ماں کی حالت بگڑتی جا رہی تھی وہ
بے ہوشی میں بیٹے کو پکارتی ۔دوسرے دن گیارہ بجے وہ ، باہر میدان میں بنائے
ٹاٹ کے باتھ روم سے واپس ہسپتال کے ٹینٹ میں داخل ہوئی تو اُس نے دیکھا کہ
نائیک صاحب ماں کے پاس کھڑے ہیں نرس اور ایک سپاہی بھی ہے اور ماں کے پاس
ایک اور سپاہی بیٹھا ہے اس کا دل دھک سے رہ گیا تیز چلتی ہوئی وہ ماں کی
طرف لپکی ۔ ” اماں ، کیا ہوا میری ماں کو ؟“ ماں کے پاس بیٹھے ہوئے سپاہی
نے مڑ کر دیکھا تو خوشی سے بے قابو ہو گئی۔ ماں کے پاس بھائی وردی میں
بیٹھا تھا ۔چھ فٹ لمبا اور دبلا پتلا بھائی ڈھیلی ڈھالی ، وردی میں اُسے
عجیب سا لگا ۔اُس سے کلف کی بو بھی آرہی تھی ، جبکہ باقی فوجی صحتمند تھے
۔یہ سب سے چھوٹا بھائی تھا، چار بھائی اور دو بہنیں کل چھ افراد اور ماں پر
مشتمل یہ یوسف زئی خاندان تھا ،جو برسوں پہلے کسی حملہ آور قافلے کے ساتھ
پہاڑوں کے دیس سے نکلے اور وسیع اور عریض ہندوستان میں لڑتے بھڑتے چلتے
جاتے حملہ آور جہاں فتح کے شادیانے بجاتے تھک جاتے وہیں سکونت اختیار کر
لیتے ۔ پٹھانوں میں جنگ جو بھی ہوتے اور تاجر بھی ۔ جنگ جو تنہا ہوتے اور
تاجر اپنے کنبے کے ساتھ چلتے ۔ہندوستان میں پھیلے ہوئے پہاڑوں کے باسیوں نے
اپنی ضرورت کے مختلف مسلمان قوموں میں شادیاں کیں اور اپنی بیٹیاں بھی دیں
اور پھر ایک دو نہیں پورے چار چار شادیاں کیں ۔ میڈیا اور اخبارات کے اُس
دور تنہائی میں ممکن ہے کہ کئی پٹھانوں نے اِس ریکارڈ کو توڑا ہو ۔اپنے
عربی آباؤاجداد کی طرح جو عرب سے سامانِ تجارت لے کر جہازوں پر نکلتے اپنے
ساتھ جنگجو فوجی بھی رکھتے ۔ جس ساحل پر یہ اترتے ۔ وہاں ایک شادی ضرور
کرتے اور گھر بناتے تاکہ آئیندہ کے لئے روٹی پانی اور رہائش کا تردد ختم ہو
جائے ۔ اس میں ہندو اور دیگر مذاہب کی کوئی تخصیص نہیں تھی ۔ ہندو مذھب میں
ایک شادی کے قانون کی وجہ سے کئی دوشیزائیں مندروں میں موجود ستونوں کے گرد
منگل سوتر باندھ کر ، پنڈتوں اور پروہتوں کی آشیر باد پر گزارا کرتیں ۔
محمد بن قاسم کے ساتھ آنے والے فوجیوں نے تو سندھ میں موجود دوشیزاؤں کے
بھاگ کھول دیئے ۔ ستونوں کے بجائے اب صرف کلمہ پڑھ کر وہ یہ منگل سوتر کسی
بھی فوجی کے گلے میں ڈال دیتیں ۔ فوج میں موجود ہر فرد کو مقامی آبادی
احترام میں سید(جناب) کہتی اور جو ذرا رتبے میں اونچا ہوتا وہ شاہ (بادشاہ
