بالی نے چاروں طرف دیکھا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ
کس طرف کو جائے ۔۔۔دور کہیں ایک دو سائے نظر آئے وہ اس طرف کو بھاگا لیکن
قریب آنے پر اسے پتا چلا وہ اس کے قریبی رشتہ دار تھے ۔۔۔۔اس نے ان سے
پوچھا کیا تم نے کچھ لوگوں کو چارپائی اٹھائے جاتے دیکھا ہے ۔۔۔۔وہ بولے
ہاں ۔۔نہر کی طرف جا رہے تھے۔۔۔بالی رکے بغیر نہر کی جانب بھاگا۔۔۔لیکن وہ
یہ نہیں جانتا تھا یہ رمضان کے پلان کا حصہ تھا ۔۔بالی کو پہلے اس کے باپ
کے کہنے پر پچھلے صحن میں سونے کا کہنا تاکہ وہ گھر والوں سے الگ ہوکر
سوئے۔۔۔فضلو کا اس کی طرف بھیجنا۔۔۔۔اور اب بالی کو مخالف سمت میں گائیڈ
کرنا۔۔۔۔اور اپنے شکار کو بڑی ہی چالاکی سے حاصل کر لینا۔۔۔
ادھررمضان اور اس کے ساتھیوں نے بالی کے فضلو کے ساتھ جاتے ہی پینو کے
مونہہ پر کپڑا باندھ دیا اور اسے چارپائی پر لٹا کر باندھ دیا ۔۔۔رستم اور
اللہ وسایا بھی ساتھ ہی تھے ۔۔۔رمضان نے انہیں جلدی کرنے کا کہا اور چار
پائی کو گھر کے دوسرے حصے میں جانوروں کے کمرے کی طرف لے گئے اور چھپ کر
کھڑے ہوگئے اس دوران بالی کو دھوکے کے زریعے نہر کی جانب بھیج دیا گیا اب
آسانی سے وہ پینو کو مخالف سمت لے گئے۔۔۔۔آموں کے باغ کے اس پار کھیتوں
میں جہاں چند ایک درخت تھے اور جوار کی فصل تھی ۔۔۔اندھیرا ہونے کے سبب سب
ایک دوسرے کو دھندھلے نظر آ رہے تھے تھے ۔۔کتوں کی آوازیں اب بھونکنے کے
ساتھ ساتھ رونے میں تبدیل ہو رہی تھیں ۔۔۔عجیب وحشت تھی ۔۔ارد گرد۔۔۔۔گاؤں
کے لوگ بظاہر سو رہے تھے لیکن ان میں سے کچھ بوڑھی آنکھیں رو رہی تھیں اور
کچھ اپنے رسم ورواج کی مضبوتی پر خوش تھیں ۔۔۔کالی رات اور کتوں کا بھونکنا
اور پھر ان کا کوکنا بتا رہا تھا کہ پینو کی سانسیں رات کے اندھیرے میں
امیراں کی چیخوں کی طرح دم توڑ دیں گی ۔۔۔
جائے وقوعہ پر پہنچ کر چار پائی کو رکھ دیا گیا ۔۔رمضان اور اس کے غیرتی
جوان موجود تھے ۔۔وہ پینو کی طرف دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔پینو کو اس اندھیری رات
میں بھی ان کی آنکھوں میں موجود شیطان کا ہیولہ صاف نظر آرہا تھا ۔۔۔پینو
کا بھائی رستم بھی موجود تھا ۔پینو نے بھائی کی طرف دیکھا اسے امیراں یاد
آگئی ۔۔۔وہ بھی تو چیخی ،چلائی لیکن اس کے بھائی نے اس پر رحم نہیں کھایا
تب اس نے سوچا تھا میرا ادا (بھائی ) ہوتا تو ایسا کبھی نہ کرتا اور آج
اپنے ہی بھائی کو قصائی کے روپ میں دیکھ کر وہ دکھی تھی۔۔۔۔اس نے اپنے
