ازبکستان میں چند روز

ازبکستان کے تفریحی دورے کا احو ال۔

ہوش سنبھالتے ہی تاشقند، سمر قند ، بخارا ، ماورالنھر اور تیمور لنگ کے قصے سن رکھے تھے جسکی نسل سے ظہیر الدین بابر جب ہندوستان کی جانب روانہ ہوا تو ابرا ہیم لودھی کو شکست فاش دیکر وہیں کا ہو رہا اور ہندوستان پر مغلیہ سلطنت کا ایک طویل اور شاندار دور گزرا، جو تقریبا دو صدیوں پر محیط تھا ۔أخری حکمران بہادر شاہ ظفر انگریزوں کے دور میں معزول کر دیا گیاتھا۔
ازبکستان میں تیمور لنگ ،' امیر تیمور' انکا ہیرو انکا فاتح حکمران ہے جسکی سلطنت ماورالنھر موجودہ ازبکستان سے لے کر مغرب میں افغانستان ، ایران اور ترکی بلکہ ہندوستان کے مغربی علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی
اور مشرق میں وسط ایشیا ،منگولیا اور چین تک جا پہنچی اسکی نسل کی حکمرانی وسط ایشیا پر تقریباً دو صدیوں پر قائم رہی ۔ اسکا پوتا مرزااو لوگ بیگ حکمران ہونے کے ساتھ اپنے وقت کا ایک مشہور سائنسدان اور ماہر فلکیات تھا جسنے ایک فلکیاتی رصد گاہ اور لیبارٹری بنائی تھی ۔ آپس کی عداوتوں اور جنگوں میں اسکی رصدگاہ تباہ ہوگئی تھی ماہرین آثار قدیمہ کو اسکے کچھ أثار ملے ہیں جو محفوظ ہیں اور جنکی ہم نے تصاویر بنائیں ۔
ظہیر الدین بابر کا ذکر ہماری گائیڈنےسر سری سے انداز میں کیا اور یہ بتایا کہ اسکے پوتے شاہ جہاں نے تاج محل بنایا جو کہ آج بھی سیاحوں میں بے حد مشہور ہے اور یونیسکو اسکی دیکھ بھال کا ضامن ہے ۔ وجہ اسکی یہ ہے کہ بابر انکی سرزمین سے ہجرت کرکے ہندوستان آیا اور یہیں کا ہورہا۔
جب پاکستان ٹریول فورم (جنکی واٹس ایپ گروپ کی میں پچھلے کچھ عرصے سے ممبر تھی ) نے ازبکستان کے تفریحی دورے کا اعلان کیا تو اسی زمانے میں ، میں پاکستان آنے کا سوچ رہی تھی اور مجھے اس دورے میں شامل ہونے کا بہترین موقع میسر آرہا تھا۔تو میں نے اس دورے میں شامل ہونے کی حامی بھری ۔ تاشقند،سمرقند و بخارا ایک زمانے میں علم و فضل کی آماجگا ہیں تھیں۔ انکے درسگاہوں کی حیثیت اسوقت وہی تھی جو آجکل ہارورڈ، ییل Yale، سٹینفورڈاور آکسفورڈ کی ہے ۔ دنیا بھر سے اور اسلامی دنیا سے طالبعلم یہاں کے دانشگاہوں کے علوم سے فیض یاب ہونے کیلئے کشاں کشا ں چلے آتے ۔
اب بھی یہاں ابتدائی تعلیم ۹۹% ہے لوگوں کا مزاج انتہائی مہذب اور دوستانہ ہے
لاہور سے ہماری پرواز سوا دو گھنٹے میں تاشقند پہنچی ، ایک ہی وقت اور موسم بھی یکساں ملا بعد میں ہمارے دورے کے نگران میجر طارق حیات نے بتایا کہ اسلام آباد سے بذریعہ سڑک افغانستان کے راستے یہاں کا فاصلہ 650 کلو میٹر ہے۔
ہمارا پچاس افراد کا گروپ تاشقند ائر پورٹ سے امیگریشن کے مراحل طے کرکے تصویر کشی کرتے ہوئے بس میں بیٹھ کر ائر پورٹ روانہ ہوا ۔ اطراف میں ایک صاف ،ستھرے منظم شہر میں ٹریفک رواں دواں تھا ۔ میری تقریباً رات جاگتے ہوئے گزری تھی اسلئے کہ رات سوابارہ بجے ہم اسلام آباد سے ایک وین میں روانہ ہوئے تھے پھر ساڑھے پانچ بجے لاہور ائر پورٹ پہنچے اور تمام مراحل سے گزرتے ہوئےاب تاشقند میں ہوٹل کی جانب روانہ تھے ۔ ہماری یہ بس یا کوچ بھی بین الاقوامی سطح کی تھی جسمیں آجکل عموما سیاح سفر کرتے ہیں ۔یہاں ہماری گائیڈ نائلہ ایک خوش شکل سمارٹ ازبک لڑکی تھی اسنےانگریزی میں ہمیں خوش آمدید کہہ کر ازبکستان اور تاشقند کے متعلق بتانا شروع کیا ۔
ازبکستان کی زبان از بکی کا رسم الخط Latin یعنی لاطینی ہے دوسری زبان یہاں روسی Russian ہے ۔ انگریزی ،شعبہ تعلقات عامہ کے لوگ خاص طور سے سیکھتے ہیں ۔ جنمیں شعبہ مہمان نوازی کے افراد،سیاحت کے گائیڈ ، ہوٹل کا عملہ اور دیگر شامل ہیں ورنہ عام بول چال میں انگریزی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اسلئے عام بول چال میں ہمارے لئے اشاروں کی زبان کا عمل دخل رہا۔ قیمتیں وہ زیادہ تر لکھ کر بتاتے اور اس پر اگر کچھ کٹوتی ہو سکتی تو ، یہ غنیمت ہے کہ ہندسے انگریزی میں لکھتے ۔
میجر طارق صاحب اور انکے ایک ساتھی طارق خواجہ روسی اور کچھ از بکی بولتے اور سمجھتے تھے ۔
روسی قبضے سے پہلے انکا رسم الخط عربی تھا اب بھی بہت سے الفاظ اردو،عربی اور فارسی سے ملتے جلتے ہیں بلکہ ایک اندازے کے مطابق اردو اور ازبک میں چار سو الفاظ ملتے ہیں ۔ اتنے دنوں میں یہ اندازہ ہوا کہ جہاں ہم الف بولتے ہیں وہ اسکو و بولتے ہیں جیسے چار کو چور ، افراسیاب کو افروسیوب،بخارا کو بخارو ،جومعہ مسجد جامعہ مسجد،اور اسی طرح بہت سے اور۔
یہاں کی کرنسی سوم کہلاتی ہے ہوٹل میں کرنسی بدلنے کا بوتھ تھا، جہاں ہم لائنوں میں لگ گئے ایک سو ڈالر کےتقریبا نو لاکھ انتالیس ہزار سوم کے نوٹ ملے ۔پل بھر میں لکھ پتی تو ہوگئے لیکن قیمتیں ہزاروں لاکھوں میں سنکر ہوش اڑ جاتے ہوٹل کے کمرے میں پینے کا پانی ختم ہوا تو ساتھی نے استقبالیہ پر فون کیا اسنے ایک بوتل کی قیمت دس ہزار سوم بتائی تو سوچا پیاسا رہنا ہی بہتر ہے ۔ کچھ غور کیا تو اندازہ ہوا کہ دس ہزار سوم ایک ڈالر کے برابر ہیں اور پھر اسی طرح حساب کتاب چلتا رہا ۔ان لاکھوں کو خرچ کرنے کے چکر میں جب سب کا صفایا ہوا تو سوچا کاش کہ ایک نوٹ سویئنئر کے طور پر بچا لیا جاتا۔۔