کا مخفف) کہلایا جاتا ۔ چنانچہ دیبل سے لے کر ملتان تک نومسلم مقامی خواتین
کی اولادوں کو بھی یہی لقب دیا جانے لگا ۔اُن دنوں فیملی پلاننگ کا رواج
عام نہیں تھا لہٰذا ہر سال مسلمان پیدا ہونے شروع ہوگئے ۔جن کی تربیت کی
ذمہ دار اُن کی مائیں تھیں اور اُن کی مسلم خصوصیت صرف یہ تھی کہ انہیں
نکاح خوان نے کلمہ پڑھ کر مسلمان کیا تھا اور دوسرے لوگوں کی دیکھا دیکھی
انہوں نے رسومات پر خضوع و خشوع سے عمل کرنے کو اسلام کی بنیاد سمجھ لیا
تھا ۔اور اپنی ہندو رسومات پر تبّرک چھڑک کر اُنہیں بھی مسلمان کر لیا تھا
باقی کمی مولوی صاحب پوری کردیتے ۔اُن دنوں بھی مولوی ہوا کرتے تھے جو چند
آیات حفظ کر کے عالم کہلایا کرتے تھے ۔ جس گاؤں میں جاتے مسجد اور گھر
بنانے کی جگہ مل جاتی کھانے اور کھانا پکانے کے لئے بھی انتظام ہو جاتا۔ایک
مٹھی آٹا یا چار روٹیوں میں سے ایک روٹی ہر کھانے پر اللہ کے لئے نکالی
جاتی اور مسجد یا غریب کو دے دی جاتی ۔مسجد میں دینی تعلیم حاصل کرنے والے
شام کو دو ڈبے اور کپڑا لے کر نکل کھڑے ہوتے ہر گھر کے سامنے کھڑے ہو کر یہ
آواز لگاتے ،” مسجد کی روٹی لاؤ جی “ اور ہر گھر سے سالن روٹی اور میٹھا دے
دیا جاتا ۔ ہر قسم کا سالن وہ ایک ڈول میں ڈالتے اور میٹھا دوسرے ڈول میں ،
روٹی کندھے پر لٹکے ہوئے کپڑے میں ڈالی جاتی ، یہ اُن کا شام اور صبح کا
کھانا ہوتا اگر گرمیاں زیادہ نہ ہوتیں تو یہ دوپہر کو بھی چل جاتا وارہ
عموماً دوپہر کو روٹی پانی سے گیلی کر کے کھائی جاتی ۔ اِ ن کا مختلف کلچر
میں مختلف نام تھے کہیں یہ مولائی کہلاتے ، کہیں یہ صافی (اصحآب الصحف کا
مخفف) اور کہیں یہ طالب۔ بعد میں یہی لوگ مولوی کا لقب اختیار کر کے مسجدوں
میں نماز پڑھانے کے فرائض سنبھال لیتے پھر ان کے پاس طالب آنا شروع ہوجاتے
۔ یہ بھی دو سے چار شادیوں تک کا ریکارڈ بناتے ۔
چنانچہ درہ خیبر سے ہندوستان میں داخل ہونے والوں میں چار شادیا ں عموماً
تاجر یا وہ فوجی کرتے جو مختلف شہروں میں ڈیوٹی پر جاتے یا پھر وہ جو
چھٹیوں پر اپنے پہاڑوں میں موجود گھر کا رخ کرتے۔ دوران سفر سراؤں میں
ٹہرتے، یہ دونوں طرز کے افراد ،خود کو تنہائی کے شکار کا رونا روتے ، کوئی
کثیر البناتی باپ اُن پر ترس کھاتے ہوئے اپنے کندھے کا بوجھ اُن پر لادھ
دیتا ۔ کچھ تو ماہ عسل پورا کر کے آگے جانے کے بجائے واپس چلے جاتے اور کچھ
