ہم نے لالٹین خرید لی ہے اور آپ نے

ہم نے لالٹین خرید لی ہے اور آپ نے.... !کے پی ایس کیوں لگایا...؟
ملک میں بجلی اور توانائی کا مصنوعی بحران زائد منافع کمانے والوں کا پیداکردہ ہے......
حکومت اور محکمہ بجلی قوم کو بے وقوف بنانے اور پتھر کے زمانے میں لے جانے کا سلسلہ اب بند کرے....

لیجئے جناب وفاقی وزیر پانی و بجلی نوید قمر نے اپنے تئیں اپریل تا ستمبر2011تک ملک میں بڑھتی ہوئی بجلی کی لوڈشیڈنگ کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں 12نکاتی ا یسی انوکھی تجاویز ششماہی بچت پلان کے نام سے قومی اسمبلی سے منظور کرالی ہیں جس کا اطلاق جلد ہی ملک بھر میں کرا دیا جائے گا جس کے تحت دکانیں بازار رات 8بجے بند اور آرائشی لائٹس پر پابندی ہوگی جبکہ اے سی26ڈگری پر رکھنے کی مہم بھی چلائی جائے گی جبکہ وفاقی وزیر پانی وبجلی سید نوید قمر نے ایوان سے کھلا دعوی ٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اِن کے اِس بارہ نکاتی ششماہی بچت پلان پر نیک نیتی سے عمل کرا دیا گیا تو ملک میں اِس دوران اِن اقدامات سے یقینی طور پر یومیہ 1000سے1100سو میگاواٹ تک بجلی کی بچت ہوگی ۔

یہاں قوم یہ بات بھی اچھی طرح سے جانتی ہے کہ ٹھیک ہے نوید قمر کے اِن بارہ نکاتی ششماہی بچت پلان سے یومیہ مندرجہ بالا میگاواٹ تک بجلی کی بچت ہوسکتی ہے مگر یہ ملک میں جاری غضب ناک حد تک بڑھ جانے والی بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ جیسے مسئلے کا کوئی مستقل حل تو نہیں ہے.جبکہ اِ س موقع پر ہم سمیت ساری پاکستانی قوم وفاقی وزیر پانی وبجلی سید نوید قمر اور حکمرانِ وقت سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ خدایا ملک کی معیشت کو تباہ ہونے سے بچانے کے لئے ملک میں بجلی کے بحران کو وقتی طور پر حل کرنے کے بجائے اِس کا مستقل اور پائیدار طریقوں سے مناسب اقدامات کر کے ملک سے بجلی کے بحران کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کے لئے کوئی حل نکالا جائے تاکہ ملک یکسوئی کے ساتھ ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکے اور اگر اِس کے باوجود بھی ہمارے حکمرانوں نے ملک سے بجلی کے بحران اور لوڈشیڈنگ کے بڑھتے ہوئے اعلانیہ اور غیراعلانیہ دورانے کو کم اور ختم نہ کیا تو پھر قوم یہ بات مان جائے گی کہ ملک میں بجلی اور توانائی کا بحران مصنوعی نوعیت کا ہے جو حکمران وقت کی پشت پناہی کے باعث بجلی اور توانائی کے شعبوں میں اُن منافع خُور سرمایہ داروں نے دانستہ طور پر خود پیدا کر رکھا ہے جو ایک طرف طویل لوڈشیڈنگ کے ذریعے فرنس آئل بچا رہے ہیں تو دوسری طرف یہ بجلی نہ دے کر بھی اپنے صارف سے زائدہ بلنگ کے ذریعے دگنی رقم وصول کرنا اپنا دین دھرم بناکر اپنے کاروبار کو چمکا رہے ہیں اور اِس کے ساتھ ہی یہ ظالم اور جابرو فاسق لوگ ملک میں طویل لوڈشیڈنگ کے طرح طرح کے بہانے تلاش کرکے بجلی پیدا کرنے میں مدد دینے والی