آخر کون آنسو بہائے؟

رعونت،درندگی اورسفاکی،تہذیب کے ہرقرینےاورانسانیت کے ہرسلیقےسےعاری ہوتی ہے۔وہ اپنی خوں آشامی کاجوازخود ہوتی ہےاوراپنی حیا باختگی کی دلیل خودتراشتی ہے۔کسی کی برہمی،کسی کی تنقیداورکسی کی حرف گیری سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اگرایساہوناہوتاتوامریکابہت پہلے سےاپناچلن تبدیل کرچکاہوتااوراسے اندازہ ہوگیاہوتاکہ اسلحے اور ٹیکنالوجی کے زورپرانسانوں کے پرخچے اڑانے اوربستیاں پیوندزمین کردینے سے نہ کوئی قوم سربلندہوتی اورنہ کوئی ریاست آبروپا تی ہے۔امریکی تاریخ حیاباختہ جنگوں،آزادخودمختارممالک کے امورمیں ننگی مداخلت اورمعصوم انسانوں کے قتل سے بھری پڑی ہے۔اگرکسی کے پاس مستنداورمصدقہ اعداد و شمار جمع کرنے کاہنرہوتاتوپتہ چلتاکہ امن،انسانی حقوق،جمہوریت اورآزادی کادرس دینے والی سپرپاورکے دامن پرجھوٹ کے کتنے داغ اورمکاری کے کتنے چھینٹے ہیں۔

بھول جایئے کہ6اگست1945ءکوہیروشیماپرپہلاایٹم بم”امن وآشتی“کے اسی علمبردارنے گرایاتھاجس سے تین لاکھ سے زائد انسان ہلاک اورلاکھوں اپاہج ہوگئے۔بھول جایئے کہ9/اگست1945ءکواسی مبلغِ انسانیت نے ناگاساکی پردوسراایٹم بم گرایا تھا جس سے شہرکی ایک تہائی آبادی ہلاک ہوگئی تھی۔اڑھائی سوسال پہلے1763ءمیں پہلے جراثیمی ہتھیاربھی امریکامیں موجودہ امریکیوں کے آباؤاجدادنے استعمال کئےتھے۔ پہلی جنگِ عظیم کے دوران جنگی قیدیوں پرزہریلی گیس استعمال کرنے کااعزازبھی امریکاکے پاس ہے۔1925ءمیں جب جنیواکنونشن کیمیائی اور جراثیمی ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی لگارہاتھاتو سب سے زیادہ مخالفت امریکانےکی تھی اوراس پابندی کوقبول کرنے سے انکاربھی کردیاتھا۔یہ باتیں بھول جایئے کہ قصہ ماضی ہوچکی ہیں لیکن آج بھی امریکااین پی ٹی پردستخطوں سے انکاری ہے۔وہ روس سے کئےگئے اینٹی بلاسٹک میزائلوں کے معاہدے سے بھی یکطرفہ طورپرمنحرف ہوچکاہے۔آج بھی اس کے ایٹمی گودام میں بارہ ہزارسے زائد ایٹم بم پڑے ہوئے ہیں۔آج بھی اس کے پاس کیمیائی اورجراثیمی ہتھیاروں کاسب سے بڑاذخیرہ ہے اورآج بھی اس کی غارت گری اورانسانیت کشی جوں کی توں ہے بلکہ کئی گنابڑھ چکی ہے۔
جولائی2002ءمیں افغانستان کے ایک گاؤں میں شادی کی ایک تقریب جاری تھی۔بچیاں ڈھولک کی تھاپ پر گیت گارہی تھیں ،پٹاخے چھوٹ رہے تھے۔آسمانوں کی بلندیوں سے امریکی طیاروں نے دیکھااوراسے طالبان کی جنگی تیاریوں کاکوئی کیمپ خیال کرتے ہوئے درجنوں بم گرادیئے۔ عورتوں اوربچوں سمیت48بے گناہ انسانوں کے پرخچے اڑا گئے۔عالمِ اسلام نے جھرجھری تک نہ لی۔مری مری،منمنی سرگوشیوں کے سوااحتجاج کی کوئی لے بلندنہ ہوئی۔قبریں کھدیں اورجلنے سے بچ جانے والے اعضاءدفن کردیئے گئے۔امریکی سنٹرل کمانڈنے سینہ تان کرکہا”ہم اس حملے میں پوری طرح حق بجانب تھے ،ہمارے جہازوں پرفائرنگ کی گئی تھی۔اس سفاکی کے دوسال بعدایساہی المیہ عراق کے ایک سرحدی گاوں میں بھی پیش آیاجہاں شادی کی ایک تقریب پربم برساکر55/افرادکوموت کے منہ میں دھکیل دیاگیا۔زمین پررینگتے کیڑوں مکوڑوں کو دیکھ لینے والی ٹیکنالوجی کوشادی کی تقریب”المہدی آرمی“کی چھاؤنی نظرآئی۔خبررساں ایجنسی رائٹرنے ایک عینی شاہد کے حوالے سے بتایاکہ شہید ہونے والوں میں15/بچے اور52خواتین بھی شامل تھیں۔ایک اورعینی شاہد نے العربیہ ٹی وی چینل کوبتایاکہ امریکی طیاروں نے کم وبیش ایک سوبم گرائے۔ٹی وی چینل نے یہ بھی دکھایاکہ کس طرح لہوبہہ رہاہے اور کس طرح ایک گردسے اٹی ہوئی سڑک پرکٹی پھٹی لاشوں کے ڈھیرپڑے ہیں۔

