غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم ، اے مودی و شاہ یہ ظلم نہ کر

جے این یو پر دہشت گردانہ حملے کے بعد بنگلادیش ، افغانستان اور پاکستان سے آکر بسنے والے غیر مسلم پناہ گزینوں کے علاوہ ہرکوئی سوچ رہا ہے کہ اگلا نمبر کس کا ہے؟ یوگی اور شاہ اب کس سے انتقام لینے کا منصوبہ بنا رہے ہیں؟ اس زعفرانی دہشت گردی کا اگر ۲۶ نومبر ۲۰۰۸؁ کو ممبئیحملے کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ حیرت انگیزانکشاف ہوتا ہے کہ جےاین یو معاملے سے ٹھیک ایک ماہ قبل ۵ دسمبر ۲۰۱۹؁ کو وزیر اعظم مودی نے یروشلم میں رہنے والے موشے ہولزبرگ کو ۱۱ سال بعد یاد کیا۔ انہوں نے اس کے زندہ رہنے کو معجزہ قرار دیتے ہوئے بپتسما کے موقع پر مبارکباد کا پیغام بھیجا ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ مظلوم پردیسی نوجوان کے تئیں کس قدر حساس ہیں لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہندو رکشا دل کے جان لیوا حملے سے یونین کی صدر آئشی گھوش کا زندہ بچ جانا بھی کوئی معمولی چمتکار نہیں ہے۔ سرکار کی ناک کے نیچے نقاب پوش غنڈوں کےحملے میں ۴۰ طلباء زخمی ہوگئے لیکن غیروں کے غم میں تڑپنے والے مودی جی کا دل نہیں پسیجتا۔ ان کو زبان سے ہمدردی کا ایک لفظ نہیں نکلا ۔

یہ حسنِ اتفاق ہے کہ ۱۱ سال قبل ممبئی بم دھماکے کے تین بعد دہلی کے انتخابات ہونے تھے اور جے این یو حملے کے وقت بھی دہلی الیکشن کا بگل بج چکا ہے۔ اس وقت چونکہ دہلی سے بی جے پی کے رہنما ممبئی آنے کے کترا رہے تھے اس لیے گوپی ناتھ منڈے نے گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو دعوت دی اور وہ دوڑے چلے آئے ۔ ممبئی میں ہیمنت کرکرے کے گھر پھر ہمدردی جتانے کے لیے بن بلائے جانے والے اور بے نیل و مرام لوٹنے والے نریندر مودی فی الحال اپنے شاہی محل سے نکل کر طلباء کی عیادت کے لیے ایمس کیوں نہیں جاتے؟ وزیر اعظم بننے کے بعد کیا انہوں نے اپنے پیر میں مہندی لگا رکھی ہے جو شرم آتی ہے۔

ممبئی حملے کے فوراً بعدمودی جی نے اس حملے کو روکنے میں ناکامی کے لیے منموہن سنگھ سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا تھا ۔ اب اگر جے این یو پر ہونے والے حملے کے بعد راہل گاندھی مودی سرکار کی فسطائیت کو ذمہ دار ٹھہرائیں تو کیا غلط ہے؟ بی جے پی نے اس وقت یہ اعلان کیا تھا اس آزمائش کی گھڑی میں وہ حکومت کے شانہ بشانہ کھڑی ہے لیکن اس پر ثابت قدم نہیں رہ سکی۔ مودی جب ممبئی میں مرکزی حکومت پر حملہ بول رہے تھے تو اسی دن اخبارات میںبی جے پی کے اشتہار میں لکھا تھا ’’اپنی مرضی کے مطابق خوفناک دہشت گردانہ حملہ ۔ کمزور اور نااہل حکومت اس کو روکنے میں ناکام ۔ دہشت کا مقابلہ کرنے کے لیے بی جے پی کو ووٹ دو۔ ممبئی حملے کے لیے مرکزی حکومت ذمہ دار ٹھہراکر کمزور اور نااہل قرار دینے والی بی جے پی کو دہلی میں اپنی کمزوری اور نااہلی بھی قبول کرلینی چاہیے۔