ساڑھے تین بجے ہمیں تاشقند کی سیر کیلئے روانہ ہونا تھا ، تیار ہوکر نیچے آئے ، بس میں ہمیں پانی کی بوتلیں ملیں میجرطارق کے ساتھ انکی بیگم بھی تھیں ان سے اور دیگر ہمراہیوں سے اب کافی تعلق قائم ہو چلا تھا ۔ ہمارے اس گروپ میں چند نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی اپنے والدین کے ہمراہ تھے پاکستان کے مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے معزز افراد،خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ تھی ۔ ہماری گائیڈ ہمیں مختلف عمارات اور انکے پس منظر کی تفصیلات بتاتی رہی۔ تاشقند سینٹرل پارک پر ہم اترے وسیع و عریض ، صاف ستھرا رنگ اور اشکال بدلتے ہوئے دلکش فوارے، نیچے کی طرف سیڑھیاں اتر رہی تھیں جہاں ایک خوشنما نہر اور اسکے کنارے مختلف جھولے تھے جیسے کہ یہ ایک تفریحی پارک ہو لیکن اسوقت یہ جھولے خاموش تھی ۔رنگوں اور روشنیوں کی بہار ہمارے ہر جانب تھی ۔ روشنیوں میں رنگوں اور ڈیزائینوں کا استعمال یہاں کا خاصہ ہے تقریبا تمام سڑکیں اسی طرح کی آرائشی رنگین روشنیوں سے بنے ہوئے دیدہ زیب ڈیزائن اور پھول پتوں سے مزئین ہیں۔ دور سے ہمیں ایک ٹاور نظر آیا جو روشنیوں سے جھلملا رہاتھا ۔ نایئلہ نے بتایا کی یہ یہاں کا ایفل ٹاور ہے یعنی ٹی وی ٹاور جسے دیکھنے ہمیں کل جاناتھا۔( ایفل ٹاور غالبا دنیا کا پہلا اونچا ٹاور تھا ۔ اتنے سارے ٹاؤر دیکھنے کے بعد مجھے وہ محض لوہے کا ایک ڈھیر سالگا تھا)
یہاں سے ہم ”شر شرہ“ ریسٹورنٹ میں کھانے کیلئے گئے ۔ وسیع و عریض ریسٹورنٹ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا بلند موسیقی کے ساتھ بیچ میں ڈانس جاری تھا اسمیں مختلف خواتین و حضرات اپنی اپنی میزوں سے اٹھ کر ہل جل رہے تھے ۔
ہماری تواضع سلاد ، ازبک نان اور سوپ سے کی گئی اسکے بعد ہمیں دنبے کے گوشت کے سیخ کے تکے وغیرہ دئے گئے بھوک بہت لگی تھی اور کھانا اچھا لگا ۔ میٹھے میں آئس کریم ملی۔ اب ڈانس میں کافی زور آگیا اورمختلف ملبوسات میں ڈانس کے مظاہرے کے بعد بیلی ڈانس کی باری آئی ، یہ نیم سے زیادہ عریانی اور بے حیائی میرے لئے اور چند دوسری خواتین کے لئے ناقابل برداشت تھی ۔ نوخیز لڑکیاں جس طرح سے اپنے پوشیدہ اعضاء کی نمائش کر رہی تھیں ۔شرم، دکھ ، صدمہ اور افسوس ۔ غالبا مسلمان لڑکیاں ہونگی کیونکہ یہاں ۹۰ فیصد مسلمان بستے ہیں ۔۔
ہوٹل واپس ہوئے ، یہ میران انٹرنیشنل پنج ستارہ ہوٹل ، کھلا کمرہ عمدہ سہولیات۔ نمازیں ادا کیں اور سونے کی تیاری کی اگلی صبح دس بجے نکلنا تھا۔
فجر کے بعد قدرے آرام کیا تو سات بجے سوچاکہ ڈائیننگ ہال میں ناشتے کے لئے جایا جائے ۔ ناشتے میں کافی لوازمات تھے ۔
آج ہم تاشقند کی تفصیلی سیر کے لئے جارہے تھے ۔ ہر جانب سیاحوں سے بھری ہوئی بسیں دیکھ کر اندازہ ہو رہاتھا کہ سیاحت یہاں زوروں پر ہے۔
پہلے ہم تاشقند میں زلزلے کی یادگار پر گئے۔ ۱۹۶۶ میں تاشقند میں ایک زبردست زلزلہ آیا جس سے شہر کی بیشتر عمارتیں تباہ ہوگئیں اموات اگرچہ زیادہ نہیں ہوئیں لیکن کافی لوگ زخمی ہوئے۔اس تباہی کی یادگار ایک مرد، عورت اور بچے کا مجسمہ بناکر دکھایا گیا ہے ۔ جو مضبوطی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اسکے اطراف میں ایک خوبصورت باغ ہے ۔
ہست امام مسجد ایک وسیع اسلامی کمپلیکس ہے اسمیں قرآن کریم کا وہ اولیں نادر نسخہ ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مرتب کیا تھا عثمان رض کا قرآن پاک کو محفوظ کرنیکا یہ بہت بڑا لاجواب کارنامہ ہے (قرآن پاک میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے “بے شک ہم نے اس ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اسکی حفاظت کرینگے" ) اس نادر نسخے کو امیر تیمور بغداد سے اپنے ساتھ لایا اور یہاں محفوظ کیا ،چمڑے کی جھلی پر انتہائی صاف خط کوفی کی عبارت کے صفحات کھلے تھے اندازأ ۲فٹ چوڑے اور چار فٹ لمبے صفحات تھے۔روسی سائنسدانوں نے اس نسخے کی حقیقت جاننے کیلئے جانچ پڑتال بھی کی تھی اور اسے سو فیصد اصلی نسخہ تسلیم کیا ۔اس نایاب نسخے کی زیارت کیلئے سیاحوں کا ایک ہجوم تھا ۔ تصویر کی اجازت نہیں تھی ِ میں نے اطراف کی ویڈیو بنانے کی کوشش کی لیکن وہاں موجود گارڈ نے مجھے منع کیا ۔ اسکے ساتھ دیگر قدیم نسخے اور کتا بیں تھیں ، مسجد میں ایک جانب امام بخاری انسٹیٹوٹ تھا جہاں دینی تعلیم حاصل کی جاتی ہے اسمیں ایک بہت بڑی لائبریری بھی ہے جو اسوقت بند تھی۔دوسری جانب ایک کشادہ چوکور بازار تھا ، نائیلہ نے بتایا کہ یہ ایک مدرسہ تھا جو بند کر دیا گیا ہے ۔ یہاں پر مقامی مصنوعات کی کافی دکانیں تھیں ۔ ہم خریداری میں لگ گئے ، ازبک اِکت ڈیزائن مجھے بہت بھایا اور میں نے اسکی ایک جیکٹ خریدی جو دس ڈالر کی تھی اور تمام دورے میں میرا نشان اور لیبل بن گئی ۔ اس ڈیزائن کی میں نے مزید اشیاء خریدیں ۔اس پورے کمپلیکس کی تعمیر بے حد شاندار ہے ۔ ہمیں صاف ستھرے وضو خانے بھی مل گئے جنکو طہارتخانہ کہا جاتا ہے ۔ پاکستان میں بھی اس اصطلاح کو رائج کرنا چاہیے۔( اس سے بیت الخلاء اور وضو خانے دونوں کا مقصد پورا ہوتا ہے اور اسلامی لحاظ سے درست ہے ۔ غسل خانے یا واش روم سے وہ مقصد پورا نہیں ہوتا ) مساجد میں خواتین کی نماز کا اہتمام بھی ہے، یہاں ہم نے ظہر اور عصر کی قصر نماز اداکی۔۔ہست اما م کے مزار پر فاتحہ خوانی کی۔ غنیمت ہے کہ اتنے سارے مزارات میں ہم گئے لیکن کہیں کوئی خلاف شرع حرکت دکھائی نہیں دی۔
پھر ہم ”جوزف سٹالن“کا عقوبتی میموریل دیکھنے گئے اس روسی ڈکٹیٹر نے ازبک عوام پر بے انتہا تشددکیا ، قتل و غارتگری کی ایک داستان رقم کی ۔
اسکے سامنے ہی یہاں کا ٹی وی ٹاؤر تھا جہاں داخلے کے لئے سخت سیکورٹی کے پیش نظر ہمارے پاسپورٹ اور ویزے جمع کئے گئے پھر یکے بعد دیگرے ہم داخل ہوئے اس ٹاؤر کی اندرونی آرائش اور راہداری کے اطراف کی تصاویر انتہائی اعلٰی اور بین الاقوامی پیمانے کی ہیں۔ کنارے پر دنیا کے تمام مثہور بلند ٹاؤروں کے ماڈل بمع تمام تفصیلات کے بنائے گئے ہیں۔ اسکے بعد ہم بذریعہ لفٹ ٹاور کی چھٹی منزل پر گئے جہاں سے تاشقند شہر کا نظارہ دیدہ زیب تھا ۔ ساتویں منزل پر revolving گھومنے والا ریسٹورنٹ تھا ۔ یہاں ہم نے ایک بریڈ باسکٹ کے ساتھ سبز چائے پی اور اسکے رفتہ رفتہ گھومنے سے لطف اندوز ہو ہی رہے تھے کہ اچانک احساس ہوا کہ باقی ساتھی سب جاچکے ہیں تو بھاگم بھاگ کر بس میں آئے ۔وہاں سے ایک جگمگاتے ہوئے بازار میں داخل ہوئے جسکو براڈوے سٹریٹ کہتے ہیں اس کے دونوں جانب مختلف مصور بیٹھے اپنے فن پارے بیچ رہے تھے ہمارے کئی ساتھی وقت ضائع کئے بغیر اپنی پورٹریٹ بنانے بیٹھ گئے، شاندار پورٹریٹ بناکر فریم بھی کروالئے۔
