آج پھر نا جانے عمران خان کو کیا سوجھی کہ جرمن ٹی وی کا
خصوصی نمائندہ اس سے انٹر ویو لینے پہنچا مسئلہ کشمیر کے حل کی بابت دریافت
کیا تو عمران خان نے انوکھا موقف دیا جو میرے دل کی ترجمانی تو ضرورکرتا ہے
لیکن کیا وہ ریاست پاکستان کو قبول ہو گا یہ سوالیہ نشان ہے؟ عمران خان نے
کہا کشمیریوں نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ آزاد رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان سے
ملیں گے ۔ آزادی کی بات کسی پاکستانی حکمران سے انوکھی لگتی ہے ۔ پاکستانی
حکمرانوں نے ہمیشہ جب کشمیریوں کے حق خودارادیت کی بات کی تو اس کا ایک ہی
مطلب رہا کہ کشمیری ہندوستان سے الگ ہو کر پاکستان کا حصہ بنیں اسی لیے
پاکستانی ریاست 5جنوری کو یوم حق خودارادیت مناتے ہیں۔ اس دن کی قرار داد
میں کشمیریوں نے پاکستان یا بھارت کسی ایک کے ساتھ ملنا ہے ۔ آزادی کا آپشن
اس میں شامل نہیں ۔ ایسے میں جب پاکستانی حکمران آزادی کی بات کر گیا تو
مجھے یہ بات انوکھی ضرور لگتی ہے لیکن میرا وجدان کہتا ہے کہ مقبول بٹ کی
قربانی رنگ لانے والی ہے۔ ہم جوبچپن سے ایک بات سنتے آ رہے ہیں کہ ہمارے
وطن کا ایک حصہ بھارت کے قبضہ میں ہے اب کی با ر جب 5اگست سے جاری بھا رت
کے مسلط کردہ کرفیو کے بعد مادر وطن کے بیس کیمپ کہلانے والے آزاد کشمیر
میں حکومت اور سیاسی قیادت خاموش ہے ۔لوگ کسی معرکہ کو بے تا ب ہیں ، مجھے
یہ برسوں کا موقف جھوٹ ثابت ہوتے دیکھائی دیا عید کے دن غاصب بھارتی افواج
نے قربانی نہیں ہونے دی کرفیو میں اب تک کتنے لوگوں کو شہید کیا گیا کتنی
معصوم خواتین کو لہومیں رلایا گیا بچوں کو گولیاں ماری گئی ظلم کی انتہا ء
ہو گئی یہ کسی ایجنسی کا پلان نہیں تھا نہ کو ئی پراکسی وار۔۔۔ لداخ جموں
اور وادی کے سارے ہی حق پرست بزرگوں جوانوں ماوں اور بہنوں کی استقامت پر
ناز ہے لیکن شہید حکمت ڈاکٹر عبد الاحد گرو کی سرزمین صورہ کے بچوں نے مرد
و زن سے مل کر جو مزاحمتی کردار نبھا رکھا ہے اس کی تعریف کے لیے میرے پاس
الفاظ ہی نہیں یہ اس تحریک کا تسلسل ہے جس کا آغاز 11فروری1984ء کو مقبول
بٹ نے پھا نسی چڑھ کر کیا ورنہ بر صغیر کی تقسیم کے بعد اس پار کے کشمیری
خود کو پاکستانی اور اُس پار کے ہندوستانی سمجھ کر چپ ہو بیٹھے تھے لیڈر شپ
مصلحت کا شکار تھی۔مقبول بٹ امام حریت بنا فدائی حملے کرنے والے نوجوان
عادل ڈار کو جب بھارتی فوج نے تشدد کا نشانہ بنایا انہیں فرعونیت کا سامنہ
کر نا پڑا تو کچھ روز بعدعادل ڈار کے دماغ میں انتقام اتر آیا اس نے وہی
راستہ اختیار کیا جو اس کے قبیلے کے مجاہد اول اشفاق مجید وانی نے اختیار
کیا تھا دولت مند گھرانے اور تعلیم کو چھوڑ کر بندو ق اٹھا لی آزاد ی کا
ایک ہی ڈھنگ گوریلا جنگ گوریلا جنگ !کے تصور کے تحت میدان میں اتر آیا اس
نے پر امن راستہ کے بجائے وہ راستہ اپنایا جو مقبول بٹ نے اسے دیکھا یا تھا
سارا کشمیر ثابت کر چکا کہ بھارت کے خلاف عوامی مسلح جدوجہد ہی واحد حل ہے