اپنی والدہ صاحبہ سے ملنے کے لئے وطن جانے کی اجازت لیتے ۔وطن پہنچتے ہی
ماں نے ایک لڑکی پہلے ہی سے تیار رکھی ہوتی جو اُس کی بہن یا بھائی کی بیٹی
ہوتی چنانچہ تین کا ٹوٹل تو پورا ہو جاتا ، یعنی ایک ہندوستان کے گھر میں ،
ایک دورانِ سفر اور ایک وطن میں ، ان دنوں چونکہ این۔جی ۔اوز نہیں ہوتی
تھیں اور اُن دنوں عورت کو کی اچاہیے ہوتا ،ایک شوہر اور بچے ، گھر یا ماں
باپ کا ہوتا یا سسرال ، شوہر ہر سال موسمِ بہار کی طرح آتا اور پھر دورے پر
نکل جاتا ۔اگر حاسدوں سے اُسے پتہ بھی چل جاتا کہ اُس نے ہندوستان میں بھی
شادی کی ہے تو اُس پر دورے بھی نہیں پڑتے اور ہندوستان والی بیوی کو خبر
ملتی کہ شوہر نے اپنے وطن میں شادی کر لی ہے تو وہ بھی پروا نہیں کرتی کیوں
کہ سوکن کئی دریا پار رہتی چنانچہ اُسے کوئی خطرہ نہیں ۔ جہاد پر جانے
والوں کا یہ حق سمجھا جاتا تھا اور پھر جہاد کی کئی قسمیں دریافت ہو گئیں
چنانچہ سویلین تاجر بھی کثیرالازدواجی سے فیضیاب ہونے لگے ۔
ہاشم خان نے بھی دو شادیاں کیں پہلی بیوی کی بچوں میں سب سے بڑے بھائی
ابراہیم خان کی دس سال پہلے حادثے میں جلنے کے بعد وفات ہو گئی تھی وہ
ریلوے میں ملازم تھے ،اُن کا ایک بیٹا تھا سلیمان تھا جو ماں کے پاس رہتا
تھا ۔ دوسرے بھائی ، بھی ریلوے میں ملازم تھے اور دلّی میں تھے اُن کے بھی
دو بچے تھے ۔بیٹا طیّب جو عمر میں اُس سے تین سال بڑا تھا اور چھوٹی بیٹی
رشیدہ ۔ تیسرے بھائی ٹیلیفون کے محکمے میں تھے اور بمبئی میں ملازم تھے
۔اَن کے بھی دو بچے تھے ،بیٹا حبیب اور بیٹی صغرا۔دوسری بیوی سے صرف دو
بیٹیاں تھیں اور اجمیر سے چھ کلو میٹر دور پُشکر گاؤں میں رہتی تھیں ۔تیسری
بیوی جو دوسری بیوی کی رشتہ دار تھی دہلی میں تھی اُس کے بارے میں پاکستان
آنے کے بعد معلوم ہوا ۔ ہاشم خان کا انتقال 1935میں ہو چکا تھا ۔
دوسرے دن ماں کی طبعیت بہتر ہوگئی ۔ بھائی نے ہسپتال سے ماں کو لیا اپنے
خیمے میں آئے ضروری کاغذات بھرنے کے بعد ، والٹن کیمپ سے ریل کی پٹڑی کے
ساتھ کچے راستے پر ٹانگے پر سات آٹھ میل کا سفر کر کے ، باڈر پر جانے والی
پٹڑی کے پاس ایک کچے پکے مکانوں اور ایک بڑی حویلی کی بستی میں پہنچے۔ یہاں
بھائی کا فوجی دوست اپنی بیوی ایک بچی اور ماں کے ساتھ ،ایک ہندو کی حویلی
