نئے سال کے آغازپر واشنگٹن ڈی سی میں ایک اجتماع ہوتاہے
جس میں نام نہادسیکولراکٹھے ہوکر مستقبل کے اہداف طے کرتے ہیں مزے کی بات
یہ ہے کہ اجلاس کی صدارت مشہورومعروف غداروطن حسین حقانی کرتے ہیں اوراس
اجلاس میں پاکستان میں سیکولرازم ااورلبرل ازم کوفروغ دینے کے لیے ایجنڈہ
ترتیب دیاجاتاہے دراصل یہ سیکولرازم کی ترویج نہیں بلکہ اس نعرے کی آڑمیں
پاکستان کوعدم استحکام کاشکارکرنے کے تانے بانے بنے جاتے ہیں ،
اس اجتماع کاانعقاد انسانی حقوق کی آرگنائزیشن ساؤتھ فورم ( South Asians
Against Terrorism & For Human Rights ")نامی تنظیم کرتی ہے یہ اس کاچوتھا
اجلاس تھا اس تنظیم کی بنیاد 1990 میں دہلی میں رکھی گئی, اس کی تشکیل میں
زیادہ تر افراد انڈین انٹیلی جینس اور سی آئی اے کے افراد تھے جو خود کو
انسانی حقوق کے کارکن ظاہر کرتے ہیں.اس کی تشکیل کے لیے پوری ایشیا کو
بظاہر ہدف رکھا گیا تاہم اصل ہدف پاکستان کو ٹھریاگیاآپ انسانی حقوق کے نام
پر جوچاہیں کرلیں کوئی پوچھنے والانہیں یہ انسانی حقوق انہیں تب یادنہیں
رہتے جب امریکی ڈرون مدرسے میں پڑھنے والے معصوم بچوں کے بدن کے چیتھڑے
اڑارہے ہوتے ہیں یہ انسانی حقوق انہیں اس وقت یادنہیں رہتے جب مقبوضہ
کشمیرمیں بھارتی مظالم پرظلم بھی چیخ اٹھتاہے ،یہ انسانی حقوق والے اس دوقت
بھیگی بلی بن جاتے ہیں جب مودی اپنے ہی شہریوں کی شہریت چھین لیتاہے جی ہاں
ان انسانی حقوق کامروڑاسی وقت اٹھتاہے جب ملک وقوم کے خلاف کوئی سازش
کرناہوتی ہے جب ریاست کے خلاف کوئی منفی مہم شروع کرناہوتی ہے ۔
اس اجلاس میں مشہور لبرل خواتین گلالئی اسماعیل, صبا اسماعیل , ماروی سرمد
, گل بخاری , بھارتی خفیہ ایجنسی کے لیے کام کرنے والی ڈاکٹر اپرانا پانڈے
, فرہانا اسفہانی ,روبینہ شیخ شامل تھیں.جب کہ پاکستان میں سیکولرازم کے
علمبردار افراسیاب خٹک, کامران شفیع , محمد تقی , طہ صدیقی , وائس آف
امریکہ کے رحمان بونیری, ڈاکٹر عاصم یوسفزئی , راشد رحمن, ایمل خٹک , مبشر
زیدی شامل تھے۔اجلاس میں پاکستانی اداروں پرتبرابازی کے علاوہ توہین رسالت
کے ملزم جنیدحفیظ کی رہائی کے لیے کوششیں کرنے اورپی ٹی ایم کے ساتھ ممکنہ
تعاون کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوادراصل انسانی حقوق کے نام پرپاکستان
کوبلیک میل کرنے کانیامنصوبہ اور ڈالرزہضم کرنے کاپروگرام بنایاگیا۔
جہاں تک پی ٹی ایم کی بات ہے توایک عرصے سے قوم پرستی کابیچ نئے اندازمیں
بویاجارہاہے ،پشتون نوجوانوں کوورغلایاجارہاہے اورانہیں دلچسپ نعروں کی
آڑمیں گمراہ کیاجارہاہے ،آج ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستانیوں کوبھی
قوم پرستی کی دلدل میں پھنسایا جارہا ہے یہ وہ جہالت ہے جس میں مشرکینِ مکہ
ہی نہیں پورا جزیرۃ العرب مبتلا تھا قوم پرستی کی انتہائی ذلت آمیز
داستانیں ہیں جو کہ ہم سب کو علم ہونے کے باوجودآج پاکستان میں دوہرائی
جارہی ہیں مگر بجائے ہم ان سے درسِ عبرت لیں ان کو فراموش کیے بیٹھے ہیں
اور جانے انجانے میں ہمارانوجوان اس میں استعمال ہورہاہے ۔قوم پرستی ایک
خطرناک موذی مرض ہے اس سے ہر مسلمان کو آگاہی بہت ضروری ہے تبھی ہم اس
خطرناک مرض سے بچ سکیں گے، کیا وجہ ہے کہ ہم ایسی بیماری جو انسان کی جان
لے سکتی ہے سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں مگر ایسا مرض جو ایک انسان کی
ہی نہیں پوری انسانیت کے لیے موت کا پیغام ہے سے بچنے کی تدبیر نہیں کررہے؟
ہم سب اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتے ہیں مگر کبھی سوچا کہ اس قوم پرستی کی