آزاد ی پسند اور پاکستان نواز کیا بھار ت نواز انجنئیر رشید بھی میدان میں
اتر آیا تو پی ڈی پی کی قائدسابق وزیر اعلی محبو بہ مفتی اور نیا بھارتی
مہرہ شاہ فیصل بھی شیخ خاندان کے ساتھ بھارتی مظالم پر احتجاج کرکے اپنے
آقا بھارت کی جیلوں میں چلے گئے سجاد لون کو گرفتاری کے بعد شرم آئی ہو گی
کہ ان کے Father In Lawے پوری زندگی جو جد وجہد کی کیا اس کا یہی حاصل ہے
کیا اُس کے باپ کے خون کی یہی قیمت تھی۔ ؟آزاد حکومت کی بے حسی بلکہ بے بسی
وزیراعظم کے بلند دعوں کے بعدآزاد کشمیر کے لوگوں کو بے یار ومددگار چھوڑ
کر امریکہ چلے جاناصدر مسعود خان کا خطے میں موجود ہو نے کے بجائے اسلام
آباد بیٹھ کر بھڑکیں لگاناکشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کی خاموشی اور جہاد
کے دعوے داروں کا چپ رہ کر یہ ثابت کرگیاکہ وہ کرائے کے سپاہی ہیں یہ بھی
کہ خود کو جہادی کہلوانے والے جنہوں نے بشارت عبا سی اور عامر حفیظ سے لے
کر قاری وحید نور تک جنت کی بشارت دے کر قربان کروا کر اب کہہ رہے ہیں
’’اجازت‘‘ نہیں مل رہی ۔ حالانکہ قران کی وہ آیت اپنی جگہ ا ب کرفیو کے
نفاذ اور 35Aکے خاتمے کے بعد اور زیادہ دعوت دے رہی ہے کہ’’ کیوں نہیں
نکلتے ان کے لیے جن کو کمزور سمجھ کر دبا لیا گیا ہے‘‘ ہزاروں شہید کرو اکر
اب موقف اپنایا ہے کہ حکومت سیز فائر لائن توڑنے کا اعلان کرے حکومت جہاد
کا اعلان کرے، کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ جہاد کے نام پر 30برس میں جو قربان
کروائے اس کی اجازت کس سے لی تھی؟ اس پار وہ کشمیر جس کے بارے میں یہ کہا
جارہا ہے کہ وہ غلام اور جھوٹا دعوی ہے کہ ہم آزاد ہیں پھر یہاں مکمل
خاموشی ثابت کررہی ہے کہ ایسا نہیں بلکہ ہم بھی غلام ہی ہیں ۔ پاکستان کی
سیاسی جماعتوں کی شاخوں سے توگلہ اس لیے نہیں کہ وہ پارٹیاں نہیں برانچیں
ہیں ۔لیکن وہ جن کی شناخت ہی کشمیر تھا ،ریاستی کہلاتے تھے وہ خاموش
تماشائی کا کردار ادا کرتے رہے ہیں جن سے قوم کو امید تھی وہ قوم پرست ہیں
وہ مصلحت پسند نکل آئے اور ریاستی تشخص کے دعوے دار جو اقتدار کی خاطر
روایتی سیا ست کر رہے ہیں اب کی بار سنہری موقع تھا کہ وہ جو اس کشمیر گلگت
بلتستان اور بھارتی مقبو ضہ کشمیر کو ایک سمجھتے ہیں وہ میدان میں اترآتے
جگہ جگہ دھرنے دیتے مظاہرے کرتے دنیا کو بتاتے کہ اس وقت اصل ایشوء بھارتی
مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کا نفاذ ہے ۔ وہا ں کے ہم وطن بھائیوں کو بے گانگی
کا احساس نہ ہونے دیتے لیکن افسوس کہ قائد تحریک امان صاحب کی رحلت کے بعد
کوئی دماغ ہی نہیں جو بڑی سوچ سوچ سکے ۔آج مجھے JKNSFکا قائد گل نواز بٹ
پھر یاد آ تا ہے 90کی دہائی میں جب بھارتی مقبوضہ کشمیر میں طوفان برپا تھا
آزاد کشمیر خاموش تھا وہاں لہو کے دریا بہہ رہے تھے یہاں بیس کیمپ میں
خاموشی تھی تب گل نواز بٹ نے یہ فیصلہ کیا تھاکہ سیز فائر لائن کو روندا
جائے کھبی تاریخ میں یہ منحوس لکیر نہیں روندی گئی تھی نہ پھر اب تک روندی