بھائی کی طرف دیکھا اور کہا ادا یہ تو میرے رشتہ دار ہیں لیکن میں تو تیری
ماں جائی ہوں ۔یہ میرے جسم کے ٹکڑے کریں گے ۔۔۔بھائی تم بھی میرے جسم کے
ٹکڑے کرو گے تو میری روح کو حیا آئے گی اور پھر تم تو غیرت کے نام پر ایسا
کروگے آج کی رات کتنی ہی کالی کیوں نہ ہو میرے جسم کے ٹکڑے تو کالے نہیں
ہونگے ۔۔۔۔پھر اس نے رمضان کی طرف دیکھا اور بولی ماما تم نے تو مجھے مارنا
ہی ہے تو بس اب ایک واسطہ دیتی ہوں میرے بھائی کو یہ گناہ نہ کرنے دو۔۔۔۔تم
لوگ خود ہی مجھے مار دو۔۔۔۔۔مجھے معلوم ہے میرے بھائی کے ہاتھ کانپیں گے
۔۔۔اس نے بھائی کی طرف دیکھا جس نے اپنے آنسو چھپانے کے لئیے اپنا چہرہ
دوسری جانب کرلیا۔۔۔رستم کی یہ حالت دیکھ کر رمضان گڑبڑا گیا اور رستم سے
پوچھا تم کیا کہتے ہو ۔۔۔۔رستم نے کہا ماما خدا کی قسم یہ سچ کہہ رہی ہے
اگر اس کو صرف گلہ گھونٹ کے مارنا ہوتا تو میں آپ لوگوں کے ہاتھوں مجبور
ہوکر کرلیتا لیکن اب اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے دل نکالنے کی بات کرتے
ہو یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔۔۔۔میں نے تو کبھی سر سے اس کا دوپٹہ اترے نہیں
دیکھا تو بھلا اس کے جسم کو ہاتھ لگا کر ٹکڑے کیسے کروں گا۔۔۔۔۔ رمضان خان
نے دل میں سوچا پہلے ہی بالی نے مصیبت بنائی ہوئی ہے اب رستم بھی ۔۔۔۔اسی
دوران شیطان نے جو ہر لمحہ اس کے دماغ پہ بیٹھا رہتا تھا اس نے فٹا فٹ اس
کے دماغ میں ڈالا اس سے پہلے کہ یہ باغی ہوجائے اور باقی بھی اعتراض کریں
اسے جانے دیا جائے۔۔۔رمضان نے رستم سے کہا ویسے تو یہ غیرت کا معاملہ تھا
اور تمہیں اور بالی کو کرنا چاہئے تھا اب اگر ہم کر رہے ہیں کالی کو قتل
لیکن پولیس کے سامنے تم بیان دوگے کہ تم نے مارا ہے۔۔۔رستم اس بات پر راضی
ہوگیا ۔۔۔اور دور اس کھیت کی دوسری جانب پگڈندی پر بیٹھ گیا۔۔۔
رمضان نے ایک غیرتی جوان سے کلہاڑی،چھرے اور دیگر اوزار کا پوچھا جو اس نے
سامنے رکھے ہوئے تھے ۔۔۔ایک بڑا سا پتھر بھی موجود تھا ۔۔۔۔جس پر پینو کے
جسم کے ٹکڑے کرنے تھے۔۔۔۔رمضان نے پینو کی طرف سفاکی سے دیکھا اور بولا ہاں
کا لی پڑھ کلمہ تو اس دنیا سے جانے والی ہے ۔۔۔پینو نے رمضان کی آنکھوں
میں دیکھا جہاں اردگرد اندھیرا ہونے کے باوجود ایک چمک تھی اسے اس کی
آنکھوں میں رمضان کی بیوی ،بہن اور نہ جانے خاندان کی کتنی عورتوں کا خون
نظر آیا جن میں اب پینو کا خون بھی شامل ہونے جا رہا تھا ۔۔۔چاچا جس دل کو
