سویلین بالا دستی کے نعرے سنتے سنتے عشرے بیت چلے مگر
یہ خواب ادھورا ہی رہا۔ یہی سنا تھا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کو کوئی چیلنج
نہیں کر سکتا، حقیقت مگر یہ کہ ہر دَور میں کوئی نہ کوئی ’’بالادست پلس ‘‘
بھی ہوتا ہے جس کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونے والے ٹکے ٹوکری۔ اگر ہمارا کہا
درست نہیں تو پھر 18سے زائد وزرائے اعظم ڈکارنے پر بھی یہی پارلیمنٹ بھیگی
بِلّی کیوں بنی رہی؟۔ یہ کیسی بالادستی ہے جس میں قائدِایوان کو کان سے پکڑ
کر نکال دیا جاتا ہے اور پارلیمنٹ ’’ٹُک ٹک دیدم، دَم نہ کشیدم‘‘ کی عملی
تصویر۔ ذوالفقارعلی بھٹو سویلین بالا دستی کا نعرہ لگاتے لگاتے پھانسی پر
جھول گئے۔ نوازشریف نے سویلین بالا دستی کا خواب دیکھا، 2 بار حکومت سے
ہاتھ دھوئے اور ایک بار جَلاوطن ہوئے۔ پرویزمشرف کی مرضی کے بغیر بینظیر
پاکستان آئیں اور دہشت گردی کا لقمہ بنیں البتہ آصف زرداری عقلمند نکلے۔
اُنہوں نے اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی بات کی اور یہ بھی کہا ’’تم نے 3 سال
رہنا ہے، پھر ہم نے ہی ہونا ہے‘‘۔ لیکن دال گلتی نہ دیکھ کر وہ ’’نیویں
نیویں‘‘ہو کر نکل لیے۔ پھر تب ہی پلٹے جب ’’بالادستوں‘‘نے اجازت دی۔ نجی
محفلوں میں ہم کھلم کھلا اقرار کرتے ہیں کہ ’’اصلی تے وَڈے‘‘ بالادست وہی
ہیں جن کے سرِعام ذکر پر ہماری زبانوں پر لکنت طاری ہو جاتی ہے پھرہم
پارلیمنٹ کی بالادستی کی بڑھکیں لگانے کی بجائے مان کیوں نہیں لیتے کہ
بالادست وہی جو تھے، ہیں اور شاید ہمیشہ رہیں گے۔
دو تہائی اکثریت کے ساتھ تیسری بار وزیرِاعظم بننے والے بزعمِ خویش
’’بالادست‘‘ نوازشریف سپریم کورٹ کے ایک متنازع فیصلے کی بھینٹ چڑھنے کے
بعد ’’نظریاتی‘‘ ہوگئے۔ اُنہوں نے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگایا جسے
عوام میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی لیکن نظریاتی نوازشریف کو اُن کا اپنا
بھائی شہبازشریف ’’ڈکار‘‘ گیا۔ 2018ء کے عام انتخابات سے پہلے ایک طرف
نوازشریف اور اُن کی بیٹی مریم نواز ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لے کر نکلے
تو دوسری طرف شہبازشریف مصلحتوں کی ’’بُکل‘‘ مارے نظر آئے۔ اِسی دوران
محترمہ کلثوم نواز شدید علیل ہو کر لندن پہنچیں۔ میاں صاحب اور مریم نواز
بھی بیگم کلثوم نواز کی عیادت کے لیے لندن چلے گئے۔ اُن کی عدم موجودگی میں
باپ بیٹی کو قید کی سزائیں سنائی گئیں اور وہ دونوں قید بھگتنے کے لیے
پاکستان چلے آئے۔ بیگم کلثوم نواز کی رحلت کی خبر باپ بیٹی کو جیل میں ملی۔
میاں صاحب اب بھی شدید علیل ہیں لیکن وہ بَدفطرت جو بیگم کلثوم نواز کی
بیماری کو ڈرامہ قرار دیتے تھے، اب یہی کچھ میاں نوازشریف کی بیماری کے
بارے میں کہہ رہے ہیں۔
جس دن پارلیمنٹ نے آرمی ایکٹ میں ترمیم منظور کی، اُسی دن مریم نواز نے
ٹویٹر پر اپنی ’’پروفائل پکچر‘‘ تبدیل کرکے میاں نوازشریف کی اُداسیوں بھری
تصویر لگا دی۔ یہ تصویر پیغام دے رہی تھی کہ میاں صاحب کو آرمی ایکٹ میں
اتنی سرعت کے ساتھ کی جانے والی ترمیم پسند نہیں آئی۔ مریم نواز کا ٹویٹر
اب بھی خاموش ہے جو اِس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ وہ بے بَس اور بے اختیار
