سیاسی رہنماوں کی کئی قسمیں ہوتی ہیں مثلاً نتیش کمار
جیسے دغاباز لیڈر جو ہوا کا رخ دیکھ کر سمت بدل دیتے ہیں یا نریندر مودی
جیسے تماشا باز رہنما جو نت نئے بہروپ بدل کر عوام کی آنکھوں میں دھول
جھونکتے ہیں۔ ادھو ٹھاکرے کو چالباز لیڈروں کے زمرے میں ڈالا جاسکتا ہے جو
موقع کا فائدہ اٹھا نے سے نہیں چوکتے لیکن انہیں امیت شاہ کی مانند جملہ
باز لیڈر نہیں کہا جاسکتا جو وعدہ کرکے ڈنکے چوٹ پر مکر جاتے ہیں ۔ یہی وجہ
ہے کہ ادھو ٹھاکرے کے بیانات کوامیت شاہ اور نریندر مودی کی طرح نظر انداز
نہیں کیا جا سکتا ۔ آج کل ادھو ٹھاکرے کی جانب چونکہ بی جے پی کی خاص نظر
عنایت ہے اس لیےان کے ہر اعلان کو خوردبین سے دیکھا جاتا ہے اور اس میں سے
کیڑے نکال کر ذرائع ابلاغ کی خدمت میں پیش کردیا جاتاہے تاکہ وہ انہیں نمک
مرچ لگا کر عوام کے گوش گزار ہی نہیں بلکہ نظر نوازکرسکے۔
سی اے اے اور این آر سی پر ہونے والے احتجاج اور اس پر پولس کارروائی سے
متعلق ادھو کے بیانات فی الحال موضوع بحث بنے ہوئے ہیں ۔ جامعہ پر پولس
کارروائی پر انہوں نے جلیانوالا باغ کو یاد کیا اور جے این یو میں دہشت
گردانہ حملے نے انہیں ممبئی پر ۲۶ نومبر ۲۰۰۸ کو ہونے والے حملے کی یاد
دلادی ۔ اس سے بی جے پی والے آگ بگولہ ہوگئے۔ مودی بھکتوں میں اگر چھٹانک
بھر عقل ہوتی تو ادھو ٹھاکرے کی بیان کردہ ان تمثیلوں کو سمجھ جاتے۔
انگریزی حکومت کی چاکری کرنے والے سنگھی کیا جانیں کہ جلیانوالہ باغ میں
مجاہدین آزادی سیف الدین کچلو اور ستیہ پال کی گرفتاری پر احتجاج کرنے
والے نہتے مظاہرین کو کس طرح جنرل ڈائر نے گولیوں سے بھون دیا تھا۔
اس حملے میں جنرل ڈائر کے اشارے پر ہندوستانی فوجی نے اپنے ہی شہریوں کو
ظلم کررہی تھی ۔ جامعہ میں حکومت کے ایماء پر پولس وہی کررہی تھی لیکن فرق
صرف ہلاکتوں کا تھا ۔ امیت شاہ کی طرح جنرل ڈائر کو بھی اپنی سفاکی کا ذرہ
برابر افسوس نہیں تھا لیکن کم ازکم فرنگی سرکار نے اسے وحشی درندے کو سزا
کے طور پر ۲ سال قبل سبکدوش کردیا تھا ۔ مودی سرکار سے یہ توقع بھی نہیں ہے
۔ سنگرور کے اودھم سنگھ نامی نوجوان نے جنرل ڈائر کو کیفرِ کردار تک
پہنچانے کی قسم کھائی مگر وہ کامیاب نہیں ہوا کیونکہ قتل عام کے ۸ سال
بعدجنرل ڈائر کا انتقال ہوگیا ۔ سر مائیکل او ڈائر اس وقت پنجاب کا
لیفٹیننٹ گورنر تھا اور اس نے جنرل ڈائر کی فائرنگ کو حق بجانب ٹھہرایا تھا۔
اکیس سال کے بعد ۱۹۴۰ میں اودھم سنگھ نےاس گورنر کو گولیوں سے بھون کر قتل
عام کا انتقام لے لیا ۔ اس سانحہ کے بعد انگریزی سامراج کی الٹی گنتی شروع
ہوگئی ۔ جامعہ کے بعد ایسا ہی کچھ مودی سرکار کے ساتھ بھی ہورہا ہے۔
ممبئی اور جے این یو کے حملے میں اموات کے لحاظ سے بڑا فرق ہے لیکن پھر بھی
بھی بڑی مشابہت ہے بلکہ ایک لحاظ سے جے این یو کا حملہ زیادہ سنگین ہے۔
باہر سے آنے والوں کو روکنا آسان ہوتا ہے لیکن خود اپنے ملک کے نوجوان
یونیورسٹی کے ہاسٹل پر ہلہّ بول دیں تو ان کو قابو میں کرنا بے حد مشکل
ہوجاتا ہے جیسا کہ جے این یو میں ہوا۔ ممبئی حملے کے خلاف حکومت کمر بستہ
تھی لیکن اب یہ بات ظاہر ہورہی ہے کہ جے این یو کا حملہ حکومت کے ایماء پر
ہوا تھا۔ ایک جگہ حکومت حملے کو روک رہی تھی دوسری جگہ پشت پناہی کررہی تھی
۔ ممبئی میں سرکار مظلومین سے ہمدردی جتارہی تھی جبکہ جے این یو انہیں مفسد
