یم یم ٹری ۔۔۔۔۔۔محنت اور برکت کی سچی کہانی

یم یم ٹری ایک ملٹی نیشنل ٖفوڈ کمپنی ہے۔ جس کا ہیڈ آفس بحیرین میں ہے۔ یہ بخواخاندان کی ملکیت ہے۔ مجھے اس کمپنی میں بطور فنانس مینجرتقریبا تین سال کام کرنے کا موقع ملا۔ آج میں آپ کو اس کمپنی کے مالک ڈاکٹر عادل بخوا کے بارے میں کچھ باتیں آپ کے ساتھ شئیر کرنا چاہتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب ایک گورئنمٹ آفس میں ملازم تھے۔ اپنی فیملی میں ان کا شمار غریب افراد میں ہوتا تھا۔ جبکہ ان کی فیملی کے باقی افراد اچھے خاصے امیر تھے۔ نوکری کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب نے اپنا کاروبار کرنے کا بھی سوچا۔ ابھی کچھ جمع پونجی سے انہوں نے ایک آئس کریم مشین خریدی اور ایک فوڈ کورٹ کے کونے میں رکھوا دی۔ دفتر سے فارغ ہو کر وہ خود اس مشین کو چلاتے تھے ۔بحرین ایک جزیرہ ہے اور اس میں کاروباری ایام ہفتے میں صرف تین دن ہی ہوتے ہیں۔ جمعرات، جمعہ اور ہفتہ۔ ان تین دنوں میں سعودی عرب کی قریبی ریاستوں کے لوگ پُل کے ذریعے (یہ وہ پُل ہے جو سعودی حکومت کے تعاون تعمیر کیا گیا ہے اور واحد زمینی راستہ ہے جو بحرین کو سعودی عرب سے ملاتا ہے)بحرین آتے ہیں اور ویک اینڈ گزار کر چلے جاتے ہیں۔ سعودی عرب میں سینما گھرنہیں ہیں اور تفریح کے مقامات بہت کم ہیں لیکن اس کے بر عکس بحرین میں بہت ذیادہ ہیں۔جمعہ کو عام طعطیل ہوتی ہے۔ بحرین میں سرکاری دفتر اوقات بھی بہت کم ہیں اور سرکاری دفاتر بہت جلدی بند ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اس موقع سے خوب فائدہ اٹھاتے اور آئس کریم مشین کی مدد سے اپنے کاروبار میں اضافہ کر نا شروع کر دیا۔ رش ذیادہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے اپنے ساتھ ایک ملازم رکھ لیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ انہیں ایک کیبن مل گیا جس میں انہوں نے آلو کی چپس کا کا م بھی شروع کر دیا۔ جس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا گیا۔ بحرین میں اٹالین پاستہ کی بہت ذیادہ ڈیمانڈ تھی لیکن اس کو بنانے والے مقامی لوگ تھے اور اس کاکو ئی برانڈ وہاں پر موجود نہ تھا۔ کسی طریقے سے ان کا رابطہ ایک اٹالین برانڈ وینلیز کی مینجمنٹ سے ان کا رابط ہوا جو اپنے کاروبار کو بحرین میں شروع کرنا چاہتے تھے ۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کام کو اپنے ذمے لینے کی حامی بھری۔ اور بحرین میں اپنا پہلا آؤٹ لِٹ کھولا اور اس برانچ میں پیزا اور پاستہ بنا نا شروع کیا۔ اس کی ٹریننگ لینے کے لئیے وہ خود بیرون ملک بھی گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے وقت کے ساتھ ساتھ ملازمین میں اضافہ کرنا شروع کردیا۔اس نئے برانڈ کا بحرین میں اچھا خاصہ کام چل پڑا۔ اسی دوران فوڈ کورٹ میں ایک دوکان جو جوسز بناتے تھے وہ بند ہونے کے قریب تھی ۔ ڈاکٹر صاحب نے اس دوکان کو خرید لیا۔ اور مارکیٹ کی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فری ہوم ڈیلوری کا کا م بھی شروع کر دیا۔ ایک ٹیلی فون آپریٹر رکھا اور ایک بائیک رایئڈر۔ ٹیلی فون آپریٹر کال اٹینڈ کرکے آرڈر لیتااور اس کو تیار کروانے کے بعد بائیک رائیڈر کے حوالے کر دیا جاتا جو کہ ایک مقررہ وقت میں گاہک تک پہنچا دیتا۔ ایریا کے اعتبارسے بحرین ایک بہت ہی چھوٹا سا ملک ہے۔ گاڑی پر آپ بیس سے پچیس منٹ پر پورے بحرین کو دیکھ سکتے ہیں۔ ہوم ڈیلوری کے کام نے بزنس میں نے تحاشا اضافہ کر دیا۔ ایک آؤٹ لِٹ سے دوسرا اور پھر پورے کا پورا فوڈ کورٹ۔ ڈاکٹر صاحب کے پہلے فوڈ کورٹ کا نام حورا ہے۔ جو آج بھی بحرین میں بڑی کامیابی سے چل رہا ہے۔ اور پورے کا پورا فوڈ کورٹ ڈاکٹر صاحب کی ملکیت ہے۔ ایک فوڈ کورٹ سے دوسرے فوڈ کورٹ کا سفر زیادہ طویل نہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب سرکاری کاموں کے سلسلے میں دبئی ، قطر اور سعودی عرب بھی سفر کرتے تھے۔ اس لیئے انہوں نے دبئی ڈیرہ سٹی سنٹر میں بھی اپنا آؤٹ لِٹ کھولنے کا ارادہ کیا۔ اور پھر سارے دبئی میں تما م بڑے مالز میں ان کے آؤٹ لِٹ موجو دہیں ۔ قطر اور سعودی میں بھی اپنے بزنس کو بڑھایا۔ کویت میں بھی بزنس لے کر گئے۔ فوڈ بزنس کے کامیاب ہونے کے بعد انہوں نے فلیٹس اور پلاٹس بھی خریدنے شروع کیئے۔ بحرین میں ایک فائیو سٹار ہوٹل بھی ان کی ملکیت ہے۔ چند سالوں میں ان کے بزنس میں نے تحاشا اضافہ ہوا۔

