تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
انسان کی زندگی بہت قلیل ہے اور منصوبے بہت طویل ہیں یوں تو جہد مسلسل اور
ہر وقت کی حرکت اس کی سرشت بلکہ اس کی فطرت میں شامل ہے لیکن اچھے تعمیری
اور مثبت راستے اور منزل کی جدوجہد انسان کو معراج حقیقی سے ہمکنار کرتی ہے
اور اس سے دوسرے تمام انسانوں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے جبکہ منفی اور غلط
راستے کی جدو جہد انسان پستیوں اور ذلتوں سے ہمکنار کرتی ہے انسان کی نیت
اور ارادہ نیک اور تعمیری ہو تو اسے ضرور کامیابی حاصل ہوتی ہے اسی طرح
بلاتحقیق و ثبوت کسی بھی سیاسی، سماجی یا مذہبی تنظیم پر یہ الزام نہیں
لگایا جاسکتا کہ یہ تنظیم غیر تعمیری یا منفی سوچ و مقاصد کی حامل ہے۔ وادی
کشمیر جسے عرف عام میں جنت ارضی سے موسوم کیا جاتا ہے باغوں، بہاروں، گلرنگ
نظاروں، بلند و بالا پہاڑوں ، میٹھے پانی کے چشموں اور گنگناتی بہتی
آبشاروں سے مزین ہے اس گلوب پر یہ وادی جتنی خوبصورت اور دل فریفتہ ہے اسی
طرح یہاں کے لوگ، یہاں کی محفلیں، یہاں کی تنظیمیں اور یہاں کی مہمان نوازی
اپنی مثال آپ ہیں اور دل کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والی ہیں۔دنیا میں
بہت ہی کم خطے اور وہاں کے مکیں اتنی زیادہ کشش رکھتے ہیں۔ جتنی وادیء
کشمیر میں ہے۔
آج مسئلہ کشمیر پر یہ بات سوچ و شعور سے بالا تر ہو جاتی ہے کہ اس جنت ارضی
کی داستان المناک کہاں سے شروع کی جائے۔ یوں تو کشمیر کے عوام پر حکمرانوں
کے جبر و ستم کی داستان زمانہ قبل از مسیح سے شروع ہوتی ہے جب پانڈو خان نے
کشمیر پر 994 سال تک حکومت کی۔ اس کا آخری راجہ سندر سین نہائت ظالم اور
بدکار تھا اس نے 41 سال تک رعایا پر ظالمانہ تسلط قائم رکھا جب اس کا ظلم
حد سے بڑھ گیا تو اﷲ تعالٰی کا اس پر قہر نازل ہوا۔ ایک رات زبردست زلزلہ
آیا دارالحکومت سندیمت نگر کی زمین پھٹ گئی پہاڑ کا ایک بڑا ٹکڑا گرنے سے
دریائے جہلم کا پانی رک گیا اور راجہ سندر سین اپنے حالیوں موالیوں سمیت
پانی میں غرق ہوگیا۔ ظلم کا ایک دور آنا فانا ختم ہوگیا اور سندیمت نگر کی
جگہ جھیل وولر وجود میں آگئی۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ظلم کی رات جتنی
لمبی کیوں نہ ہو اس کا اختتام ضرور ایک روشن صبح پر ہوتا ہے۔
تاریخ کے کئی ادوار گزرنے کے بعد 1846 ء میں جب برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے
75 لاکھ روپے کے عوض کشمیر مہاراجہ گلاب سنگھ کو فروخت کر دیا تو ایک دفعہ
پھر یہاں کے باشندوں پر آزمائشیں شروع ہو گئیں۔یہاں کے مسلمانوں اور دیگر
کشمیریوں نے تقریبا سو سال کی تکالیف اور مصائب برداشت کرنے کے بعد آخر کار
1931ء میں ڈوگرہ راج کے خلاف جدوجہد شروع کردی جسے بڑ ی بے دردی اور بربریت
سے کچل دیا گیا۔ اس کے بعد برصغیر پاک و ہند میں جب 1946ء میں تحریک
پاکستان نے زور پکڑا تو کشمیر کے مسلمانوں میں بھی آزادی کی تحریک نے جنم
لیا اور پھر وقت کے ساتھ یہ تحریک تیز تر ہوتی گئی ۔ تقسیم ہند کے اصولوں
اور یہاں کے اکثریتی آبادی کی خواہشات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مہاراجہ نے
26 اکتوبر 1947ء کو بھارت سے الحاق کا فیصلہ کر دیا ۔اور اس طرح مسلمانوں