گئی 11فروری سن نوے کو مظفرآباد چکوٹھی سے یہ خونی لکیر پاوں تلے روندی گئی
لیاقت اعوان ،فرخ قریشی ، سجاد انجم بھارتی فوجیوں کی گولیوں کے آگے شہید
ہوئے بھارتی فوجی بینکر خالی کر گئے ایک نوجوان مصبیح الرحمن نے بھارتی
مورچوں پر این ایس ایف کا پر چم لہرایا وہ زخمی نوجوان علاج کے لیے بر
طانیہ لے جا یا گیا وہاں آزاد کشمیر کے اس وقت کے حکمران سکند ر حیات نے اس
سے پیش کش کی کہ وہ اس اقدام کو مسلم کانفرنس سے منسوب کرے، مگر سکندر حیات
کو یہ اندازہ نہ تھا کہ ایسی پیش کش مسلم کانفرنس کے سپریم ہیڈ مرحوم عبد
القیوم صاحب نے بھی گنگا ہائی جیکنگ کے وقت مقبول بٹ کو بھی کی تھی نہ
مقبول بٹ نے مانی تھی نہ ان کے پیروکار نے مانی جے کے این ایس ایف کے اس
اقدام سے بھارتی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں میں باور ہوا تھاکہ اس پار کے لوگ
اُس پار کے لوگوں کو اپنے جسم کا حصہ سمجھتے ہیں گل نواز بٹ دس سال قبل
زلزلہ میں شہید ہو چلا اب کوئی اور گل نواز بٹ نہیں جے کے این ایس ایف میں
بھی اب وہ سوچ نہیں نہ وہ جذبہ لبریشن فرنٹ کی بھی پالیسیاں اب زرا اور ہو
گئی ہیں بھارت کے زیر قبضہ خطے میں موجود جے کے ایل ایف کے سب سے بڑے دھڑے
کے قائد یاسین ملک کئی مہینوں سے تہاڑ جیل دہلی کی کال کوٹھڑی میں تنہائی
میں قید ہیں ۔ اُن کی رہائی کے لیے خود اُن کی پارٹی کوئی فیصلہ کن احتجاج
نہ کرسکی۔ حتیٰ کہ لبریشن فرنٹ کے پلیٹ فارم سے یاسین ملک کے رہائی کے لیے
جب وہاں ایک جلوس تک نہ نکلا ۔ تو بھارت کو شہہ ملی کہ وہ 35Aختم کردے۔
یاسین ملک کے متحدہ مزاحمتی قیادت والے فورم جے کے آر ایل میں شامل دیگر
دونوں اتحادی علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق ،بھی یاسین ملک کی گرفتاری
کے خلاف لوگوں کو سٹرکوں پر نکال نہ سکے۔ روا یتی سیاسی جماعتوں کی طرح قوم
پرست بھی بے حسی اور بے ضمیری میں آ گے نکل گئے ہیں بھارتی مقبو ضہ کشمیر
کے لوگوں میں اس پار کی قیادت نے ویسے ہی دوریاں سامنے لائی جیسے 2010کی
پُر من تحریک میں کشمیر کے لوگوں کے ساتھ ہم نے بے وفائی برتی تھی تب عید
کے دن بھی وہاں سری نگر میں خواتین سڑکوں پر نکل آئی تھی ہم اب بھی خاموش
ہیں یہ بے ضمیری اور بے حسی اور لا تعلقی ہمارے اس دعوے کو جھوٹ ثابت کر
رہی ہے کہ ہم ایک ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ خاموشی کا سکوت جدایوں
میں بدل جائے گا کوئی اٹھے گا اور گل نواز بٹ کی طرح پھر ثابت کرئے گا کہ
ہم ایک ہیں کاش 05اگست کو جب میرے وطن کے دوسرے حصے میں کرفیو لگایا
گیاخصوصی حیثیت ختم کر کے بھارتی شہریوں کو جموں وادی لداخ میں زمیں خریدنے
کا حق دیا گیا بھارت کے ایک وزیر اعلی نے یہ کہہ کر غیرت اچھالی کہ کشمیر
کی خوبصورت لڑ کیوں سے بھارتی شادی کریں ایسے میں جموں کشمیر کے سکھوں
،ڈوگروں ،پنڈتوں نے اجتماعی یاداشت بھارتی حکمرانوں اور عدلیہ کو ارسال کی
کہ کشمیر کے ساتھ مودی کا نیا فیصلہ قبول نہیں دہلی میں قیام کشمیری سکھوں
