پاکستان میں آدھے سے زیادہ آبادی غربت کی لکیرسے نیچے
زندگی گزارنے پرمجبورہے۔غریب عوام خوراک،رہائش،روزگار،معیاری تعلیم اورعلاج
جیسی سہولتوں سے محروم ہیں۔غریب عوام کے لئے سرکاری ہسپتال موجود ہیں مگران
میں مریضوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا،ٹیسٹوں اورتشخیص کے لئے اول
توسہولت موجودنہیں اگربالفرض بڑے شہروں کے چند سرکاری ہسپتالوں میں جدید
لیبارٹریز اورتشخیص کی سہولت موجودہے بھی تواتنی لمبی تاریخ دے دی جاتی ہے
کہ مریض انتظارکرتے کرتے مرجاتاہے۔دوائیوں کی عدم دستیابی توعام سی بات
ہے۔یہاں تک کہ ضرورت پڑنے پرسانپ ،کتے اوردیگرزہریلے حشرات کے کاٹنے کی
بعدجب مریض ہسپتال پہنچتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے لئے مطلوبہ ویکسین ہی
دستیاب نہیں۔یہی حال سرکاری سکولوں کا ہے دیہی علاقوں کے سکولوں میں بچوں
کے بیٹھنے کے لئے کرسیاں، لیٹرین ، چاردیواری نہیں اورسرکاری سکولوں میں
پڑھانے والوں کی کارکردگی کسی سے ہرگزمخفی نہیں۔
سمجھ نہیں آتی ان حالات کا کس سے گلہ کیا جائے،سرکاری اداروں کے اہلکار بے
حسی اوربے رحمی کا شکارہیں تودیگرطبقوں سے تعلق رکھنے والے عوام کون سا
خداترسی اوراحساس کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ہٹ دھرمی،بے حسی اوربے رحمی کسی خاص
طبقہ تک محدودنہیں رہی۔اس کادائرہ کاراتنا وسیع ہوچکا ہے کہ کوئی طبقہ،
کوئی ایسافردنظرنہیں آتاجوصاحب احساس ہو۔ہمارے معاشر ہ کی موجودہ صورت حال
یہ ہے کہ ہرکسی کواپنے علاوہ کچھ نظرنہیں آتا،ہرکسی کوصرف اپنی پڑی ہوئی
ہے۔ذخیرہ اندوزی،جعلی ادویات،چوری کرنا،خریدوفروخت میں دھوکہ اورفریب
کرنا،ڈاکہ زنی کرنا، سودکھانا،امانت میں خیانت کرنا اورحرام چیزوں کی
تجارت،بے گناہ اوراپنے سے کمزورکوپریشان کیاجاتاہے اوران پرہرطرح کے ظلم
وستم کئے جاتے ہیں، گواہوں، وکیلوں، ججوں کورشوت دے کرفیصلے اپنے حق میں
کروالئے جاتے ہیں۔ناجائزطریقہ سے مال غصب کرنا موجودہ دور میں عام سی چیز
ہو گئی ہے ۔ہمارے معاشرہ میں کوئی کسی کوپوچھنے والانہیں،روک ٹوک،جزاوسزا
کانظام ناپیدہوچکا ہے۔
حکومت اوراپوزیشن کوایک دوسرے پرالزام تراشی اورایک دوسرے کی کردارکشی سے
فرصت نہیں۔حکومتی وزراء کی کارکردگی یہ ہے کہ ہروزیرعوامی مسائل پر لیکچر
دینے،سٹاک ایکس چینج اوراعدادوشماربتانے میں مصروف ہے۔غریب عوام حکومت کی
طرف دیکھتے اورسوال کرتے ہیں کہ آپ کی حکومت اورسابقہ حکومتوں میں کیا فرق
ہے ؟ حکمران اورتوکچھ نہیں کرسکتے ،بس رٹہ رٹایا جواب آتا ہے،ہم ستر سال کا
گند سال ڈیڑھ میں کیسے صاف کرسکتے ہیں۔ہمیں کچھ مہلت دیں ، موجودہ حکومت نے
