مہنگائی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور جس کے ہاتھوں
عوام کی زندگیاں اجیرن بن چکی ہیں ۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ مہنگائی کا
سونامی پھوٹ پڑا ہے اور اس کے اثرات سے عوام بھوک سمیت ذہنی امراض کا شکار
بن رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے بیانات تو یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ سال
معیشت کی بحالی اور عوام کی خوش حالی کا ہے لیکن سال کے ابتدائی دو ہفتے تو
کوئی اور نوید ُسنارہے ہیں ، سب جانتے ہیں کہ ان دنوں میں عوام پر پیٹرول
بم گرائے جا چکے ہیں اور مہنگی بجلی اور ایل پی جی کی شدید شیلنگ بھی کی جا
چکی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے بیانات اور عملی اقدامات میں واضح تضاد نظر آرہا
ہے، یہ ساری صورت حال عوام کے لئے نہایت مایوس کُن ہے اور اُن کا اعتماد
بتدریج حکمرانوں سے اُٹھتا جا رہا ہے۔ اگر عوام کے منتخب نمائندوں کی بات
کی جائے تو اُن کے نزدیک مہنگائی نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں ہے
، یہی وجہ ہے کہ اُن کے مطابق ٹماٹر سترہ روپے کلو اور مٹر کی بوری سو روپے
میں ملتی ہے اور بات یہاں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ہیلی کاپٹر کا خرچہ آٹو
رکشہ سے بھی کم ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا نئے سال پر عوام کی خوش حالی کا
بیان آتا ہے تو اس پُرمسرت بیان پر محترمہ وزیر اطلاعات خوشی سے نہال خوش
حالی کا باقاعدہ اعلان پریس کانفرنس میں کرتی ہیں۔ یہ محترمہ کی ڈیوٹی ہے ۔
اس کے بعد محترم سائنس و ٹیکنالوجی میدان میں اُترتے ہیں اور وہ محترمہ کے
اعلان پر مزید گُل پاشی فرماتے ہیں اور اپنی سائنسی صلاحیتوں کے بَل بوتے
پر بیان جاری کرتے ہیں کہ یہ سال عوام کی خوش حالی کا ہے اور ایک غریب بے
چارہ آدمی اس کی سائنسی تصدیق سے انکار کا تصور ہی نہیں کر سکتا ہے۔ اس کے
بعد صوبوں کی باری آتی ہے ، پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کا
محترم وزیراطلاعات حزب اختلاف کی ایسی کلاس لیتا ہے کہ اﷲ معافی دے ، وہ
مہنگائی کا سارا ملبہ پچھلی حکومتوں پر ڈالتے ہوئے اپنے کپتان کی خوش حالی
کی نوید کو اپنے صوبے کے کونے کونے تک پھیلا کر کہتا ہے کہ بُرے دن گزر گئے
اور یہ عوام کی خوش حالی کا سال ہے ، پریشانی اور مایوسی کے دن گزر گئے ہیں۔
وزیر اعظم کا عوام کی خوش حالی کا بیان یہیں رُکتا نہیں بلکہ دیگر وزیر و
مشیر اور حکیم و نجومی بھی اپنے حساب و کتاب کے مطابق اعلانات کرتے پھرتے
ہیں کہ یہ سال عوام کی خوش حالی کا سال ہے۔ اَب یہ بیان جنونیوں کے ہاتھوں
چڑھ جاتا ہے اور سوشل میڈیا پر منٹوں نہیں سیکنڈوں میں پھیل جاتا ہے اور
ایک خوشی کی خبر عوام تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ ایک اور بحث ہے کہ عوام اس کو سچ
تسلیم کرتے ہیں یا جھوٹ۔۔۔ اس ساری باتوں کے نچوڑ کے لئے ایک واقعہ ملاحظہ
ہو۔ کہتے ہیں کہ ایک دن دھوبی کی بیوی خوشی خوشی ملکہ کے کمرے میں داخل
ہوئیں۔ ملکہ نے خوشی کی وجہ دریافت کی، تو دھوبی کی بیوی نے کہا کہ آج چنا