مشینوں اور اِس سے ملحقہ اپنے دوسرے اثاثوں کو بند کر کے اِنہیں ریسٹ دے کر اِن کی لائف بڑھا رہے ہیں اور اپنے اِس کاروباری حربے سے یہ جہاں اربوں ڈالر منافع کما رہے ہیں تو وہیں یہ سرمایہ دار ملک میں طویل بجلی کی لوڈشیڈنگ سے ملک کو اقتصادی اور معاشی طور پر بھی غیر مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کو معاشی اور اقتصادی و اخلاقی طور پر تباہی اور بربادی کے کس دھانے پر لے جارہا ہے کہ جہاں پہنچ کر ملک کا سنبھلنا بہت مشکل ہوجائے گا۔

مگر یہاں قابل افسوس امر تو یہ ہے کہ اِن ساری خامیوں کو جاننے کے باوجود بھی ہمارے حکمران ہیں کہ یہ ابھی تک اپنی سیاسی مصالحتوں کی وجہ سے خاموش ہیں جبکہ اِنہیں اِس جانب سنجیدگی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے وہ سب کچھ کر دینا چاہئے کہ جس سے ملک میں قائم محکمہ بجلی کی مونوپولی کاخاتمہ ہو اور ملک بجلی جیسی توانائی کے مصنوئی بحران سے نکل کر ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوجائے۔

اگرچہ ملک میں بجلی اور توانائی کے بحرانوں پر قابو پانے کے لئے حکومت نے کسی حد تک سنجیدگی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے گزشتہ دنوںپاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیٹرولیم کے زیر اہتمام تین روزہ توانائی کانفرنس2011کااہتمام کیا جس سے متعلق ابھی صرف یہ کہاجاسکتا ہے کہ یہ تین روزہ توانائی کانفرنس سے حاصل ہونے والے نتائج سوائے آنسوپوچھنے جتنی حوصلہ افزائی کے عملی طور پر اور کچھ نہیں ہیں کیوں کہ ابھی اِس توانائی کانفرنس سے توقعات وابستہ کرناقعطاََ درست نہ ہوگاکہ اِس کانفرنس سے کوئی ایسے اچھے نتائج برآمد ہوسکیں گے جس سے ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے اُس خطرناک ترین اژدھے سے نجات مل جائے گی جو ملک کی معیشت کوآہستہ آہستہ ہڑپ کررہاہے۔

ا ور اِس کے ساتھ ہی اِس میں کوئی شک نہیں کہ قوم حکمرانوں کی گول مول باتوں سے مایوس ہوچکی ہے اور اَب یہ برملاکہنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ ہمارے حکمران نااہل ہیں جن کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں طرح طرح کے بحران جنم لے رہے ہیں اور اَب توملک میں تین روزہ ہونے والی توانائی کانفرنس کے بے نتیجہ اختتام اور وفاقی وزیرپانی و بجلی سید نوید قمر کے بارہ نکاتی بجلی بچاؤ کے ششماہی بچت پلان کے بعد قوم کا دماغ واقعی خراب ہونے کو ہے اوراَب اِس میں وہ پہلے والا برداشت کا مادہ بھی نہیں رہاہے جو کبھی اِس میں ہواکرتاتھا ...اور اَِب تو قوم کا یہ عالم ہے کہ اِس کا بس نہیں چل رہاہے کہ یہ موجودہ حکمرانوں کا کیا حشر نہ کرڈالے مگر یہ اُس وقت کے انتظار میں ہے کہ جب اِس کی برداشت کی حد پوری طرح سے ختم ہوجائے گی پھر یہ کسی کی بھی نہیں سُنے گی.پھر آگے آگے حکمران وقت ہوں گے ...اور اِن کے پیچھے پیچھے قوم ہوگی اور دمادم مست ہورہاہوگا...