کا قتل عام شروع ہوگیا۔جس کی وجہ سے سرحدی قبائل نے بھی کشمیر پر دھاوا بول
دیااور بھارت کو اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کرنے کا بہانہ مل گیا جس سے پاک
بھارت جنگ چھڑ گئی ۔ یکم جنوری 1948ء کو بھارت خود ہی یہ مسئلہ سلامتی
کونسل میں لے گیا اور سلامتی کونسل نے آزادانہ رائے شماری کا فیصلہ کیا اور
دونوں ممالک کے مابین جنگ بندی کرادی۔ جس سے کنٹرول لائن وجود میں آئی ۔ 17
اکتوبر 1949ء کو بھارت کی نیشنل اسمبلی نے آئین کا آرٹیکل نمبر 370 پاس کیا
جس کے تحت کشمیر کو ایک خصوصی درجہ دیا گیا اور ایک مستقل تصفیے تک اسے ایک
علاقہ غیر اور متنازعہ سمجھا گیا۔ لیکن جیسا کہ ہندو ذہنیت کے بارے میں کہا
جاتا ہے۔ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام۔ یہی فطرت اس نے کشمیر کے
معاملے میں دکھائی ہے۔ اپنے ہی پاس کردہ آرٹیکل کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس
نے وادیء کشمیر ، جموں اور لداخ کے ایک کروڑ سے زائد عوام اور پچاس ہزار
مربع میل علاقے پر غاصبانہ قبضہ جما کر اس پر 8 لاکھ سے زائد فوج مسلط کرکے
کشمیر میں اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کردی۔ 30 اکتوبر 1949ء کو مقبوضہ ریاست
کی کٹھ پتلی اسمبلی نے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے کشمیر کو بھارت کا حصہ
قرار دیدیا۔ مئی 1965ء میں پاک فوج نے کشمیر میں آپریشن جبرالٹر کا آغاز
کیا جو ستمبر 1965 ء کی جنگ کا باعث بنا۔ بھارت نے اپنی ذلت آمیز شکست کا
بدلہ لینے کیلئے سازشوں کے جال بنے اور سابق مشرقی پاکستان میں بغاوت کو نہ
صرف ہو ا دی بلکہ علیحدگی کی تحریک کا بھرپور ساتھ دیکر پاکستان کے ساتھ
دسمبر 1971ء کی جنگ کے شعلے بھڑکائے اور اس طرح یہ جنگ سقوط مشرقی پاکستان
پر ختم ہوئی۔ 13 اپریل 1984ء کو بھارت نے سیاچین گلیشیئر پر قبضہ کرلیا۔
کشمیری رہنما مقبول بٹ کو پھانسی دیدی گئی ۔ جس سے 1989ء میں کشمیریوں کی
مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا۔ 1999ء میں پاکستان اور بھارت کی فوجوں کے مابین
کارگل کی جنگ ہوئی ۔ اکتوبر 2001ء میں سری نگر میں مقبوضہ کشمیر کی ریاستی
اسمبلی پر حملے میں اڑتیس افراد مارے گئے ۔
عالم آب و گل پر موجود نگار ہستی کی خوبصورت جنت نظیر وادی خطہء کشمیر
تاحال ظلم و نا انصافی کے شکنجے میں ہے ہندو ذہنیت نے یہاں پر اپنا ناجائز
اورغاصبانہ قبضہ مزید مضبوط کرنے کیلئے 5 اگست 2019ء اپنی اسمبلی کا پاس
کردہ قانون آرٹیکل نمبر 370 منسوخ کرکے نہ صرف اسے بھارت کا حصہ بنا دیا
بلکہ کشمیریو ں کی نسل کشی اور انہیں دبانے کے لئے اپنی فوج میں اضافہ کرتے
ہوئے اسے نو لاکھ تک پہنچا دیا ہے اور گزشتہ کئی ماہ سے وہاں کرفیو نافذ
کرکے فسطائیت اورظلم و جبر کا ابلیسی کھیل مزید تیز کرکے یہاں کے باشندوں
کو ایک اذیت ناک زندگی سے دوچار کر دیا ہے۔ بھارت اپنے مکروہ اور توسیع
پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لئے آتش و آہن کا کھیل دن بدن بڑھاتا چلا جارہا
ہے۔ مہذب دنیا کے مہذب لوگ دن رات بنیادی انسانی حقوق اور عدل و انصاف کا
راگ الاپتے ہوئے نہیں تھکتے۔لیکن عملی اور حقیقی طور پر اس کے لئے اپنی ذمہ