اس میں سب سے اہم دوباتیں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلا راز اس کامیابی کا قابل اور اعلی پائے کے ملازمین رکھنا اور ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنا بھی تھا۔ اکثر ڈاکٹر صاحب ان کے ساتھ مل کر کام کرتے تھے۔ وہ اپنے بچوں اور ملازمین میں کوئی فرق روا نہ رکھتے تھے ۔ کسی ملازم کو کوئی ایمرجنسی ہوتی تو اسے وقت سے پہلے چُھٹی دے کر گھر بھیجتے اور پورے مہینے کی تنخواہ بھی ایڈوانس دے دیتے تھے۔ میر ی ان سے ذاتی ملاقاتوں کے دوران اور میٹنگز میں میں نے ان کو انتہائی باوقار اور سادہ انسان پایا۔ ان کے ملازمین کی تعدادتقریبا دو ہزار کے قریب ہے لیکن وہ خود اپنے ہاتھوں سے کوئی بھی کا م کرنے کو عار نہیں سمجھتے تھے۔ ہر ویک کی ابتدا ء میں ایک میٹنگ ہوتی تھی۔ جس میں گزشتہ ہفتے کے دوران کئے گئے کام کا جائزہ لیا جاتا تھا اور موجودہ ہفتے کے اہداف طے کیے جاتے تھے۔
اس کاروبار میں ترقی کا دوسراراز کاروبار میں اضافہ تھا۔ جب آپ اپنے کاروبار کو بڑھانا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے کاروبار کی ذیادہ برانچیں بنا کر اپنے کاروبار میں اضافہ کر سکتے ہیں ۔ جیسے جیسے آپ کے کاروبار میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے آپ اس قابل نہیں ہوتے کہ ہر جگہ ٹائم دے سکیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ آپ اپنی برانچز میں قابل لوگوں کو رکھ لیتے تاکہ وہ لوگ آپ کا کاروبار چلا سکیں ۔ اگر آپ اپنا کاروبار ایک ہی جگہ محدود رکھیں گے تو آپ کی پریشانیوں میں بھی اضافہ ہوگا اور آپ کامنافع بھی محدود ہوگا۔ اپنے کاروبار میں اضافہ کرنے کے لیئے قابل لوگوں کی ٹیم بنانا ازحد ضروری ہے۔ ان لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھنا اور ان کی تنخواہ مقررہ وقت پر دینے سے ہی آپ کے کاروبار میں اضافہ ہوگا۔ اکثر لوگ سوچتے ہیں کہ اگر میں ذیادہ تنخواہ پر ملازم رکھوں گا تو اس کی تنخواہ کہاں سے دونگا؟۔ میرے محدود وسائل ہیں اور میں اپنے کاروبار میں اٖضافہ کیسے کرونگا؟۔ تو اس کے لیے ہمیں اﷲ تعالی پر توکل رکھنا چاہیے۔ جب ہم کسی کو ملازم رکھیں گے یا کوئی نئی دوکان کرائے پر لیں گے تو اﷲ تعالی ان کے رزق کا حصہ بھی آپ کو ضرور فراہم کرے گا۔ بس آپ کو دوسروں کا حق نہیں مارنا چاہیے۔ اور اﷲ آپ کے رزق میں کمی نہیں کرے گا۔
 

Tanveer Ahmed
About the Author: Tanveer Ahmed Read More Articles by Tanveer Ahmed: 71 Articles with 88914 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.