لاؤ تو قتل نامہ مرا میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سرِ محضر لگی ہوئی
تقی عباس رضوی کلکتوی
نہ دولت کی نہ دنیا کی نہ چاہت بادشاہت کی
شہادت کی تمنا ہے فقط اک آرزو میری!!!
وہ آرزوئےشہادت جوایک نامور،شجاع،بےباک،باکردار،باہمت،باصلاحیت،بااخلاق،خوش
گفتاراورنیک سیرت میجر جنرل ’’قاسم سلیمانی ‘‘ کےدل میں مدتِ مدیدسے مچل
رہی تھی وہ آرزوعراقی دارالحکومت بغداد۳؍ جنوری ۲۰۲۰ء،میں امریکی حملے میں
پوری ہوگئی!
باوضو باادب میں تیرا نام لکھوں
عقیدتوں کا تیرے نام پھرسلام لکھوں
لیفٹنٹ جنرل قاسم سلیمانی ؒعظیم المرتبت مردمجاہدکوعموماًشہرت کی چکاچوند
سےدوررہنےوالی شخصیت سمجھا جاتا تھاتاہم حالیہ برسوں میں وہ کھل
کرسامنےآئےجب انھیں ایران میں داعش کےخلاف اپنی کارروائیوں کی بدولت شہرت
اورعوامی مقبولیت ملی۔وہ شخص جنھیں چندسال پہلے تک بہت سےایرانی شہری راہ
چلتے پہچان بھی نہیں سکتے تھے،آج!اقوام عالم کے ہر منصف مزاج قوموں میں
خصوصاً اسلامی جمہوریہ ایران میں نہایت محترم اورہردل عزیزشخصیت بن گئے اور
انکے دوست اور چاہنے والےدنیا کےہر حصے میں موجود ہیں۔
جل اٹھے چراغ ہمارے لہو سے!
میجر جنرل قاسم سلیمانی شہید ؒ ایک میجر اور جنرل ہونے کے باوجود ،عظیم
گفتار وکردار کے مالک ،بہت ہی نیک، پرہیز گار،صوم صلاۃ کےپابندنہایت
خداترس،خوش الحان قاری اورحمیت اسلامی سےسرشارایک مردمجاہد،غریب و یتیم اور
شہدا کے گھروالوں کی پرورش و امداد میں خاص حصہ لینے والے خاص کرمشرق وسطیٰ
میں امن وسلامتی، اتحاد واتفاق، احترام آدمیت، احترام مذاہب ومسالک
اوراحترام رائے کےقائل اورباہمی رواداری کےعظیم الشان پیامبر
مانےجاتےتھے۔جن کا مقصدو مشن خطہ سےامریکی اور اسرائیلی بالادستی، اس کے
جبرواستحصال کا خاتمہ نیزاس کے پنجہ استبداد سےعراق و شام اور قدس کوآزادی
دلانےاور ان علاقوں میں عدل وانصاف کے فروغ کے ساتھ ساتھ اپنے آزادی ٔ
فکر،آزاد یٔ اظہار،احترام ِ آدمیت اورانسانی اقدار کی پاسداری تھی،یہ
کہنا حق بجانب ہوگا کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں مقام معظم رہبری کے بعد
اگر کسی شخصیت کو عالمی اسلام دشمن عناصر کے مقابلے میں طاقتور سمجھا جاتا
تھا وہ تووہ ۶۲ ؍سالہ شہیدقاسم سلیمانی کی شخصیت تھی جواپنی پوری زندگی راہ
ِ خدا میں جان و مال سے جہادکرتے رہے اورسیسہ پلائی ہوئی دیوارکی طرح اپنے
درینہ دشمن(امریکہ و اسرائیل ...)کےسامنے یہ سوچ کرسینہ سپررہے کہ:
مجھے محسوس ہوتا ہے مجاہد مرد میں بھی ہوں
پرانے لشکر اسلام کا اک فرد میں بھی ہوں
الحاج قاسم سلیمانی ۱۱؍ مارچ ۱۹۵۷ ء کو ایران کےصوبہ کرمان کےضلع رابر
کےقبائلی گاؤں ’’قنات ملک‘‘ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائے جوانی میں وہ تعمیرات
کے شعبے سے منسلک ہوگئے اور کرمان کےمحکمہ آب رسانی سے بطورٹھیکیدار وابستہ
تھے۔
ایران میں ۱۹۷۹کے اسلامی انقلاب اورسپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی تشکیل
