امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور فلسطین کیلئے اپنا
امن منصوبہ پیش کردیا ہے ۔ امریکی صدر کے مطابق اس منصوبے میں دو ریاستی حل
بتایا جارہا ہے ۔صدر ٹرمپ کا کہنا ہیکہ منصوبہ اسرائیل فلسطین تنازعے کیلئے
حقیقت پسندانہ دو ریاستی حل تجویز کرتاہے، مشرق وسطیٰ امن منصوبے کی بدولت
فلسطینیوں کو دگنا علاقہ ملے گا اور ان کی ریاست کیلئے دارالحکومت بھی حاصل
ہوگا۔ امن منصوبے کو فلسطینیوں کے لئے اپنی آزاد ریاست کے قیام کے مقصد کو
حاصل کرنے کا تاریخی موقع قرار دیتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ شاید
فلسطینیوں کیلئے آخری موقع ہوسکتا ہے۔امریکی صدر کے پیش کردہ اس منصوبہ سے
واضح ہوتا ہیکہ فلسطینییوں کو انکے اصل دارالحکومت سے محروم کرنا اور ان ہی
سے قبضہ کئے گئے علاقوں کو دگنا علاقہ ملے گا کہنا عجیب سا نظرآتا ہے۔اسی
لئے ٹرمپ کے اس منصوبے سے فلسطینی سخت ناراض ہیں اور اسے مسترد کرتے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے منگل کی رات واشنگٹن میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجامین نتین یاہو
کے ہمراہ اس منصوبہ کی تفصیلات بیان کیں اور اسے ایک نئی صبح قرار
دیا۔بتایا جاتا ہیکہ وائٹ ہاؤس میں منعقدہ اس تقریب میں فلسطین کے کسی
نمائندے کو مدعو نہیں کیا گیا جبکہ عمان، بحرین اور متحدہ عرب امارات کے
سفیروں نے شرکت کی۔ اس موقع پر صدر کی جانب سے اعلان کئے جانے والے امن
منصوبے میں مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت رکھنے کا
عہد شامل ہے جبکہ فلسطین کو مقبوضہ مشرقی یروشلم کے اندر دارالحکومت بنانے
کی اجازت ہوگی۔ منصوبہ سے یہ بھی واضح ہوتا ہیکہ بین الاقوامی برادری کی
جانب سے غیر قانونی قرار دی جانے والی اسرائیلی بستیاں برقرار رکھی جائیں
گی۔اس طرح صدر ٹرمپ نے امریکہ کی جانب سے پہلے کی جانے والی کوششوں کو مبہم
قرار دیا اور 80صفحات پر مشتمل اپنے منصوبے کو حقیقت پسندانہ دوریاستی حل
قرار دیا ۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے بھی اس امن منصوبہ کو اس صدی کی سب سے بڑی
ڈیل قرار دیا، تاہم فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے اسے مسترد کردیا
۔محمود عباس نے عالمی برادری سے امریکی صدر کے پیش کردہ منصوبے کو مسترد
کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کے حقوق پر کوئی سودے بازی نہیں
ہوگی ، یہ ڈیل سازش ہے جو کامیاب نہیں ہوگی۔فلسطینی صدر نے غصے کا اظہار
کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ اور نیتن یاہو سے کہتا ہوں کہ مقبوضہ بیت المقدس
برائے فروخت نہیں، فلسطینیوں کے حقوق برائے فروخت نہیں۔رملہ میں خطاب کے
دوران محمود عباس نے اصل مسئلہ واضح کرتے ہوئے کہا کہ اگر مقبوضہ بیت
المقدس فلسطینی ریاست کا دارالحکومت نہیں تو ہم اسے کیسے قبول کریں گے؟
محمود عباس کے خطاب کے موقع پر فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن ، حماس اوراسلامی
جہاد کے ارکان نے بھی شرکت کی جو ٹرمپ اور نیتن یاہو کے خلاف فلسطینیوں کے
اتحادکا مظہر بتایا جاتا ہے۔عرب لیگ کے سکریٹری جنرل احمد ابو الغیط نے امن
منصوبے کی پیشکشی کے فوراً بعد کہا ہیکہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے بیچ
منصوبے کے ابتدائی مطالعے سے معلوم ہوتا ہیکہ اس میں فلسطینیوں کے قانونی
حقوق کو بڑے پیمانے پر برباد کیا گیا ہے۔تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ہم
