رمضان خان پر پینو کی ماں کے آنسؤوں نے کچھ اثر کیا اور
نہ ہی بد دعاؤں نے ڈرایا بلکہ رمضان خان رمضان کا مہینہ شروع ہونے سے پہلے
ہی پینو کا کام تمام کرنا چاہتا تھا اور چند دن بعد ہی چاند ٹھہرنا تھا
۔گاؤں کے لوگ عام دنوں میں مسجد کا رخ کم ہی کرتے تھے لیکن رمضان کے مہینے
میں ساری نمازیں مسجد میں پڑھنے کی کوشش کرتے ورنہ تو مسجد میں صرف آذان
دی جاتی اور وہ بھی جمعہ کے دن ۔رمضان کے مہینے میں روزے رکھے جاتے اور
امام مسجد کا بھی اہتمام کیا جاتا ۔مسجد کا حدود اربع کچھ یوں تھا کہ مسجد
کے ارد گرد کھیت تھے اور تھوڑے ہی فاصلے پر آم کے باغات تھے ۔مسجد کے
بائیں طرف گاؤں کی بستی تھی اور مسجد کے ساتھ ہی ایک پرانا اور بڑا سارا
کنواں تھا جو کھیتوں کو سیراب کرتا ۔یہ چھوٹی سی مسجد کچی اینٹوں اور گارے
سے بنی تھی اور اس کی چار دیواری اس گاؤں کے طرز تعمیر کے مطابق دو دو فٹ
کی تھی اور نمازیوں کے لیۓ بچھائی گئی صفیں کھجور کے پتوں سے بنائی گئیں
تھیں جو کہ جگہ جگہ سی پھٹی ہونے کے سبب اپنی عمر کا پتا بتاتی تھیں ۔ مسجد
کے اندر چند صفیلیں تھیں جن پر سپارے اور چند شہید شدہ اوراق پر مبنی قرآن
پاک بہت سے کپڑوں میں لپٹے ہوئے تھے۔گاؤں کے لوگ کم ہی جانتے کہ اس میں کیا
لکھا ہے اور جو ان کو بتایا جاتا وہ یا تو نا کافی ہوتا یا پھر ذیادہ تر من
گھڑت ہوتا ۔مسجد کا امام سردار کی پسند کا ہی لایا جاتا جو کہ صرف رمضان کے
مہینے میں ہی آتا ۔گاؤں کے بچے قرآن پڑھنے کے لیئے ایک نابینا عورت کے
پاس جاتے جس نے بچپن میں قرآن حفظ کیا تھا ان دنوں گاؤں کا سردار ایک نیک
اور رحمدل انسان تھا لہذا مسجد بھی آباد تھی اور اس دور کے بچوں کو قرآن
پڑھنے کا موقع بھی ملا بعد میں بیمار ہونے پر اس کے بیٹے نے سرداری کے لالچ
میں آکر اپنے باپ کو شہد میں چھپکلی کا زہر ملا کر کھلایا اور یوں سردار
کے اس دنیا سے جانے کے ساتھ ساتھ ہی اس گاؤں کی مسجد میں قرآن پڑھتی بچوں
کی آوازیں بھی بند ہوگئیں۔ لیکن رمضان کے مہینے میں کوئی قوت تھی جو لوگ
مسجد کا رخ کرتے ۔سخت سے سخت لوگوں کے بھی روزے رکھتے ہی دل نرم پڑجاتے اور
سردار کا حکم تھا کہ پینو کی زندگی کا صفحہ اس سے پہلے ہی پھاڑ دیا جائے
اور ویسے بھی اس دفع اس نے کاروکاری کی سزا ایسی منتخب کی تھی جو پرانی
تمام سزاؤں سے ذرا مختلف تھی۔تمام تیاریاں مکمل تھیں اور تمام چالیں بھی ۔
سردار کے ڈیرے پر سارے واقعہ کا پلان تیار کیا گیا اب سردار اور رمضان کے
لئیے بالی کے علاوہ اور کوئی رکاوٹ نہیں تھی ۔بالی اور پینو کے باپ کو
بیٹوں کے لئیے یہ قربانی دینی تھی ورنہ وہ جانتے تھے کہ پینو تو ویسے بھی