قرار دے کر ان پر ایف آئی آر درج ہورہی تھی۔ ممبئی میں پولس عوام کی
حفاظت کررہی تھی جبکہ جے این یو وہ حملہ آوروں کے ساتھ دے رہی تھی۔
سابق پولس کمشنر مشرف کی کتاب ’کرکرے کا قاتل کون؟‘ کی روشنی میں ان دونوں
واقعات کے اندر ایک خطرناک پہلو مشترک دکھائی دیتا ہے ۔ مشرف کی تحقیق
کےمطابق ممبئی حملے کی آڑ میں زعفرانی سازش کے تحت عدل و انصاف کی بیباک
علامت ہیمنت کرکرے کو ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا گیا ۔ جے این یو میں بھی
بھگوا دہشت گردوں نے وہی کوشش کی لیکن اس بار داوں الٹا پڑگیا ۔ اپنی اس
احمقانہ حرکت سے ان لوگوں نے ملک کی نوجوان نسل کو اپنا دشمن بنا لیا ہے ۔
بہت ممکن ہے کہ مودی اور امیت شاہ کو اس غلطی کی پہلی سزا دہلی کے ریاستی
الیکشن میں ملے اور آخری خمیازہ قومی انتخاب میں بھگتنا پڑے۔جے این یو کو
ملنے والی عالمی حمایت کے اندر مودی سرکار کی الٹی گنتی کے آثار صاف
دکھائی دینے لگے ہیں ۔
ادھو ٹھاکرے کا یہ بیان جے این یو پر کیا جانے والا کوئی ٹویٹ یعنی شاہ
والا ’ جملہ‘ نہیں تھا بلکہ نامہ نگاروں کو نہایت سنجیدگی سے دیا جانے والا
جواب تھا۔ اس سے قبل انہوں نے مراٹھی میں اپنا پرانا بیان یاد دلایاکہ
نوجوان قوت کی اہمیت کا اعتراف کرکے ان کی بے چینی کو دور کیا جائے۔ ادھو
نے اس قوت کے فروغ کی خاطر تعلیم و تربیت اور روزی روزگار مہیا کر کے ان
میں تحفظ اور اعتماد پیدا کرنے پر زور دیا۔ طلباء کے دانشگاہوں اور ہاسٹل
کے اندر عدم تحفظ کا شکار ہو نے کی مذمت کی ۔ یہ باتیں تو سبھی کہتے ہیں
لیکن ادھو ٹھاکرے نے نوجوانوں کے منفرد نظریات و خیالات کے احترام کی بھی
بات کی۔ یہ بہت اہم پہلو ہے اس لیے کہ مادی ضروریات پر نفسیاتی اور اخلاقی
اقدار کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ انسان اپنے اطمینان وسکون کی خاطر مادی وسائل
کو خرچ بلکہ قربان کردیتا ہے۔ اس لیے اپنے سے مختلف الخیال نوجوانوں کے
ساتھ رواداری کے سلوک کو لازم قرار دیا۔
ادھو ٹھاکرے کے موقف کی حمایت کرنا بی جے پی کے لیے ممکن نہیں لیکن اس کے
سابق صدر مرلی منوہر جوشی نے وی سی کے خلا ف بیان دے کر اس کی بلا واسطہ
تائید کردی ۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ وزیراعظم سے لے کر وزیر تعلیم تک ہر
کسی نے طلباء کی جانب سے اپنی نظریں پھیر رکھی ہیں بی جے پی مارگ درشک منڈل
کے رکن مرلی منوہر جوشی کا بیان حیرت کا ایک خوشگوار جھٹکا ہے ۔ انھوں نے
اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ ’’خبروں کے مطابق وزارت برائے فروغ انسانی وسائل
نے فیس میں اضافہ کا تنازعہ حل کرنے کی خاطر موثر حل نکالنے کے لیے وائس
چانسلر کو طلبا و اساتذہ سے بات چیت کرنے کا بھی مشورہ دیا تھا لیکن حیرت
انگیز طور پر وہ سرکاری تجویز کو نافذ کرنے کے بجائے اپنی ضد پر اڑے ہوئے
ہیں ۔ ان کا یہ رویہ قابل مذمت ہے اور ایسے وائس چانسلر کو عہدہ پر بنے
رہنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے‘‘۔ فی الحال مودی کی بی جے پی میں جوشی
یا اڈوانی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ مارگ درشک کا مطلب رہنمائی دینے والاکے
بجائے راہ تکنے والا ہوگیا ہے اس کے باوجود گمراہ بی جے پی کے چہرے پریہ
ٹوئٹ ایک زوردار طمانچہ سے کم نہیں ہے۔ ادھو کی نہ سہی تو کم از کم اپنے
سابق صدرکی نصیحت کو بھی مودی جی مان لیں تو اس میں ان کی بھلائی ہے۔ |