میں مقیم تھا ۔جو اُسے چھوڑ ہجرت کر گئے اِس امید پر کہ دوبارہ آئیں گے ۔
حویلی میں سارا سامان موجود تھا ۔جو انہوں نے ایک بڑے کمرے میں بند کر کے
تالہ ڈال دیا تھا۔ جو بھی مہاجر ہندوستان سے آتے درخواست دے کر کسی بھی
خالی مکا ن میں رہ سکتے تھے ۔ جن کے عزیز یا دوست جو پہلے پاکستان آگئے تھے
انہوں نے اُن کا بندو بست کر دیا تھا ۔خاندان کے افراد کے حساب سے سٹلمنٹ
والے کمرہ یا مکان الاٹ کرتے ایک مکان میں کمروںکے حساب سے دو یا تین
گھرانوں کو جگہ ملتی ۔اور حویلی میں تو کئی گھرانے مقیم ہوتے ۔ پہلے سے آئے
ہوئے مہاجر والٹن کیمپ جاتے وہاں اپنے رشتہ داروں کو ڈھونڈتے انہیں لے کر
سٹلمنٹ کے آفس جو والٹن میں قائم تھا ۔انہیں بلڈنگ کا ایڈریس بتاتے وہ ایک
کاغذ پر مہاجر گھرانے کے سربراہ کا نام لکھتا اور اُس کے گھرانے کے افراد
کی تعداد لکھتا جتنے کمرے بنتے اُن کی تعداد لکھ کر الاٹ کر دیتا ۔ بھائی
کے دوست نے بھی بھائی کو ایک کمرہ دلوا دیا ۔چنانچہ اب وہ اُس مکان کے
سامنے کھڑی تھی ۔بھائی نے تالا کھولا، وہ مکان میں داخل ہوئے یہ دو کمروں
کا مکان تھا۔ ایک چھوٹا سا صحن تھا سامنے ایک کمرہ اُس کے اوپر دوسرا کمرہ
۔اوپر کے کمرے میں جانے کے لئے برآمدے کے اختتام پر بائیں جانب ، بانس کی
سیڑھی لگی ہوئی تھی۔نچلے کمرے کے سامنے برآمدہ تھا ۔وہ کمرے میں داخل ہوئے
۔د ائیں طرف کمرے میں لکڑی کی چارپائیوں پر دو گدے لگے تھے جن پر سفید چادر
بچھی تھی اور سرھانے دو تکیے تھے جن کے غلاف کے اردگر د قریسیہ سے خوبصورت
رنگوں میں جالی بُنی ہوئی تھی ۔ ایک کونے میں اینٹوں پر مٹّکی دھری ہوئی
تھی اور دیوار پر لکڑی کی الگنی گاڑی ہوئی تھی ۔ ماں کو لٹا کر وہ شوق میں
سیڑھیوں سے اوپر کمرے میں گئی ۔کمرے میں دیوار پر کیلوں پر بھائی کی شلوار
اور قمیض اور لکڑی کے ہینگر میں سفید بشرٹ اور سلیٹی رنگ کی پینٹ لٹکی ہوئی
تھی اور ایک کونے میں ٹین کا بکس اور ہولڈال پڑا ہوا تھا تھوڑی دیر گزری
تھی دروازے پر شور سن کر بالکنی سے باہر جھانکا ۔نیچے دو بچیاں کھڑی ایک
بارہ سال کی تھی اور دوسری غالباً تیرہ سال کی ۔”کیا بات ہے “ اُس نے پوچھا
۔ بڑی لڑکی نے جواباً سوال کیا ،” تم ہندوستانی ہو ؟“ ۔ ”ہندوستانی ! نہیں
۔ کیوں؟ ہم لوگ پٹھان ہیں ۔“ اُس نے جواب دیا ۔ ” ماں ! یہ ہندوستانی لڑکی
کہہ رہی ہے ہم پٹھان ہیں “۔ چھوٹی لڑکی نے آواز لگائی ۔ ” ٹھیک ہے اُس کو