نے مسلمان طالبات کو محفوظ طریقے سے وادی پہنچایا تو جموں و کرگل میں بھی
نہ صرف وادی کی طرح کرفیو اور دفعہ 144نافذ ہے بلکہ وہاں کے لوگ بھی سڑکوں
پر نکلے کہ ہم ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہیں ،وحدت کشمیرکا70سال بعد ثبوت
سامنے آیا ۔ مقبول بٹ کے نام لیوا اس مو قع پر سیز فائر لائن کو پاوں تلے
روندتے ہوئے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوتے اگر جانیں جاتی پار والے
وفا پرست لکھتے گرفتاریاں ہوتیں تو ثابت ہوتا کہ آزاد کشمیر آزاد نہیں لیکن
ہم نے اپنی بے حسی سے اپنے آپ کو جھوٹا ثابت کر دیکھایا ۔یہ جنگ مہینوں سے
بھی آگے نکل گئی اب کے بار کرفیو لگا کر بعض علاقوں میں لوگوں کو نماز عید
سے بھی روک دیا گیا اس وقت تک بلا گنتی کشمیری اس نئی جنگ میں جانیں قربان
کر بیٹھے سات سو سے زائد بینائی لٹا بیٹھے چھرے والی بندوق کے بجائے اب مرچ
والی آنسو گیس استعمال کی جا رہی ہے عالمی دنیا خاموش ہے ترکی میں ترکی اور
کشمیر کے پرچم اٹھا کر ترکی کے لوگوں نے کشمیریوں کے حق میں مظاہرے کئے
نیوزی لینڈ ایران بنگلہ دیش پاکستان برطانیہ آسٹریلیا حتی کہ بھارت سمیت
کئی ملکوں میں پہلی بار کشمیریوں کے حق بھرپور آواز اُٹھ رہی ہے لیکن
کشمیری حریت پسند اس کو اپنے حق میں استعمال نہ کروا سکے 89میں بے نظیر
حکومت کے وقت بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی جب سار ک کانفرنس میں اسلام
آباد آئے تو کشمیر کے نام والے بورڈ تک اتروائے گئے تب اس وقت کے JKNSFکے
صدر سردار آفتاب (مرحوم) کی قیادت میں دفعہ144کی خلاف ورزی کر کے اسلام
آباد کو ہلانے والا احتجاج ہوا کئی دن یہ حق پرست اڈیالا جیل میں بند رہے
اب کی بار کسی میں یہ جرات نہیں ہو ئی حتیٰ کہ ہند کو فتح کرنے کے دعوے دار
بھارتی سفارت خانے کے سامنے ہی اسلام آباد میں احتجاج کر لیتے امریکہ پھر
کہہ اٹھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ مل کروہ بطور ثالث مسئلہ کشمیر حل
کروائے گا۔کسی کشمیری سیاسی گرو ہ کی طرف سے اب کے بار واضح موقف نہ آنے
سوال پیدا ہو رہے ہیں آزادی پسند طبقے نے پیپلز نیشنل الائنس کا قیام عمل
میں لا کر ہزاروں افراد کے ساتھ ریاست جموں کشمیر چھوڑ دو تحریک کا جو آغاز
کیا ہے وہ ایک بڑی پیش رفت کا باعث بن سکتا ہے عمران خان UNO میں ہونے والے
حالیہ اجلاس سے قبل جب مظفر آباد آئے تو کشمیری قیادت کو چاہیے تھا کہ وہ
ان سے ملاقات میں یہ مطالبہ کرتے کہ 47کی حکو مت بحال کی جائے تاکہ گلگت
بلتستان کے لو گوں کو نہ صرف ان کے حقوق ملتے بلکہ عالمی سطح پر کشمیری خود
اپنا مقدمہ پیش کریں فاروق حیدر بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ پاکستانی وزیر خا
رجہ کا موقف کو ئی نہیں سنتا ایسے میں جب پاکستانی وزیر خارجہ لوگوں کے
سامنے حق خود ارادیت کی بات کرتے ہیں اور پاکستان کی اسمبلی میں جا کر
کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ لگاتے ہیں اس دوغلے پن کے خاتمے کے ساتھ یہ