بہرکیف! آج جب ہماری بیگم نے تین روزہ توانائی کانفرنس کے بے مقصد نتائج اور وفاقی وزیر سید نوید قمر کے بجلی بچت پلان کا اعلان سُنا توخلافِ توقع اِن کی آواز میں غضب کی گھن گرج تھی ایک ایسی گرج جو ہم نے پچھلے سولہ ،سترہ سالوں میں کبھی نہ سُنی تھی اور نہ ہی محسوس کی تھی جو آج ہمیں سُنے کو ملی ہے اِس کے گواہ ہمارے کالم نگار ساتھی محمداحمدترازی بھی ہیں وہ اُس وقت ہمارے ساتھ ہی تھے ہماری بیگم کی یہ غضب ناک کیفیت اُنہوں نے بھی پہلی مرتبہ دیکھی تھی اور یہ بھی حیران تھے کہ آج بھابی کو یکدم سے کیاہوگیاہے کہ یہ غصے سے لال پیلی ہوگئیں ہیں بیگم کے اِس طرح سے چیخ کر بولنے پر جہاں ہم پریشان ہوئے تو وہیں ہم یہ سوچنے پر بھی ضرور مجبور ہوئے کہ یہ آج ہم سے اِس طرح چیخ کرکیوں بولی ہیں تو وہیں ہمیں یہ احساس بھی ہواکہ یقیناً ہم سے کوئی نہ کوئی ایسی غلطی ضرور سرزد ہوگئی ہے کہ جس کی وجہ سے اِن کا ٹیمپریچر ہائی ہوا اور یہ ہم سے اِس طرح گھن گرج کے ساتھ بات کرنے پر مجبور ہوئیں ہیں...قبل اِس کے کہ ہم مزیدآگے بڑھیں یہاں ہم اپنے پڑھنے والوں کو یہ بتاتے چلیں کہ خیر سے ا للہ رکھے ہماری بیگم صاحبہ کو جنہوں نے شادی کے بعد سے آج تک (یعنی سولہ سترہ سالوں کے دوران )ہم سے کبھی اس طرح چیخ کر بات کرناتو درکنار اِنہوںنے ہمارے سامنے قہقہ لگاکرہنسا تک نہیں تھامگرآج اِن کے اِس طرح سے چیخنے اور چلانے پر جہاں ہم پریشان ہوئے تو وہیں ہم یہ بھی سوچنے پر ضرور مجبور ہوئے کہ اِنہوں نے شائد ہم سے کبھی ایسی کوئی فرمائش بھی نہیں کی کہ جو اِنہوںنے ہم سے کی ہواور ہم نے اُسے پوری نہ کی ہو تو اِن کا لب ولہجہ آج اتنا ترش ہواکہ وہ اِن کی برداشت سے باہر بھی ہوگیاہے ....ابھی ہم اِسی تذذب میں غوطہ زن ہی تھے کہ ایک دھماکے سے ہمارے کمرے کا دروازہ کھلااور بیگم صاحبہ کمرے میں آتے ہی ڈورن حملے کے کسی میزائل کی طرح ہم پر یوں پھٹیں کہ ہمارافوراََ سے بیشتر سنبھالنا مشکل ہوگیااور اُنہوںنے آؤ دیکھانہ تاؤ اُسی طرح چیخ کر ہمیںبچوں کا واسطہ دیتے ہوئے کہاکہ اِس گرمی کے عالم میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ نے زندگی اجیرن کردی ہے بچوں کے امتحانات سر پر ہیں اور بجلی کی گھنٹوں گھنٹوں کی طویل لوڈشیڈنگ سے اِن کی پڑھائی لکھائی متاثرہورہی ہے... اَب خداکے واسطے آپ کو اپنی اور میری کوئی فکر ہویا نہ مگربچوں کے لئے تو گھر میںزیادہ نہیںتو ایک دو لالٹینیں ہی لے لائیں گھر میں لالٹین ہونے سے آپ کے اسٹیٹس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور ویسے بھی لالٹین ہمارے تہذیب کا حصہ ہے اور آج کل تو یہ ہمارے تہذیب کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے بینادی ضرورت بھی بن گئی ہے اور تو ویسے بھی اَب بجلی کی اِس طویل لوڈشیڈنگ سے نجات کا واحد سہاراہم غریبوں اور کم آمدنی والے لوگوں کے لئے لالٹین ہی رہ گئی ہے کیا ہم اِس قابل بھی نہیں ہیں کہ ہم اپنے بچوں کی پڑھائی اور اِنہیں اُجالا دلانے کے خاطر اپنے گھر لالٹین ہی خریدلائیں.... میں آپ سے یوپی ایس اور پیٹرول اور گیس سے چلنے والے بجلی کے جنریٹڑز خریدنے کی فرمائش نہیں کررہی ہوں یہ سب تو امیروں کے چونچلے ہیں ہم غریبوں کے لئے تو اپنے گھر میں اُجالے اور بچوں کی پڑھائی لکھائی کے لئے تو لالٹین ہی کافی ہے اوردیکھیںجی ! آپ اگر اَب لالٹین خریدکر نہیں لائے تو بہت بُراہوگا ...