اللہ یار آج کچھ پریشان ہے ۔کسی سے سیدھے منہ بات
نہيں کر رہا سہما سہما سا ہے چہرے پر مستقل سی اداسی ہے۔ اسی اداسی کی حالت
میں اللہ یار کی آنکھ لگ جاتی ہے کجھ دیر بعد اچانک کسی میوزک کہ آواز سے
وہ نیند سے بیدار ہوتا ہے آنکھ کھلتے ہی وہ خود کو ایک نٸی جگہ پاتا ہے ۔وہ
جس چار پاٸي پر لیٹا ہوا تھا وہ ایک بہت خوبصورت بیڈ ميں بدل جاتا ہے وہ دو
کمروں والا گھر ایک محل بن جاتا ہے ۔گھر تو گھر جب وہ لاڑکانہ کی گلیوں میں
باہر نکل نکلا تو یہ بڑے بڑۓ روڈ ۔ہر روڈ پر سکیورٹي لمبے لمبے فٹ پاتھ ۔ٹریفک
سگنل ۔ہر راٸوڈ اباٶٹ پر ٹریفک اہلکار ۔گویا وہ خود کو کسی انٹرنيشنل سٹی
میں پاتاہے آگے چلتے ہی اس کو ایک برج نظر آتاہے جو کہ نظر محلے سے انڈس
ہاوے پر جاتا ہے وہ پل دیکھ کر تذبذب ميں مبتلا ہوجاتا ہے کہ آخر یہ تبدیلی
کس وجہ سے آٸی ہے سوچتے سوچتے اس کہ کان پر ایک آواز پڑتی ہے جیسے ہی اس
آواز کہ پیچھے جاتا ہے اس کس کو ایک قافلہ نظر آتا ہے ۔اس قافلے میں بڑے
بڑے سیاستدان ہے اور جييۓ بھٹو ۔اور آج بھی بھٹو زندہ ہے کہ نعرے لگ رہے
تھے۔ اللہ یار دل ہی دل میں خوشیاں منا رہا تھا اب اللہ یار کو یقين ہوگیا
کہ اس تبدیلی کہ جہ صرف پاکستان پپلز پارٹی ہے اور اب پ پ پ اقتدار میں آگٸ
ہے ۔قافلے کہ قریب آتے ہی اللہ یار اپنے جذبات کو قابو نہيں کر پاتا۔ اللہ
یار بھی ڈھول کی تاب پر جھومنے لگتا ہے ایسا محسوس ہورہا تھا ہے کہ اللہ کی
خوشی کا کوٸی مول نہيں ۔ساری پریشانی بھول کر وہ جھومتا ہے ہویا کہ کوٸی
قلندر ۔اسی قافلے میں ناچتے ناچتے اللہ یار کو کسی کا دھکا لگ جاتا ہے اور
وہ گر جاتا ہے ۔اٹھنے کی بہت کوشش کرتا ہے لیکن قافلہ بہت بڑا ہے اسےاللہ
یار کو اٹھنے میں تکلیف ہوتی ہے جیسے تیسے کر کہ وہ اٹھتا ہے ۔اٹھتے ہی اس
کہ چہرے پر پسینہ آتا ہے اور پھر سے وہ خود کو اسی کمرے میں پاتاہے جہاں وہ
پریشان ہوکر سو گیا تھا- |