داریاں ادا کرنے کی بجائے انسانیت کا مذاق اڑانے ، اس کی بے حرمتی کرنے ،
اسے قتل و غارت گری اور ظلم و بربریت کی بھینٹ چڑھانے میں پیش پیش ہیں۔
گزشتہ ستر سال سے بھارت نے اپنی آٹھ لاکھ موجودہ نو لاکھ مسلح افواج کے
ساتھ جموں کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ جما کر وہاں کے شہریوں کے بنیادی
حقوق معطل کر رکھے ہیں۔ اپنے اس ناجائز اور غیر منصفانہ قبضے کو برقرار
رکھنے کے لئے اب تک سات لاکھ سے زائدکشمیری شہید اور معذور کئے جا چکے ہیں
۔ اور روز بروز یہ سلسلہ جاری ہے۔ ایک طویل عرصہ سے اپنی بربریت اور
فسطائیت جاری و برقرار رکھنے کے باوجود ہندو بنیا یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ
نہتے کشمیری اپنی مادر وطن اپنی جنت ارضی کے لئے مزید قربانیاں دینے کے لئے
کیونکر پرعزم اور تیار ہیں اور وہ ہندوستان کی کسی قسم کی غلامی قبول کرنے
کے لئے تیار نہیں ہیں۔نہ صرف کشمیر دھرتی کے وارثین کو تقسیم برصغیر کے وقت
سے ہی ہندو اور انگریز کے گٹھ جوڑ نے اپنے حق خود اختیاری سے محروم کردیا
بلکہ مختلف سازشوں کے ذریعہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونے والی دیگر کئی
ریاستوں کو بھی غیر منصفانہ تقسیم کے ذریعہ ہندوستان کے ساتھ جوڑ دیا گیا ۔
ہماری اپنی سیاسی قیادت اور سابق حکمران وہاں پر پہلے روز سے ہی اپنے
مفادات اور خود غرضانہ پالیسیوں کی بدولت کوئی مثبت کردارادا نہیں کرسکے۔
جس کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ تاحال حل نہیں ہوسکا۔ یہاں تک کہ قبل ازیں
ہماری سیاسی قیادت اقوام متحدہ میں اور عالمی سطح پر کشمیر کے مسئلہ پر
کوئی بھی اہم اور نتیجہ خیز کردار ادا کرنے سے قاصر رہی ہے۔ قوم یکجہتی
کشمیر کی اس منزل تک کیسے پہنچی اس کے لئے برصغیر کی تقسیم کا جائزہ لیا
جائے تویہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ تقسیم کے ذمہ داران لارڈماؤنٹ بیٹن
اور سیرل ریڈکلف نے نہرو کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات نبھاتے ہوئے کشمیر،
جونا گڑھ اور گورداسپورکے علاقے جن کا الحاق مسلمان اکثریت کی بنیاد پر
پاکستان کے ساتھ ہونا چاہیے تھا چالاکی اور مکاری کے ساتھ بھارت کے ساتھ
جوڑ دیا گیا۔ اس وقت اگر ہمارے لیڈر ہندوؤں اور انگریزوں کی ریشہ دوانیوں
اور منافقانہ منصوبوں اور سازشوں کو سمجھ پاتے اور ان کے دھوکے میں آکر کسی
قسم کی کمزوری کا مظاہرہ نہ کرتے توگورداسپور پاکستان کا حصہ ہوتا اور
کشمیر کی طرف کوئی راستہ نہ ملنے کی وجہ سے بھارت کبھی اپنی افواج جموں
کشمیر میں داخل نہ کرسکتا۔ اس طرح تمام کشمیر آزاد ہوکر اپنی مرضی سے
پاکستان کے ساتھ اپنا الحاق کر لیتا۔ اب بھارت نے ایڑی چوٹی کا زور لگا
رکھا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر پر ڈنڈے کے زور پر اپنا تسلط جمائے رکھے۔ اور
اس کے لئے وہ اب تک دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے کئی ڈرامے کر
چکا ہے اور مختلف حیلوں بہانوں سے پاکستان کے حکمرانوں کو بھی اپنے جال میں
پھنسانے کی کوشش کی۔ لیکن اپنی تمام تر ریشہ دوانیوں کے باوجود نہ ہی تو ان
کا کشمیر ایکارڈ کچھ کر سکا اور نہ ہی اس کی نو لاکھ مسلح قابض فوج اپنے ہر