نہیں بچے گی لیکن اس کو بچانے کے چکر میں وہ زندہ رہتے تو بےغیرتی کے ٹائٹل
کے ساتھ جو کہ موت سے بھی بڑی سزا تھی اور اگر ماردئیے جاتے تو ان کے لئیے
ٌبے غیرتوں کا قبرستان ٌ نام کا قبرستان بنایا جاتا جیسے کے ٌکالی قبرستان
ٌ نام کا قبرستان کالیوں کے لئیے تھا اور وہ جانتے تھے کہ کالیوں کے
قبرستان میں ویرانا ہوتا ہے جہاں صرف آوارہ کتے رہتے ہیں اور گاؤں کا فضلہ
پھینکا جاتاہے اور خود کو وہاں پانے کا احساس ہی ان کے رونگٹھے کھڑے کردیتا
اور پھر پینو کی محبت اسی احساس کے ساتھ ہی دم توڑ جاتی لہذا بہت ہی
رازداری کے ساتھ پلان ترتیب دیا گیا اور رات کے پچھلے پہر پینو کو اٹھا نا
تھا۔اللہ وسایا اور رستم کو غیرت کے جزبے کو زندہ رکھنے کے لئیے زبردستی اس
میں شامل کیا گیا ورنہ تو سردار کے پاس غیرتی اور بہادر نوجوانوں کی کمی
نہیں تھی جن کے کالیوں کو ذبح کرتے ہوئے نہ تو ہاتھ کانپتے تھے اور نہ ہی
دل بلکہ پگ بڑھنے سے قد میں اضافہ ہوتا اور گردن اونچی ہونے سے چھاتی اور
چوڑی ہوجاتی۔۔ ہاں بھئی کون کون کام تمام کرے گا کالی کا پتا ہے نہ سب
کو۔۔۔سردار نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے رمضان کی طرف دیکھا۔۔۔ہاں سائیں
وڈا ! میرے ساتھ اللہ وسایا (پینو کا جیٹھ) ،رستم (پینو کا بھائی)، رب نواز
(رمضان کا بھتیجا) ہے اور کچھ دوسرے لڑکے ہیں جو بالی کو کنٹرول کریں گے
۔۔اللہ سائیں کرے گا تو یہ فرض آج رات ادا کردیں گے۔۔۔رمضان نے سردار کو
اپنے پلان سے آگاہ کیا ۔۔۔ہوووووم! تم پولسیوں کی فکر نہ کرنا۔۔۔۔ادھر
ساری تیاری ہوگئی ہے جب گواہی کوئی نہیں دے گا تو کیس ویسے بھی ختم ہوجاۓ
گا اور عزت کے نام پر قتل کی تو سزا ہی کوئی نہیں ۔۔۔۔۔سردار نے رستم اور
رب نواز کے گھبرائے ہوئے چہرے دیکھ کر اپنی اطلاع باہم پہنچائی۔۔۔سائیں وڈا
! ہماری رگوں میں خون نہیں غیرت دوڑتی ہے یہ جیل ویل ہمارے ارادوں کو کیا
ڈرائے گی ۔۔۔وڈا سائیں ہم مٹ جائیں گے مگر آپ پر حرف نہیں آنے دیں گے
۔۔رمضان نے سردار کی طرف جھک کر اپنا ہاتھ سینے پر رکھتے ہوئے ادب سے
کہا۔۔۔
چاند اپنے اختتامی دنوں کے قریب تھا اس لئے چاروں طرف اندھیرا تھا ہلکی سی
ستاروں کی روشنی تھی جس سے کھیتوں میں موجود پگڈنڈیوں کا پتا چلتا
۔۔۔اردگرد عجیب سی خاموشی تھی ۔دلوں کو دہلا دینے والی رات تھی ۔۔۔فضا میں
ایک نا معلوم سا درد تھا ۔۔۔ایک وحشت تھی۔۔۔صحن میں بچھی چارپایوں پر موجود
جسموں میں موجود دل رورہے تھے ۔۔آنکھیں ویران تھیں ۔۔۔پینو کا باپ آسمان
پر موجود ستاروں کے خدا سے خاموش گلہ کر رہا تھا اور سامنے بیٹھی پینو کی
