جمہوریہ ہند کا آئین اور موجودہ حکومت

ملک کی آزادی کے لیے مسلمانوں نے کندھے سے کندھا ملاکر اپنے ہم وطنوں کے ساتھ بھرپور حصہ لیا ہے

ہندوستان میں مختلف رنگ کے، مختلف زبان بولنے والے اور مختلف مذاہب کی اتباع کرنے والے لوگ لمبے عرصہ سے رہتے چلے آرہے ہیں۔ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے حضرت محمد مصطفیﷺ کو عالمی نبوت سے سرفراز کیا گیا یعنی آپ ﷺ کو پوری دنیا اور قیامت تک آنے والے تمام انس وجن کے لئے نبی بناکر بھیجا گیا۔ آخری نبی حضور اکرم ﷺ کی حیات میں تو اسلام کا پیغام ہندوستان تک نہیں پہنچ سکا مگر آپ ﷺ کی وفات کے صرف 82 سال بعد حضرت محمد بن قاسمؒ کے ذریعہ سندھ کے راستے سے اسلام ہندوستان میں ساتویں صدی یعنی 92 ہجری میں آگیا تھا، اُس وقت پاکستان اور بنگلادیش ہندوستان کا ہی حصہ تھے۔ حضرت محمد بن قاسمؒ کے سلوک اور اخلاق سے متاثر ہوکر آج سے تقریباً 1300 سال پہلے ہندوستان کی اچھی خاصی تعداد نے مذہب اسلام کو قبول کیا، اور تب سے ہی مسلمان اپنے دیگر ہم وطنوں کے ساتھ اس ملک میں رہتے چلے آرہے ہیں۔ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی پوری دنیا میں مثال پیش کی جاتی ہے کہ سینکڑوں سال سے مختلف مذاہب کے رہنے والے لوگ مل جل کر ملک کی ترقی میں حصہ لیتے ہیں۔

چھ سو سال سے زیادہ اس ملک میں مسلمانوں نے حکومت بھی کی ہے۔ 1526 سے 1857 تک مغلیہ سلطنت کا دور بابر بادشاہ سے شروع ہوکر بہادر شاہ ظفر تک رہا۔ اس سے پہلے خاندانِ غلاماں نے 1206 سے 1290 تک، خلیجی خاندان نے 1290 سے 1321 تک، تغلق خاندان نے 1321 سے 1412 تک، سید خاندان نے 1412 سے 1451 تک اور لودھی خاندان نے 1451 سے 1526 تک دہلی پر حکمرانی کی تھی۔ غرضیکہ ایک لمبے عرصہ تک مسلمانوں نے اس ملک پر حکومت کی لیکن کبھی بھی ہندو مسلم فساد برپا نہیں ہوا بلکہ گنگا جمنی تہذیب کے پیش نظر مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ تعصب کا برتاؤ نہیں کیا گیا اور ہر مذہب کے ماننے والے کو اس کے مذہب کی تعلیمات پر عمل کرنے کی اجازت دی گئی۔

مغل بادشاہ جہانگیر کے دورِ حکومت میں انگریز ہندوستان آئے تھے اور شاہ جہاں کے دورِ حکومت میں انگریزوں نے باقاعدہ طور پر تجارت شروع کردی تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے تجارت کی آڑ میں آہستہ آہستہ ہتھیار اور فوجیوں کو ہندوستان لانا شروع کردیا، مگر دہلی میں قائم مغل سلطنت اتنی مضبوط تھی کہ انگریزوں کو بہت زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ مگر ہندوستان میں سب سے بڑے رقبہ پر حکومت کرنے والے شاہ جہاں کے بیٹے اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد مغلیہ سلطنت کمزور ہونے لگی۔ چنانچہ اٹھارہویں صدی میں مغلیہ سلطنت کا جیسے ہی زوال شروع ہوا شاطر انگریزوں نے پورے ملک پر قبضہ کرنے کے پلان پر عمل کرنا شروع کردیا۔ انگریزوں کے خطرناک پلان کو بھانپ کر ہندوستان کے مجاہدوں نے انگریزوں کا مقابلہ کرنا شروع کردیا۔ شیر بنگلال نواب سراج الدولہ اور شیر میسور ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریزوں کے مظالم اور بڑھ گئے اور رفتہ رفتہ دہلی کے ساتھ ملک کے اکثر حصوں پر اُن کا قبضہ ہوگیا۔ اسی دوران مشہور محدث شاہ ولی اللہؒ کے بڑے صاحبزادے شاہ عبدالعزیزؒ نے انگریزوں کے مظالم دیکھ کر اُن کے خلاف جہاد کرنے کا اعلان کردیا، جس کے بعد علماء حضرات میدان میں اتر آئے۔ سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ جیسے مجاہدین آزادی نے جام شہادت نوش کیا۔ آہستہ آہستہ ملک کی آزادی کے لئے آوازیں بلند ہونے لگیں۔ جب انگریزوں نے ہندوستانیوں کو اُن کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہیاں کرنی شروع کردیں اور عام لوگوں کو انگریزوں کی حکومت پر تشویش ہونے لگی تب ملک میں انگریزوں کو ہندوستان سے باہر نکالنے کی باقاعدہ مہم شروع ہوگئی اور 1857 میں ہندوستان کے لوگوں نے مل جل کر انگریزوں کے ساتھ جنگ لڑی، جس میں مسلم علماء انگریزوں کے خلاف فتوی جاری کرکے ڈٹ کر اُن کے مقابلہ میں کھڑے ہوگئے۔ 1857 کی انگریزوں کے ساتھ جنگ میں ملک آزاد تو نہیں ہوسکا لیکن ہندوستان کے رہنے والے خاص کر علماء حضرات آزادی کے لئے کھل کر میدان میں آگئے۔ 1857 کی جنگ کے وقت ہندوستان کے بادشاہ بہادر شاہ ظفر تھے جو انگریزوں سے پہلے‘ آخری ہندوستانی مغل حکمراں تھے، جن کے چاروں بیٹوں کا سر قلم کرکے انگریزوں نے ظلم کی انتہا کرکے تھال میں سجاکر اُن کے سامنے پیش کیا، اور پھر بہادر شاہ ظفر کو دھوکہ دے کر گرفتار کرکے ہندوستان کے سپوت کو ہمیشہ کے لئے رنگون بھیج دیا۔