بول آکر کھانا کھا لے “ بائیں گھر سے ماں نے جواب دیا ۔
لڑکی بانس کی سیڑھی سے نیچے اتری ، کمرے میں بھائی کو بتایا ۔بھائی نے کہا
کی اماں بیمار ہیں تم چلی جاؤ ۔ لڑکی باہر نکلی اور دونوں لڑکیاں اسے لے کر
ایک بڑے اَدھ کھلے گیٹ سے لے کر حویلی کے اندر داخل ہوئیں ۔ ایک بہت بڑا
صحن تھا جس کے بیچ ہینڈ پمپ لگا ہوا تھا اور صحن کے ارد گرد کمروں کی قطار
تھی ۔ تین چار درخت لگے ہوئے تھے جن کے نیچے کھجور کی رسّی سے بُنی ہوئی
لکڑی کی چارپائیاں پڑی ہوئی تھیں ۔ چھوٹی لڑکی اُسے لے کر بائیں طرف مڑی ،
جبکہ بڑی لڑکی سامنے کے کمروں کی طرف چلی گئی ،تین کمرے چھوڑ کر دونوں
چوتھے کمرے میں داخل ہوئیں وہاں دو خواتین بیٹھی ہوئی تھیں ایک اماّں سے کم
عمر تھیں اور دوسری تیس ، بتیس سال کی ہوگی ۔” تمھاری اماں نہیں آئیں۔آؤ
یہاں بیٹھو“ ایک جوان عورت نے پوچھا ۔”اماں بیمار ہیں اور تھکی ہوئی ہیں“۔
لڑکی نے بیٹھتے ہوئے جواب دیا ۔”یہ بیچ کا دروازہ کھول کے بلا لو۔تمھارا
نام کیا ہے ؟ “ بوڑھی عورت بولی ۔ لڑکی نے دروازے کی طرف دیکھا تو اسے
احساس ہوا کہ جس کمرے میں امّاں اور بھائی ہیں اُس کے برآمدے کے کونے میں
اُس نے ایک اور دروازہ دیکھا تھا دوسرا دروازہ شاید اس کمرے میں کھلتا ہے ۔
”زیتون ۔بھائی بھی گھر میں ہیں اور امّاں سوئی ہوئی ہیں “ لڑکی نے جواب دیا
۔” صغرا ، جا کر یہ کھانا دے آؤ“۔پہلی عورت نے کہا ۔اور صغرا کو ایک گول
خوان میں ایک بڑی رکابی میں سالن ڈالا اور دوسری میں زردہ اور دونوں
رکابیوں پر ایک ایک رکابی اُلٹ ڈھک دی اور دستر خوان میں چھ روٹیاں لپیٹ کر
خوان صغرا کے ہاتھ میں دیا ۔”آرام سے لے جانا سالن نہ چھلکے ۔ زیتون آرام
سے بیٹھ جاؤ اور یہ لو کھانا“ ۔ زیتون ، نے اپنے سامنے رکابی اور روٹی رکھ
لی اور انتظار کرنے لگی ۔صغرا کھانا دے کر آئی بولی ، ”ماں بھائی نے شکریہ
کہا ہے “اور بیٹھ گئی ،” اچھا ۔ چلو کھانا شروع کرو“۔” زیتون ، تمھارے باقی
بہن بھائی کہاں ہیں “ بوڑھی عورت نے پوچھا۔”خالہ معلوم نہیں“ ۔زیتون نے
جواب دیا اور سوچا نجانے اب وہ کہاں ہوں گے اُس نے سوچا پاکستان آئے یا
وہیں ہندوستان میں ہیں ۔
بوڑھی عورت کا نام بلقیس تھا ۔وہ صغرا کی دادی تھی اور جوان عور ت صغرا کی
ماں کلثوم تھی۔ تین افراد پر مشتمل یہ گھرانا دلّی سے ہجرت کر کے آیا تھا۔ |