ابوغریب جیل اوربگرام ایئربیس کی متعفن کہانیاں سامنے آنے کے بعدتحقیقات،گواہیاں،بیانات،کورٹ مارشلزاوربازپرس کا ڈرامہ بھی اس تہذیب یافتہ دنیانے دیکھالیکن اب تک کوئی نہیں جواس کھلی بربریت پرامریکاکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے۔آج بھی جب وائٹ ہاوس،پینٹاگون یاسٹیٹ آفس کاکوئی کارندہ کسی مسلمان ملک کارخ کرتاہے توحکمرانوں پرشادی مرگ کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔اس کیلئے سرخ قالین بچھتے،خیرمقدمی بینرلگتے اورپرتکلف ضیافتوں کا اہتمام ہوتا ہے۔اس کے خون آلودہاتھوں کوتھامنا،مصافحہ کرنااورچومنااعزاز وافتخار خیال کیاجاتاہے۔اس کی تشریف آوری کواپنی عزت افزائی سمجھاجاتاہے۔

بیسویں صدی میں19کروڑکے لگ بھگ انسان جنگوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔اقوام متحدہ وجودمیں آئی بھی توخونریزی نہ روک سکی۔اب توامریکانے کسی آزادملک پرحملہ آورہونے کیلئے جھوٹے سچے پرمٹ کی روایت بھی ختم کردی ہے اور ”حفظِ ما تقدم“کانیافلسفہ تخلیق کیاہے،گزشتہ صدی کے اختتام پرجولائی1998ءمیں اقوام متحدہ کے120/رکن ممالک ہیگ میں جمع ہوئے۔انہوں نے جینواکنونشن کے ضابطوں کوزیادہ موثربنانے اور جنگی جرائم کے مرتکب فوجیوں کوسزادینے کیلئے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے چارٹرکی منظوری دی۔اس عدالت کوعملاًوجودمیں آئے ہوئے22 سال ہونے کوہیں لیکن امریکا کی بدمستیاں جاری ہیں۔اس نے اس عدالت کے خلاف سب سے زیادہ واویلاکیااورکہا”ہماری فوج تودنیاکے ایک سو ممالک میں موجود ہے، ہمیں سیاسی وجوہ کی بناءپراس عدالت میں گھسیٹاجاتارہے گا۔”

عالمی رائے عامہ کومطمئن کرنے کیلئے صدرکلنٹن نے جاتے جاتے اس چارٹرپردستخط توکر دیئے لیکن قصرسفیدمیں قدم رکھتے ہی بش نے اپنے فرعونی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس کی توثیق سے انکارکردیااوراوباماکے بعدٹرمپ بھی انہی پالیسی پرکاربندہیں۔اس عدالت کوغیرموثربنانے کیلئے امریکانے دنیاکے89ممالک سے معاہدہ کرلیاہے کہ اگر کوئی امریکی فوجی یاسویلین انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور جنگی جرائم میں ملوث پایاگیاتو اسے امریکاکے حوالے کردیاجائے گا۔امریکانے قانون بنارکھاہےکہ جوملک اس نوع کامعاہدہ کرنے سے انکاری ہو، اس کی امدادروکی جاسکتی ہے۔ احتیاط مزید کے طورپر امریکانے2002ءمیں سلامتی کونسل کی ایک قراردادکے ذریعے اپنے آپ کوایک سال کیلئے اس عدالت سے مستثنیٰ قرار دلوایا،جولائی2003ءمیں اس میں مزیدایک سال کی توسیع کردی گئی اوراس کے بعداب تک ہرسال امریکااستثنیٰ کاحق دارٹھہرتاہے۔