امریکی ویژن کا باریک بینی سے جائزہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں،انہوں نے کہا
کہ ہم امن کو یقینی بنانے کی خاطر کسی بھی سنجیدہ کوشش کے لئے کشادہ دلی کے
حامل ہیں۔
برطانیہ نے اس منصوبہ کو ایک سنجیدہ و حقیقی حل قرار دیا جبکہ ترکی اور
ایران نے اس کی سخت مخالفت کی۔ عرب لیگ کا کہنا ہیکہ امن منصوبے میں
فلسطینیوں کے حقوق پامال کئے گئے ہیں۔روس نے ٹرمپ کے منصوبے کے اعلان کے
بعد اسرائیل اور فلسطین پر زور دیا کہ وہ براہِ راست مذاکرات کریں ۔ایران
نے اس منصوبے کی مذمت کرتے ہوئے اسے اس صدی کی سب سے بڑی غداری قرار دیا
ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا کہنا ہیکہ یہ امریکہ کا فلسطینیوں پر
مسلط کردہ شرمناک اور ناکام منصوبہ ہے ،انہوں نے اس منصوبہ کو خطے کے لئے
ڈراؤنا خواب بتایا ہے۔ ترکی نے بھی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ نام نہاد منصوبہ
، بے جان اور اسرائیلی بستیاں بنانے کے لئے ہے، جس کا مقصد دو ریاستی حل کو
ختم کرنا اور فلسطین کے علاقے پر قبضہ کرنا ہے۔اس منصوبہ کے پیش کئے جانے
کے بعد ناقدین کا کہنا ہیکہ امریکی صدر نے ایسا خاکہ پیش کیا ہے جس سے
اسرائیل کو کھلی آزادی دے دی گئی ہے ، ٹرمپ نے وہی منصوبہ پیش کیا ہے جو
اسرائیل چاہتا تھا۔
سعودی عرب نے امریکی امن منصوبے کے تحت اسرائیل اور فلسطین کے مابین براہِ
راست بات چیت کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ عرب نیوز کے مطابق فلسطینی صدر محمود
عباس کے ساتھ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ٹیلی فونک بات چیت کی اور شاہ
سلمان نے اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ سعودی عرب فلسطین کے مسئلے کے حل
اور فلسطینیوں کے حقوق دلانے کیلئے پُر عزم ہے۔سعودی وزارت خارجہ نے کہا
ہیکہ سعودی عرب ان تمام کوششوں کی حمایت کرتا ہے جو فلسطین کے معاملے کے حل
کیلئے ایک منصفانہ اور جامع فیصلے تک پہنچے۔سعودی عرب اسرائیل اور فلسطین
کے معاملے پر ٹرمپ انتظامیہ کی تمام کوششوں کو سراہا ہے۔ اب دیکھنا ہیکہ
امریکی صدرٹرمپ کی جانب سے پیش کئے گئے امن منصوبہ پر عرب لیگ کی جانب سے
منعقد ہونے والے اجلاس میں کن خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے اور عالمی سطح
پرمزید کیا ردّعمل آتا ہے۰۰۰
فلسطینی وزیر اعظم محمداشتیہ کا کہنا ہیکہ اگر ہم اس ڈیل کو تسلیم کرلیتے
تو ہمیں اچھا قرار دیا جاتا۔ انہوں نے کہاکہ ہم اپنی قومی سلامتی کے مسئلے
پر ڈٹے ہوئے ہیں اسلئے ہم اب مزید اچھے نہیں رہے۔ اگر اچھا اور بُرا قرار
دینے کا یہی پیمانہ ہے تو ہم بُرا بننے کو ترجیح دیں گے کیونکہ ہم اپنی
عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ تمام عرب ممالک کا فلسطین کے ساتھ نہ
دینے کے معاملہ پر وزیر اعظم کاکہنا ہیکہ ہم چند عرب ممالک کی سیاسی
مجبوریوں کو سمجھ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اب وقت
ایک واضح پوزیشن اختیار کرنے کا ہے۔ جو لوگ اس وقت ہمارے ساتھ نہیں ہیں وہ
مستقبل میں اپنے آپ کو دوسری طرف (امریکہ اور اسرائیل) پر کھڑا پائیں گے
اور یہ عرب ممالک کے لے غیر معمولی ہوگا۔انہوں نے عرب ممالک سے اس امیدکا
اظہار بھی کیا کہ عرب ممالک فلسطینیوں کا سودا نہیں کریں گے۔
سلطنت عمان کے نئے فرمانروا کا مستحسن اقدام
صاحب ثروت اور حکمراں اپنے آپ کو اعلیٰ مراتب پر فائز سمجھ کر انہیں بہترین