ماں جو آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے جانے کس امید پر اپنی بیٹی کی زندگی کی
دعائیں مانگ رہی تھی اور پینو کا بد نصیب باپ اس کو یہ نہیں بتا سکتا تھا
کہ آج کی اس اندھیری رات میں تمہاری بیٹی کو ہمیشہ کے لئے اس کالی رات کی
کالی چادر پہنا دی جائے گی اوراس کی زندگی کی روشنی کو کالی رات کے حوالے
کر دیا جائے گا ۔۔پہلے اس کے نام کو پینو سے کالی میں بدلا گیا اور آج اس
کالی رات میں اس کے چہرے کو کالا کیا جائے گا اور اس کی روح کو اس کے جسم
سے کھینچ لیا جائے گا ۔۔ پینو کے باپ کے دل پر گرتے آنسو اب آنکھوں سے
بہہ رہے تھے اور درد کی شدت بتا رہی تھی کہ یہ آنسو خون کے ہیں ۔۔۔۔
آج ملک الموت فرشتے نہیں انسان تھے اور انسان بھی وہ جو بے رحم جو شیطانوں
کی دنیا میں اپنے کارناموں میں فرعون کی لسٹ میں تھے ۔۔ان ہی کی بدولت تو
شیطان کا تکبر بڑھے گا ۔۔اور وہ کہے گا اے اللہ میں نے آج ثابت کردیا کہ
یہ انسان اس رتبے کے قابل نہیں تھے جو اسے دیا گیا اور میں نے سچ ہی کہا
تھا نہ کہ یہ تیری زمین پر فساد پھیلائے گا ۔۔۔آج رات شیطان کے طبلے بجانے
کی رات تھی وہ اپنی کامیابی کے شادیانے بجارہے تھے ۔۔۔برسوں سے جس جہالت کو
پروان چڑھانے کی انتھک محنت کی تھی آج اس کا عروج دیکھ کر شیطان کا دل فخر
سے پھول رہا تھا ۔۔۔مسجد میں موجود قرآن جنہوں نے ان انسانوں کو اللہ کا
پیغام دینا تھا ۔۔۔جس میں ہدایات تھیں اس سے نا صرف غافل کیا بلکہ ایک رہا
سہا خوف بھی جو قرآن کے حوالے سے ان لوگوں کے دل میں تھا آج کی رات شیطان
کی چال نے اسے بھی ختم کردیا تھا ۔۔۔بادشاہت تو سردار کی صورت میں ویسے ہی
شیطان کے پاس تھی لیکن اب شیطانیت کو انسانوں کی صورت میں دیکھ کر شیطان تو
جیسے جنگ جیت گیا ہو۔۔۔
بالی اوئے بالی ! بالی باہر آ۔۔۔۔باہر سے کسی کے زور زور سے بلانے کی
آوازیں آرہی تھیں۔۔۔۔بالی نے پینو کی طرف دیکھا جو خوف کے مارے پہلے ہی
اس کا ہاتھ تھامے بیٹھی تھی اور زور سے بالی کا ہاتھ تھاما ۔۔۔نہیں بالی
باہر مت جاؤ۔۔۔مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔۔کتوں کے بھونکنے کی آواز تیز سے تیز
تر ہوتی جا رہی تھی ۔۔۔بالی کشمکش میں تھا ۔۔۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہا
تھا کہ اسے اس کا کزن فضلو کیوں بلا رہا تھا اور وہ بھی رات کے اس
پہر۔۔۔۔۔بالی! اوئے یار بالی ۔۔۔باہر آ۔۔۔۔میں بس ابھی آیا پینو ۔۔۔تو ڈر
کیوں رہی ہے پگلی۔۔۔۔بالی نے اسے تسلی دی ۔۔۔۔نہیں بالی مجھے چھوڑ کر مت جا
میرا دل دیکھ زور زور سے دھڑک رہا ہے پینو نے بالی کا ہاتھ اپنے سینے پر
رکھ کر روتے ہوئے کہا۔۔۔۔باہر فضلو مسلسل آوازیں دے رہا تھا۔۔۔۔بالی نے اس