اَب میری زبان کھل گئی ہے جو اُسی صُورت میں بند ہوگی جب گھر میں لالٹین آپ خرید کر لائیں گے میںآپ سے یہ نہیں کہہ رہی کہ آپ بھی اپنے معاشرے کے کچھ اثرورسورخ والے غریبوں کی طرح اپنے گھر پرK.P.S کے پی ایس یعنی(کُنڈاپاور سپلائی)لگوادیں میں تو بس صرف اتناہی کہہ رہی ہوں کہ اپنے بھی گھر پر دو ایک لالٹین خریدلائیں تاکہ ہمارے بھی بچے اپنے امتحانات کی تیاری کرسکیں یہ روز ....روز پچاس روپے کی موم بتی کا خرچہ میری برداشت سے باہر ہوچکاہے جس کی روشنی میں نہ تو بچے ٹھیک طرح پڑھ لکھ سکتے ہیں اور نہ سکون سے رہ سکتے ہیں جب تک موم بتی جلتی ہے یہی دھڑکا لگارہتاہے کہ کہیں کوئی بے احتیاطی نہ ہوجائے اور سارے گھر میں آگ نہ بھڑک اُٹھے ... اِسی غصے دار لہجے میں بیگم نے ہم سے مخاطب ہوکر کہااور سُنیں جی ! آج ہمارے اِسی معاشرے میں جو ذرا اچھے اثرورسوخ والے لوگ ہیں وہ اپنے گھر وں میں لالٹین کے ساتھ ساتھ ، یوپی ایس اورکے پی ایس (کُنڈاپاور سپلائی ) سے بھی مستفید ہورہے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ ہمارے پاس نہ تو اپنے گھر میں بچوں کی پڑھائی لکھائی اور اُجالے کے لئے لالٹین ہے اور نہ ہی یوپی ایس اورکے پی ایس(کُنڈاپاورسپلائی) ہی ہے ایسالگتاہے کہ جیسے ہماری قسمت میں آپ اور بجلی والوںنے اندھیراہی اندھیرالکھ دیاہے .... بیگم صاحبہ !تو اپنے عالمِ غصے میں خداجانے اور کیا کیا کچھ کہے جارہیںتھیں مگر ہم اپنا سر کسی شریف النفس شوہر کی طرح نیچے کئے اِن کی باتیں سُنتے رہے اور یہ سوچتے رہے کہ آج گھر پر رہنے والی اِن جیسی میرے ملک کی کڑوروں شوہروں کی بیویاں اورکڑوروں بچوں کی مائیں دن میں 9سے 12اور16گھنٹے کی بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ سے کیسی بیزار ہوگئی ہوگیں جو ایک طرف محکمہ بجلی کی جانب سے دی جانے والی طویل لوڈشیڈنگ کی اذیتیں برداشت کررہی ہیں تو دوسری جانب اِنہیں اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے خاطر اِن کی پڑھائی لکھائی کی فکر لاحق رہتی ہے جو آج اِن ماؤں کے بچے ملک میں ہونے والی طویل بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے اپنی پڑھائی لکھائی اور امتحانات کی تیاریوں سے محروم ہورہے ہیں ....مگر اِن تمام باتوں کے باوجود بھی ہمارے حکمرانوںکی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ یہ اپنی آنکھیں ،کان ، زبان اوردل ودماغ وہ سب کچھ بندکئے بیٹھے ہیں جن کے ذریعے یہ عوام کی تکالیف کا اپنے اندر احساس پیداکرتے تو یہ یقینی طور پر ملک اور عوام کو بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ سے نجات دلانے کے خاطر بازار اور دکانیں رات آٹھ بجے بندکرنے کے علاوہ بھی ا ور بہت سے کچھ ضروری اقدامات بھی کرتے مگر شائد وہ خود بھی عوام کے لئے کچھ اچھااقدام اٹھانے اور کوئی بہتر لائحہ عمل تیار کرنے کے موڈ میں قطعاََ نظر نہیں آتے ہیں ۔اِسی لئے تو اِنہوں نے محض دکھاوے کے خاطر چند ایک ایسے کام کردیئے ہیں جن کا کوئی خاص بڑافائدہ نظر نہیں آتاہے۔موجودہ حکمرانوں کی نااہلی اور اِن کی ہر معاملے میں روارکھی گئی ناقص پالیسیوں سے اندازہ ہوتاہے کہ یہ ہر معاملے میں عدم دلچسپی اور دوراندیشی کے بغیر وہ کچھ کئے جارہے ہیں جس کی وجہ سے ملک پتھرکے دور میں جلد ہی چلاجائے گا اور وہ کام کو اغیار نہیں کرسکے یہ کام ہمارے موجودہ جمہوری حکومت کے جمہوریت پسندحکمران اپنے ہاتھو سے خود کرجائیں گے۔