تو میرے جسم سے نکالنے جا رہا ہے اس میں میرا قرآن ہے میں مر بھی جاؤنگی
تو تب بھی وہ فیصلہ کرے گا اور تو دیکھ لینا میں مر کر بھی نہیں مرونگی اس
وقت تک جب تک خدا تیرا فٖیصلہ نہیں کرے گا۔۔۔۔رمضان کو تو ویسے بھی پینو پر
غصہ تھا کیونکہ یہ وہ واحد کالی تھی جس سے اس کے گھروالے اپنی عزت سے ذیادہ
پیار کرتے تھے اور اسی لئے سردار نے اور اس نے سوچا تھا کہ اس کی موت کو
تمام گاؤں والوں کے لئے عبرت ناک بنا دیں تاکہ آئیندہ لوگ کہیں کہ پینو کو
کونسا اس کے شوہر اور باپ نے بچا لیا بلکہ اس کے تو ٹکڑے ٹکڑے کرکے دل کو
نکالا گیا تھا۔۔۔
پھر وہ ہوا جس سے انسانیت کا سر شرم سے زمین میں گڑ گیا۔۔۔انسان کے اس ظلم
پر ہوا حیران ہوکر ساکت ہوئی اور پھر پاگل ہوکر بپھرنے لگی اور چیخنے
لگی۔۔۔اس کالی رات میں کتوں کے رونے بھونکنے کے ساتھ ساتھ ہوا کا شور بھی
شامل ہوگیا۔۔یوں لگتا تھا سب چرند پرند بین کر رہے ہوں اور انسان کے اس عمل
پر خدا کو پکار رہے ہوں ۔۔۔خوش تھا تو رمضان اور اس کا ساتھی شیطان
۔۔۔یقینا اس وقت اسی جگہ پر شیطانوں کی بہت بڑی پارٹی ہورہی ہوگی نجانے کس
کس ملک کے شیطان بادشاہ یہ نظارہ کرنے آئے ہونگے ۔۔آخر ان کا دشمن خود ہی
خود کو کاٹ رہا تھا ۔۔یقینا پینو کے جسم کے ہر ٹکڑے پر شیطان کو وہ فتح ملی
جو اسے فرعون کے زمانے میں بھی نہ ملی تھی۔۔۔
ہوا کا شدت سے چلنا اور کتوں کا بھونکنا اور وہ بھی مسلسل اور پینو کی
سانسیں ختم ہوچکی تھیں پھر فضا میں یہ چیخوں کا ہونا ما حول کو اور ڈراؤنا
کر رہا تھا ۔۔۔رمضان کے ساتھی گھبرائے ہوئے تھے ۔۔۔اکثر اس طرح کے واقعات
کے دوران کچھ نہ کچھ مختلف ضرور ہوتا لیکن آج جو کچھ ہو رہا تھا وہ سب کی
سمجھ سے بالا تر تھا ۔۔۔اور اس وقت تو سب حیران ہو گئے جب کلہاڑی کا وار
پینو کے جسم پر ہوتے ہی پتھر سے عجیب سی چنگاڑیاں ہی نہیں آگ نکلتی اور اس
کے ساتھ ہی عجیب سی چیخیں جیسے بہت سے لوگ مل کر چیخیں مار رہے ہوں۔۔۔۔اور
ہوا کے جھونکے ان کے چہروں سے زور زور سے ٹکراتے جیسے ان کو تھپڑ مار رہے
ہوں ۔۔۔سب ڈر کے مارے پیچھے ہوگئے لیکن رمضان کو یہ کام مکمل کرنا تھا اور
شیطان نے اس سے اس قسم کے اتنے گناہ کروائے تھے کہ اس میں بڑے سے بڑے گناہ
کرنے کی بڑی سے بڑی طاقت تھی ۔۔۔اس نے پینو کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے
بوٹیاں بنا دیں اور اس کے دل کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اپنے ڈرے ہوئے
ساتھیوں کو دکھاتے ہوئے بولا ٌ ہاں بھئی! دیکھ لو کالی کا دل یہ سردار