لعنت سے کیسے جان چھوڑائی جائے؟کہ جس کی وجہ سے نہ صرف ہماری ذات بلکہ
اسلام اور پاکستان کی بھی سلامتی کو خطرہ ہے، قوم پرست رہنماصرف پاکستان کے
ہی دشمن نہیں ہیں بلکہ یہ لوگ اسلام سے بے بہرہ اور گمراہ ہیں کہ جو لوگوں
کو اپنے ناجائز مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں اور پاکستان کو توڑنے کی
سازش کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔
اسلام میں قوم پرستی صرف حرام ہی نہیں بلکہ اس کو جہالت کہا گیا ہے،یہ ایسی
جہالت ہے جو قوموں کو زوال کی طرف لے جاتی ہے اور اسلام میں لوگوں کو قوموں
کی سطح پر تقسیم در تقسیم کردیتی ہے اسلام جو وحدت و اتفاق کا درس دیتا ہے
یہ قوم پرستی اسلام کی وحدت کو پاراپارا کردیتی ہے، آج افسوس کے ساتھ کہنا
پڑتا ہے کہ مسلمانوں کو پہلے تو دین کے نام پر فرقوں میں تقسیم کی گیا کہ
تم حنبلی ہو، تم مالکی ہو، تم شافعی ہو، تم حنفی ہو، تم جعفری ہو، تم سلفی
ہو، اور یہاں پر ہی بس نہیں کی گئی بلکہ ہر امام کو ماننے والوں میں آگے
کئی کئی جماعتیں اور گروہ وجود میں لائے گے کہ ہر کسی کا اپنا امیر و امام
مقرر کیا گیا اور اپنا ایک علیحدہ سسٹم چلایا گیا۔ اور پھر خلافت کے نظام
کو بذریعہ جنگ ختم کرکے ملکوں میں تقسیم کردیا گیا تھا کہ تم انڈین ہو، تم
افغانی ہو، تم عراقی ہو، تم سعودی ہو، تم فلسطینی ہو، تم عراقی ہو، تم
ایرانی ہو، یہاں پر ہی بس نہیں کی گئی بلکہ اب صوبوں کے نام پر بھی تقسیم
کی جارہی ہے کہ تم سندھی ہو، تم پنجابی ہو، تم بلوچی ہو،تم پختون ہو، اور
اب اس بھی آگے کی جاہلیت میں مسلمانوں کو لے جایا جا رہا ہے کہ زبان اور
قبیلہ کے نام پر بھی امت کو فرقوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اگر پنجابی، سندھی، پختون اور بلوچ قومیت اتنا جاندار نعرہ ہوتی تو 1947
میں دس لاکھ پنجابی ایک دوسرے کا گلہ نہ کاٹتے، ایک دوسرے کی بیٹیوں کو
اغوا نہ کرتے، انھیں ہوس کا نشانہ نہ بناتے۔ بلوچ ایران میں اپنے خطے
بلوچستان میں اجنبی نہ ہوتے، روز سرحد عبور کرتے ہوئے گرفتار نہ ہوتے۔اگر
بلوچ قومیت اس قدر طاقتور نعرہ ہوتی تو ایران کے بلوچ اس قدر ذلت و رسوائی
میں زندگی نہ گزارتے کہ نہ حکومت میں نہ پارلیمنٹ میں اور نہ ہی سرکاری
نوکری میں، کوئی تو ان کو ایک مشترک قوم کے نام پر اکٹھا کرتا۔ پاکستان کے
پختونوں کا جو حال افغانستان میں ہوتا ہے، اس کے قصے طورخم سے رباط تک زبان
زد عام ہیں۔
حالیہ صورتحال دیکھ لیں کہ منظور پشتین پشتونوں کی بات کرتا ہے ، اوروہ یہ
کہتاہے کہ وہ پشتونوں کے حق کے لئے لڑتا ہے ، مگر اسے قندھار میں مرنے والے
پشتون دکھائی نہیں دیتے ۔ وہ افغانستان میں مارے گئے پشتونوں پر کیوں نہیں
بولتا ؟کیاافغانستان میں مرنے والے پختون کاخون سفیدہے اورصرف منظورپشتین
سے تعلق رکھنے والے پختون نوجوانوں کاخون لال ہے ؟پشتونوں کے تحفظ کی یہ
کیسی جنگ ہے کہ امریکہ افغانستان میں پختونوں کومارے ان کی بستیوں کی
بستیاں اجاڑدے توہم چپ ساد ھ لیں اوردوسری طرف پاکستان میں امریکہ سے پیسے
لے کرہم پختونوں کی تحفظ کانعرہ لگائیں ؟
قوم پرستوں کے جدامجدکے ایک قول پربات ختم کرتاہوں ہوسکتاہے کہ اس کوپڑھ
کرقوم پرستوں کوہوش آجائے قوم پرستی بعض اوقات نسلی قوم پرستی کے ساتھ مل
کر خطرناک شکل اختیار کر سکتی ہے۔ تاریخ میں اس کی ایک بد ترین مثال اٹالین
فاشزم کی ہے۔ اسی قوم پرستی کی بنیاد پر مسولینی نے یہ نعرہ بلند کیا تھا
کہ ہر چیز ریاست کے اندر، کوئی چیز ریاست سے باہر نہیں، اور کوئی چیز ریاست
کے خلاف نہیں۔ |