آج ایک اور ریسٹورنٹ میں رات کا کھانا اور تقریبا اسی قسم کے ناچ کا مظاہرہ تھا ۔ اسمیں ہمارے گروپ کے چند شوقین بھی شامل ہوئے۔
اگلی صبح ہم نو، سوا نو بجے نکلے، چمگان پہاڑوں کے جانب روانگی تھی ، یہ یہاں سےتقریبا سو کلومیٹر کے فاصلے پر تھے ۔ہماری گائیڈ اس دورے میں نرگس تھی جو اپنے دھیمے دلکش لہجے میں ازبکستان کے خوب قصے کہانیاں سناتی رہی ، اس سے معلوم ہوا کہ گھوڑے کا گوشت اور دودھ یہاں کافی لذیذ سمجھا جاتاہے ۔ خواہش تو ہوئی کہ چکھنا چاہئے ساتھ ہی اسنے بتایا کہ مختلف بیماریوں میں گدھے کا دودھ بھی پلایا جاتا ہے اور گدھے کا گوشت بھی کھا یا جاتا ہے اسنے اپنے بچپن میں گدھے کا دودھ کافی پیا تھا اور گوشت بھی کھا یا تھا ۔ اسی بناء پر اسکا شوہر اسکو اکثر کہتا ہے کہ اسی لئے اسکی عادتیں گدھے سے ملتی ہیں ۔(یہ لوگ سنی مسلمان ہیں لیکن ان جانوروں کا دودھ اور گوشت کھانا جائز سمجھتے ہیں ) ایک اور حیرت انگیز بات اسنے انار کے متعلق بتائی ، انار کی انکے ہاں بہت اہمیت ہے اور اسے پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے ۔ اسنے بتایا کہ بادشاہوں کے تاج کا ڈیزائن انار کے تاج سے لیا گیا ہے ۔ہم سب اسوقت لاجواب تھے جب اسنے انار کے اندر دانوں کا حساب پوچھااور پھر بتایا کہ ہر انار میں ۳۶۵ دانے ہوتے ہیں ۔ اسکو کبھی گننا چاہئے لیکن مجھے تو انار کے مختلف سائز کے حساب سے یہ بات محض گپ لگی،کیونکہ قندھاری انار تقریبأ آدھے کلو کے لگ بھگ، ہزاروں کے حساب سے دانے ہوتے ہونگے۔۔بہت سی قدیم عمارات میں انار کا ڈیزائن بنایا گیا ہے،مختلف کڑھائیوں میں انار نمایاں ہے۔
نرگس نے امیر تیمور کے کافی قصے سنائے ، امیر کی ایک بیوی بی بی جان چنگیزی نسل کی اسے بہت عزیز تھی وہ اپنے فتوحات اور مہمات پر روانہ ہونے سے پہلے ایک عظیم الشان مسجد بنانے کا خواہشمند تھا ۔ بی بی جان نے اسکی خواہش پوری کرنیکی ٹھانی اور ایک مشہور معمار کو اس مقصد کیلئے بلایا ، وہ معمار اسپر فدا ہوگیا ، مسجد ڈیزائن اور تعمیر کرنیکے لئے یہ شرط رکھی کہ وہ بی بی جان کے گال کا بوسہ لے گا اس بوسے کا اسکے گال پر ایک سرخ نشان بن گیا ۔ مسجد تیار تھی کہ امیر تیمور اپنی مہمات سے واپس ہوا ۔ مسجد دیکھ کر بہت خوش ہوا لیکن بی بی جان کے گال پر نشان دیکھ کر اس سےدریافت کیا ، اسنے ایمانداری سے سب کچھ بتا یا تو تیمور نے معمار کو چالیس ٹکڑے کر دیا اور بی بی کو محل سے نکلنے کا حکم دیا لیکن یہ کہ اسے صرف ایک چیز لے جانے کی اجازت ہے ۔ وہ بہت عقلمند عورت تھی اسنے تیمور کا انتخاب کیا اور یوں اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، وہ بہت اچھی شاعرہ بھی تھی۔
راستے کو دلچسپ اور پر لطف بنانے کیلئے ایک محترم ساتھی جنرل ایاز صاحب نے دلچسپ لطایف سنائے۔
نصف رستے میں ایک سرائے قسم کے خوبصورت مقام پر رکے ،یہاں بیت الخلاء استعمال کئے اور سبز چائے پی یہاں پر کئی سو سالہ قدیم عظیم الشان چنار کے درخت تھے ۔ایک بڑے کھوکھلے درخت کو دیکھ کر کیلیفورنیا کے سیکویا درخت یادائے۔حالانکہ کوئی مقابلہ نہیں تھا ۔۔۔
پہاڑی راستہ شروع ہوا ہی تھا کہ پولیس نے روک دیا ۔ انکا موقف یہ تھا کہ چند روز پہلے ایک بڑی بس پہاڑ سے لڑھک گئی تھی جس میں چند جانوں کا نقصان ہوا تھااور کافی لوگ زخمی ہوگئے تھے ۔ پہلے تو ہمیں معلوم ہوا کہ اب دو کوسٹر کا بندوبست کرنا پڑیگا جو اتنی جلدی ناممکن تھا ۔ بعد میں کیا مک مکا ہواکہ ہم روانہ ہو گئے۔کھلا راستہ تھا اور زیادہ دشوار گزار بھی نہ تھا ۔ قدرے خشک سا پہاڑ تھا ۔ نرگس نے بتایا کہ یہاں کی گرمیوں میں درجہ حرارت۵۰ ڈگری سنٹی گریڈ ہوجاتا ہے جبکہ سردیاں بھی کافی ٹھنڈی ہوتی ہیں اور منفی دس ڈگری تک درجہ حرارت پہنچ جاتا ہے ( دلچسپ امر یہ کہ اگلی ایک گائیڈ نے ۶۰ ڈگری اور دوسری نے ۷۰ ڈگری بتا یا جوکہ ناقابل یقین تھا ) ۔ سامنے چیئر لفٹ آجارہی تھیں اسکے ذریعے ہمیں پہاڑ کی دوسری چوٹی پر پہنچنا تھا تمام لوگ جیکٹوں اور سویٹروں میں ملبوس دکھائی دے رہے تھے اسی کے پیش نظر میں نے بھی اپنی جیکٹ چڑھا لی۔
روسیوں کے زمانے کی یہ چیئر لفٹ ابتدائی لیکن مضبوط دکھائی دۓ۔ میں اپنی کرسی پر تنہاتھی باقی سب دو افراد تھے۔ مجھے چیئر لفٹ اور کیبل کار کا ہمیشہ سے شوق رہاہے اسلئے کافی لطف آرہاتھا ۔ چڑھائی ، اترائی کا مر حلہ قدرے پریشان کن ہوتا ہے ۔ فوٹو گرافر جا بجا تصاویر بنارہے تھے ۔ اگلی چوٹی پر ایک راستہ تھوڑی دور تک جار ہاتھا لیکن آگے سے بند تھا اور جنگلے پر دنیا بھر کے تاگے ، کترنیں بندھی ہوئی تھیں ایسا لگ رہا تھا کوئی منت مراد والی جگہ ہے ۔ نرگس نیچے رہ گئ تھی ورنہ اس سے پوچھتے ۔ سب اپنی اور دوسروں کی تصاویر اتارتے رہے اور واپسی کاسفر شروع ہوا ۔ فوٹو گرافروں نے تصاویر دکھائیں اور فی تصویر پانچ ہزار سوم طلب کئے ، حساب لگایا تو ۵۰ سینٹ میں برا سودا نہیں تھا جبکہ عام طور سے ہم سے پندرہ ، بیس ڈالر طلب کئے جاتے ہیں جسےخوش اسلوبی سے ٹا ل دیا جاتا ہے ۔ دو تصاویر کے دس ہزار سوم ادا کئے ۔ اچھی یادگار تصاویر ہیں اور آجکل تو عام طور سے پرنٹ بنتے بھی نہیں ہیں ۔۔
