آج اگر وطن عزیز کے کوچہ و بازار کا جائزہ لیا جائے تو ہر جانب آمدو رفت
جاری ہے ، پیدل بھی اور گاڑیوں پہ سوار بھی اپنی اپنی منزل اور اپنے اپنے
کام کی غرض کی جانب رواں دواں ہیں ۔ کوئی روک ٹوک نہیں ہے کوئی ہل چل نہیں
ہے ۔ سکول کھلے ہیں ، بازار کھلے ہیں ۔ ہر عام و خاص کو تحریر و تقریر کی
آزادی ہے ۔ لیکن وطن عزیز کا ہی وہ حصہ جو اس وقت بھارت کے نا جائز قبضے
میں ہے وہاں صورت حال بالکل مختلف ہے۔ گلی کوچوں میں ویرانی ہے ، آمدو رفت
بند ہے ، بازار و کاروبار مفلوج ہیں ، سکول و ہسپتال بند ہیں، تقریر ،
تحریر اور اظہار کے تمام ذرائع پہ پابندی ہے ۔ ہر جانب اسلحے سے لیس بھارتی
فوجی درندگی کی تصویر بنے پہرہ دے رہے ہیں گھر جل رہے ہیں ، آنچل سنگینوں
میں اٹے ہیں ، نوجوانون کو جیلوں میں قید کیا جا رہا ہے اور بے گناہوں کے
خون سے سڑکیں رنگین ہیں ۔ گزشتہ چھے ماہ سے وادیٔ کشمیر میں کرفیو ہے اور
وحشت کا سماں ہے ۔
سڑکیں زہر آلود نگر ویران ہوئے
ایسا پھیلا خوف کہ دل سنسان ہوئے
آدم خور درندے فارغ بیٹھ گئے
جب سے وحشت پہ مائل انسان ہوئے
یہ اکسویں صدی ہے اور سن 2020 ہے لیکن سیکولرازم کا راگ الاپنے والے بھارت
نے ظلم اور جبر کے ذریعے وہ رقص ابلیس برپا کیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر
پتھر کے دور کی مثال پیش کر رہی ہے ۔ ریاست جموں وکشمیر کی موجودہ صورتحال
نے ہر دردمند دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ہر زندہ ضمیر رکھنے والے شخص نے
اس صورتحال کو انسانیت کے منہ پہ طمانچہ قرار دیا ہے ۔ سیکولرازم کا راگ
الاپنے والے بھارت کی بغل میں پنہاں ہندو عصبیت کا خنجر بے نقاب ہوگیا۔
سختی ، تنگی اور امتحان کے لمحات صدیاں محسوس ہوتے ہیں لیکن چشم تصور سے ہی
اس قیامت خیز سختی اور امتحاں کو محسوس کیجئے جو کشمیری عوام پہ صدیوں سے
مسلط ہے تو آپ اس ظلم اور اس جبر کو کوئی نام دینے سے خود کو قاصر پائیں گے
۔ جی ہاں کشمیری عوام پہ یہ وبال گزشتہ چھے ماہ سے مسلط نہیں ہے ۔ اس جبر
ناروا کو تقریبا دو صدیاں بیت گئی ہیں ۔ بھارت کی مقبول عام بھارتیہ جنتا
پارٹی کی جانب سے ہندو انتہاپسندی پہ مبنی آئینی ترامیم نے کشمیر کے مسلم
عوام پر اپنے جبر ناروا کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اب یہ
عالمی برادری اور عالمی ضمیر کا امتحان ہے کہ وہ انسانیت کی اس تذلیل پر کس
حد تک خاموش رہ سکتے ہیں ۔ کشمیری عوام کے اس دکھ کو دنیا بھر میں بالعموم
اور پاکستان میں بالخصوص محسوس کیا جا رہا ہے اور لوگ اپنے طور پرکشمیری
عوام کے ساتھ مختلف طریقوں سے یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں ۔ یکجہتی کشمیر
کا یہ سفر بھی صدیوں سے جاری ہے اور اس وقت تک رہے گا جب تک ریاست میں ایک
بھی مسلمان زندہ ہے ۔ اور اگر حقیقت کو تلاش کیا جائے تو پاکستان اور کشمیر
کے مابین یکجہتی کی واحد وجہ اسلام ہی ہے ورنہ ریاست جموں و کشمیر تاریخی و