ہیں۔ وہ نوازلیگ کی نائب صدر ہیں لیکن سابق گورنرسندھ محمدزبیر کے مطابق
آرمی ایکٹ میں تبدیلی کے سلسلے میں نوازلیگ کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس
میں شرکت کے لیے اُنہیں دعوت دی گئی اور نہ ہی اعتماد میں لیا گیا۔ مریم
نواز کی پروفائل پکچر پر میاں صاحب کی تصویر دیکھ کر یوں محسوس ہوتاہے جیسے
وہ کہہ رہے ہوں
تھی شبِ تاریک ،چور آئے جو کچھ تھا لے گئے
کر ہی کیا سکتا تھا بندہ ، کھانس لینے کے سوا
ہمیں اب بھی یقین کہ میاں شہبازشریف خواہ کچھ بھی کر لیں، مستقبل مریم نواز
ہی کا ہے اور وہی نوازلیگ کی قیادت بھی سنبھالیں گی۔
کہا جا رہا ہے کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بعد ثابت ہو گیا کہ پارلیمنٹ بالا
دست ہے لیکن کیا واقعی؟۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اِس ترمیم کو نوے فیصد
پارلیمنٹیرینز نے پڑھا بھی نہیں ہوگا۔ جس دیس میں صوبائی وزیرِتعلیم ’’دہ
جماعت پاس‘‘ ہو اور وزیرِاطلاعات کہے کہ وزیرِتعلیم نے ’’اچھے سکول‘‘ سے
میٹرک کیا ہے، وہاں آرمی ایکٹ کو سمجھنے کی صلاحیت کہاں۔ نوازلیگ اور
پیپلزپارٹی سمیت سبھی نے اِس ترمیم پر لبّیک کہا البتہ چند چھوٹی جماعتیں
دور دور رہیں۔ سینٹ میں جو طُرفہ تماشہ ہوا، وہ ناقابلِ یقین۔ ابھی ووٹوں
کی گنتی جاری تھی کہ چیئرمین سینٹ نے ترمیم کی منظوری کا اعلان بھی کر دیا۔
سینٹ کا اجلاس صرف بائیس منٹ چلااور 12 منٹ میں ترمیم منظور بھی ہو گئی۔
پچھلے ڈیڑھ سال سے حکومت صدارتی آرڈیننسز کے سہارے چل رہی تھی، آرمی ایکٹ
میں ترمیم کا یہ پہلا بِل ہے جو پارلیمنٹ سے منظور ہواجس سے بالادستوں کی
بالادستی پر مہرِتصدیق ثبت ہوگئی۔ سبھی جانتے تھے، ترمیم کی منظوری اظہرمِن
الشمس کہ جب ’’ماشٹر جی‘‘ کے ہاتھ میں ڈنڈا، ماتھے پر بَل، چہرہ غصّے سے
لال بھبھوکاہو اور وہ ’’کچیچیاں وَٹ‘‘ رہا ہو تو پھر بڑے سے بڑے ’’پھنّے
خاں‘‘ طالبعلم کی بھی ’’تَنبی‘‘ گیلی ہو جاتی ہے۔ یہ پنجابی محاورہ شاید
کسی ایسے ہی موقعے پر ایجاد کیا گیا کہ ’’کھوتے دی کی مجال کہ بیڑی نہ
چڑھے‘‘ (گدھے کی کیا مجال کہ وہ کشتی پر سوار نہ ہو)۔ ہمیں آرمی ایکٹ میں
ترمیم پر کوئی اعتراض نہیں۔ اگر حکمران جس سویلین ملازم کی جی چاہے مدتِ
ملازمت میں توسیع کر سکتے ہیں تو سرحدوں کی حفاظت کرنے اور سینوں پر گولیاں
کھانے والوں کے سربراہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کیوں نہیں۔ ہمیں اعتراض ہے
تو صرف یہ کہ پہلے سپریم کورٹ میں اِسی توسیع پر جَگ ہنسائی ہوئی اور اب جس
تیزی سے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی گئی، وہ بھی جگ ہنسائی کا باعث۔ چیف آف
آرمی سٹاف کے پاس چھ ماہ تھے۔ اِس دوران آرام و سکون سے توسیع کی جا سکتی
تھی، پھر اِتنی بھگدڑ کیوں؟۔
چلیں اب موضوع بدلتے ہیں کہ ہم خطروں کے کھلاڑی پہلے کبھی تھے نہ اب ہیں۔
ہمیں یہ بھی ڈر کہ ’’زورآور‘‘ کہیں ہماری باتوں کا برا نہ مان جائیں، اِس
لیے تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ یہ اقرار ہی بہتر
بک رہی ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خُدا کرے کوئی
(روحِ غالب سے معذرت کے ساتھ کہ ’’رہا‘‘ کی جگہ ’’رہی‘‘ لکھ دیا)
چلیں اب اِس اعتراف کے ساتھ قصۂ درد چھیڑتے ہیں۔ عرض ہے کہ کسی کو بانس پر