بھی ضروری ہے کہ کشمیر کے نام پر پاکستان سے وفود باہر بھیجنے کا سلسلہ ترک
کیا جائے ان وفود کو کشمیر کی تاریخ اور جغرافیے سے واقفی نہیں یہ وہاں جا
کر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بات کرتے ہیں اقوام متحدہ کی قراردادیں
واضح کہتی ہیں کہ پاکستان پہلے آزاد کشمیر اور جی ۔بی سے اپنا انخلاء کرے
اور ہندوستان کی فوج ان علاقوں میں بھی آئے جو رائے شماری کروائے کیا ان
قراردوادوں کا موقف اپنا کر پاکستان کشمیر کے ساتھ وفا دور کی بات اپنے
ساتھ زیادتی نہیں کر رہا انقلابی حکومت کی بحالی کے ساتھ آزاد کشمیر کی فوج
AKرجمنٹ بحال کر بھارت کے ساتھ سیز فائر لائن پر وہ تعینات کی جائے اگر
ایسا ہو جائے بھارت کے پاس جموں کشمیر سے انخلا کا کوئی جواز نہ بچے اگر
عمران خان اور قمر جاوید باجوہ ایسا کر گئے تو یقینا 1832 سے لیکر آج تک کی
قربانیاں رنگ لے آئیں گی اور اگر اس پر عمل نہ ہو سکا تو پھر پاکستان پر
بھی بہت ساری انگلیاں اٹھیں گی سلام مقبول بٹ کو جس نے یہ راستہ دیا کہ
کشمیری آزاد ی کے لیے لہو بہانے کو اعزاز سمجھتے ہیں اب کشمیریوں نے ثابت
کر دیکھایا کہ کشمیر ی صرف اس راستے کو صحیح سمجھتے ہیں جو مقبول بٹ نے
دیکھایا تھا گئے سال چودہ فروری کو پلوامہ میں چالیس بھارتی فوجیوں کو واصل
جہنم کرنے والا فداعی حملہ آور عادل ڈار تو سری نگر کا کپٹن حسین خان
شہیداور گلگت کا حسن مرزا نکلا جنہوں نے وہاں خود رو تحریک کا احیا کیا
۔کپٹن حسین خان نے 1947میں پونچھ خطے میں اور حسن مرزا نے گلگت بلتستان میں
عادل ڈار کی طرح اپنے وسائل سے ہتھیار خرید کر اس دور میں خود رو تحریک
شروع کی تھی اب کی بار جب وہاں آزاد کشمیر کے قومی پرچم جلسوں میں اور
گھروں پر لہرانا شروع کر چکے ہیں جو اس بات کا اظہار ہے کے وہ اس پار کے
کشمیر کو اپنے کشمیر کے ساتھ جوڑنا چاہتے ہیں وہ اپنی شناخت اس جھنڈے کو
بنا چکے ہیں ایسے میں صرف ایک ہی راستہ باقی بچتا ہے کے آر پار دونوں اطراف
سے سیز فائر لائن روندنے کی کال دی جائے سفید پرچم اُٹھا کر جب شگاگو کے
مزدوروں کی طرح لانگ مارچ ہو تو یقینی بات ہے دنیا اس پر توجہ دے گی اور
اگر کسی بھی فوج نے امن کا یہ جھنڈااُٹھانے والوں پر گولیاں چلا کر انہیں
لہو میں نہلایا تو شرکا تاریخ میں سرخرو ہو نگے اگر آزادی کے نام لیواوں کو
بھی جان پیاری ہے تو پھر ایک راستہ بچتا ہے جو برسوں پہلے بابائے قوم مقبول
بٹ کے دست راست ہاشم قریشی نے دیا تھا کہ ہر شہر ہر قصبے میں پر امن طور پر
کشمیری قوم دھرنے دے اب ریاست میں ان دھرنوں کے ساتھ دنیا بھر سفارت خانوں
کے سامنے بھی دھرنے دئیے جائیں JKLFنے بروقت ادراک کر کے 7ستمبر کو جموں
سیکٹر کے علاقے تتری نوٹ ( پونچھ )پر دھرنے سے اس کی شروعات کیں اب اس
تسلسل کو بڑھاتے ہو ئے ساری ریاست تک دائرہ کار پھیلانا ہو گا لداخ کرگل
،سکردو میں حا فظ حفیظ الرحمن ،نواز خان ناجی ،کرنل نادر عنایت شمالی،مہدی