طرح کے ہتھکنڈوں کے باوجود انہیں اپنا ہم نوا بنا سکی ہے۔ جموں و کشمیر کے
دونوں حصوں کے عوام اور پاکستانی عوام نے ۱۹۷۵ء میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ ہر
سال ۵ فروری کو مشترکہ طور پر یکجہتی کا دن منائیں گے۔ اس وقت سے کشمیری ہر
سال پوری دنیا میں یکجہتی کا دن منا تے ہیں۔ اور اس کا باقاعدہ عملی مظاہرہ
کرتے ہوئے دونوں حصوں کے عوام آپس میں ہاتھوں کی ایک طویل زنجیر بناتے ہیں
جو دونوں حصوں کے عوام کی یکجہتی ، محبت، عزم وہمت اور بھائی چارے کی
ترجمانی ہے اس موقع پر اس عہد کو دہرایا جاتا ہے کہ ہم اپنے حق آزادی سے
کبھی دستبردار نہیں ہوں گے اور چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی
قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیئے ۔ اب چونکہ بھارت کی بے وقوفی اور قانون
شکنی کی وجہ سے یہ مسئلہ دوبارہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر آ چکا ہے اور اس
کی وجہ سے بھارت دنیا بھر میں ذلیل و رسوا ہو رہا ہے۔ اور پاکستان کے
موجودہ حکمران بھی اس مسئلے کے حل کے لئے پوری طرح متوجہ ہو چکے ہیں ۔ ہمیں
اﷲ تعالی سے امید ہے کہ کشمیریوں پر ظلم کی سیاہ رات کا جلد خاتمہ ہوگا۔
پاکستانی اور کشمیری عوام گروپوں کی صورت میں دنیا بھر میں احتجاج جاری
رکھے ہوئے ہیں اور اقوام متحدہ کے دفاتر کو اپنی یاداشتیں پیش کررہے ہیں
۔تا کہ وہ 13 اگست 1948ء اور 5 جنوری 1949ء کو اور موجودہ پاس کی گئی اپنی
قراردادوں کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے عوام کو ان کا حق خود ارادیت
دلوائے۔پاکستانی اور کشمیری عوام دنیا بھر میں بھارت کے اس غاصبانہ اور
ناجائز قبضے کے خلاف پُرامن مظاہرے کررہے ہیں اب یہ مظاہرے لاکھوں کروڑوں
کی تعداد میں پہنچ چکے ہیں یکجہتی کی ان کارروائیوں ، مظاہروں اور صدائے
احتجاج سے متاثر ہوکر کشمیری عوام کے تمام قائدین بشمول مقبوضہ کشمیر کے
انڈین کٹھ پتلی لیڈربھی ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوچکے ہیں۔
یکجہتی کے عمل میں جماعت اسلامی اور اس کے امیر مرحوم قاضی حسین احمد کا
بھی تاریخی کردار ہے۔ ان کی اس جدوجہد میں نہ صرف پاکستان کی سیاسی، سماجی
اور قومی تنظیموں نے ساتھ دیا بلکہ پاکستان کی حکومتوں اور ان کے لیڈروں نے
بھی کشمیر کے مسئلے کے حل میں قاضی حسین احمد کی خدمات اور پیش رفت کا
اعتراف کیا ہے اور اسے سراہا ہے۔ قاضی صاحب ہمیشہ اس بات پر زور دیتے رہے
ہیں کہ کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان اور ہندوستان کے مابین دو طرفہ مذاکرات
میں کشمیریوں کو اصل فریق کی صورت میں شامل کیا جائے۔ کشمیریوں کی انہی
قربانیوں اور جدوجہد کی بدولت اب خود بھارتی سکالرز اور دانشوربھی یہ کہنے
پر مجبور ہوچکے ہیں کہ نو لاکھ قابض بھارتی افواج کی موجودگی میں قیام امن
کاخواب کبھی حقیقت نہیں بن سکتااور نہ ہی زور و زبردستی اور ظلم و جبر سے
کشمیریوں کو اپنا ہمنوا بنایا جاسکتا ہے۔ موجودہ کرفیو میں آل پارٹیز حریت
کانفرنس کے قائدین کو بھی مختلف جگہوں پر نظر بند کردیا گیا ہے۔ نوجوانوں
کے ساتھ ٹارچر سیلوں میں اذیت ناک سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ خواتین کی عصمت
