بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
معزز قارئین کرام ۔۔۔۔ کچھ دنوں قبل ہم نے یہاں ایک آرٹیکل بنام"کراچی والو
تم واقعی قابل قتل ہو" کے عنوان سے دیکھا ۔۔۔۔ جس میں صاحب مضمون نے کراچی
کی تباہی اور بربادی کا ذمہ دار خود کراچی والوں کو ٹہرایا ۔۔۔۔ جس پر ایک
طویل بحث ہوئی ۔۔۔جس میں بہت سارے دوستوں نے اپنی اپنی سمجھ کے مطابق ایک
دوسرے کو الزامات دیتے ہوئے کراچی کے حالات یا ملک کے حالات کا ذمہ ڈار
ٹہرایا۔۔۔۔ جس پر ہم نے ایک مختصر تحریر ترتیب دی ہے جس میں اس چیز کو
اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے کہ "آخر عمومی طور پر پورے پاکستان اور خصوصی طور
پر کراچی کے ان حالات کا ذمہ دار کون ہے ؟
افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ کل تک جو قوم ایک پورے جسم کی طرح تھی آج
اُسی جسم کے اعضاء ایک دوسرے سے لڑ لڑ کر کہہ رہے ہیں کہ میں ہاتھ ہوں میری
زیادہ اہمیت ہے یا میں پیر ہوں میرے بغیر تم چل نہیں سکتے ۔۔۔دل کہتا ہے کہ
میرے بغیر ہاتھ پیر دونوں بے کار ہیں ۔۔۔دماغ کہتا ہے کہ اگر میں کام کرنا
چھوڑ دوں تو تم سب مل کر کیا کرسکتے ہو؟
لیکن میرے پاکستان کے بھولے بھالے بھائی یہ نہیں سوچتے کہ کیا کبھی دشمن
وار کرنے میں سوچتا ہے کہ ہاتھ پر کروں یا پیر پر کروں؟ یقیناً نہیں دشمن
کا وار ہاتھ پر ہو یا پیر پر لیکن اگر یہ اعضاء جسم کے ساتھ جڑے ہوئے ہوں
تو کیا تکلیف پورے جسم کے لئے نہیں؟
پھر میرے پاکستان کے بھائیوں یقین جانو کہ اس جسم کی ایک بھی عضو پورے جسم
کے لئے اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے جتنا کہ دل و دماغ ۔۔۔۔
یہ ٹھیک ہے کہ آج اس جسم کا جوڑ جوڑ زخموں سے چور ہے ۔۔۔یا اس جسم میں بے
شمار بیماریاں پیدا ہوچکیں ہیں ۔۔۔۔لیکن یقین جانیں اس میں کسی کا قصور
نہیں بلکہ خود ہمارا قصور ہے ۔۔۔۔ نہ کراچی کا نہ پنجاب کا اور نہ سندھ یا
بلوچستان کا بلکہ ہم پاکستانیوں کی اکثریت پاکستان کے جسم کو داغدار کرنے
کے جرم میں برابر کی شریک ہے ۔
اس کی مثال آسانی کے لئے یوں سجھیں کہ آج اگر آپ ایک سروے کریں کہ آج
پاکستان میں کون کون سے شعبے کے لوگ ایسے ہیں جو اپنی پوری ایمانداری سے
پاکستان کا درد دل میں محسوس کرتے ہوئے اپنے فرائض کی ادئیگی کررہے ہیں ۔۔۔
تو یقیناً بہت ہی کم لوگوں کا جواب اثبات میں ہوگا۔
مثال کے طور پر کچھ عرصہ قبل ذخیرہ اندوزوں نے چینی کے نرخ بڑھائے ۔۔۔۔ تو
ایمانداری سے جواب دیں کہ کتنے نچلے درجے کے دوکاندار تھے کہ جنہوں نے خدا
کا خوف کرتے ہوئے اپنی ایمانداری سے اپنی قومی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے
چینی پرانے ریٹوں پر بیچی؟
تو جواب دیں ۔۔۔ کیا ایسے چھوٹے دوکاندار بڑے ذخیرہ اندوزوں کی طرح کرپشن
میں ملوث نہیں کہلائیں گے؟
جب ایک سرکاری ادارے کا چپڑاسی کسی کام کے لئے 10 یا 20 کی بھی رشوت لیتا
ہے تو وہ کرپشن میں شامل نہیں؟
اسی طرح چاہے ٹیکسی ڈرائیور ہو یا معلم ہو ۔۔۔۔ لوہار ہو یا سنار ہو ۔۔۔۔
موٹر مکینک ہو یا الیکٹریشن ہو ۔۔۔۔ چھوٹا تاجر ہو یا بڑا تاجر ہو ۔۔۔۔
کپڑے کا کاروبار کرنے والا ہو یا معمولی درزی ۔۔۔نائی ہو یا قصائی ۔۔۔۔
سرکاری اہلکار ہا یا پرائیوٹ ادارے کا ملازم ۔۔۔۔ کتنے ایسے لوگ ہیں جو
اپنی پوری ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں اور کسی سے زائد منافع
لینے سے یا کسی کو دھوکہ دینے سے اجتناب کرتے ہیں ؟