نیچے ایک مقامی بازار تھا اور موبائل دوسیٹر گاڑیاں چکر لگانے کے لئے کرائے پر دستیاب تھیں ۔ چند ساتھی اس سے لطف اندوز ہوئے ۔ جڑی بوٹیوں کے اس بازار میں ہمارے علاقوں سے ملتی جلتی جڑی بوٹیاں ۔ مونگ پھلی اور تل کی پٹیاں ، بھنے ہوئے کدو اور سورج مکھی کے بیج ۔۔
یہاں سے واپسی پر ہم ایک عمدہ ریسٹ ہاؤس میں رکے ” چارباغ آرام گاہ“ اور اسکے کنارے ایک بڑی جھیل تھی ۔ خوبصورت صاف ستھری جگہ تھی ، بیچ میں بچوں کا پارک تھا ۔ غسلخانے سے ہوتی ہوئی گھومتے ہوئے جھیل تک پہنچی تو واپسی کا وقت ہو چلاتھا ۔جھیل کے کنارے ایک اچھا ساحل beach تھا اور کچھ کشتیاں بھی نظر آئیں ۔
ہم لوگ لنچ نہیں کرتے تھے جسکے پاس جو کچھ ہوتا سب میں تقسیم ہوجاتا ۔ میرے پاس کچھ میوہ تھا ، طارق صاحب خلیفہ کی نان خطائیاں (لاہور سے) ہم سب میں تقسیم کرتے ۔
واپس آئے تو تقریبا شام ہوچلی تھی ۔ ریسٹورنٹ میں پاکستانی کھانے کا اہتمام تھا کافی لطف آیا لیکن مزہ تب آیا جب طارق صاحب نے فوری طور پر ایک میٹھا بنوا دیا ۔ اصولأ اسکو ٹھنڈا ہونا چاہئے تھا لیکن گرم گرم بھی مزہ دے گیا ۔ پاکستانیوں کا بغیر میٹھے کے گزارہ نہیں ۔۔
اگلی صبح ہمیں ساڑھے چھ بجے ہمیں تیار ہوکر تاشقند ریلوے سٹیشن پہنچنا تھا جہاں سے ہم ”افراسیاب“ ٹرین سے جسکو مقامی زبان میں افروسیوب کہتے ہیں اور یہاں پر بلٹ ٹرین کہلاتی ہے ثمر قند جانا تھا۔
ہمارے منہ میں تو اس تاشقند ، سمر قند کے نام سے قند شکر کاذائقہ آتا ہے جبکہ
گائیڈ کے مطابق اسکے معنی ہیں “پتھروں کا شہر

اس سے پہلے اسکا نام افراسیاب تھا کیونکہ افراسیاب بادشاہ کی مملکت تھی۔
حافظ شیرازی کا ایک شعر ذہن میں اٹک گیا تھا۔بعد میں گوگل نے مددکی ۔
اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دل ما را.
......بخال ہندوش بخشم سمر قند و بخارا را….. حافظ شیرازی
دو راتوں کے لئے مختصر سامان لے کر باقی ہوٹل میں رکھوادیا
تاشقند ٹرین سٹیشن پہنچے ،عمدہ تعمیر اور نشستیں تھیں جب ٹکٹ تقسیم ہوئے تو مجھے اکیلے ایک اور ڈبے کا ٹکٹ ملا ۔میرے لئے اسمیں چنداں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔میرے ساتھ والی نشست پر ایک ازبک وکیل لڑکا تھا،غنیمت تھا کہ اسے قدرے انگریزی آتی تھی تو اس سے گپ شپ ہوئی، اس سے معلوم ہوا کہ کپاس یہاں کی اہم اور زر مبادلہ والی پیداوار ہے۔چونکہ آجکل بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائیل انڈسٹری زوروں پر ہے اسلئے پاکستان کے رستے یہ کپاس وہاں پہنچائی جاتی ہے ۔ ٹرین ٓرام دہ اور تیز رفتار تھی ٹرین کی جانب سے ہمیں چائے اور مختصر ناشتہ دیا گیا۔اطراف میں ہمارے پاکستان کی طرح ،مختلف کھیت اور باغات نظر آرہے تھےسرخ سیبوں سے لدے درخت بلوچستان کے چمن کے علاقے کا نقشہ پیش کر رہے تھے۔ وسیع علاقے پر کپاس کے کھیت بھی دکھائی دے رہے تھے ۔ ٹرین دو گھنٹے میں
سمر قند پہنچی اتر کر ساتھیوں سے یکجا ہوئی ، بہت سوں نے پریشانی ظاہر کی کہ میں کہاں غائب تھی ؟ اب ہمیں ایک اور بس اور گائیڈ ملی جسکا نام فرنگی تھا کہانیاں سنانے میں وہ نرگس سے بھی بڑھ کر تھی ،اب ہماری دو ساتھیوں کا کچھ سراغ نہیں مل رہا تھاانکو تلاش کرتے ہوئے تقریبا ۲۰۔۲۵ منٹ ضائع ہوئے ، یہ بس قدرے چھوٹی تھی اسلئے ساتھ میں ایک وین کا بندوبست ہوا۔یہاں سے ہم مشہور محدث امام بخاری ؒ کے مزار پر گئے ، فن تعمیر کا شاہکار یہ عمارت امام بخاریؒ کے مدفن کے علاوہ ایک بڑا مدرسہ اور مسجد ہے ساتھ والے برآمدوں میں حفاظ کے دو گروہوں میں تلاوت کا مقابلہ چل رہاتھا۔امام بخاریؒ کی عرق ریزی سے جمع کی ہوئی احادیث صحیح بخاری ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ان احادیث کی روشنی میں قرآن پاک کے احکامات کی بہترین تشریح ہوجاتی ہے۔آپکا نام محمد بن اسماعیل بخاری تھا ، بخارا میں پیدا ہوئے احادیث کی تگ و دو میں اسلامی دنیا میں دور دراز کے سفر کئے ۔عمر کا بیشتر حصہ مکہ اور مدینہ میں گزارا ،آخری عمر میں واپس آئے اور سمر قند میں وفات ہوئی آپکے مقبرے کی عمارت اور پورے کمپلیکس کی تعمیر اسلامی فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے۔
شاہ زندہ یا قاسم ابن عباسؓ کا روضہ مبارک
قاسم کو مقامی زبان میں قسوم کہتے ہیں آپ رسول پاک ﷺ کے چچا زاد بھائی تھے جو عمر میں کافی چھوٹے تھے رسول اللہ ﷺ سے انکی کافی مشابہت تھی ایک حدیت کے مطابق آپﷺ نے فرمایا، ”قاسم تم سب سے زیادہ کردار اورشکل صورت میں مجھ سے مشابہت رکھتا ہے“ مختلف روایات کے مطابق انکی قبر محض علاماتی ہے ۔ وہ کہیں زندہ غائب ہو گئے تھے یا شہید کر دئے گئے تھے۔ہم نے فاتحہ پڑھی اور تصاویر لیتے ہوئے نیچے آئے کیونکہ مزار کافی بلندی پر ہے۔( مزارات یا مقبروں کا عام قاعدہ یہ ہے کہ اسکا مدفن کہیں نیچے ہوتا ہے اوپر ایک علامتی قبربنادی جاتی ہے ۔ فلسطین اور اردن میں اسکو مقام کہتے ہیں ) نیچے ایک جانب ایک چشمے کے پانی کو محفوظ کر کے اوپر چوبارہ بناتھا یہاں مشہور ہے کہ اس چشمے کا پانی پینے والے نوجوان ہو جاتے ہیں ، پانی تو ہم نے ضرور پیا، میٹھا ٹھنڈا پانی،لیکن کوئی فرق نہیں پڑا البتہ مذاق خوب چلتا رہا کہ کوئی پہچانا ہی نہیں جارہا ہے !ازبکستان میں جس بات نے مزید متأثر کیا وہ یہاں کے زیبرا کراسنگ تھے۔ سڑک پار کرنیکے لئے جیسے ہی ہم کراسنگ پر قدم رکھتے ٹریفک دونوں جانب رک جاتا ، جب تک ہمارا آخری ساتھی گزر نہ جاتا اس سے ایک مہذب قوم کے نظم و نسق کا اظہار ہوتا ہے۔