اور اعلیٰ صفات کے القاب سے نوازے جانے کے متمنی رہتے ہیں لیکن بہت کم ہی
اعلیٰ صفات کے حامل لوگ ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو ایسے القاب سے نوازے جانے
کو پسند نہیں فرماتے۔ان ہی میں سے ایک سلطنت عمان کے نئے فرمانروا ہیں ۔
سلطنت عمان کے نئے فرمانروا سلطان ہیثم بن طارق نے اپنے تمام القاب منسوخ
کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔انہوں نے تمام وزراء اور انکے مشیران کو تحریری
ہدایت جاری کی ہے ، جس میں سلطان ہیثم بن طارق نے کہا’’میرے لئے یہ باعث
اعزاز امر ہوگا کہ آپ مجھے سرکاری اور نجی خط و کتابت میں مولانا، حضرت،
عزت مآب، سلطان معظم کے القاب سے مخاطب نہ کریں بلکہ صرف ہیثم بن طارق
سلطان عمان لکھنے اور کہنے پر اکتفا کریں۔واضح رہے سلطان ہیثم بن طارق 11؍
جنوری کو سلطان قابوس بن سعید کے انتقال کے بعد جانشین بنائے گئے جو سلطان
قابوس کے چچا زاد بھائی ہیں۔
عمران خان کا دورہ ملیشیا۰۰۰
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان دو روزہ سرکاری دورے پر 3؍ فروری کو ملیشیا
جائیں گے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق وزیر اعظم دورے کے دوران اپنے
ملیشیا ہم منصب ڈاکٹر مہاتیر محمد سے ملاقات کریں گے ۔ بتایا جاتاہے کہ ایک
اعلیٰ سطح کا وفد بھی وزیر اعظم کے ہمراہ ملیشیا جائے گا ، دونوں ممالک کے
درمیان وفود کی سطح پر بھی بات چیت ہوگی۔ دورے کے دوران دونوں ممالک کے
درمیان دو طرفہ تجارت، سرکامایہ کاری اور علاقائی و عالمی امور پر بات چیت
ہوگی۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ملیشیاء سمت میں وزیر اعظم عمران خان نے
شرکت نہیں کی ، اس کے باوجود دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں کوئی فرق
نہیں آیا۔ وزیراعظم کے دورے سے باہمی تعلقات مزید مستحکم ہونگے، دونوں
وزرائے اعظم امت مسلمہ کے اتحاد کے داعی ہیں۔
رجب طیب اردغان کا دورہ پاکستان۰۰۰
ترک صدر رجب طیب اردغان 13اور14؍ فروری کو پاکستان کا دورہ کریں گے ، اس
موقع پر صدر ترک پاکستانی سیاسی و فوجی قیادت سے اہم ملاقاتیں کریں گے جبکہ
وزیر اعظم عمران خان اور ترکی صدر رجب طیب اردغان اجلاس کی مشترکہ صدارت
کریں گے۔ رجب اردغان کاروباری شخصیات سمیت اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ اسلام
آباد پہنچیں گے۔واضح رہے کہ ترکی صدرجب طیب اردغان کا دورہ پاکستان قبل
ازیں تین مرتبہ معطل ہوچکا ہے، وزیر اعظم عمران خان نے جنوری 2019میں ترک
صدر کو دورہ پاکستان کی دعوت دی تھی۔
انڈونیشیا میں پہلی مرتبہ خاتون اہلکار نے کوڑے لگائے۰۰۰
انڈونیشیا کے صوبہ باندا آچے میں پہلی مرتبہ ایک با پردہ خاتون اہلکار کے
ہاتھوں کوڑوں کی سزا دی گئی۔ یہ سزا ایک غیر شادی شدہ خاتون کو دی گئی جسے
مبینہ طور پر ایک شخص کے ساتھ ہوٹل کے کمرے سے گرفتار کیا گیا تھا کیونکہ
آچے میں ایسا کرنا قانوناً جرم ہے جس کے مرتکب کو عام اجتماع کے سامنے سزا
دی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ انڈونیشیا آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا
مسلم ملک ہے جہاں جزیرہ سماٹرا کے قدامت پسند علاقے میں اسلامی قوانین نافذ
ہیں جن کے یہاں شراب نوشی، جوا کھیلنے، زنا اور ہم جنس پرستی سمیت دیگر
اخلاقی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو کوڑے مارے جاتے ہیں۔اب تک یہ سزا مرد