تو سوچیں کہ اگر بالفرض ایسے کسی بھی شخص کو اگر ملک کا وزیر اعظم بنا دیا
جائے تو اس کے بعد وہ کون سا ایمانداری سے فرائض انجام دے گا ۔۔۔
تو جب پاکستان کا معمولی آدمی اپنی معمولی پوزیشن اور معمولی دائرہ اختیار
میں رہتے ہوئے بھی پاکستان کا درد محسوس نہیں کرتا اور اپنے فرائض کے انجام
دہی میں کوتاہی کرتا ہے ۔۔۔تو سوچیں کہ جب اس کے اختیارات کا دائرہ اختیار
وزیراعظم کی طرح وسیع کردیا جائے گا تو پھر وہ کیسے اپنے نفس پر کنٹرول کر
کے پاکستان کا درد محسوس کر کے اپنے فرائض میں کوئی کوتاہی نہیں کرے گا؟
بس یہ ہی اصل وجہ ہے ہمارے پاکستان کے شدید مسائل کی۔۔۔۔ کہ ہر شخص ایک
دوسرے کے طعن و تشنیع تو کرتا ہے فلاں ادرے فلاں وزیر کو فلاں سیاستدان کو
برا تو کہتا ہے لیکن اپنی پوزیشن نہیں دیکھتا کہ میرا اس تباہی بربادی میں
کتنا ہاتھ ہے تو اب یہ سمجھ لیں کہ اس طرح اکثریت لوگوں کی ان چھوٹی چھوٹی
کرپشن ملک کے حالات پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے ؟
بالفرض یوں سمجھ لیں کہ ہم سب پاکستانی ایک جسم میں موجود خون کے کروڑوں
ذرات کی طرح ہیں ۔۔۔۔ اور ان کروڑوں ذرات کی اکثریت کرپشن کے جراثیم سے
آلودہ ہیں ۔۔۔تو خود سوچیں کہ یہی خون دل ودماغ (حکومت) میں سے بھی گزرتا
ہے اور یہی خون ہاتھ پیروں (معیشت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے) سے بھی
گزرتا ہے ۔۔۔ تو پھر سوچیں کہ جب جراثیم سے آلودہ خون دل و دماغ میں پہنچے
گا تو پھر ایسا دل دماغ(حکومت) کیسے صحت مند اور (کرپشن کے )جراثیم سے پاک
ہوسکتا ہے ۔۔۔
اور اس دل و دماغ کے فیصلے کیسے صحنت مند ہوسکتے ہیں ۔۔۔۔ اور ایسے جراثیم
سے آلودہ خون سے کیسے ایک صحت مند جسم کی افزائش ہوسکتی ہے؟
پھر ہمیں دل و دماغ کے فیصلوں پر کیوں اعترض ہے؟۔۔۔ہم نے کون سا تر و تازہ
جراثیم سے پاک خون دل و دماغ تک پہنچایا ہے جو آج ہم جسم کے ایک دوسرے حصوں
کو الزامات دیتے ہیں؟
بس یہی ہمارے پاکستان کا اصل مسئلہ ہے کہ لوگ فلاں فلاں کی برائیاں تو کرتے
ہیں کہ فلاں کی وجہ سے ایسا ہوا فلاں کی وجہ سے ویسا ہوا ۔۔۔ لیکن کوئی شخص
اپنی پوزیشن پر نہیں سوچتا کہ میں نے کیا کیا ہے؟۔۔۔ لوگ دنیا کو تو کوستے
ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اس تباہی بربادی میں ہمارا کتنا ہاتھ ہے؟
یاد رکھیے کہ جس طرح قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے ۔۔۔ اسی طرح آج ہم سب لوگوں کی
اکثریت کے قطرے قطرے کرپشن یا بے ایمانی اور دھوکہ دہی سے آج پاکستان میں
کرپشن بےایمانی اور دھوکہ دہی کا سیلاب آیا ہوا ہے۔
آخر میں اللہ رب العزت کا یہ ارشاد پڑھیں اور غور و فکر فرمائیں :
ارشاد باری تعالیٰ ہے :إِنَّ اللَّـهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ
يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ الخ الرعد 11
ترجمہ :بے شک الله کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو
نہ بدلے۔
تو واضح ہوتا ہے کہ ہماری حالت بدلنے کا انحصار ٹی وی ٹاک شو پر بیٹھے
مبصرین یا دانشوروں کے تجزئیے،تبصروں اور مشوروں پر نہیں ۔۔۔اور نہ ہی ایک
دوسرے کو الزامات دینے سے ہمارے حالت بدل سکتے ہیں ۔۔۔بلکہ اگر ہم سب
سنجیدگی سے چاہتے ہیں کہ ہماری قوم کی حالت بدلے تو اس کے لئے ہمیں خود کو
بدلنا ہوگا۔۔۔
امید ہے کہ تمام بھائی ان نکات پر ضرور غور وفکر فرمائیں گے ۔ |