جغرافیائی طور پر ایک علیحدہ اکائی ہے جو برصغیر پاک و ہند کا کبھی بھی حصہ
نہیں رہی ۔ تاہم یہ یکجہتی اسی دن قائم ہوئی تھی جب ریاست جموں و کشمیر کے
سلطان رینگچن شاہ نے ایک ترک مبلغ بلبل شاہ ؒ کے ہاتھ اسلام قبول کیا اور
اپنا نام بھی سلطان صدرالدین رکھا ۔ اسلام کے اس نوخیز پودے کی آبیاری کے
لیے سید علی ہمدانی ؒ ایران سے کشمیر آئے ۔ انہوں نے نہ صرف سینتیس ہزار
افراد کو حلقہ بگوش ِ اسلام ہوئے بلکہ آپ نے ایران سے اپنے ساتھ دو سو سے
زائد کاریگر بھی لائے جو زراعت اور مختلف صنعتوں کے ماہرین تھے ۔ کشمیر
اپنے محل وقوع کے لحاظ سے جنوبی ایشیا ، وسط ایشیا اور چینی تہذیبوں کے وسط
میں واقع ہے ۔ مسلم اکثریت ہونے کی وجہ سے اسکا کاروبار ، اور روابط برصغیر
کی مسلم اکثریت سے ملتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب 13 جولائی 1931 ء کو ایک
آذان کی تکمیل کے دوران بائیس کشمیری مسلمان شہید ہوئے تو علامہ اقبال ؒ کی
اپیل پہ 14 اگست 1931 کو کل ہند بنیاد پہ یوم یکجہتیٔ کشمیر منایا گیا ۔
یہی وہ تعلق اور یکجہتی تھی کہ اہل کشمیر نے پاکستان کے ساتھ اپنا مستقبل
وابستہ کرنے میں بھلائی جانی ۔ تحریک پاکستان کے آغاز سے ہی یہاں کی مسلم
اکثریت کو امید کی کرن نظر آئی اور عوام نے اپنا سنہری مستقبل پاکستان کے
ساتھ وابستہ کیا۔قیام پاکستان کے وقت ریاستی عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کے
خواہاں تھے جبکہ ہندو راجہ ہری سنگھ بھارت کے ساتھ الحاق کا خواہشمند تھا ۔
اس نے پاکستان کے ساتھ حالات کو جوں کا توں رکھنے کا معاہدہ کیا اور
اندرونی طور پر بھارت سے گٹھ جوڑ کرنے لگا۔ مسلم فوجیوں کو غیر مسلح کرنے
کے اقدامات ، گورداسپور کو بھارت کے سپرد کرنے اور مسلم قائدین کی
گرفتاریوں نے ریاستی عوام میں اضطراب پیدا کیا اور وہ اکست 1947 میں ہی
ڈوگرا راج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور 24 اکتوبر 1947 میں آزاد حکومت ریاست
جموں و کشمیر کی بنیاد رکھی ۔کشمیری عوام نے اسلحے کی قلت کے باوجود علاقہ
آزاد کرا لیا ان کشمیری مسلمانوں کی مدد کے لیے والی ٔ سوات نے ایک قبائلی
لشکر ( جس میں پورے خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں سےپختون شامل ہوئے
)بھی روانہ کیا ۔ اس لشکر نے مقامی مسلمانوں کی ہمت اور حوصلے میں اضافہ
کیا۔ ڈوگرا حکمران اس صورت حال سے خائف ہو کر مفرور ہو گیا اور حالت فرار
میں بھارتی افواج کو کشمیر اترنے کی دعوت دی ۔بھارتی فوج نے موقعے سے فائدہ
اٹھاتے ہوئے جبرا ایک دستاویز پر دستخط لے کر کشمیر میں اترنے کا جواز
بنایا اور بھارتی فوج 27 اکتوبر 1947 کو کشمیر میں داخل ہو گئی اور اس وقت
سے اب تک کشمیر میں آگ اور خون کی ہولی جاری ہے ۔1948 میں پاکستانی فوج بھی
کشمیر میں داخل ہوئی۔معاملہ اقوام متحدہ میں گیا اور اس فیصلے پر جنگ بندی
ہوئی کہ بھارت کشمیر میں استصواب رائے کرائے گا اور کشمیری عوام طے کریں گے