جب بیگم کا غصہ ذراکم ہوکر ٹھنڈاہواتو ہم نے قریبی واقعی بازار کا رخ کیااور رات ہونے سے پہلے ہی تین عدد لالٹینیں خریدلائے جنہیں دیکھ کر ہمارے بچوں کی ماں اور ہماری بیگم کا غصہ ٹھنڈاہوااور وہ ہمارے اِ س کارنامے پر خوش ہوکر دودھ پتی چائے کا ایک گرماگرم کپ لے آئیں اور کہنے لگیں کہ دیکھاجی دنیاگول ہے آج اِس 21ویں صدی کے جدید سائنسی دور اور دنیاکے ایک بڑے ایٹمی ملک پاکستان کے لوگ لالٹین کی روشنی میں اُسی طرح اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جس طرح ہم سے پہلے کے لوگ گزاراکرتے تھے جب بجلی نہیں تھی اور آج ہم بجلی ہوکربھی لالٹین سے کام چلارہے ہیں یعنی ہم ایٹم بم بنانے اور رکھنے کے باوجود بھی پتھر کے زمانے والوں کی طرح کے ہوکررہ گئے ہیں ۔

ہم پاکستانیوں کا یہ خیال جواَب گزرتے حالات و اقعات کے ساتھ ساتھ اِس یقین میں بدل چکاہے کہ سانحہ نائن الیون کے بعداُس وقت کے امریکی صدر بش نے ہمارے سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کو واضح اور دوٹوک الفاظ میں دھمکی دی تھی کہ وہ اِن کے ملک پر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف کی جانے والی کاروائیوں امریکا کا ساتھ دیں ورنہ اگر پاکستان نے اِن کا ساتھ نہ دیاتوامریکا یہ سمجھے گاکہ پاکستان بھی دہشت گردوں کے ساتھ ملاہواہے اور امریکا کی دہشت گردوں کے خلاف غضب ناک کاروائیوں کا دائرہ پاکستان تک بڑھادیاجائے گا اور اِس طرح امریکا پاکستان کو پتھر کے زمانے میں لے جائے گا اگرچہ اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ امریکی صدر بش کی اِس دھمکی کا جواب اُس وقت کے ہمارے صدر نے کس طرح دیا وہ بھی آج سب کے سامنے ہے کہ اُنہوں نے اپنی دانش سے پاکستان کے خلاف رکھے گئے امریکیوں کے غضب ناک عزائم کوجس سے یہ پاکستان کو پتھرکے زمانے میں لے جاناچاہتے تھے اِسے خاک میں ملانے کے خاطر ایک طرف جہاں امریکاکا ساتھ دینے اور دہشت گردوں کی کمین گاہوں کا ملیامیٹ کرنے کے لئے امریکا سے ہاتھ ملا یاتو دوسری طرف اِنہوں نے ملک کو دیگردوسرے معاملات میں ایسے مسائل جن میں کرپشن، لوٹ مار ، قتل وغارت گری، بم دھماکے اور توانائی جیسے بجلی اور گیس کے بحرانوں میں الجھانے کا سامان کیاکہ پاکستان جب سے اَب تک اِن مسائل کا شکار ہے جن سے نکلنااَب اِس کے اپنے بس میں بھی نہیں رہاہے کہ یہ بغیر امریکی امدادوں اور سودی قرضوں کے عوض اِن مسائل سے چھٹکارہ حاصل کرسکے ۔مگریہ تو حقیقت ہے کہ سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف نے اپنی دانشمندی سے ملک کو امریکاکے ہاتھوں ہونے والی بمباری سے پتھر کے زمانے میں جانے سے جو رکوادیاتھا وہ کام کسی اور طریقے سے کرگئے اور اِن کے بعد رہی سہی جو کسر تھی وہ موجودہ حکمرانوں نے اپنی نااہلی اور ناقص پالیسیوں کے سہارے پوری کردی اور آج اِس میں کوئی شک نہیں ایسالگتاہے کہ جب ہمارے یہاں سے بجلی اور توانائی کا بحران ختم نہیں ہوگا اور ہماری بنیادی ضررویاتی زندگی حکمران پوری نہیں کریں گے تو جلد ہی ہم سب پتھر کے زمانے کے لوگ لگنے لگیں گے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 983786 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.