کے بعدشہیدقاسم سلیمانی اس عظیم مقصد سے منسلک ہو گئے۔ایران کے اسلامی
انقلاب کےوقت شہیدسلیمانی کرمان کے ادارہ آب رسانی میں کام کر رہے تھے اسی
دوران میں وہ سپاہ افتخاری نامی تنظیم کے رکن بن گئے۔
ایران عراق جنگ کی شروعات میں قاسم سلیمانی نے کرمان کےعسکری دستوں پرمشتمل
ایک بٹالین تشکیل دی جوبعدمیں ۴۱؍ ثاراللہ بریگیڈمیں بدل گئی۔وہ اس لشکر کی
تشکیل ۱۹۸۲ ء سے لیکر ۱۹۹۷ ء میں نیروی قدس میں شمولیت تک اس بریگیڈ
کےسربراہ رہے۔ ان کی سپاہ سالاری میں اس لشکرنےجنگ میں کلیدی کردار ادا
کیا۔
ایران عراق جنگ کا اختتام ۱۹۸۸ء کوہوا۔ جنگ کےخاتمے کےبعد لشکر ۴۱ ثاراللہ
قاسم سلیمانی کی قیادت میں کرمان واپس آگیا اورمشرقی سرحدوں پراودھم
مچاتےاسمگلروں اور منشیات فروشوں کی سرکوبی میں مصروف ہو گیا۔ قاسم سلیمانی
سپاہ قدس کی کمان سنبھالنے تک اسی لشکر کی سربراہی کرتے رہے۔
قاسم سلیمانی کو ۱۹۹۸ ء میں نیروی قدس سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کا سپہ
سالار مقرر کیا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب افغانستان میں طالبان عروج پر
تھے۔کردستان کی سول جنگ کےتجربے کی بنیاد پر وہ بہترین انتخاب تھے ؛ اوراس
وقت افغانستان طالبان کےدورمیں سول جنگ کاشکارہوچکاتھا تو ایسےمیں وہی ان
محاذوں پر بہترین کرداراداکرسکتے تھے۔اور اہم ترین بات یہ تھی کہ قاسم
سلیمانی نے سپاہ قدس کی سپہ سالاری سنبھالنے تک جوتجربہ آٹھ سالہ ایران
عراق جنگ اور اس کےبعدایران اورافغانستان کےمنشیات فروشوں اوراسمگلروں کی
سرکوبی سے حاصل کیا تھا وہ عسکری اعتبار سے بہت ہی قیمتی تھا۔
موساد کےسابق سربراہ میئر داگان کےبقول:’’وہ ہر پہلو سےنظام پرنگاہ اورگرفت
رکھنےوالا ہےاورشاید وہی ایک ہےجسے میں سیاسی فطین کہہ رہا ہوں۔‘‘
اس قول کا پس منظر یہی ہے کہ امریکہ و اسرائیل اور ان کے اتحادی حواریوں کی
پشت پناہی میں عراق اور شام جیسے ممالک میں بننے والی دہشت گردتنظیم داعش
کہ جسکی شدت پسندی کا مہیب سایہ پوری دنیا پر منڈلا رہا تھا ، ہر طرف تباہی
ہی تباہی نظر آرہی تھی ،عراق و شام جیسے ملکوں میں عام شہریوں خاص مذہبی
اقلیتوں کو انتہائی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار جارہا تھا گویا یہ دولت ِ
اسلامیہ کےخونخوار مسلم ہولوکاسٹ کی تاریخ دہرا رہے تھے اور ساری دنیااور
عالمی طاقتیں ان کے ظلم و بربریت اور دہشت کے آگے گھٹنےٹیک چکی تھیں ایسے
میں قاسم سلیمانی شہیدؒ اپنے مٹھی بھر جیالوں کے ساتھ وہاں خیمہ زن ہوئے
جہاں ان کا مرکز و حکومت تھی اور نہایت ایمانی و دینی حمیت کامظاہرہ کرتے
ہوئے،مظلوموں کی آواز اورسسکتی مسلم امہ کی امید کا کرن بن گئے اور اپنے
دئیے ہوئے وعدے کے مطابق تین مہینے کے اندراس تنظیم کا قلع قمع کرنے میں
ناقابل فراموش اہم اور کلیدی کردارادا کرکے پوری دنیا میں یہ منادی کردی کہ
:
فیض ہوگا جہاں میں عام مرا خدمت خلق ہوگا کام مرا
ہم ہی وہ صاحب ایمان اور اہل دانش ہیں جو اللہ کے احکام (اوامر و نواہی) پر