گائیڈ نے بتایا کہ یہاں کی پچھلی نسل کی خواتین میں سونے کے دانتوں کے خول کا کافی رواج ہے، ایسی خواتین کافی نظر آئیں جب مسکراتیں تو سامنے سونے کے دانت جگمگاتے ۔ وہ جب گلے ملکر محبت کا اظہار کرتیں تو میں نے کافی کوشش کی کہ انکے سونے کے دانتوں کی تصویر کھینچ سکوں ایک خاتون ملیں تو میں نے دانتوں کی طرف اشارہ کیا ” دندان ، دندان لیکن جب تصویر آئی تو میرے دندان باہر تھے اوراسکا منہ بند۔ تسنیم انکے سنہرے دانتوں کی تصویر لینے میں کامیاب ہوئیں، اسکی لی ہوئی تصویر ہمارے لئے ایک یادگار ہے۔
یہاں کے باشندے عام طور سے صحت مند دکھائی دئے لیکن اتفاق سے کوئی موٹا نظر نہ آیا ازبک قوم ترک اور تاتاری نسل کا امتزاج ہے، انکی رنگت صاف یا گندمی ہے ۔ یہاں کی خواتین عام طور سے مخمل یا شنیل کا لباس شوخ رنگوں میں زردوزی اور مختلف کڑھائی کے ساتھ میکسی کی صورت میں پہنتی ہیں ساتھ میں خوشنما ٹوپیاں اور چادر یا اسکارف ہوتا تھا ۔ مردانہ لباس پتلون ، قمیص ہی تھا اکثر نے ازبک ٹوپی پہنی ہوتی ۔اسکول کی لڑکیاں یونیفارم کے نیلے سکرٹ میں نظر آئیں جبکہ لڑکوں کی سفید قمیص اور ہلکی نیلی پتلون ہے۔ ازبکستان ۱۹۹۲ میں روسی تسلط سے آزاد ہوا ہے ۔روسی سوشلسٹ حکومت نے انکی شخصی اور مذہبی آزادی سلب کر دی تھی ۔ بیشتر مساجد اور مدرسوں پر تالے ڈالدئے گئے ، مساجد میں آذان اور نماز پر پابندی تھی۔دین لوگوں کے گھروں تک محدود ہو گیا تھا اور بیشتر نابلد ہوگئے ۔ الحمدللہ اب پھر سے لوگ دین کی طرف آگئے ہیں مساجد میں اچھی خاصی حاضری ہوتی ہے ،گائیڈسے جب قرآن کے پڑھنے کا دریافت کیا تو اسنے بتا یا کہ وہ سیکھ رہی ہے ۔ جہاں کہیں عربی یا فارسی عبارت دکھا ئی دیتی تو اس کیلئے پڑھنا ناممکن تھا۔ اب بھی مساجد حکومت کے کنٹرول میں ہیں جمعے کا خطبہ اور دیگر تقاریر کو جانچا جاتاہے مدرسوں پر بھی مختلف پابندیاں ہیں ۔اصل مقصد انتہا پسندی کو روکنا ہے۔
سمر قند میں پیغمبر دانیال کی قبر پربھی حاضری دی،عیسائی انکو سینٹ ڈینیئل کہتے ہیں انکے متعلق یہ بتایا گیا کہ امیر تیمور انکی باقیات ایران سے لائے اور یہاں دفنایا جبکہ دیگر کے مطابق قدیم عیسائی انکی باقیات لائے تھے ۔ (انکایا اسی نام کے ایک اور بزرگ کا مزار سوسہ ایران میں بھی ہے )یہ مقبرہ بھی کافی بلندی پر ہے ۔ امیر تیمور کے روحانی پیشواشیخ برہان الدین آرام گاہ بھی ہے ۔۔ہم نے ہر جگہ فاتحہ پڑ ھی شاہ زندہ کے
مقبرےتک جانے کیلئے تقریباً ۴۰ سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔ ہماری گائیڈ بتا رہی تھی، کہ سیڑھیاں چڑھتے اور اترتے وقت
اسکو گنا جائے اور دونوں طرف سے پوری ہوں تو اگر کسی خواہش کا اظہار کیا جائے، تو وہ پوری ہو جاتی ہے۔ سیڑھیاں گننا تو ایک طرف، مجھے اپنے دکھتے ہوئے گھٹنوں کے ساتھ انہیں چڑھتے وقت ایک چیلنج کا سامنا تھا ، یہ غنیمت ہے کہ سیڑھیاں تکلیف دہ نہیں تھیں اور ساتھ میں ریلنگ بھی تھی ۔امیر تیمور کے مقبرے پر حاضری دی تو یہاں کئی قبریں دکھائی دیں امیر نے اپنے استاد یا اتا لیق کے قدموں میں دفن ہونا پسند کیا امیر کے ساتھ انکے خاندان کے شہزادے ، شہزادیوں اور مشہور پوتے مرزا اولوگ بیگ(مرزا الغ بیگ) کی قبر بھی ہے ۔ اصل قبور نیچے تہہ خانے میں ہیں جس پر تالا پڑا ہوا ہے اور کڑا پہرہ ہے ۔تاشقند ، سمر قند دونوں شہروں میں امیر تیمور کا یادگاری مجسمہ نصب ہے جسمیں وہ ایک جنگجوکی صورت میں گھوڑے پر سوار ہے ۔ازبک حکومت اور عوام امیر تیمور پر بہت فخر کرتے ہیں ، اسکا مظاہرہ ریگستان سکوائر میں ”آواز اور روشنیوں“ کے شو میں زیادہ دکھائی دیا۔ ریگستان اسکوائر اسلامی فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ سمرقند کے وسط میں واقع ہے یو نسکو نے ۲۰۰۰۱ میں اسکو ”دنیا کےورثے“ میں شامل کیا ہے ۔ہم یہاں مقامی ریستوراں میں کھانا کھانے کے بعد پہنچے تھے اسلئے اندھیرا ہو چلا تھا ازبک میں ریگستان کے وہی معنی ہیں جو اردو میں ہیں ۔باقی عمارت تو بند تھی اسلئے محض جاننے پر اکتفا کیا ۔ یہ شاہراہ ریشم پر ایک اہم تجارتی اور اعلاناتی مرکز تھا ،یہاں مجرموں کو سزائے موت بھی دی جاتی تھی ۔اسکے تین اطراف میں تین مشہور درسگاہیں یا مدرسے تھے ۔الغ بیگ مدرسہ، شیردور مدرسہ اور طلا کوری مدرسہ ،ان مدرسوں کی اعلٰے پائے کی تعلیم کا درجہ وہی تھا جو آج دنیا کی مشہور و معروف درسگاہوں کا ہے۔
علامہ اقبال نے اسی حوالے سے فرمایا تھا
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں انکویوروپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ
زمانے کے ادوار سے گزرنے کے بعد رفتہ رفتہ اسکی عمارت بوسیدہ ہوتی گئی ۔ روسی غلبے میں مدرسے تو بند کردئےگئے لیکن روس نے اس تاریخی سرمائے کی قدر کی اور اسکو اپنے اسی قدیم اسلامی طرز تعمیر کے مطابق مرمت کیا۔
ابتدا میں اندازہ نہیں ہوا کہ رات کے ساڑھے آٹھ بجے یہاں اسقدر رونق کیوں ہے جو کہ بڑھتی جارہی ہے تو معلوم ہوا کہ ساڑھے نو بجے یہا ں ”لائٹ اینڈ ساؤنڈ شو ہوگا یہ ہمارے لئے ایک بہترین موقع تھا اسلئے سیڑھیوں پر نشستیں سنبھال لیں ، کچھ ہی دیر میں سامنے کی جانب ساری سیڑھیاں بھر چکی تھیں (اس مظاہرے کا مصرمیں مہنگا ٹکٹ خریدا تھا )بہترین ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ یہ شو انتہائی اعلٰے پیمانے کا تھا ۔ دنیا کی تہازیب ، اسلام کی آمد کے بعد کا دور اور امیر تیمور کی آمد جیسے ہی دکھائی گئی ،تمام مجمع تالیاں اور سیٹیاں بجا کر خوشی سے دیوانہ ہوگیا۔ دن میں مرزا الغ بیگ کی فلکیاتی رصد گاہ کا کچھ حصہ جو کھدائی کے بعد برآمد ہوا تھا دیکھا مرزا الغ بیگ امیر تیمور کے پوتے ، ماہر ریاضی دان اور ماہر فلکیات تھے۔انہوں نے اس موضوع پر متعدد کتابیں لکھیں ۔

مشہور کیمیا دان بو علی سینا ، اور ماہر ریاضی دان الخوارزمی بھی سمرقند کے باشندے تھے لیکن افسوس کہ انکی کوئی یادگار نظر نہ آئی۔اسکندر اعظم کی بیوی رخسانہ بھی سمرقند کی تھی، جس کو اس نے دنیا کی حسین ترین خاتون قرار دیا تھا۔ اسی شہر نے امریکی شاعر ایڈگرالن پاوؤ کو تیمورلین پر نظم لکھنے کیلئے اکسایایہاں