دری اور قتل جیسے واقعات آئے روز کا معمول ہیں۔ مقبوضہ کشمیر ایک فوجی
چھاؤنی بن چکا ہے۔ اور بھارتی سیکورٹی فورسز نے جنگی جرائم کا عالمی ریکارڈ
قائم کیا ہوا ہے۔ عالمی ادارے اور ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی بھارتی فوج اور
پولیس کے گھناؤنے جرائم میں ملوث ہونے پر انہیں تنقید کا نشانہ بنا رہے
ہیں۔
آج اس اہم موقع پر پوری پاکستانی قوم اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں
اور اس بات کا عہد کر تے ہیں کہ وہ ان کے حق آزادی کے حصول میں ہر پلیٹ
فارم پر ان کے ساتھ ہوں گے۔ اسی طرح کشمیری عوام بھی پاکستان کو ہر سیاسی
اور عالمی ثالثی کے معاملے میں اپنا رہنما مانتے ہیں اور اس بات کا عزم
رکھتے ہیں کہ مملکت پاکستان کے تاریخی، جغرافیائی اور نظریاتی تحفظ ، امن ،
سلامتی ، ترقی اور خوشحالی کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے۔ پاکستان کے
حکمرانوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پارلیمان کے ذریعہ کشمیر کے حوالے
سے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرتے ہوئے نہ صرف کشمیر کمیٹی کے کردار کو
زیادہ فعال، بااختیار اور مثبت بنائیں ۔ بلکہ جو اہل علم کشمیرکاز کے
بنیادی نکات اور جزئیات کا مکمل ادراک رکھتے ہیں ایسے قابل، بااعتماد اور
کشمیر کی تاریخی حیثیت کاعلم رکھنے والے لوگوں کو کشمیر کمیٹی کا حصہ بنا
کر موجودہ جدوجہد کو مزید تیز کیا جائے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے عملی
اقدامات اٹھائے جائیں۔ اور ساری دنیا کو اس حقیقیت سے روشناس کرایا جائے کہ
مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے جابرانہ قبضہ کو ختم کراکر کشمیریوں کو ان کا
پیدائشی حق خودارادیت دیا جائے۔ بھارتی غاصب فوج کی طرف سے آئے روز سیز
فائر لائن کی خلاف ورزی اور آزادکشمیر کے علاقوں میں بلااشتعال فائرنگ سے
عام شہری موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔ بھارت کی طرف سے جموں کشمیر میں
کالے قوانین کی آڑ میں پرامن شہریوں پر تشدد ، گرفتاریوں ، پیلٹ گن کے
ذریعہ انہیں بصارت سے محروم کرنے جیسی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے
روکا جائے۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلمان آبادی کے تناسب کو بدلنے کے لئے غیر
ریاستی عناصر کی آبادکاری کا اقوام متحدہ کو نوٹس لینا چاہیے۔کرہ ارض کے
موجودہ حالات کے تناظر میں یہ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل
کئے بغیر دنیا میں امن کا قیام ناممکن ہے۔ اور اگر بھارت کی ہٹ دھرمی
اورمسلم دشمنی کی وجہ سے یہ مسئلہ خطرناک صورت اختیار کرگیا تو پاکستان اور
بھارت کے درمیان جنگ کا باعث بننے اور دونوں ملکوں کے ایٹمی طاقت ہونے کی
وجہ سے عالمی جنگ کا خطرہ پیدا ہوجائے گا اور اس جنگ کی آگ میں ساری دنیا
جل کر بھسم ہو جانے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔
۔ اٹھ کہ زیست کا سامان سفر تازہ کریں
نفس سوختہ شام و سحر تازہ کریں۔
۔ زمانہ منتظر ہے پھر نئی شیرازہ بندی کا
بہت کچھ ہو چکی اجزائے ہستی کی پریشانی
۔ اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
|