ممبئی کے دہشت گردانہ حملے کی طرح ۱۶دسمبر۲۰۱۲؁ کوراجدھانی دہلی میںنربھیا کی عصمت درینے بھی ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔ اس سانحہ کا بھی مودی جی بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا۔ وزیراعظم کی کرسی کے امیدوارنریندر مودی نے دسمبر۲۰۱۳؁ میں کہا تھا کہ نربھیا سانحہ کو ایک سال بیت گیا لیکن اس کے لیے کچھ نہیں ہوا ۔ اس کے بعد انہوں نے سوال کیا تھا کہ ’’ یہ نیچ راج نیتی (گھٹیا سیاست ) ہےَ یا نہیں ہے؟‘‘۔ قومی انتخاب میں کامیابی کے ۸ ماہ بعد دہلی انتخاب کی مہم کے دوران وزیراعظم نے نربھیا کے والدین سے ملاقات کے بعد رائے دہندگان سے کہا ووٹ ڈالتے وقت نربھیا کو یاد کریں ۔ سوال یہ ہے کہ کیاوہ گھٹیا سیاست نہیں تھی کہ اقتدار پر فائز ہونے کےبعدبھی وزیراعظم عوام سے نربھیا کے نام پر ووٹ مانگ رہا تھا؟ اور اب ۲۶ جنوری کو دوبارہ نربھیا کی عصمت دری کرنے والے درندوں کو پھانسی دے کر ان کے نام پر پھر سے ووٹ مانگنے کی تیاری چل رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب شاہ اور مودی کس کے نام پر دہلی کے رائے دہندگان سے ووٹ مانگیں گے اور وہ انہیں ووٹ دیں گے یا چوٹ دیں گے۔

جے این یو میں بہیمانہ حملے کے بعد مودی جی کا ٹوئٹر اس لیےگونگا ہوگیاکیونکہ جے این یو میں پلنے والے اشتراکی جمہوری طریقہ پر ان کو اقتدار سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں لیکن اگر یہ جرم ہے اس کا ارتکاب خود مودی کرچکے ہیں ۔ وہ بھی تو منموہن کو کرسی سے ہٹا کر اس پر بیٹھے ہیں۔ ان کے نائب شاہ جی جے این یو کے طلباء کو ٹکڑے ٹکڑے گینگ قرار دے کر کو سبق سکھانے کے لیے زعفرانی غنڈے چھوڑ دیتے ہیں لیکن مودی جی کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی وزارت میں شامل وزیر خزانہ نرملا سیتا رامن اور وزیر خارجہ جئے شنکر بھی اسی یونیورسٹی کے پروردہ ہیں ۔ مودی اور شاہ کے عتاب سے خوفزدہ مذکورہ بالا وزراء ٹوئٹر پر اپنے مادرِ علمی کی حالت زار پر خون کے آنسو توبہا تے ہیں لیکن کیمپس میں جاکر طلباء کے سر پر دست شفقت رکھنے کی یااسپتال میں عیادت کے لیے جانے کی جرأت نہیں دکھا پاتے ۔ ملک کے اندر طاقتور وزراء کی اگر یہ حالت ہے تو عوام کی کیفیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ جے این یو پر دہشت گردانہ حملے کے بعد دہلی کا سنگھاسن ڈول رہا ہے اور اس میں شک شبہ کی کوئی بات نہیں کہ جے این یو کی یہ آگ اگر ملک کے تمام دانشگاہوں تک پہنچ گئی تو وہ ظالم اقتدار کو خاکسترکردے گی ۔ ملک بھر کے نوجوانوں کا تیور دیکھ کر سر اسرارلحق مجاز کا یہ شعر یاد آتا ہے ؎
تو انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر
جو ہوسکے تو ابھی انقلاب پیدا کر
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1223431 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.