مسجدوں اور میناروں کا ایک لامنتاہی ساسلسلہ شہر کی تاریخ اورانفرادیت بیان کرتا ہے۔ حکومت نے بھی ہر عمارت اور مقام کو محفوظ بنانے ‘ اس کے روایتی حسن کو برقرار رکھنے کے لیے روپیہ پانی کی طرح بہایا۔ شہر میں جہاں بھی جائیں قدیم اور جدید تہذیب کا امتزاج دیکھنے کو ملتاہے۔ پرانی آبادیوں کو اس طرح سنوارا گیا ہے کہ وہ شہر کی رونق بن گئی ہیں۔صفائی ستھرائی کا معیار یورپ سے کم نہیں۔ پارکوں اور سیر گاہوں کاکوئی شمار نہیں۔شہر کی سیر کرتے ہوئے، ایک پہاڑی پر ایک قلعہ کے کھنڈرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہماری گائیڈ نے کہا کہ یہ وہ سمر قند ہے جس کو چنگیز خان نے تباہ کردیا تھا۔ ۲۷۵۰سالہ قدیم اس شہر کا اصل نام افراسیاب تھا۔ مسلم دنیا کے گہر یا موتی کہلانے والے اس شہر نے متعدد حملہ آورں کو دیکھا ہے۔ ابنِ بطوطہ نے اس شہر کے نواح میں باغات اور انکے میووں کی شیرینی کا خصوصی تذکرہ کیا ہے۔اسی طرح بھاگتے دوڑتے جب امام بخاری کے مقبرے سے نکلے تھے تو سامنے ایک لمبی گلی میں بازار تھا ۔ واپسی پر ہملوگوں نے موقع غنیمت جانا اور خریداری میں مصروف ہوئے ۔ ایک اور اہم بات جو فرنگی نے بتائی اور قبرستان دکھایا کہ یہاں روسیوں سے متأثر ہوکر قبروں کے کتبے پر مرنیوالے کی تصویر لگائی جاتی ہے ۔ازبکستان میں مذہبی ہم آہنگی ہے ، یہودی اور عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو ہر طرح کی مذہبی آزادی میسر ہے۔
اسلئے ہوٹل جاکر بستر پرلیٹنے کی کوشش میں تھی کہ میری ساتھی نے واش بیسن میں پانی بھرنے کا شور مچایا دیکھا تو اندر سٹاپر پھنساتھا ۔۔
ناشتے سے فارغ ہوکر جلدی جلدی سامان سمیٹا اور نو بجے سمرقند سے بخارا روانگی کیلئے بس سے ریلوے سٹیشن کی جانب روانہ ہوئے ۔ سمرقند سٹیشن پر ایک جانب سے سیڑھیاں اتر کر نیچے سرنگ سے دوسری جانب نکلنا چھوٹے بکس کے ساتھ بھی مشکل لگا ایسکیلیٹر زبنا دیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا ۔
ٹرین پرانی تھی ہم چھ خواتین کا ایک کیبن تھا ۔ گپیں مارتے ہوئے کھاتے پیتے بخارا پہنچے۔
ازبکستان میں چند روز

قسط نمبر چھ

یہاں سٹیشن پر ”بخارو“ لکھا ہوا تھا ،موسم قدرے گرم تھا ،
بس اور گائیڈ ہماری منتظر تھی۔بخارا ازبکستان کا بڑا شہر ہے
پورے ملک کی آبادی تقریبا ۳۳ ملیئن ہے یعنی ساڑھے تین کروڑ سے بھی کم ،پاکستان میں کراچی کی آبادی ۲ کروڑ سے زیادہ ہے
بخارا کی آبادی تقریبأ ڈھائی لاکھ تھی ، بخارا اور سمرقند میں تاجک بھی کافی آبادہیں انمیں کیا فرق ہے ؟ غالبا ویسے ہی جیسے پنجابی اور پٹھان یا زبان کا فرق ہوگا۔ بخارا تاریخ میں ایرانی تہذیب کا اہم ترین مرکز تھا۔ اس کا طرز تعمیراور آثار قدیمہ ایرانی تاریخ کا اہم باب ہے ۔آتش پرست یا پارسی حکمران جیسے نوشیروان ، افراسیاب بخارا اور سمر قند کے حکمران تھے۔ بخارا کا قدیم مرکز یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں کئی مساجد اور مدرسے قائم ہیں

تاریخ اسلام میں بخارا پہلی مرتبہ 850ء میں سامانیوں کا دار الحکومت قرار پایا۔ سامانیوں کے دور عروج میں یہ شہر اسلامی دنیا میں علم و ادب کے مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا۔
مسلم تاریخ کے معروف عالم امام بخاریؒ اسی شہر میں پیدا ہوئے جنهیں پانچ لاکھ 500000 احادیث زبانی مع سند کے یاد تھیں۔ ان کی کتاب صحیح بخاری کسی تعارف کی محتاج نہیں۔
۱۲۲۰ میں چنگیز خان نے بخارا کو بری طرح تباہ کیا ، جس کے بعد یہ چغتائی سلطنت ، تیموری سلطنت اورخان بخارا کی حکومت میں شامل ہوا۔ یہاں کی دوسری مشہور شخصیت مشہور کیمیا دان بو علی سینا ہیں۔
بخارا کی سڑکوں سے ہوتے ہوئے ہوٹل ”ٹوران پلازا“پہنچے عمدہ ہوٹل لگا ۔ کمرے کی چابی وغیرہ ملنے میں کچھ وقت لگا ۔تازہ دم ہو کر نیچے آئے اور ”لب حوض“ عمارت میں پہنچے یہ شاندار عمارت اسم بامسمٰی تھی اسلئے کہ ایک حوض کے کنارے پر درختوں کے بیچ میں تعمیر کی گئی تھی ۔ توت یا شہتوت کے بڑے بڑے درخت نظر آئے ، معلوم ہوا کہ توت صوفیاء کا پسندیدہ درخت ہے اسکے پتوں اور چھال سے یہاں کاغذ تیار کیا جاتا تھا ۔ یہ ایک بالکل نئی بات معلوم ہوئی ۔ پاکستان میں اسکے پتے ریشم کے کیڑوں کا کھا نا ہے اور پھل ہمارا۔
ایک اور بات یہ معلوم ہوئی کہ ازبک باشندوں کو سفید رنگ کی کار بہت پسند ہے اور یہ دوسرے رنگ کے کار سے مہنگی ملتی ہے ۔
یہاں سے ہوتے ہوئے ہم ایک قدیم مسجد میں گئے Magoki Attori mosque اس منفرد مسجد کی تعمیر ایک پارسی معبد کے اوپر کی گئی ہے اس تمام مرکزی علاقے میں اسلامی طرز تعمیر کے منفرد گنبد ، مینار اور محراب دکھائی دے رہے تھے ۔ یہاں آتے ہوئے رستے میں گائیڈ نے قدیم بخارا قلعے کی دیواریں اور فصیل دکھائی۔
اب ہمارا رخ ”چار مینار“ مدرسے کی جانب تھا، چار مینار تک پہنچنے کیلئے ہم مختلف گلیوں سے ہوتے ہوئے پہنچے یہ گلیاں اور اسکے کنارے بنے ہوئے مکانات ،پاکستان کے گاؤں اور قصبو ں سے بہت مشابہ تھے۔، مکانات اونچی مضبوط چار دیواری چوڑے دروازے یا گیٹ اور ویسے ہی اینٹ گارے کی تعمیر ۔۔ گلیاں ناہموار اورتنگ سی ۔
خلیفہ نیاز کل“ نے اسے تعمیر کروایا تھا ۔ گائیڈ نے بتایا کہ خلیفہ ہندوستان کے دورے پر گیا تھا ۔ حیدر آباد دکن کے چار مینار سے وہ اسقدر متأثر ہوا کہ واپس آکر یہ مدرسہ تعمیر کیا ۔ ان تمام عظیم الشان مدرسوں کو دیکھ کر اس خطے کے علم وفضل کا اندازہ ہو رہا تھا۔یہ بھی اپنے زمانے میں ایک مشہور مدرسہ تھا ۔ ان مدرسوں کی حیثیت وہی تھی جو آجکل اعلٰی پیمانے کے سکول ، کالج اور یونیورسٹی کی ہے ۔چار مینار ، فن تعمیر کی اس شاہکار عمارت کے اندر فارسی میں تعمیر کا سال ۱۲۲۲ ہجری مطابق ۱۸۰۷ عیسوی درج تھا ۔ اسکے مطابق یہ کوئی سوا دو سو سال قدیم تھی ۔۔۔
