یوں تو اس دھرتی پر نہ تو یہ عورت کا پہلا قتل تھا اور نہ
ہی اس گاؤں میں بلکہ یہ گاؤں تو نہ جانے برسا برس سے کالیوں کی ہی قتل گاہ
تھی مگر پھر بھی ایسا کیا تھا کہ پینو کے قتل کے بعد ہوا کے سوگ میں بین
ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔۔۔بہت سی آنکھیں خاموش اشکبار تھیں
۔۔۔لیکن شکوے ،شکایتیں تھیں رب سے کہ ہم کو بھی کیا تونے مردوں کے لئیے ان
پر قربان ہونے کے لئے بنایا جیسے باقی جانوروں کو انسانوں کے لئیے ۔۔۔ان کی
تسکین ہم عورتیں ۔۔۔ان کی غلام ہم عورتیں ۔۔۔جسموں کو ہمارے یہ نوچتے
ہیں۔۔۔تشدد یہ کرتے ہیں ۔۔۔پھر بھی مجرم ہم ۔۔۔سزا ہمیں ہی ۔۔۔یا رب اگر ہم
جانور ہیں تو ہمیں جانور کی ہی درجہ بندی میں ڈالا جائے۔۔۔ہماری کوکھ سے یہ
مرد پیدا کیا وہ تو انسان ہے پھر ہم کیوں نہیں تو خالق ہے تیرا کتنا درجہ
ہے پھر ہم عورتوں کو تونے انسان کی ہی تخلیق کا راستہ بنایا پھر ہم اتنی بے
وقعت کیوں؟ شیطان اس سوال پر یقینا خوش ہوا ہوگا اور جواب اس نے دیا ہوگا
کہ تم کیا چیز ہو ! ہم نے تو اسی انسان کو جس کو خدا نے پیدا کیا ۔جس کو
سجدہ کرنے کا تمام مخلوق کو حکم دیا گیا تھا ۔۔جس کا خالق خود اللہ ہے اور
اس انسان نے صرف خدا کو سجدہ کرنا تھا ۔۔اسی کو بتوں کے سجدے پر لگا دیا
۔۔۔یہ بے وقوف انسان اس خدا کے رتبے کو نہیں سمجھ سکا تو تجھ جیسی کمزور
عورت کے رتبے کو کیا خاک سمجھے گا ۔۔۔یہ انسان تو میرا حکم مانتا ہے۔۔۔میرے
دکھائے ہوئے راستے پر چلتا ہے ۔۔۔میری دکھائی ہوئی جنت تو اس کو سامنے نظر
آتی ہے پھر وہ کیوں مرنے کے بعد والی جنت کا یقین کرے گا۔۔۔
بالی ساری رات ادھر ادھر بھاگتا رہا ۔۔اسے ساری رات رمضان کے چھوڑے ہوئے
لوگ کبھی کہتے اس طرف کو کالی لے کر گئے ہیں اور کبھی اس کو دوسری طرف
اشارہ کرتے اور وہ پاگلوں کی طرح ادھر ادھر بھاگتا رہا ۔۔یہ رات اسے اتنی
طویل اور تھکا دینے والی لگ رہی تھی ۔۔۔اس کا جسم بار بار روح سے الگ ہونے
لگتا جیسے کوئی اس پر وار کر رہا ہو ۔۔۔دل زور زور سے دھڑکتا جیسے پینو اسے
پکار رہی ہو۔۔۔کالی رات جیسے اس کے نصیب میں اندھیرا لکھ رہی ہو ۔۔۔وہ
بھاگتا رہا ۔۔کبھی نہر کے کنارے تو کبھی آموں کے باغوں کی طرف اور پھر
آندھی کے زور سے چلنے پر اسے پتا چل گیا کہ یہ پیغام لا رہی ہے پینو پر
ہونے والے ظلم کا ۔۔آندھی میں جیسے سسکیاں تھیں ۔۔چیخیں تھیں جو بالی کی
روح سے ٹکرا رہی تھیں۔۔۔ کالی رات چھٹ رہی تھی لیکن صبح اتنی شرمندہ اور
اداس تھی کہ وہ پینو کے بین کے لئے اپنے ساتھ گرجتے ،برستے بادل اور آندھی
طوفان بھی ساتھ لائی ۔۔۔بالی بھاگتا جا رہا تھا ۔۔بالآخر وہ اسی پتھر کے