عمل کرکے اپنے رب سے کئے عہد و وعدے پر عمل پیرا ہیں۔
الَّذینَ یُوفُونَ بِعَهْدِ اللّهِ وَ لا یَنْقُضُونَ الْمیثاقَ۔۔۔
جو خدا کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور اقرار کو نہیں توڑتے۔۔۔
شہید جنرل قاسم سلیمانی ؒنے لبنان میں حزب اللہ کی عسکری قوت و تربیت،
جنوبی لبنان سے اسرائیل کی پسپائی، جنگ افغانستان، صدام حسین کے بعد عراق
میں سیاسی اور سفارتی فضا کی تشکیل نو، شام کی خانہ جنگی اور عراق میں داعش
سے مقابلے میں اہم کردار ادا کیا۔
عراق میں موجودگی اور داعش سے نبرد آزمائی کے دوران میں حکومت ایران نے
متعدد بار ان کی عسکری کامیابیوں کی تصاویر کو شائع کیا جس سے ان کی شناخت
عوام تک پہنچی اور لوگ نہ صرف یہ کہ ان سے متعارف ہوئے بلکہ انہیں چہرے سے
پہچاننے لگے۔ یہیں سے ان کی ہردلعزیزی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ میڈیا میں وہ
عموماً "ظلی کماندار" (Shadow commander) کے لقب سے مشہور تھے۔
انقلاب ایران کے بعد پہلی بار مارچ ۲۰۱۹میں رہبرمعظم انقلاب اسلامی سید علی
خامنہ ای حفظہ اللہ نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں شہید زندہ کا خطاب
دیا۔ اور بعد از مرگ انہیں لیفٹینٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی۔
انقلاب ایران کی کامیابی کے بعد پہلی باراسلامی جمہوریہ ایران کا اعلی ترین
عسکری اعزاز’’ذوالفقار‘‘رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید
علی خامنہ ای حفظہ اللہ کے مبارک ہاتھوں سے جنرل قاسم سلیمانی نے وصول کیا۔
نیز اس سے قبل ایران کا اعلی ترین فوجی اعزاز ’’فتح‘‘ تھا جو تین بار جنرل
اسی شہید باہمت قاسم سلیمانی کو ملا ۔
سپاہ قدس میں نمائندہ ولی فقیہ حجت الاسلام علی شیرازی کہتے ہیں کہ سلیمانی
نے اپنی تعیناتی کے دوران میں ایک ریال یا ایک ڈالر لینے کے بھی روادار نہ
تھے اور اکثر مجھ سے کہتے میں اپنے بیوی بچوں کی اخراجات خود برداشت کرتا
ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ قاسم سلیمانی کی شہادت ہمارے لیے انتہائی
بڑا صدمہ ہے لیکن وہ ہمیشہ اس کی آرزو کرتے تھے اور میں جانتا ہوں کہ یہ ان
کی چالیس سالہ خواہش تھی۔مگر!
یوں ہی نہیں مشہورِ زمانہ میرا قاتل
ایران و اسلام دشمن امریکہ و اسرائیل اور ان کے ٹکڑوں پر پلنے والی حکومتوں
کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکنے والے شہید جنرل قاسم سلیمانی ؒ کو ۳؍
جنوری ۲۰۲۰ء،میں امریکی ڈرون حملے میں اس لئے شہید کیا گیا کہ بہت تیزی سے
پوری دنیا میں خصوصاً مشرق وسطیٰ میں ایران اور دیگر ممالک کےدرمیان رشتہ
ہرگزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہوتاجارہاہے اور اس پائیدارتعلق کا ذریعہ میجر
جنرل قاسم کی جد و جہد اورحکمت عملی کی رہین منت تھی نیزایران اور ایران کے
اس بہادر و شجاع ،جاں باز سپاہی کیوجہ سے امریکہ کے دنیا پرخاص کر میڈیل
ایسٹ پرقائم رعب و دبدبے کا بت پاش پاش ہوگیا!