یہاں سے بس کی طرف واپس جارہے تھے کہ ایک ٹھیلے پر ایک ساتھی کیلا خریدتی دکھائی دی ، اچھے کیلے تھے ایک میں نے بھی خریدا ۔ وہاں خواجہ صاحب بھی پہنچے ،میں نے بیچنے والی خاتون کو ۵۰ ہزار کا نوٹ دیا تو وہ کہنے لگی کہ پانچ چیزیں خرید لو تمہارے پیسے پورے ہو جائینگے ۔ ہر چیز دس ہزار سوم( ایک ڈالر ) کی تھی ۔ تل کی پٹی اور بادام کے نقل کے چھوٹے چھوٹے پیکٹ خریدے ۔ مڑ کر دیکھا سب جاچکے تھے ، خواجہ صاحب سے رستے کا پوچھا کہنے لگے وہ جو گاڑی جارہی ہے اس طرف چلی جائیں ۔ وہاں پہنچی تو راستے دونوں جانب تھے میں بائیں ہاتھ پر مڑی ایک آدمی دکھائی دیا تو اسے میں نے اشاروں میں اپنی بس کا بتا یا ۔ وہ ایک طرف لے جانے لگا تو مجھے یہ رستہ نامانوس لگا ۔میں پھر واپس آئی اور سیدھے ہاتھ پر مڑی یہاں بھی ایک شخص ملا اور الحمدللہ مجھے بس تک بحفاظت پہنچا دیا ۔ اس شخص کیلئے میرے دل سے اب بھی دعائیں نکلتی ہیں ۔ اللہ تعالٰی نے بہت بڑی مصیبت سے بچا لیا تھا ۔
بس میں بیٹھ کر اوسان بحال ہوئے، اب ہم بخارا کے ریگستان سکوائر پہنچے یہ وہی قدیم اور شاندار طرز تعمیر پر بنا ہوا ہے ،ان برجوں اور دروازوں سے اندر داخل ہوئے چاروں جانب مقامی مصنوعات کی دکانیں ہیں ، بیچ میں میزیں لگی ہوئی ہیں اور کھانا پیش کیا جارہاہے جبکہ ایک جانب موسیقار بیٹھے ہیں اور ثقافتی ناچ گانا ہورہا ہے ۔مختلف ملبوسات میں لڑکے لڑکیاں اپنے فن کے کمالات دکھاتے رہے ۔درمیان میں ملبوسات کی ماڈلنگ بھی ہوتی رہی۔ کھانے کا دور شروع ہوا ، خوشی ہوئی کہ گوشت کے علاوہ سبزیاں اور سلاد بھی ہے ۔ موسم قدرے خنک لیکن بہت خوشگوار تھا ۔ کھانا کھاکر تھوڑی خریداری بھی کی اور واپس چلدئے۔ ایک دوکاندار دوسری کو آپو گل“پکار رہی تھی تو بہت اپنی اپنی سی لگی۔

اگلی صبح دس بجے ہوٹل سے باہر ایک پک اپ پر بخارا کے نان برائے فروخت تھے ایک کلو کا ایک نان ، میں نے ایک ہی پر اکتفا کیا جب کہ اکثر ساتھیوں نے دو دو خریدے خیال آیا کہ چکھنا چاہئے ہمارے عام سے نان کا ذائقہ تھا پھر میں نے اسکی تقسیم میں کوئی تاخیر نہیں کی جبکہ اکثر ساتھی اپنے ساتھ لائے اور دلچسپ تجربات سے دو چار ہوئے۔۔ ہمارے پاس تقریبا چار گھنٹے تھے اسلئے کہ ڈھائی بجے تاشقند کے لئے ہماری روانگی تھی ،تو حالت یہ تھی کہ وقت کم اور مقابلہ سخت ۔۔اس دوران بھاگ دوڑ کر جو دیکھا جاسکے ۔
بخارا کے انگور بہت اچھے لگے ، انار کا جوس ایک جگہ رک کر پیا ، نکالنے والی مشین وہی تھی جس سے پاکستان میں مالٹے کا جوس نکالتے ہیں ۔چھلکے کے ساتھ انار کو دبایا گیا، چھلکے کی تھوڑی کڑواہٹ تھی لیکن برا نہیں تھا۔
یہاں کے موجودہ ناموں میں روسی انداز میں ووف کا استعمال ہے جیسے پچھلا صدر اسلام کریموف موجودہ صدر شوکت مرزائیوف جو اپنے عوام میں اصلاحاتی اور ترقیاتی کاموں کے لئے بہت مقبول ہے اسی طرح خواتین میں ووا جیسے گلنارا کریمووا۔
حضرت بہاءالدین نقشبندی کے مزار پر حاضری دی ۔۰ پیدائش : ۳۰ نومبر ۱۳۲۷ وفات ۲۱ فروری ۱۳۹۰) یہ صوفی نقشبندیہ سلسلہ کے بانی تھے ( میرے اپنے دادا بھی نقشبندی بزرگ تھے ) یہ سلسلہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ مقبول اور بڑا سلسلہ مانا جاتا ہے۔ اس علاقے میں اسلام کی ترویج اور غلبے میں انکا بڑا حصہ ہے ۔انکے مزار کے احاطے میں ایک قبرستان تھا ۔جسمیں انکے مرید اور عزیز و اقارب دفن تھے ۔
انکے مزار کے پاس ایک کتبہ تھا جس پر انکا مشہور قول درج تھا ۔
”دل بہ یار و دست بہ کار“
یعنی دل کو اللہ تعالٰی کے ساتھ جوڑو لیکن ہاتھوں کو کام کے ساتھ۔۔
”خوش بیگی“کے آنگن میں بیٹھے ایک شاندار عمارت تھی فرش ، دیواریں سب بہترین اینٹوں سے بنے ہوئے ایک جانب یہاں کی مصنوعات کا بازار تھا ۔ اشیاء اچھی تھیں لیکن قیمت کافی زیادہ تھی ۔ سامنے بلندی پر ایک سٹیج تھا جہاں مختلف کاسٹیوؤم پہن کر ساتھیوں نے تصاویر اتاریں ۔ یہاں ایک پاکستانی جوڑے سے ملاقات ہوئی جو ٹورنٹو سے آئے تھے اور بعد میں وہ خاتون ایک ساتھی کی شناسا نکل آئیں۔۔ میری بات چیت ایک چیک خاتون سے ہوئی جو قزاقستان، تاجکستان اور ترکمانستان سے ہوتی ہوئی آئی تھی اسنے بتایا کہ تمام ستانوں میں کافی کچھ مشترک ہوتے ہوئے بھی فرق ہے ۔ اسکے مطابق ازبکستان باقی تمام سے غر یب ہے ۔ اسکا پیمانہ میں نے نہیں دریافت کیا ۔
کالیان مسجد اور میرِ عرب مدرسہ ، الغ بیگ اور عبدالعزیز خان مدرسہ سے ہوتے ہوئے ایک یہودی عبادت گاہ سائنوگاگ گئے یہاں پر یہودی اور مسلمان میں بھائی چارہ ہے یہودی یہاں اپنی عبادات میں مصروف تھے ، میرے لئے کسی یہودی عبادت گاہ میں جانے کا یہ دوسرا موقع تھا۔ ایک اندرون شہر بازار میں پہنچے اسکی بناؤٹ بھی انکے قدیم شاندار ماضی کی آئینہ دار ہے ۔یہاں کچھ اشیاءکا جلدی جلدی جائزہ لیا ، گروپ سے کسی بھی صورت الگ نہیں ہونے کا خطرہ اب میرے پیش نظر تھا اسلئے ساتھ ساتھ رہتی تھی۔۔