قریب پہنچ گیا جہاں پینو کو قتل نہیں ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا تھا ۔۔اس کا خون
بھی وہاں تھا اور پتھر پر کلہاڑیوں کے نشانات بھی ۔۔بالی نے پتھر کو چوما
اور اس پتھر کے گلے لگ کر اتنی زور زور سے رویا کا آسمان بھی ساتھ ہی رونا
شروع ہوگیا ۔۔۔اس طوفانی بارش میں پینو کی سسکیاں تھیں۔۔۔آسمانی بجلی کی
چمک اور بادلوں کی چنگھاڑ بتا رہی تھی کہ زمیں والے ہی نہیں آسمان کی
مخلوق بھی غم و غصے میں ہے ۔۔بالی کو کچھ ہوش نہ تھا ۔۔۔وہ چیخ چیخ کر کہہ
رہا تھا ۔۔۔میں اپنی پینو کو نہ بچا سکا لیکن تو تو بچا سکتا تھا۔۔۔تونے
زلزلہ کیوں نہ بھیجا کہ وہ ناپاک جسم اس زمین میں دھنس جاتے جنہوں نے میری
پینو کے پاک جسم کے ٹکڑے کئے۔۔۔۔تونے ان پر جو میری پینو پر ٹوٹ پڑے تھے
آسمان سے بجلی کیوں نہ گرائی ۔۔۔۔وہ تو ہر پل تیرا ذکر کر تی تھی پھر کیوں
مارنے دیا ۔۔۔۔اگر اس کی موت لکھی تھی تو تو مار دیتا ۔۔۔تو مالک تھا
۔۔۔مجھے صبر آجاتا۔۔۔۔کیوں ٹھیکیدار بنا دیا تونے ان ظالموں کو میری پینو
کی زندگی کا ۔۔۔یا اللہ سائیں کیوں ۔۔۔میری پینو مجھے دے دے واپس ۔۔۔یا
انصاف کر اس کا ۔۔۔ فیصلہ کر اس کا ۔۔۔۔مجھے بھی مار دیتے وہ تو اچھا تھا
۔۔۔۔یہ کہہ کر اس نے زور زور سے اسی پتھر پر سر مارنا شروع کر دیا ۔۔۔ہائے
پینو میں تجھے کہاں ڈھونڈھوں ۔۔۔تیری تو نہ قبر چھوڑی اور نہ نشان ۔۔۔۔ وہ
خود کو پتھر سے مارتا رہا اور روتا رہا یہاں تک کہ بے ہوش ہوگیا۔۔
تھوڑی دیر میں بالی کا باپ اسے ڈھوندھتا ڈھونڈھتا وہاں آ پہنچا ۔۔۔اس کے
ساتھ اس کے دو بھتیجے بھی تھے ۔۔اجن کے کپڑے بارش سے مکمل تور پر بھیگ گئیے
تھے بلکہ ان کے سر سے پانی بہہ بہہ کر ان کے جسم سے ہوتا ہوا زمین پر بہہ
رہا تھا ۔۔ان میں سے ایک نے کہا میں نے کہا تھا نہ چاچا یہ یہاں ہوگا
۔۔۔اوئے اس کا تو خون نکل رہا ہے ۔۔۔۔بالی کے باپ نے روتے ہوئے کہا ۔۔۔بیٹے
کے خون پر باپ کا دل تڑپ اٹھا۔۔۔اٹھ بالی پتر اٹھ جا ۔۔۔چاچا یہ تو بے ہوش
ہے ۔۔۔اس کا تو بہت خون بہہ گیا ہے ۔۔۔اوئے جا جلدی سے چارپائی لا ایسے
اٹھانا مشکل ہوگا ۔۔۔۔بالی کا باپ کھیت میں پانی سے بھری زمین پر بیٹھ گیا
اور بالی کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔۔۔اوئے بالی آنکھیں کھول ۔۔اوئے
بالی۔۔۔بالی نے ہلکی سی آنکھیں کھولیں ۔۔۔اور بند کر لیں ۔۔ان آنکھوں میں
ڈھیروں شکوے تھے اپنے باپ سے ۔۔۔دکھ اور اذیت میں اپنے بیٹے کو دیکھ کر اس
کے باپ کا کلیجہ منہ کو آرہا تھا ۔۔۔بالی مجھے معاف کر دے پتر ۔۔۔میں
مجبور تھا ۔۔۔بالی کا باپ ہاتھ جوڑے نیم بے ہوش بیٹے سے کہہ رہا تھا