کہ وہ کس ملک سے الحاق کے خواہاں ہیں ۔ لیکن سات دہائیاں گزرنے کے باوجود
کشمیری عوام اس حق ِ خود ارادیت سے محروم ہیں ۔آج جب اہل کشمیر پہ عرصہ
حیات تنگ کیا جا رہا ہے تو اہل پاکستان کے قلب و جگر میں بھی اس کا درد
محسوس کیا جا رہا ہے ۔ ہر درد مند پاکستانی کشمیری مسلمانون کے مستقبل کے
لیے فکر مند ہے اور مضطرب بھی ۔
کشمیر کے متعلق عموما یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ایک سرحد ی تنازعہ ہے
حالانکہ یہ بات نہیں ہے ۔ یہاں مسئلہ کشمیر کی مسلم اکثریت کی بقا کا ہے ۔
حالیہ بھارتی آئینی ترامیم نے موجودہ صورتحال کی سنگینی میں اضافہ کر دیا
ہے ۔ آر ایس ایس کو اب بھارتی آئین نے کھلی آزادی دے دی ہے کہ وہ ریاست
جموں و کشمیر کی آبادی کا تناسب بدل دیں ۔ اس صورتحال کیں کشمیر کی مسلم
اکثریت کی نسل کشی کا خطرہ ہے جو کسی بڑے انسانی المیے کا باعث بن سکتا ہے
۔
کشمیر کی حالیہ سنگینی کو سمجھنے کی خاطر ایک تلخ حقیقت جس کا ادراک بہت
ضروری ہے وہ ہے آر ایس ایس (راشٹریہ سیوم سیوک سنگہ)۔یہ انتہا پسند ہندو
تنظیم ہے جو 1925 میں قائم ہوئی ۔اس کا مقصد بھارتی مذہبی ریاست مہابھارت
کا قیام ہےجو ہندو تعلیمات پر قائم ہو۔یہ دنیا کی سب سے بڑی تنظیم جبکہ بی
جے پی اس کا سیاسی ونگ ہے جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔آر
ایس ایس ہندو ریاست کے قیام کے لیے شدت سے کارفرما ہے ۔اس نے اپنے کارکنان
کو مسلح تربیت بھی دے رکھی ہے اور حلف لے رکھا ہے کہ مقاصد کے حصول کے لیئے
سب کچھ قربان کریں گے ۔یہاں تک کہ ان کے اکثر سیاسی اکابرین اپنی ازدواجی
زندگی کو بھی خیرباد کہہ دیتے ہیں ۔اس تنظیم پر برطانوی دور حکومت میں بھی
پابندی عائد کی گئی تھی اور بعد ازاں بھارتی حکومت نے بھی اسے دو بار
کالعدم قرار دیا لیکن مضبوط ہندو لابی نے اسے ہر بار بحال کرا دیا ۔گاندھی
کے قتل میں بھی اس تنظیم کا ہاتھ تھا۔تنظیم اس قدر سخت رجحانات کی حامل ہے
کہ یہ کسی دوسرے کو ماننے کے لیے تیار نہیں ۔ان کے مطابق ہندوستان میں صرف
ہندی الاصل لوگ رہ سکتے ہیں ۔ یعنی ہندو ، جین مت کے پیرو کار ، بدھ مت کے
پیروکار اور سکھ رہ سکتے ہیں ۔مسلمانوں ، زرتشتوں اور عیسائیوں کے لیے یہ
ملک شجر ممنوعہ ہے ۔ جن لوگوں کے آباء و اجداد عرب یا دیگر ملکوں سے فاتحین
،مبلغین یا تجار کے روپ میں یہاں آئے اور یہیں آباد ہو گئے ان کے لیے یہاں
کوئی جگہ نہیں ۔ وہ ہندوستان چھوڑ دیں یا پھر قتل کر دیے جائیں ۔ اس طرح جو
لوگ ہندی الاصل تو ہیں لیکن مسلمان یا عیسائی ہو گئے ہیں اب انہیں دوبارہ
ہندو بنالیا جائے یا قتل کر دیا جائے۔اسی سوچ کے تحت اس تنظیم نے 1947 میں
جموں میں تقریبا چھے لاکھ افراد قتل کر ڈالے جس سے جموں میں مسلم آبادی کا
تناسب 70 فیصد سے گھٹ کر 40 فیصد تک رہ گیا۔بابری مسجد کی شہادت ، گجرات
میں مسلم کش فسادات اور دیگر بڑے واقعات میں اس تنظیم کا ہی ہاتھ ہے ۔بی جے