بخارا اسٹیشن پہنچے ڈھائی بجے والی ”افراسیاب“ پر سوار ہوئے ،اس منفرد شہر بخارا کو الوداع کہا ۔ غنیمت ہے کہ ہم سب ایک ہی ڈبے میں تھے ۔ سیٹیں کافی آرام دہ تھیں ۔۔مختلف ویٹرز آکر پانی ، جوس ، چائے ، کافی وغیرہ بیچتے رہے لیموں والی سبز چائے ،بسکٹ اور مختلف اشیائے خورد و نوش سے لطف لیتے رہے ،گپ شپ ہنسی مذاق ، قومی ترانوں اور مختلف گانوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے،( بعض ساتھیوں کی آواز یں قدرے سریلی تھیں اور انہیں گانے بھی کافی یاد تھے) ٹرین رواں تھی اب وجہ کیا تھی کہ ٹرین کی رفتار کچھ سست تھی اور ہم تاشقند تقریبا رات کے ۹ بجے پہنچے ، وہاں ہماری بس اور گائیڈ نائیلہ منتظر تھی وہاں سے سیدھے ایک ریسٹوراں پہنچے پاکستانی کھانے کا انتظام تھا ، طارق صاحب نے خصوصا رنگین زردہ پکوایاتھا ،سب کو شدید بھوک لگی تھی ،کچھ ایسا تھا کہ سب کھانے پر ٹوٹ پڑے۔ واپس اسی ہوٹل میران پہنچے ، کمرے کی چابی تو مل گئی لیکن میرا یہاں رکھا ہوا سوٹ کیس ذرا مشکل سے ملا ، انہوں نے ایک اور سٹور میں رکھاتھا۔ میں شاؤر لیکر آئی تو میری ساتھی ناہید نے ہوٹل کے سپا میں مالش کرنے والی خاتون کی اطلاع دی( اب مالش مساج بن چکا ہے )۔ میرا موڈ تو بالکل نہیں ہورہاتھااسلئے میں تو سونے کیلئے لیٹ گئی، وہ کرکے واپس آئیں تو کافی خوش اور مطمئن تھیں۔
آج ازبکستان میں ہمارا الوداعی روز تھا رات کو سوا بارہ بجے ہماری لاہور کیلئے پرواز تھی۔چند مقامات جو رہ گئے تھے جن میں مشہور ساینسدان اور قرآن و حدیث کے ماہر ”ابوبکر محمد کفال ششی“ کے مقبرے سے ہوتے ہوئے ، مدرسہ بارک خان اور جامعہ مسجد تاشقند میں حاضری دیتے ہوئے ،چہار سو بازار پہنچے ،پاکستانی شہروں کی گلییوں والے بازار، عمان ( اردن) کا بازار حسین اور قاہرہ کا بازار خلیلی اسی کی مانند تھے میرے سمرقند کی ٹرین والے ازبک ساتھی نے تنبیہ کی تھی ” خریداری کرتے وقت انگریزی نہ بولنا، ورنہ دوکاندار خوب قیمت بڑھا دینگے ” میں نے سوچے سمجھے بغیر اسکی ہاں میں ہاں ملائی ۔ بعد میں خیال آیا کہ انگریزی کے علاوہ ہم کیا بول سکتے ہیں ؟ اگر لاکھوں کی خریداری کرنی ہے وہ بھی سوم میں تو کتنا نقصان ہو سکتا ہے ؟ دوکاندار سیاحوں سے نپٹتے نپٹتے کافی طاق ہوچکے تھے ، قیمتیں تقریبا ویسے ہی تھیں جیسے دوسرے بازاروں میں تھیں ، پھر بھی کچھ نہ کچھ خریداری ہو ہی گئی ۔ واپسی پر دیکھا ایک خاتون سبزی بھرے ہوئے چوکور پراٹھے بیچ رہی ہے اسنے چکھایا تو لذیذ لگے اور دو ڈالر کے چار خریدے۔( اسوقت تک سوم کا صفایا ہو چکا تھا )
ڈھائی بجے پاکستانی سفیر عرفان شامی نے ہمیں سفارت خانے میں چائے پر مدعو کیا تھا (عرفان صاحب ہماری پیاری ساتھی تسنیم کے بیچ میٹ یعنی سول سروس اکیڈمی کے ساتھی تھے ۔ ہم سب کا وہاں شاندار اسقبال ہوا عرفان صاحب نے اپنے سٹاف سے تعارف کروایا ۔ میجر طارق کی تعارفی تقریر کے بعد سفیر صاحب نے خصوصا اردو میں تقریر کی انہوں نے ازبک ، پاکستان تعلقات ، ثقافتی اور تجارتی روابط پر سیر حاصل تبصرہ کیا۔ ان تمام اشیاء کا جائزہ لیا جنکی یہاں پاکستان سے در آمد کی جا سکتی ہے ۔میجر طارق صاحب اس علاقے میں کافی عرصے سے برآمد و در آمدی تجارت کر رہے ہیں۔ اور یہاں کی تجارت سے بہت حد تک واقف ہیں ہمارے گروپ میں چند خواتین بھی ان تجارتی روابط میں کافی دلچسپی لے رہی تھیں ۔ سفیر صاحب نے ہمیں سفارت خانے کی سیر کروائی ۔ دیواروں پر پاکستانی ثقافت کی مختلف تصاویر کو پلاسٹر سے کندہ کروایا گیا تھا عمارت کی آرائش نفاست اور پاکستانی اقدار کے مطابق تھی ۔ہم نے سفیر اور انکے عملے کے ساتھ تصاویر بنائیں ۔
پاکستانی سفارت خانے سے رخصت ہونے کے بعد ہم تاشقند ”سب وے میٹرو“ کی سیر کیلئے گئے یہ زیر زمین ٹرین کی گزر گاہیں بین الاقوامی پیمانے کی ہیں بلکہ سٹیشن کی عمارت ، چھت اور اطراف انتہائی مرصع اور بہترین سجاؤٹ سے مزئین تھیں یہ میٹرو ۱۹۷۷ میں روسی حکومت نے تعمیر کی تھی ہم یہاں تقریبا شام کے چار بجے داخل ہوئے جبکہ دفاتر کی چھٹی کا وقت تھا اور ٹرینیں کھچاکھچ بھری ہوئی تھیں ۔ ہمیں محض دو سٹیشن جاکر واپس آنا تھا اور مقصد یہ تھا کہ میٹرو سب وے کے اس تمام تجربے سے ہم لطف اندوز ہوں ۔ طارق صاحب نے ہمیں ضروری ھدایات دیں امیر تیمور سٹیشن سے ہم سوار ہوئے اور ”علی شیر نوائی“( یہ اس علاقے کے ایک مشہور شاعر تھے) پر ہمیں اترنا تھا اور واپسی پر گھوم کر دوسری ٹریک پر ٹرین لینی تھی ۔ میں سب وے میں سینکڑوں مرتبہ سفر کر چکی ہوں لیکن کافی لطف آیا ،تمام طریقہ کار انتہائی جدید تھا اب ہم یہاں کے مشہور شاپنگ مال ”سمرقند دروازہ“ میں داخل ہوئے خوبصورت مال تھا بین الاقوامی سطح کی دکانیں اور اشیاء،ایک دو دکانوں میں جائزہ لیا لیکن وقت کم ہونے کے باعث بہتر یہ جانا کہ وضو کرکے نماز ادا کی جائے۔ کھانے کیلئے ریسٹورنٹ پہنچے ، سلاد اور سوپ کے بعد ہمیں بہت عمدہ چانپیں لوہے کے گرم چھنچھناتی ہوئی پلیٹ پر سبزیوں کے ساتھ پیش کی گئیں ۔ میٹھا کچھ اندرسوں سے ملتا جلتا تھا۔
یہاں سے تاشقند ائر پورٹ کی جانب روانہ ہوئے ۔ طارق صاحب اور نائیلہ نے الوداعی کلمات کہے ۔ چند جملے میں نے بھی کہے اور دیگر چند ساتھیوں نے بھی اظہار خیال کیا۔ ہمارا ایک ہفتے کا یہ پر لطف بھر پور دورہ اختتام کے قریب تھا ۔ بس سے اترتے ہوئے نائیلہ ، ڈرائیور اور مدد کرنیوالے لڑ کے کا شکریہ ادا کیا۔ طارق صاحب نے انکو کچھ رقوم پیش کیں ۔ ائر پورٹ پر بکنگ اور چیکنگ کے معاملات سے گزرتے ہوئے روانگی کے لاؤنج میں آبیٹھے۔
جہاز کی روانگی وقت پر تھی ۔ لاہور پہنچے ساتھیوں کو خدا حافظ کہا اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ڈائی وو کی ٹیکسی لیکر ڈائی وو کے اڈے پہنچے طارق صاحب نے امان صاحب کو ذمہ داری دی تھی کہ وہ بکنگ وغیرہ میں ہماری مدد کریں ۔صبح ساڑھے چار بجے ہم ڈائیوو سے روانہ ہوئے اور ساڑھے نوبجے اسلام آباد پہنچے ۔ یوں یہ یادگار سفر اختتام پذیر ہوا۔۔۔۔

Abida Rahmani
About the Author: Abida Rahmani Read More Articles by Abida Rahmani: 195 Articles with 254056 views I am basically a writer and write on various topics in Urdu and English. I have published two urdu books , zindagi aik safar and a auto biography ,"mu.. View More