۔۔۔مجھے تجھے مارنے کی دھمکی دی تھی رمضان نے اور ساتھ ہی گاؤں سے نکال کر
باپ دادا کی زمین سے بے دخلی کی ۔۔۔میں مجبور تھا ۔۔۔ہم کچھ بھی کر لیتے
انہوں نے مارنا تو تھا ہی۔۔۔وہ صرف میری بہو تو نہیں تھی بھتیجی بھی تو تھی
بھتیجی بھی وہ وہ جو بیٹیوں سے بڑھ کر ۔۔۔۔یہ کہہ کر بالی کا باپ پھوٹ پھوٹ
کر رو رہا تھا ۔۔۔
رمضان رات والے واقعے کے بعد گھر جانے کی بجائے سردار کے ڈیرے پر چلا گیا
اور کاکے سے حقہ گرم کرنے کا کہا ۔۔۔کاکا ڈیرے پر رہتا تھا ۔۔اور سردار کے
مہمانوں کے لئے چائے وغیرہ کا انتظام کرتا ۔۔حقہ گرم کرتا ۔۔۔اور ڈیرے کے
دوسرے کام نمٹاتا ۔۔۔۔کاکے نے رمضان کے کپڑوں کی طرف دیکھا جس پر انتہائی
گیلے ہونے کے باوجود خون کے نشانات تھے وہ سمجھ گیا کہ رات کی کالک کو کالی
کے خون سے لال کیا گیا تھا تبھی تو کل رات صرف سیاہ نہیں سرخ بھی تھی ۔۔۔وہ
جانتا تھا کہ اب اس ڈیرے پر خوشی کا سماں ہوگا۔۔۔کچھ ہی دن میں سردار رمضان
اور اس کے ساتھیوں کو پگ پہنائے گا۔۔۔دوسرے سرداروں کو بھی دعوت دی جائے گی
۔۔۔انسان کو ذبح کرنے کی خوشی میں جانور ذبح ہونگے۔۔۔۔لسی اور چائے کا دور
چلے گا ۔۔۔اور اپنی اپنی بہادری کے قصے سنائے جائیں گے ۔۔۔ہر دفع ایسے
موقعوں پر دوسرے گاؤں کے سردار بھی آتے اور اسے خوشی مین لال لال نوٹ بھی
دئے جاتے اور وہ خوش ہوتا لیکن اس دفع وہ اداس تھا پینو اس کی رشتہ دار بھی
تھی۔۔۔وہ اس سے چند سال بڑی تھی۔۔۔کاکے کو یاد تھا ۔۔گاؤں کی کچی مسجد میں
رمضان کے مہینے میں جب امام مسجد آتے تھے تو وہ قرآن پاک کو سر سے پڑھنے
کا کہتے تو پینو کے قرآن پڑھنے پر سب بچے خاموش ہوجاتے خود مولوی صاحب بھی
سکتے میں آجاتے وہ قرآن پڑھنے میں اتنی محو ہوجاتی کہ آنکھیں بند کر کے
سنا رہی ہوتی
انجانا سا پیار ،مٹھاس اور کشش تھی اس کی آواز میں ۔۔۔دل میں اترتا ہر ہر
لفظ ۔۔۔مسجد سے گزرتے ہوئے اس کے رشتہ دار بھی رک جاتے کہ پینو قرآن پڑھ
رہی ہے۔۔۔یوں تو اس کی آواز کم لوگ ہی سنتے تھے لیکن قرآن پاک پڑھتے ہوئے
وہ ایسی کھو جاتی کہ اسے ہوش نہ ہوتا کہ کون اسے سن رہا ہے ۔۔۔اور جب وہ
سنا چکتی تو مولوی صاحب پوچھتے کہ پینو تمہیں سب یاد تھا زبانی۔۔۔اور وہ
کہتی مولوی صاحب مجھے قرآن پاک پڑھنا اچھا لگتا ہے آپ جو پڑھاتے ہیں سارا
دن میرا دل یہی پڑھتا رہتا ہے بس اس لئے بغیر دیکھے سنا دیتی ہوں۔۔۔۔کاکے
جلدی حقہ گرم کر کے لا ۔۔۔رمضان نے آواز دی تو کا کا خیالوں سے باہر نکل
آیا۔۔۔وڈا سائیں نہیں آیا ابھی تک ۔۔۔۔رمضان نے اپنے آپ سے کہا ۔۔۔۔وہ
جی باہر دیکھیں نہ اللہ سائیں نے کیسا طوفان بھیجا ہے ۔۔۔بادل گرجتے ہیں تو
