی بات چیت نہی کی، قومی اسمبلی سے منظور ہونے والابل کسی بھی طرح ملکی مفاد میں نہیں ہے۔ قومی اسمبلی پاکستانی عوام کی منتخب کردہ اسمبلی ہے جس میں موجود ممبران کو اپنے عوام کے مفادات کو مقدم رکھنے والی قانون سازی کرنی چاہیے نہ کہ بیرونی مفادات کے موقع پر آنکھیں، منہ اور کان بند کر لیے جائیں۔ حکومت قوم کو بتائے کہ اپنے دور حکومت میں انہوں نے عوام کو ریلیف دلانے پر مشتمل کتنے بل اسمبلی میں پیش کئے؟ یہ بل پارلیمانی سیاسی جماعتوں کی حب الوطنی کا امتحان ہے۔اراکین سینیٹ ملکی مفاد کے خلاف بل کو قانون بننے سے روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

موجودہ حکومت اگرچہ کہتی ہے کہ اب ڈومور کا دور ختم ہو گیا لیکن حقیقت میں امریکی ڈومور کے سامنے موجودہ حکومت بھی بے بس ہو چکی ہے اسی لئے ایف اے ٹی ایف کی سب سفارشات پر من و عن عمل کیا گیا اور پاکستان کی محب وطن شخصیات و جماعتوں پر پابندی لگا کر انہیں گرفتار کیا گیا، حالانکہ ان کا جرم صرف اور صرف پاکستان و کشمیر سے محبت تھا،دو قومی نظریہ کے محافظ، کشمیریوں کے وکیل اور دکھی انسانیت کی خدمت کرنے والوں کو امریکی اور ایف اے ٹی ایف کے دباؤ پر گرفتار کیا گیا اور ان پر مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔پاکستان ایف اے ٹی ایف کی تمام شرائط مانتا جا رہا ہے، ایف اے ٹی ایف کے حوالہ سے امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز ہی پاکستان کو ڈیل کر رہی ہیں، ایف اے ٹی ایف کی جانب سے چند روز قبل پاکستان سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں کو سزائیں دی جائیں، پاکستان نے اس حوالہ سے ایف اے ٹی ایف میں رپورٹ جمع کروا دی ہے ،ایف اے ٹی ایف کے ڈومود کے آگے پاکستان جھکتا چلا جا رہا ہے اور حقیقت میں اس کے پیچھے امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز ہیں جو پاکستان پر دباؤ ڈال کر مطالبات منواتی جا رہی ہیں، اب امریکی نائب وزیر خارجہ 19جنوری کو پاکستا ن کے دورے پر آ رہی ہیں اور پاکستان کے دورے سے قبل وہ بھارت کا تین روزہ دورہ کریں گی،امریکی وزیر خارجہ ایلس ویلز کا دورہ ایسے وقت میں ہو گا جب حافظ محمد سعید کے کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو رہی ہے، ایلس ویلز دورہ سے قبل ہی حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہیں کہ حافظ محمد سعید کو سزا دی جائے، ایف اے ٹی ایف بھی یہ مطالبہ کر چکا ہے۔ایلس ویلز کے دوہ سے قبل یا بعد میں پاکستانی عدالتیں اگرحافظ محمد سعید کو سزا سناتی ہیں تو اس سے پاکستانی عدالتوں کی آزادی اورخود مختاری پر سوالیہ نشان اٹھے گا بلکہ پاکستان کی بھی سلامتی اور خود مختاری پر سوال اٹھے گا ،امریکہ ابھی بھی پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرنے سے باز نہیں آ رہا، پاکستان کو قومی سلامتی اور اندرونی فیصلے خود کرنے چاہئے، کسی کے دباؤ پر فیصلے کرنے سے ماضی میں بھی مثبت نتائج نہیں آئے، اب بھی اگر ایسا ہوا تو اس کے غلط اثرات مرتب ہوں گے۔

Mehr Iqbal Anjum
About the Author: Mehr Iqbal Anjum Read More Articles by Mehr Iqbal Anjum: 101 Articles with 72956 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.