منا پیدا ہوا ہے۔ ملکہ نے اس کو مٹھائی پیش کرتے ہوئے کہا ۔ ’’ ماشاء اﷲ ،
پھر تو چنا منا کی پیدائش کی خوشی میں یہ لو مٹھائی اور کھاؤ۔‘‘ اتنے میں
بادشاہ سلامت کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور انہوں نے ملکہ کو خوش دیکھ کر وجہ
دریافت کرتے ہوئے پوچھا۔’’ ملکہ عالیہ ! آج آپ اتنی خوش کیوں ہیں؟‘‘ ملکہ
نے سلطان کو مٹھائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ لے مٹھائی کھائیں، آج چنا منا
پیدا ہوا ہے۔ اس لئے خوشی کے موقع پر خوش ہونا چاہیے۔ بادشاہ سلامت دربار
میں آئے، نہایت خوش تھے۔ وزیروں نے جب بادشاہ سلامت کو خوش دیکھا تو واہ
واہ کی آوازیں سنائی دینے لگیں، بادشاہ سلامت مزید خوش ہوئے اور کہا کہ سب
میں مٹھائی بانٹ دو۔ مٹھائی کھاتے ہوئے بادشاہ سے ایک وزیر نے پوچھا کہ
بادشاہ سلامت آج یہ مٹھائی کس خوشی میں آئی ہے۔ بادشاہ بولا کہ آج چنامنا
پیدا ہوا ہے۔ ایک مشیر نے چپکے سے وزیر باتدبیر سے پوچھا کہ یہ چنا منا کیا
چیز ہے؟ وزیر نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا کہ مجھے کچھ علم نہیں کہ
چنامنا کیا بلا ہے ، البتہ بادشاہ سلامت سے پوچھتا ہوں۔ وزیر باتدبیر نے
ہمت باندھ کر پوچھا ۔ ’’ بادشاہ سلامت ! یہ چنا منا کون ہے؟ ‘‘ بادشاہ
سلامت تھوڑا سا گھبرایا اور سوچنے لگا کہ واقعی پہلے معلوم تو کرنا چاہیے
کہ یہ چنا منا کون ہے۔ میری تو بیوی خوش تھی ، جب خوشی کی وجہ پوچھی تو
انہوں نے کہا کہ آج چنا منا پیدا ہوا ، اس لئے میں اس کی خوشی میں خوش ہوا۔
بادشاہ گھر آیا اور بیوی کو بلایا اور پوچھا۔ ’’ ملکہ عالیہ ! یہ چنا منا
کون تھاجس کی وجہ سے آپ اتنی خوش تھیں اور جس کی وجہ سے ہم خوش ہیں۔ ‘‘
ملکہ عالیہ نے جواب دیا کہ مجھے علم نہیں کہ چنا منا کون ہے ، یہ تو دھوبی
کی بیوی بڑی خوش تھی کہ آج چنا منا پیدا ہوا ہے۔ اس لئے میں بھی اس کی خوشی
میں شریک ہوئی۔ آخر کار چنامنا کا پتہ کرنے کی غرض سے دھوبی کی بیوی کو
بلایا گیا اور اس سے پوچھا گیا کہ تیرا ستیاناس ہو یہ بتا کہ یہ چنا منا
کون ہے جس کی وجہ سے ہم نے پوری سلطنت میں مٹھائیاں بانٹیں۔دھوبی کی بیوی
نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا کہ چنامنا ہماری بکری کا بچہ ہے جو کل پیدا ہوا ہے۔
یہی حال ہمارا ہے کہ ہم بھی بغیر اعداد وشمار اور زمینی حقائق کو نظر انداز
کرکے خوشی کے ڈھول بجانا اور مٹھائیاں بانٹنا شروع کردیتے ہیں کہ یہ سال
عوام کی خوش حالی کا سال ہے۔ ذرا اس واقعہ سے سبق حاصل کرتے ہوئے وفاقی
ادارہ شماریات کی رپورٹ میں شامل اعدادوشمارملاحظہ ہوں۔رپورٹ بتاتی ہے کہ
گزشتہ سال مہنگائی کے بے قابو سونامی کا سال تھا۔ مہنگائی کی شرح میں 5.5
فیصد سے 18.5 فیصد تک اضافہ ہوا۔ رپورٹ کے مطابق روزمرہ استعمال کی چار
درجن اشیاء گزشتہ سال کی نسبت 174 فیصد مہنگی ہوچکی ہیں جن میں ٹماٹر ،
پیاز ، آلو ، لہسن ، دالیں اور چینی وغیرہ شامل ہیں۔روزمرہ اشیاء عوام کی
قوت خرید سے باہر ہوتی جارہی ہیں لہٰذا حکومت وقت کو اس سلسلے میں عوام کو
ریلیف دینے کے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
|