لگتا ہے کان پھٹ جاۓیں گے ۔۔۔۔زمین بھی لگتا ہے ہل رہی ہو ۔۔اور رات کو تو
آندھی شائیں شائیں کرتی پھر رہی تھی ۔۔۔ایسی خوفناک آوازیں تھیں کہ دل
باہر آرہے تھے ۔۔توبہ توبہ۔۔۔کاکے نے کانوں پر ہاتھ لگائے۔۔۔بکواس بند کر
۔۔۔بڑا ہی بزدل ہے تو۔۔۔۔رمضان خان نے اسے ڈانٹا لیکن اس بات کے بارے میں
تو وہ بھی حیران تھا کہ وہ عجیب ،خوفناک چیخیں کس کی تھیں ۔۔۔کیونکہ پینو
تو ان کے ساتھ تھی ۔۔۔اس نے تو کوئی چیخیں نہیں ماری تھیں ۔۔۔وہ سوچ رہا
تھا شاید اس نے بھنگ زیادہ پی لی تھی۔۔۔پھر اسے وہی چیخوں کی آواز سنائی
دی ۔۔۔اس نے کاکے کو زور سے آواز دی ۔۔۔کاکے یہ چیخیں کون مار رہا ہے
۔۔۔۔کاکے نے کہا ،سائیں یہ تو آندھی اور بارش کا شور ہے ۔۔ہاں رات کو ایسا
لگ رہا تھا جیسے کوئی چیخیں مار رہا ہو لیکن یہ چیخیں بہت ساری چیخوں کی
آوازوں جیسی تھیں۔۔۔۔رمضان نے اپنے سر کو جھٹکا کہ شاید ان چیخوں کی آواز
کم ہو جائے لیکن افاقہ نہیں ہو رہا تھا ۔۔۔۔
ادھر پینو کی ماں کی بری حالت تھی ۔۔دوپٹہ سر کی بجاے نیچے پڑا تھا ۔۔۔بال
کھلے اور الجھے ہوئے تھے۔۔۔وہ اپنا سینہ پیٹ رہی تھی ۔۔۔خدا سے شکوے
۔شکایتیں تھیں ۔۔وہ پکارتی ہائے میرے میٹھے اللہ سائیں تونے یہ کیا کر
دیا۔۔۔۔میرے ٹکڑے کردیتے ۔۔۔میرا جگر نوچ ڈالا ۔۔۔ہائے میری دودھ جیسی پاک
دھی کو کالی کر دیا ۔۔۔ اللہ سائیں تو کہاں ہے ۔۔۔وہ اللہ کہتی ۔۔۔اوہ اللہ
کہتی تو یوں لگتا جیسے اس کی آواز آسمانوں سے ٹکرا رہی ہو کہ جوابا بادل
گرج گرج کر پینو کی ماں کا ساتھ دیتے اور اسی غم و غصے کا اظہار کرتے جو
پینو کی ماں کر رہی تھی۔۔۔پینو کی ماں روتے روتے سفیل میں رکھے ہو ئے قرآن
کی طرف بڑھی ۔۔۔قرآن ۔۔۔قرآن میرا فیصلہ کرو۔۔۔میری دھی کا فیصلہ کرو
۔۔۔مجھے نہیں پتا اللہ سائیں کہاں ہیں مگر تو تو اسی کا ہے ۔۔۔تجھے اس نے
ہمارے لئے بھیجا ہے ۔۔۔تجھے میری بیٹی بہت پیار سے پڑھتی تھی ۔۔۔گلے سے
لگاتی تھی اور جب میں پوچھتی تو وہ کہتی تھی میں قرآن پڑھتی ہوں تو ایسا
لگتا ہے اللہ سائیں مجھے دیکھ رہے ہیں اور سن رہے ہیں ۔۔۔ہائے اللہ سائیں
میری دھی کا فیصلہ کر ۔۔۔ابھی تو وہ اپنے پاک ہونے کا انصاف مانگ رہی تھی
اب تو اپنے ناحق قتل کا بھی انصاف مانگے گی ۔۔۔قرآن میری دھی کا فیصلہ
کرو۔۔۔امیراں کی ماں نے پینو کی ما ں کو حوصلہ دینا چاہا اور خود بھی اس کے
ساتھ اپنی بیٹی کا دکھ لے کر شریک ہوگئی ۔۔۔دونوں اپنی اپنی بیٹیوں کے
مرثیے اور نوحے پڑھ رہی تھیں اور گاؤں کی باقی وہ عورتیں جن کی بیٹیوں یا
بہنیں جن کو کاروکاری کے کالے قانون کی بھینٹ چڑھا کر یا تو مار دیا گیا یا