چڑھانے کا فن کوئی اِس قوم سے سیکھے۔ یہی نہیں بلکہ نیچے سے بانس کھینچنے
میں بھی ہمیں مہارتِ تامہ حاصل۔ بندہ جب ہوا میں لڑھکنیاں کھاتا ہوا مُنہ
کے بَل نیچے گرتا ہے تو چلا اُٹھتا ہے
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
پاکستان کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیجئیے آپ کو قدم قدم پر ایسی ہی مثالیں
ملیں گی۔جس کی وجہ وہ پنچھی ہیں جنہیں ڈال ڈال پھدکنے کی عادت ہے۔ یہ
ایسے’’ گھُس بیٹھیے‘‘ ہیں جن کی پشت پر ’’الیکٹیبلز‘‘ کا ٹھپہ لگا ہوا ہے۔
اِسی لیے سیاسی جماعتیں بھی آگے بڑھ کر اِن کا استقبال کرتی ہیں۔ تحریکِ
انصاف تو ہے ہی گھُس بیٹھیوں کی جماعت، پُرانی پی ٹی آئی تو ’’ٹانواں
ٹانواں‘‘۔ یہی دیکھ لیجئیے کہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا تاج جس
کے سر سجا، وہ 2013ء کے عام انتخابات میں نون لیگ کے صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ
پر شکست کھا کر تحریکِ انصاف میں شامل ہوا۔ پنجاب کا گورنر بھی وہی جو
پچھلی حکومت میں نوازلیگ کا گورنر تھا۔ اِس جیسی بیشمار مثالیں موجود مگر
کالم کا دامن تنگ۔
اب حقِ حکمرانی عمران خاں کے پاس ہے جنہوں نے کچھ چھوٹی سیاسی جماعتوں سے
مل کر کمزورترین اتحادی حکومت بنائی۔ اگر اُن کی حکومت کو ذرا سا بھی ضعف
پہنچا تو ’’پنچھی‘‘ اُڑنے میں ایک لحظے کی بھی دیر نہیں لگائیں گے۔ خاں
صاحب سے غلطی یہ ہوئی کہ اُنہوں نے انتخابی میدان مارنے کے لیے قوم کو ایسے
سہانے سپنے دکھائے جن کو عملی جامہ پہنانا ناممکن۔ اُنہوں نے 100 دنوں میں
ملک کی تقدیر بدلنے کا اعلان کیا لیکن 400 دنوں کے بعد یوٹرن لیتے ہوئے کہہ
دیا کہ قوم میں صبر نہیں۔ 50 لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا
اور اب شیلٹر ہومز اور لنگرخانے کھول کے بیٹھے ہیں تاکہ قوم کو مکمل طور پر
بھکاری بنایا جا سکے۔ اربوں درخت اگانے کی بات کی لیکن چند کروڑ کے سوا
باقی سارے درخت ’’سلیمانی ٹوپی‘‘ پہن کر نظروں سے اوجھل۔ پنجاب میں پولیس
کلچر کی تبدیلی کا نعرہ لگایا لیکن یہ تبدیلی دراصل آئی جیز کی تھی۔ 5 آئی
جیز تبدیل ہو چکے، چھٹے کی باری۔ جب تک پولیس کلچر تبدیل نہیں ہوتا، آئی
جیز بدلتے رہیں گے۔ سیاسی کلچر کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا۔ پہلے گالی بکنے
کو انتہائی معیوب خیال کیاجاتا تھا، اب غیرپارلیمانی زبان کا استعمال
سرِعام۔ قانون کی حاکمیت کے مظاہر جابجا۔ نیب، ایف آئی اے اور اے این ایف
قانون کا ڈنڈا تھامے بگٹٹ، یہ عدلیہ تو بس ’’ایویں ای‘‘ ہے۔ جس بندے کو
’’کَس کے‘‘ پکڑنا ہوتا ہے، اُس کی ہتھ کڑی کھلوا دیتی ہے۔ بھلا رانا ثناء
اﷲ کی ضمانت کی کیا تُک تھی، بیچاری اے این ایف گزشتہ 6 ماہ سے بڑی محنت سے
کیس تیار کر رہی تھی لیکن ہائیکورٹ نے ایک ہی ہلّے میں اُس کی ضمانت دے دی۔
اب اے این ایف اُس 15یا 20کلو ہیروئن کا کیا کرے گی جسے رانا ثناء اﷲ کے
بیگ سے برآمد کرنا تھا۔ نیب کی ’’پھُرتیاں‘‘ قابلِ دید، بندہ پہلے پکڑتی ہے
اور ثبوت بعد میں ڈھونڈتی ہے۔ غریبوں کے لیے دیسی مرغیاں پالنے جیسے چیخ
چِلّی کے منصوبے۔ داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کی حماقتیں روزِروشن کی طرح
عیاں۔ خاں صاحب کے ایسے منصوبوں اور ایسی اصلاحات پر ’’کون مر نہ جائے اے
خُدا‘‘۔
|