کا ہاتھ اپنے ہاتھ پر لے کر تھپتھپایا اور پھر اس کے ہاتھ کو بوسا دیتے
ہوئے کہا پینو میں بس فضلو کی بات سن کر آرہا ہوں ۔۔۔۔بالی باہر کی طرف
بڑھا ۔۔۔۔کتوں کے بھونکنے کی آوازیں اس اندھیری رات کی وحشت کو اور بڑھا
رہی تھیں ۔۔۔۔۔اور پینو گھٹنوں میں سر دئیے ایک انجانے خوف سے کانپ رہی
تھی۔۔۔۔
کیا ہوا فضلو کیوں شور مچا رہے ہو ۔۔۔اوۓ تمہاری بھینس چور لے کر جا رہے
تھے میری آج پانی کی باری تھی میں نے دیکھا تو تجھے بلانے آگیا۔۔۔چل
ذیادہ دور نہیں گئے ہونگے۔۔۔۔ جب تک بالی کا باپ بھی باہر آگیا ۔۔۔فضلو کی
بات سن کر اس نے بالی کو چوروں کے پیچھے جانے کو کہا ۔۔۔۔ بالی! اللہ وسایا
ساتھ والے گاؤں میں شادی میں گیا ہوا ہے پتر تو ہی بھاگ ۔۔۔جا دیکھ
۔۔۔۔بالی کے باپ نے منت کی ۔۔۔۔اچھا کس طرف کو گئے ہیں وہ بھینس
چور۔۔۔۔فضلو نے دور گنے کے کھیتوں کے اس پار ٹارچ دے کر اشارہ کیا۔۔۔۔بالی
کے پاس وقت نہیں تھا ۔۔۔۔وہ تیزی سے گنے کے کھیتوں کی جانب بھاگا ۔۔۔۔فضلو
کی رفتار اس کی نسبت کم تھی۔۔۔۔۔گنے کے کھیتوں کو پار کرکے وہ چاولوں کے
کھیت تک آ پہنچا جہاں دور دور تک اندھیرا تھا ۔۔۔۔اس نے ٹارچ سے اندھیرے
میں روشنی کی لکیر ڈال کر اردگرد دیکھا۔۔۔دور دور تک کچھ نظر نہیں
آیا۔۔۔۔یکا یک اس کے دماغ میں پینو کا خیال آیا ۔۔۔اس نے پیچھے مڑ کر
دیکھا فضلو غائب تھا ۔۔۔۔اس کی سمجھ میں جیسے ساری کہانی گھوم گئی۔۔۔جس
رفتار سے وہ آیا تھا اسی رفتار سے اس نے گھر کا رخ کیا ۔۔۔۔وہ رورہا
تھا۔۔۔۔اب اسے سب سمجھ آرہا تھا۔۔۔۔اس کو کیوں پچھلے صحن میں اس کے باپ
نےسونے کے لئے کہا۔۔۔۔بھاگتے بھاگتے اندھیرے میں گنے کے کھیت سے گزرتے ہوئے
نہ جانے کتنے گنے کے تیز اور نوکیلے پتے اس کے جسم سے ٹکراتے رہے اس کا
چہرا ذخمی ہوگیا تھا لیکن وہ برابر بھاگ رہا تھا ۔۔۔اور راستہ تھا کہ ختم
ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔۔۔۔۔گھر پہنچتے ہی وہ یہ دیکھ کر اور دکھی اور
پریشان ہوگیا کہ وہاں نہ چارپائی تھی اور نہ ہی پینو۔۔۔اس نے زور زور سے
پینو کو آوازیں دیں ۔۔۔اور باہر کی طرف بھاگا ۔۔۔اس کا دماغ ماؤف ہوگیا
تھا۔۔۔۔اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرف کو جائے۔۔۔۔۔اندر آکر اپنے
باپ سے پینو کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے خاموش ہوکر سر جھکا
لیا۔۔۔۔۔بالی سمجھ گیا کہ وہ لوگ اسے اٹھا کر لے گۓ ہیں لیکن کس طرف وہ یہ
نہیں جانتا تھا۔۔۔۔۔
(کیا ہوگا پینو کے ساتھ؟کیا بالی بچا پائے گا اپنی پینو کو یا جیت جائے گا
ظلم اور شیطانیت؟ دیکھیں اگلی قسط میں)
|