ادھرامریکاکالے پالک اسرائیل جب چاہے،غزہ میں بیگناہ فلسطینیوں کاخون بہاناشروع کردیتاہے اوراس کے ایک اورہم آغوش نشیں بھارت نے 5/اگست2019ء کواقوام متحدہ کی تمام قراردادوں اورخوداپنے آئین کے پرخچے آڑاتے ہوئے کشمیریوں کوکچلنے کا پروگرام شروع کرتے ہوئے کرفیونافذکرکے اسے دنیاکی سب سے بڑی جیل میں منتقل کردیاہے۔ مقبوضہ کشمیر میں کئی ہزارگمشدہ افرادکی اجتماعی قبروں کاانکشاف ہواجس کی باز گشت عالمی پریس میں بھی سنائی دی گئی،مقبوضہ کشمیرمیں ظلم و ستم کابازارگرم ہے،کرفیولگاکرکشمیریوں کوگھروں میں قیدکردیاگیاہے۔کشمیری پہلے ہی برسوں کی خانہ جنگی کی وجہ سے بھوک ومفلسی کاشکارہیں اوربھارتی بنیاءیہ سمجھتاہے کہ معاشی طورپرکشمیریوں کوتباہ کرکے ان کوحقِ خودارادیت کے نعرے سے دستبردارہونے پرمجبورکردے گا،ان کے بعض لیڈروں کوخریدکر کشمیریوں کی جدوجہدآزادی کو ہمیشہ کیلئے ختم کردے گالیکن بھارتی بنئے کی تمام مکاریاں اورچالبازیاں اب تک ناکام ہو گئیں ہیں۔

قصرسفیدکے فرعون ٹرمپ نے تواسرائیلی کاروائیوں کومبنی برحق قراردے رکھاہے اورمودی کوبھی بہترین دوست قرار دیکر تازہ خراج پیش کر چکا ہے اورامریکی دوغلے پن کوبے نقاب کردیاہے اوریہ دکھادیاکہ خودکومہذب کہنے والوں کے ہاں کتوں کوتوفیملی ممبرکادرجہ حاصل ہے مگرکسی جیتی جاگتی انسانی جان کی کوئی قدروقیمت نہیں!لیکن کسی سے کیاگلہ، مراکش سے انڈونیشیاتک ایک سناٹے کاراج ہے۔بڑے بڑے بادشاہ،صف شکن سورمااورعالی قدررہنماخاموش ہیں۔حرفِ مذمت تودورکی بات ہے،سفاک وظالم کوگھربلاکرملک کے سب سے بڑے اعزازسے نوازکرکشمیرمیں جاری کربلاکے جرائم میں مودی کاساتھ دیکراپنی عاقبت تباہ بربادکرلی۔خونِ مسلم کی ارزانی پردوآنسو بہانے والاکوئی نہیں،آخرکون آنسوبہائے؟ سب کی آنکھیں تو(قصرسفید)کی بارگاہِ نازپرلگی ہوئی ہیں اورجب کوئی سواری وہاں سے ادھرکارخ کرتی ہے توقالینوں کا کاروبار چمک اٹھتاہے اور پھولوں کی دوکانیں خالی ہوجاتی ہیں
آج تمہاری خونخواری پرحیرت ہے حیوانوں کو
تم توکل تہذیب سکھانے نکلے تھے انسانوں کو
کیساشوق چرایاتم کوشہروں کی بربادی کا
جگہ جگہ آبادکیاہے تم نے قبرستانوں کو
اتنے بھی سفاک منافق دنیانے کب دیکھے تھے
کتوں کامنہ چومنے والے قتل کریں انسانوں کو

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 315734 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.