دیکھے گا تو خوش ہوجائے گا ٌ۔۔۔چلو اٹھاؤ اب ٹکڑوں کو ۔
رب نواز کا بھائی اس تیز آندھی اور اندھیرے میں بڑی مشکل سے پہنچا اور
اطلاع دی کہ بالی نہر پر آپ لوگوں کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر دوسری جانب چلا گیا
ہے ۔۔۔رمضان نے ساتھیوں کو نہر کی طرف چلنے کا اشارہ کیا۔۔۔
نہر پر رمضان نے اپنے ہاتھوں سے پینو کے ٹکڑے نہر میں ڈالے ۔۔۔۔آج نہر بھی
جیسے غصے میں تھی یا پھر دکھ میں خوب شور تھا پانی کا ۔۔۔۔رستم وہاں پر بھی
دور کھڑا رو رہا تھا۔۔۔اسے یاد تھا پینو بچپن میں نہر میں آنے سے ڈرتی تھی
پھر رستم اسے اپنے کندھے پر بٹھا کر اندر لے آتا۔۔۔اور وہ کہتی ادا مجھے
ڈبوؤ گے تو نہیں اوروہ کہتا کبھی نہیں اور اسے تیرنے کی پریکٹس کراتا پھر
تو پینو نہر سے باہر ہی نہیں نکلتی تھی اور جب اماں اسے گھر جانے کا کہتیں
تو وہ کہتی اماں مجھے نہر میں بہت مزہ آتا ہے دل چاہتا ہے دن رات اس میں
ہی رہوں اور اماں کہتی ہاں اگر ڈبو کے لے گئی تو پھر پتا چلے گا۔۔اور پینو
کہتی میرا ادا مجھے بچا لے گا ۔۔۔رستم نے روتے ہوئے سوچا ڈبو دیا آج میں
نے اپنی بہن کو۔شاید وہ پوری زندگی خود کو معاف نہ کرسکے گا ۔۔۔اس کے اندر
عجیب کشمکش تھی شیطان اسے دلاسا دیتا کہ تو کیا کر سکتا تھا ۔۔ویسے بھی
انہوں نے مارنا ہی تھا۔۔۔۔
رمضان نے اپنے خون آلود ہاتھ اور اوزار دھوئے ۔۔۔فضا میں ابھی بھی چیخوں
کی آوازیں تھیں جو سب نے محسوس کیں ۔۔۔مرغ کی بانگوں کی آوازوں نے تھوڑی
دیر دوسری چیخوں کو بند کیا ۔۔۔گاؤں میں مرغ کی بانگ (آذان ) سے تقریبا سب
اٹھ جاتے ۔۔کوئی اس ویران مسجد کی طرف آتا تو کوئی حقہ جلاتا۔۔۔اور عورتیں
بھی کچھ نماز پڑھتیں تو کچھ جانوروں کو چارہ ڈالنے اور دوسرے کاموں
میں۔۔۔عام طور پر پرندوں کے چہچہانے، ٹیوب ویل کی آوازوں سے اور گائے
بھینسوں اور بکریوں کے چارہ مانگنے کی آوازوں سے صبح کا آغاز ہوتا لیکن
آج سب کچھ برعکس تھا ۔۔۔آندھی تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی ۔۔مٹی دھول نے
بینائی روک دی ۔۔۔درختوں کے پتے ہوا میں اڑتے پھر رہے تھے ۔۔۔درخت ہل ہل کر
پاگل ہورہے تھے ۔۔۔یہ سارا شور مل کر عجیب سی چیخوں کو بنا رہا تھا ۔۔۔ہوا
میں یوں لگتا تھا جیسے آگ کے گولے گھوم رہے ہوں۔۔۔ہر بندے کے مونہہ سے
استغفراللہ نکل رہا تھا سوائے چند انسان نما شیطانوں کے۔۔۔۔۔
(کیا ہوگا انجام رمضان کا ۔۔۔۔قرآن کا وعدہ پورا ہوگا مگر کیسے؟ دیکھیں
اگلی قسط میں)
|