وہ رُعب و دبدبہ وہ جلال کھوگیا
وہ حسنِ بے مثال وہ جمال کھوگیا
جیساکہ امریکی حکام نے قاسم سلیمانی کی شہادت کو اپنے دفاع میں اٹھائے جانے
والا اقدام کہتے ہوئے اسے جائز قرار دیا ہے تاکہ مستقبل میں امریکی مفاد پر
کوئی ’بڑا‘ حملہ نہ کیا جاسکے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس واقعے کے بعد اپنا ردعمل دیتے ہوئے ٹویٹ کیا تھاکہ ’جنرل
قاسم سلیمانی نے ایک طویل مدت کے دوران ہزاروں امریکیوں کو ہلاک یا بری طرح
سے زخمی کیا ہے، اور وہ بہت سے لوگوں کو ہلاک کرنے کی سازشیں کر رہا تھا۔۔۔
لیکن وہ مارے گئے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیونے مزید کہا تھا کہ ایرانی حکمرانوں کے
اقدامات کی وجہ سے پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہورہاہے اور امریکہ خطے
میں اپنے مفادات، عملے ،تنصیبات اوراپنے حریفوں کے تحفظ کے اپنے عزم پرقائم
ہے اور وہ اس سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
اسرائیل یہ سمجھتاہے کہ میجرسلیمانی کی شہادت امریکہ کی خطےمیں ایک نئی
انگیجمنٹ ہے جیساکہ سال کے اختتام پراپنے ایک بیان میں اسرائیل کی افواج کے
چیف آف سٹاف جنرل آویو کچاوی کا کہنا تھا کہ:یہ بہتر ہو گا اگر ہم اکیلےنہ
ہوں۔
اسرائیل میں دفاعی نامہ نگارالیکس فشمین نےسلیمانی پرحملے کےبعد کہا تھا کہ
:ہم اب اچانک تنہا نہیں رہے۔یہ ہماری حکمت عملی کا ایک معجزہ ہے۔ہم نےبھی
اس طرح اپنے صف اول کے دشمن کا خاتمہ کر دیا۔
اسرائیلی تجریہ کاروں کےمطابق قاسم سلیمانی ایران کے فوجی اثر ورسوخ کو
پراکسی گروہوں اور دیگر طریقوں کےتحت اسرائیل سمیت اس کےاردگرد ممالک میں
بڑھاناچاہتے ہیں...یہ ساری باتیں ،یہ سارے تجزیے اور تبصرے اپنی جگہ اصل
اسباب و وجوہات تو یہ ہے کہ :
۱۔خطے میں آزادیٔ رائے ،آزادیٔ فکراور عدل و انصاف پر مبنی حکمرانی اور
علاقائی استحکام کے معاملات پر قاسم سلیمانی کی جاں فشانی ...
۲۔ سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات غیریقینی صورتحال میں ایران کے ساتھ
پرامن فضا ہموار کرکے مشرق وسطی میں امن و سلامتی کو یقینی بنانا۔۔۔
۳۔ امریکہ کی عراق کے معاملات میں بے جا مداخلت اورامریکہ اور اس کے
اتحادیوں کی جانب سے نام نہاد شدت پسندتنظیم دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں پر
قابو پاکرانہیں واصل جہنم کرنے کا عزم وارادہ۔۔۔
۴۔عراق،شام اور لبنان وغیرہ میں ایران کی حمایتی گروہ (بشارالاسد،شیعہ
ملیشیا،حزب اللہ وغیرہ)کا اسرائیل و امریکہ کے خلاف کھل کر میدان میں
اترآنا۔۔۔
۵۔ چین اور روس کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات ؛بحر ہند اور بحر عمان میں
امریکہ کی غیر قانونی حرکتوں پر ایران کی گہری اور عقابی نگاہیں ۔۔۔
۵۔عالمی جوہری معاہدہ کی افزودگی جاری رکھنے کا اعلان...اور ایران کی مسلح
افواج خاص کرپاسداران انقلاب کی بڑھتی ہوئی دفاعی طاقت و توانائی ۔۔۔
بہرحال!