پہلے چھ ماہ کا کہنا شروع کیا،پھرسال اوراب کہنا شروع کردیا ہے ڈیڑھ دوسال
میں مسائل کیسے حل ہوسکتے ہیں۔اب توعوامی سطح پر یہ کہا جانے لگا ہے کہ
بالفرض موجودہ حکمران مسائل کے حل میں سنجیدہ ہیں توبھی ان کے پاس اہلیت ہی
نہیں کہ عوامی مسائل حل کرسکیں۔اب تک مسائل حل نہ ہونا اوربات ہے ،لیکن
مسائل کے حل میں جزوی طورپر ہی سہی کچھ توپیش رفت ہوئی ہوتی۔
قدرتی آفات زلزلہ،بے موسمی بارشیں،گرمی یاشدیدسردی کی لپیٹ، سیلاب،آندھی
طوفان سے پیداہونے والی تباہی وبربادی کے سامنے انسان اورحکومتیں بے بس
ہوتی ہیں۔ ان آفات سے پیداہونے والے مسائل ومشکلات کے اثرات تادیررہتے ہیں،
حکومت اوروہاں کے متاثرین جہاں تک ممکن ہوان مسائل سے نمٹنے کی کوشش کرتے
ہیں۔لیکن اچانک ہونے والے حادثات حکومت وقت اورانتظامیہ کی طویل چشم پوشی
کاشاخسانہ ہوتے ہیں،جیسا کہ گیس کی دُکان یا گاڑی میں پھٹ جانے والے
سلنڈرسے جوتباہی پھیلتی ہے،خستہ حال پل اورسڑکیں،اوورلوڈ گاڑیاں،ڈرائیوروں
کی لاپرواہی اورغفلت کے باعث سینکڑوں جانیں نگل جاتی ہیں تواس وقت انتظامیہ
خواب غفلت سے بیدارہوکرایکشن میں آجاتی ہے۔پکڑدھکڑکریک ڈاؤن شروع ہوجاتے
ہیں لیکن کچھ دنوں کے سب کچھ بھلا دیا جاتاہے اورسلسلہ جوں کا توں چلتارہتا
ہے،یہاں تک کہ پھراُسی طرح کاحادثہ پیش آنے کا انتظارکیا جاتا ہے۔ہونا تویہ
چاہیے کہ حادثہ کی مکمل تحقیقات کی جائیں، متعلقہ محکمہ کے غفلت کے مرتکب
افرادکوسزادی جائے اورتحقیقات کی روشنی میں شفارشات مرتب کی جائیں اورپھران
پرسو فیصد عملد رآمد کروایا جائے کہ دوبارہ اس نوعیت کا کوئی حادثہ پیش نہ
آئے۔
پاکستان کے مسائل میں گھرے غریب عوام کوآج کل گندم اورآٹے کی قلت کاسامنا
ہے۔مستقبل قریب میں چینی کابحران سراُٹھانے والا ہے۔کہاجارہا ہے کہ یہ سب
کچھ ذخیرہ اندوزوں اور مافیازکاکیا دھراہے،جوحکومت کوان مصنوعی بحرانوں میں
مبتلا رکھنا چاہتے ہیں تاکہ حکومت ان کے خلاف کچھ نہ کرسکے اوروہ اپنی من
مانی اسی طرح جاری رکھ سکیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ حکومت مخالفین اورخاص
کرمیڈیا میں اس بحران کوبڑھا چڑھا کرپیش کیاجارہا ہے۔اگرچہ موجودہ بحران سے
نمٹنے کے لئے حکومت کی طرف سے ہرممکن فوری اقدامات کئے جارہے ہیں،لیکن
حکومت کوچاہیے عین وقت پرجب بحران سراُٹھالے اقدامات کرنے کی بجائے ،پیشگی
منصوبہ بندی کی جائے کہ غربت سے تنگ عوام مزیدبحرانوں کے متحمل نہیں۔حضرت
عمربن عبدالعزیزؒکے دورمیں شاہی فرمان تھاکہ برفباری کے دنوں میں پہاڑکی
چوٹیوں پہ چڑھ جاؤاوروہاں خوراک کے دانے پھیلا دوکہ مسلمانوں کی حکومت میں
کہیں پرندے بھوکے نہ رہ جائیں۔
شکوے آنکھوں سے گرپڑے ورنہ
لفظ ہونٹوں سے کب کہے ہم نے
|