شاہ چکوٹھی میں راجہ فاروق حیدر لطیف اکبر ،شاہ غلام قادر بھمبر میں راجہ
ذولقرنین بیر سٹر سلطان چوہدری مجید شفیق جرال طارق فاروق کھوئی رٹہ میں
چوہدری یا سین مطلوب انقلابی ،رفیق نیئر ، تتری نوٹ پونچھ سیکٹر میں مسعود
خان،انور خان،یعقوب خان علامہ سعید یوسف، ڈاکٹر خالد اعجاز افضل عامر الطاف
،یاسین گلشن،عبدالقیوم نیازی امجد یوسف ،صغیر چغتائی،حسن ابراہیم نجیب نقی
فاروق طاہر ، طاہر انور، عابد حسین عابد ،اعجاز یوسف باغ اوڑی میں عتیق خان
قمر زمان رشید ترابی،میر اکبر مشتاق مہناس ،عثمان عتیق ضیاء قمر اور نکیال
میں سکندر حیات ، ملک نواز ،راجہ نصیر ، راجہ نثار ، فاروق سکندر یہ
احتجاجی دھرنے دیں۔حریت کانفرنس اور جہاد کونسل کے نمائندے بھی ان کے ساتھ
شامل ہوں آزادی پسندویسے ہی ان کے ساتھ شامل ہو نگے۔ یہی جڑت کا باعث ہو گا
اور عملی اظہار یکجہتی بھی ہو گا اگر ایسا نہ کیا گیا تو بھارتی مقبوضہ
جموں کشمیر کے لوگ مایوس ہو کر کوئی اور راستہ اپنا سکتے ہیں۔جو ایک باوقار
زندگی کاحامل ان کا خطہ ہو گا لیکن ہم اہل آزاد کشمیر اورGBمکافات عمل میں
شہیدوں کے ساتھ اس غداری کے باعث کرہ ارض سے اپنا وجود حرف غلط کی طرح مٹا
ئیں گے فرشتوں کی مجلسوں میں ہمارا ذکر غداروں میں ہو گا تاریخ میں ہمارا
لفظ تک نہ ہو گا۔ حرف آخر وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اقوام متحدہ میں
کشمیر کے متعلق جس نئے بیانیے کو سامنے لایا تھا اور اب جرمن میڈیا کو انٹر
ویو میں جو حقیقت تسلیم کی کہ کشمیریوں نے آزاد رہنا ہے یا پاکستان کا حصہ
بننا ہے وہ خوش آئند ہے۔ پہلی مرتبہ کسی پاکستانی حکمران نے اقوام متحدہ کی
قراردادوں "جو صرف الحاق پاکستان اور ہندوستان تک کشمیر کے مستقبل کو محدود
کرتی ہیں جموں کشمیر کے لیے ان قرار دادوں میں حق آزادی کا آپشن نہیں"کہ
بجائے Self Determinationکی مانگ کی ہے اور ساتھ ہی اقوام متحدہ کے اس
اجلاس کے باہر کشمیریوں کے مظاہرے میں چند روز پہلے تک کشمیر بنے گا
پاکستان کا نعرہ لگانے والے وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی نے کشمیری
عوام زندہ باد کا نعرہ لگا کر نئے بیانیے کا اشارہ کر دیا۔ یہی وہ بیانیہ
ہے جس پر چل کر پاکستان اور ہندوستان ایٹمی جنگ سے بچ سکتے ہیں۔ کیا ریاست
پاکستان بھی عمران خان کے اس بیانیے کو قبول کرے گی جس میں جرمن میڈیا کو
اپنے انٹر ویو میں عمران خان نے کہا کہ کشمیریوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ
آزاد رہیں گے یا پاکستان سے ملیں گے؟ آزادی کی بات پہلے بھی نواز شریف نے
کی تھی اور ایک زمانے میں بینظیر نے بھی کیا عمران خان پھر نواز شریف نے جس
طرح ایران میں اپنے دور حکومت میں خودمختار کشمیر کی بات کی تجویز دی تھی
لیکن پاکستان پہنچتے ہی انہیں اس تجویز کو واپس لینا پڑا تھا ریاست کے کہنے
پر عمران خان پھر موقف بدل کر ایشیا کو ہولناک ایٹمی جنگ کی نذر کریں گے۔
۔۔۔۔۔
تہمت لگا کر ماں پہ جو دشمن سے داد لے ایسے سخن فروش کو مرجانا چاہیے
|