میرا دشمن پریشاں ہے میرے ایمانی قوت سے وہ جب بھی وار کرتا ہے تو خنجر ٹوٹ
جاتاہے
تاریخ میں جنرل قاسم سلیمانی ؒشہید کی حیات،خدمات اور قتل کے وجوہات سنہرے
حرفوں سے لکھا جائے گااور آنے والی نسلیں ان پرفخر کرے گی۔۔۔مغربی طاقتیں
بالاخص امریکہ و اسرائیل جیسے مکار و عیار اور زخم خوردہ دشمن اپنا کام
کرتے رہیں گے اور ہم اسکا کام کرتے رہیں گے۔ہر محاذ پر عبرتناک شکست ان کا
مقدر رہے گی اوراعلائے کلمۃ الحق اور ابطال باطل کے لئے راہ الہی میں لہو
کا نذرانہ پیش ہوتا رہے گا۔سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت دونوں ہی اسلام
کا نصب العین اور طرّہ امتیاز ہیں۔
جنرل سلیمانی کی شہادت کےبارے میں ماضی میں متعدد بار اطلاعات سامنے آئیں
تھیں جس میں 2006 میں ایران کے شمالی مغربی علاقے میں فوجی ہیلی کاپٹر کے
حادثے کے بعد ان کا نام آیا اور اس کے بعد 2012 میں دمشق میں ہونے والے بم
حملے کے بارے میں خبریں آئیں کہ وہ شامی صدر بشار الاسد کے فوجی افسران کے
ساتھ اس حملے میں شہید ہو گئے ہیں۔نیز اسی طرح 2015 نومبر میں ایسی افواہیں
بھی سامنے آئیں تھیں کہ وہ حلب میں شامی شہر میں شامی صدر کی شامی فورسز کے
ساتھ کارروائیوں کے دوران مارے گئے یا شدید زخمی ہو گئے۔لیکن وقت سے پہلے
موت نہیں آسکتی ابھی میرا وقت نہیں آیا!
میرے قاتل کو پکارو کے میں زندہ ہوں ابھی
پھر سے مقتل کو سنوارو کے میں زندہ ہوں ابھی
مگر!سال رواں 3/1/2020میں بغدادسے نشرہوئی خبرسےلوگ حیرت میں ڈوب گئے اور
ماحول غم زدہ ہوگیا۔صرف ایران ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں قاسم سلیمانی
،ابومہدی المہندس اور ان کے ہمراہ ساتھیوں کے مارے جانے پرغم وغصہ اور
احتجاج کاطوفان پھٹ پڑا، اس طوفان کے آگےعالمی سوپر پاور امریکہ واسرائیل
کا سارا گھمنڈاورتکبربھی چکنا چورہوکررہ گیا ہے ۔پہلی باردنیا کے
متکبرحکمراں کسی معاملہ پر پسپا ہوئے ۔
قاسم سلیمانی اوران کےساتھیوں کوشہیدکرنےوالےشایدیہ بھول گئےکہ جنرل قاسم
اپنے ساتھیوں کےہمراہ شہید تو ہوگئے مگر!دنیا کے ہر حریت پسند کو حق پر
مرمٹنے کاعزم دےگئے ۔
ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں ہے
خداوندعالم سےدعاہے کہ پروردگار!ان شہداء کوجنت کےاعلی مقامات عطاء
فرمائےاوران کے وارثین ورشتہ داروں اورپسماندگان کوصبرجمیل عطافرمائے...وہ
شہید تو ہوگئے مگر! ان کا عزم وارادہ اوران کامشن تاقیامت شہید نہیں
ہوسکتا۔جیساکہ حزب اللہ’’لبنان‘‘کے سربراہ رہبر مقاومت سید حسن نصراللہ نے
ان کی شہادت کے بعد کہا کہ ہم ان کی اس عظیم شہادت پر رشک تو کرتے ہیں
نیزان کے باقی اور نہ تمام رہ گئے ہیں مشن کو مکمل کرنے کے درپے بھی ہیں ۔
یقناً!وہ شہید تو ہوگئے مگر!اللہ کی راہ میں قربانیوں اورظلم وکفرکےخلاف
جنگ و جہاد کا سلسلہ قیامت تک جاری وساری رہےگااوراسلام دشمن عالمی دہشت
گردوں کوان شہداء کےخون کے ہرایک قطرےکاحساب دیناہوگا۔
وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا
فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا
عَظِيمًا |