پی کی کامیابی کے بعد یہی تنطیم ہندوستان کے سیاہ و سفید کی مالک بن بیٹھی
ہے ۔ دو تہائی سے زیادہ اکثریت سے وہ اپنی انتہا پسندانہ سوچ کو آئینی
طریقے سے نافذ کرنے کے قابل ہو چکی ہے ۔
اگست 2019 کی وہ آئینی ترامیم ہیں جو بی جے پی نے بھارتی آئین میں کی ہیں
کے تحت کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا گیا ہے ۔ڈوگرہ دور حکومت کے
دوران برہمنوں کے مشورے سے مہاراجہ ہری سنگھ نے ایک قانون بنایا تھا جس کے
تحت ریاستی عوام کو خصوصی حیثیت دی گئی تھی ۔ اس قانون کے مطابق کوئی غیر
ریاستی باشندہ ریاست میں جائداد نہیں خرید سکتا تھا ۔یہ قانون بنانے کی وجہ
یہ تھی کہ ریاست کے اطراف میں مسلم اکثریت کے علاقے ہیں وہاں کے ریاستی
عوام کے ان سے مراسم بھی ہیں اور رشتہ و ناطہ بھی ۔ یہی لوگ ریاست میں جا
کر آباد ہوتے رہے ہیں ۔ ریاست کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جن کے
آباءافغانستان، پنجاب یا خیبرپختونخوا سے آکر یہاں آباد ہوئے اور اب یہاں
کے شہری ہوگئے ۔اس سلسلے کو روکنے کے لیے یہ قانون بنایاگیا ۔ بھارتی فوج
کے داخلے کے وقت مہاراجہ نے بھارت سے اسی خصوصی حیثیت کا مطالبہ کیا تھا ۔
بھارتی آئین میں اس حیثیت کو برقرار رکھا گیا ۔ریاست میں ہندو آبادکاری کے
لیے ضروری تھا کہ اس آئینی رکاوٹ کو دور کیا جائے لہذا آئین میں ترمیم کر
کے وہ دفعات(آرٹیکل 370) حذف کر دی گئی ہیں جو کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتی
تھیں ۔ اب بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیے ہندو آباد کاری کی راہ ہموار ہو
گئی ہے ۔ خدشہ ہے کہ بڑی تعداد میں آر ایس ایس کے تربیت یافتہ لوگوں کو
کشمیر لا کر آباد کیا جائے گا اور بڑے پیمانے پر کشمیری مسلمانوں کی نسل
کشی کی جائے گی ۔جیسے اس سے پیشتر جموں میں کی گئی تھی ۔
ریاست جموں و کشمیر کا مسئلہ محض دو ممالک کے درمیان سرحدی تنازعے کا نہیں
بلکہ ریاست جموں و کشمیر کی مسلم اکثریت کی بقا اور سالمیت کا ہے۔ بھارت کی
جانب سے جمہوریت اور آئین میں لپٹی ریاستی دہشتگردی کو کشمیری عوام نے
ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیابلکہ اپنی بقا کے لیے میدان عمل میں کود پڑے
ہیں اور اوائل اگست 2019 سے لے کر اب تک بھارتی فوج کے ہاتھوں مشق ستم بنے
ہوئے ہیں ۔ موجودہ حالات بھارتی قابض فوج کے ہاتھوں کسی بڑے انسانی المیے
کا عندیہ دے رہے ہیں ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سانحے کوبرپا ہونے سے
روکا جائے اور کشمیر کی مسلم اکثریت کو معدومیت کے خطرے سے نکالا جائے ۔ملت
اسلامیہ کشمیر کو اس ہولناک تباہی سے بچانے کے لیے دو چیزوں کا ہونا اشد
ضروری ہے ایک ملی غیرت اور دوسرا صحیح موقع پر دانشمندانہ فیصلہ ۔
جہاں تک ملت اسلامیہ کشمیر کاتعلق ہے وہ حتی المقدور اپنا فریضہ انجام دے
رہی ہے اور باطل کے اس جبر کے سامنے صبر کا کوہ ہمالیہ بنی سینہ سپر ہے ۔