اہلکار دیتے تھے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ خاتون کو سزا دینے کی کارروائی ایک
خاتون اہلکار سے مکمل کرائی گئی۔
طلاق کا جشن یا شادی کا غم۰۰۰؟
لوگ شدید غم و غصے کے موقع پر ہنسی کا اظہار کرتے ہیں ۔ ایسا ہی ایک واقعہ
مملکت سعودی عرب میں پیش آیا۔ ایک سعودی خاتون امیرہ الناصر نے طلاق کا جشن
شادی کا جوڑا پہن کر منایا اور اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کردی ۔امیرہ
الناصر نے وائرل ویڈیو کلپ کے ردّعمل کے بعد کہا ہے کہ ’’میں نے جان بوجھ
کر طلاق کے بعد شادی کا جوڑا زیب تن کیا ہے تاکہ پوری دنیا کو بتاسکوں کہ
علحدگی پر خوش ہوں‘‘۔امیرہ کا مزید کہنا ہیکہ بڑا مقصد یہ بھی ہیکہ سعودی
لڑکیوں کو پیغام دوں کہ زندگی کسی ایک انسان تک محدود نہیں ہوتی، کوئی بھی
شخص کتنا ہی اہم اور ہیرا کیوں نہ ہو زندگی اس پر تمام نہیں ہوتی‘۔ انہوں
نے مطلقہ خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہیکہ ’’طلاق دینے والے کو مردہ
سمجھ لو، اس کا غم نہ کرو‘۔اس کے ردّعمل میں کئی تبصرے سامنے آئے کسی نے
امیرہ سے اظہار ہمدردی کیا ہے تو کسی نے اسے مغرور قرار دیا ہے ۔
ہندوستانی قاتل ملازمہ
ایک ماہ قبل ایک معمر سعودی کفیل کو انکی ہندوستانی ملازمہ نے سازش کے تحت
قتل کرکے ایک لاکھ 20ہزار ریال چوری کرلئے تھے جس کا انکشاف اس کی واپسی سے
قبل اس کے رویہ میں تبدیلی اورمہنگے سازو سامان کی خریدی سے ہوا۔ذرائع
ابلاغ کے مطابق شہر مجمعہ میں سعودی خاندان نے اپنے ایک بزرگ 70سالہ شہری
کی دیکھ بھال کیلئے ہندوستانی ملازمہ کی خدمات حاصل کیں ، جس نے بزرگ کا
بہت ہی اچھی طرح خیال رکھا۔ بزرگ سعودی شہری سمیت گھر کے دیگر افراد بھی اس
سے خوش تھے۔ اس کی خدمات کو سراہتے ہوئے کفیل نے اس سال اسے اپنے خرچے پر
حج کرانے کا بھی وعدہ کیا ہوا تھا۔ اسی اثنا میں ملازمہ نے معمر شہری کے
معمولات زندگی کا جائزہ لیا اور اس دوران اسے پتہ چلا کہ بزرگ شخص نے اپنے
کمرے میں ایک لاکھ بیس ہزار ریال رکھے ہوئے ہیں۔ملازمہ اس معمر سے چھٹکارہ
حاصل کرنے اور رقم چوری کرنے کا منصوبہ بنایا اور پھر ایک دن رقم حاصل کرکے
بزرگ سورہے وقت جبکہ گھر میں کوئی موجود نہیں تھے انکے کمرے میں اس طرح آگ
لگادی گویا پہلی نظر میں اندازہ ہوکہ آگ خودبخود لگی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ
دیکھتے ہی دیکھتے آگ پورے کمرے میں لگ گئی اور اس کے نتیجے میں بزرگ کا
انتقال ہوگیا۔ محکمہ شہری دفاع نے آگ پر قابو پالیا اور بزرگ کی ہلاکت کی
وجہ سے کیس پولیس کے حوالے کردیا گیا۔ پولیس نے اپنی تفتیش کا آغاز کیا ،
خادمہ سمیت تمام گھر والوں سے معلومات حاصل کیں مگر آتشزدگی کے اسباب تک
کوئی سراغ نہیں لگا سکی۔گھر والوں نے بھی کسی پر شک کا اظہار نہیں کیا ،اس
بناء پر پولیس نے اسے حادثہ قرار دے کر فائل بند کردی ۔ لیکن ایک ماہ بعد
ملازمہ کے رویہ میں تبدیلی اور واپسی سے قبل مہنگی اشیاء کی خرید ی کا
انکشاف ہوا ۔جب اس کے جاننے والے افراد اسے گاڑی میں لینے کیلئے آئے تو
ملازمہ نے چند بڑے سوٹ کیس انکے حوالے کئے۔ گھروالوں کو شک ہوا اورکسی نے
پولیس کو اطلاع دے دی ۔ پولیس کے آتے ہی خادمہ نے سب کچھ اگل دیا اور
اعتراف کیا کہ ایک لاکھ 20ہزار ریال کے لالچ میں آکر اس نے رقم چوری کی اور
پھر کمرے میں آگ لگا دی تاکہ گھر والے سمجھیں کہ رقم بھی آگ میں جل گئی۔اس
ایک لالچی اور قاتل ملازمہ نے ہندوستانیوں کی نیک نامی پر دھبہ لگا دیا۔
*** |