1857 کی جنگ میں انگریزوں سے مقابلہ کرنے میں چونکہ علماء کرام سب سے آگے تھے، اس لئے انگریزوں نے بدلہ بھی علماء سے لیا، چنانچہ چالیس ہزار سے زیادہ علماء حضرات کو پھانسی کے پھندے پر لٹکادیا۔ علماء حضرات کے ساتھ اس وحشیانہ سلوک دیکھ کر علماء کرام کی ایک جماعت نے اپنے دین اور ملک کی حفاظت کے لئے 30 مئی 1866 کو دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی، جس کے پہلے طالب علم (شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ) نے تحریک ریشمی رومال کے ذریعہ انگریزوں کا تختہ پلٹنے کی کوشش کی۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے الہلال اور البلاغ اخبار کے ذریعہ آزادی کا صور پھونکا۔ مہاتما گاندھی نے ڈانڈی مارچ اور ستیہ گرہ تحریک چلائی۔ 1942 میں انگریزوں ہندوستان چھوڑوتحریک چلی۔

1857 سے ملک کی آزادی کے لئے جو جنگ انگریزوں کے ساتھ شروع ہوئی تھی، آخر کار 15 اگست 1947 کو مکمل ہوئی۔ ہمارا ملک آزاد تو ہوا،مگر افسوس کہ ملک ایک نہ رہ سکا، پاکستان اور پھر بنگلادیش کی شکل میں ہندوستان سے الگ ہوگئے۔ خیر ہندو مسلم کی مشترکہ جد وجہد اور علماء کرام کی بے لوث قربانیوں سے یہ ملک آزاد ہوا۔ اس ملک کی آزادی کے لئے ہزاروں علماء کرام اور لاکھوں لوگوں نے اپنی جان کی قربانی دی۔ ان ہی مجاہدین آزادی میں میرے دادا محترم حضرت مولانا محمد اسماعیل سنبھلی ؒ بھی ہیں جن کی تقریروں سے گھبراکر انگریزوں نے انہیں متعدد مرتبہ کئی سال جیل میں رکھ طرح طرح کی تکلیفیں دیں۔

15 اگست 1947 کو ہمارے ملک کو آزادی تو مل گئی تھی لیکن ملک کا اپنا قانون نہ ہونے کی وجہ سے ”حکومت ہند ایکٹ 1935“ کے مطابق ہی نظام چلا۔ 29 اگست 1947 کو ملک کا دستور تیار کرنے کے لئے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی سرپرستی میں 7 رکنی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی نے 4 نومبر 1947 کو ملک کے دستور کا مسودہ تیار کرکے پیش کردیا۔ دو سال 11 ماہ اور 18 دن کے بحث ومباحثہ اور اس میں متعدد تبدیلیوں کے بعد 26 نومبر 1949 کو دستور ساز اسمبلی نے ملک کے آئین کو منظوری دی۔ 24 جنوری 1950 کو تمام ارکان نے دستخط کئے اور 26 جنوری 1950 کو ہندوستان کا اپنا قانون پورے ملک میں نافذ ہوگیا۔ 26 جنوری 1950 کو ہندوستانی تاریخ میں اس لئے خاص اہمیت حاصل ہے کہ اس دن آئین کا نفاذ کیا گیا اور ہندوستان ایک خود مختار ملک اور مکمل طور پر جمہوری بن گیا، جس کا خواب ہمارے رہنماؤں نے دیکھا تھا، جنہوں نے اپنے خونِ جگر سے گلستاں کی آبیاری کی تھی اور اپنے ملک کی خود مختاری کی حفاظت کے لئے جام شہادت بھی نوش کیا تھا۔ اس دن کا یہ بھی پس منظر ہے کہ 1930 میں لاہور میں انڈین نیشنل کانگریس نے پنڈت جواہر لال نہرو کی صدارت میں منعقد ہونے والے اجلاس میں ڈومنین اسٹیٹس کے بجائے مکمل آزادی کے حصول کو اپنا نصب العین قرار دیا تھا۔ 26 جنوری 1950 کو ہی ڈاکٹر راجیندر پرساد ملک کے پہلے صدر جمہوریہ کے طور پر منتخب ہوئے۔

ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جس میں ہر شخص کو اس کے حقوق دئے گئے ہیں۔ چنانچہ ہندوستان کے آئین کی ابتدا میں ہی وضاحت کے ساتھ تحریر ہے کہ ہندوستان ایک آزاد، سماجوادی، جمہوری ہندوستان کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے جس میں تمام شہریوں کے لئے سماجی، معاشی، سیاسی، انصاف، آزادیئ خیال، آزادی اظہار رائے، آزادی عقیدہ ومذہب وعبادات، انفرادی تشخص اور احترام کو یقینی بنایا جائے گا اور ملک کی سالمیت ویکجہتی کو قائم ودائم رکھا جائے گا۔ ڈاکٹر امبیڈکر کی سرپرستی میں تیارکردہ ملک کے دستور میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کا خیال رکھا گیا ہے، سب کو برابر کے حقوق دئے گئے ہیں، سب کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا ہے، سب کو اپنا لیڈر منتخب کرنے کا حق دیا گیا ہے، ہر شخص کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس دستور میں ہر شخص کو بنیادی حقوق دئے گئے ہیں، مگر ملک مخالف عناصر گنگا جمنی تہذیب کے برخلاف ملک کو ہندو مسلم میں تقسیم کرکے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہندوستان میں مختلف مذاہب کے ماننے والے اور مختلف زبانیں بولنے والے صدیوں سے حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار رہتے بستے ہیں۔ ہمارے ملک کا اتحاد اسی وقت قائم رہ سکتا ہے جب یہاں صحیح معنی میں جمہوری نظام رائج ہو، ہر نسل اور زبان وثقافت کو پھلنے پھولنے کی راہیں ہموار ہوں۔ مگر ان دنوں اقلیتوں خاص کر مسلمانوں میں خوف وہراس پیدا کرکے، اور اکثریت کو اقلیتوں سے ڈراکر جو سیاست کی جارہی ہے وہ ڈاکٹر امبیڈکر کی سرپرستی میں مرتب کئے گئے ہندوستانی دستور کے خلاف ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم سب مل کر ملک کو تقسیم کرنے والی طاقتوں سے مقابلہ کریں۔ ہندومسلم سکھ عیسائی اور پارسی کی ایکتا سے ہی ملک کو ترقی کی طرف گامزن کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ حکومت نے اپنے سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے کے لئے ہندوستان کے قانون میں تبدیلی کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ ہندوستانی آئین کی روح کے خلاف ہے کیونکہ ڈاکٹر امبیڈکر کی سرپرستی میں تیار کئے گئے دستور میں مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے کا کوئی پہلو نہیں ہے، اسی وجہ سے موجودہ حکومت کے فیصلے کے خلاف پورے ملک میں جلسے وجلوس ومظاہرے ہورہے ہیں، حالانکہ موجودہ حکومت کو چاہئے کہ وہ ہندوستانی آئین کی حفاظت کرے اور ”سب کا ساتھ سب کا وکاس“ کے نعرہ کو عملی جامہ پہنائے۔

آخر میں، میں اپنے تمام بھائیوں سے عرض کرتا ہوں کہ ہمیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، ملکی قوانین کا لحاظ رکھ کر آئین کی حفاظت کے لئے احتجاج کرنا ہم سب کا حق ہے۔ یہ ملک کسی مخصوص مذہب کی ملکیت نہیں ہے بلکہ یہ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور پارسی سب کا ہے، اور اس پر سب کا یکساں حق ہے۔ اس ملک کی آزادی کے لیے مسلمانوں نے کندھے سے کندھا ملاکر اپنے ہم وطنوں کے ساتھ بھرپور حصہ لیا ہے، اور آج بھی اس کی تعمیر وترقی میں حصہ لے رہے ہیں۔ اسی سمت میں ہمیں سوچ سمجھ کر ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو سماجی بھائی چارہ کو مضبوط کریں اور دوسری اقوام کے ساتھ ساتھ ہماری روز مرہ کی زندگی کو بہتر بنانے کی جدوجہد میں معاون ہوں۔ نیز ہم اپنی تاریخ کو نہ بھولیں، اس سے زیادہ خراب حالات میں بھی اللہ تعالیٰ اچھے حالات پیدا کرتا ہے، اس لئے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اپنا تعلق اللہ تعالیٰ سے مضبوط کریں، فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں۔ اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق مکمل طور پر ادا کریں۔ آپس میں اتحاد واتفاق کو قائم رکھیں۔ غیر مسلم حضرات کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئیں تاکہ نفرت کے بادلوں کو پیار ومحبت سے چھانٹا جاسکے۔

Muhammad Najeeb Qasmi
About the Author: Muhammad Najeeb Qasmi Read More Articles by Muhammad Najeeb Qasmi: 188 Articles with 145594 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.