سردار کے ڈیروں پر بولی لگا کراس کا منہ کالا کر کے کسی بھیڑ بکری کی طرح
اس کو کسی اور کے حوالے کردیا جاتا اور لے جانے والا یا تو زندگی کی آخری
سانسیں گن رہا ہوتا یا پھر کسی پاگل کی بیوی بنا کر انہیں زندگی بھر کی سزا
دی جاتی یا پھر کسی معزور کے نکاح میں دے دیا جاتا جہاں پوری زندگی وہ اس
کی خدمت کرتی ۔۔اس طرح دو کام ہوجاتے ۔۔ایک یہ کہ سردار کو اسے قتل نہ کرکے
کچھ رقم مل جاتی جو کہ وہ دوسری پارٹی سے وصول کرتا اور دوسرا یہ کہ مر کر
تو کالی کو صرف ایک سزا ملتی یہاں پر تو اسے روز مرنا پڑے گا ۔۔۔۔کسی دوسرے
کے نکاح میں دینے سے پہلے شادی شدہ خواتین کے شوہر کی طلاق کی بھی زحمت
نہیں کی جاتی بقول سرداروں کے کالی کا سابقہ نکاح ویسے ہی ٹوٹ جاتا
ہے۔۔۔دودھ پیتے بچوں کو ماؤں سے چھین کر الگ کر دیا جاتا ہے۔۔بچہ ماں سے
الگ ہوکر رو رو کر ہلکان ہو رہا ہوتا ہے جبکہ اس کی ماں کو سردار کے حوالے
کردیا جاتا ہے جہاں وہ اس کی سانسوں اور زندگی کا فیصلہ سناتا ہے ۔اور عورت
کے لئے چاہے قتل کا فیصلہ ہو یا غلاموں کی طرح بک کر ۔۔دونوں سورتوں میں
گلے میں طوق وہی کالی کا ہی پہنایا جاتا پھر یہ یاد نہ رہتا کہ وہ کون تھیں
۔۔ان کا اصلی نام کیا تھا یاد رہتا تو بس یہ کہ مر بھی گئیں تو کالی اور
اگر موت سے بدتر زندگی جی رہی ہیں تب بھی وہ کالی ہی کے نام سے پکاری جاتیں
ہیں۔۔
پولیس سردار کے ڈیرے پر آچکی تھی۔۔۔سب کچھ تو پہلے سے ہی طے تھا نہ تو
پولیس اس ڈیرے پر پہلی دفع آئی تھی اور نہ ہی یہ پہلا واقعہ تھا ۔۔۔سردار
نے ایس ۔ایچ ۔او کو دیکھا ۔۔۔ہاں بھئی کتنے دن میں ہمارے شیر باہر
ہونگے۔۔۔سائیں آپ کو تو پتا ہے آجکل تھوڑی سختی ہورہی ہے لیکن یہ شریعت
آخر کس دن کام آئے گی۔۔۔کچھ این۔جی۔اوز پیچھے پڑے ہوے ہیں ۔۔بڑے عورتوں
کے حقوق وقوق کی باتیں کرتے ہیں لیکن ایسا ہو نہیں سکتا کہ وہ کامیاب ہو
جائیں ۔۔ہمارے مولوی انہیں چھوڑیں گے نہیں۔۔۔وہ تو ویسے بھی کہتے ہیں اتنی
آسان موت کیوں دیتے ہو ان گناہ کرنے والی عورتوں کو سنگسار کیا کرو ان کو
سرے عام ۔۔۔ہر آدمی تا کہ ان کو پتھر مار کر ثوابِ دارین حاصل کرے ۔۔یہ
کیا بس چپکے سے ان کو مار دیتے ہیں ۔۔لوگوں میں کچھ خوف و حراس چاہتے ہیں
وہ تاکہ عبرت حاصل ہو آخر جنت یونہی تو نہیں مل جاتی۔۔ایس۔ایچ۔او نے سردار
کو صورتِ حال سے آگاہ کیا۔۔لیکن ایک مسئلہ ہے سائیں کہ کالی کو تو مار دیا
ہے مگر غیرت کے قتل میں کالا بھی تو ہوتا ہے اس کا کیا ہوگا؟
(کیا ہوگا آگے ؟کیا جس شخص سے نا جائز تعلقات کا الزام لگایا گیا تھا پینو
پر مل پائے گا سردار کو اور اگر مل گیا تو کیا ہوگا؟ اگلی قسط میں پڑھیں
۔۔انتظار تو کرنا ہوگا۔۔)
|