مسلمانانِ ریاست نے ریاست جموں و کشمیر کو امت مسلمہ کی امانت سمجھتے ہوئے
اس کی رکھوالی کی ہے ۔ اس جنت نظیر وادیٔ اسلام کو کفر و شرک کے صحرا میں
مدغم نہیں ہونے دیا۔ گزشتہ دو صدیوں میں اسلامیان کشمیر نے وہ کارہائے
نمایاں انجام دئیے ہیں جو اب تک صرف مسلمانانِ کشمیر ہی کا خاصہ ہیں ۔
اسلامیان کشمیر ڈوگرہ سامراج کے خلاف ڈٹ گئے یہاں تک کہ انکی زندہ کھالیں
کھینچ لی گئیں لیکن ان کے پایۂ استقامت میں لغزش نہیں آئی ۔اسلامیان کشمیر
نے تاریخ میں وہ منفرد آذان بھی دے ڈالی جس کی تکمیل میں 22 افراد نے جام
شہادت نوش کیا۔گزشتہ دو صدیوں سے ان کشمیریوں پہ روا ظلم نہ ہی انہیں مرعوب
کر سکا اور نہ ہی اپنی طرف راغب کر سکا۔ماضی کی طرح اب بھی وہ ظلم ناروا کا
بے جگری سے مقابلہ کر رہے ہیں۔کرفیو میں ذرا سی نرمی پا کر وہ اپنے کھانے
پینے کی فکر کے بجائے سڑکوں پہ نکل آتے ہیں آزادی کے حق میں اور بھارت کے
خلاف نعرے لگاتے ہیں۔ سڑکوں پہ موجود پتھروں سے بھارتی قابض فوج کا مقابلہ
کرتے ہیں اور جواب میں آنسو گیس اور پلٹ گن کی فائرنگ سے زخمی اور شہید
ہوتے ہیں۔وہ نہتھے ہو کربھی آبادی کے لحاظ سے دوسرے بڑے ملک کی کیل کانٹے
سے لیس فوج کی بربریت کا تنہا مقابلہ کر رہے ہیں ۔اس وقت ایٹمی طاقت کی
حامل بھارت سرکار نے آٹھ لا کھ سے زائد فوج جدید ہتھیاروں سے لیس مقبوضہ
ریاست میں جھونک رکھی ہے ۔وسائل کی کمی کے باوجود ملت اسلامیہ کشمیر کی
جرأت و استقامت اللہ کی میزان میں تو مقبول نظر آتی ہے لیکن دنیاوی لحاظ
سے دونوں فریقین میں کوئی مقابلہ نظر نہیں آتا۔
اس وقت امت مسلمہ کے کردار کی اشد ضرورت ہے لیکن امت کے حکمرانوں نے امت کا
درد محسوس ہی کب کیا ہے ۔امت کے ایک بڑے حصے نے کشمیر کو تر نوالے کی طرح
بھارتی بھیڑیوں کے سپرد کر دیا ہے اور خود تماشائی بنے بیٹھے ہیں ۔ اس وقت
امت کی خاموشی از خود ایک بڑا جرم ہے لیکن اس پہ مستزادعرب ممالک کی جانب
سےاس نازک مرحلے پہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا پرتپاک استقبال اور
اعزازات سے نوازنا کشمیری عوام کے زخموں پہ نمک پاشی کے مترادف ہے۔ملت
اسلامیہ کشمیر کی امیدوں کا واحد مرکز اس وقت صرف پاکستان ہے جو اس مسئلے
کا بنیادی فریق بھی ہے ۔ریاست پاکستان کی فوج اور حکومت دونوں کی جانب سے
کشمیریوں کی بھرپور امداد اور خون کے آخری قطرے تک لڑنے کا پیغام دیا گیا
ہے ۔ لیکن حکومت کی طرف سے عملاً اس سنجیدہ کردار کا مظاہرہ نہیں کیا گیا
جو دشمن پہ واضح کر سکتا کہ واقعی حکومت پاکستان آخری قطرہ خون تک ہندوستان
سے لڑنے کا ارادہ رکھتی ہے۔محض تقریریں کر کے کشمیر کے زخموںپہ مرحم نہیں
رکھا جا سکتا ۔ حکومت یہ پیغام دینے میں ناکام رہی ہے کہ کشمیر کی موجودہ
صورتحال حکومت پاکستان کی پہلی ترجیح ہے ۔البتہ پاکستانی عوام نے ہر شہر
میں کشمیر سے یکجہتی کے لیے جلسے ، جلوس اور مظاہرے کر کے یہ ثبوت دیا ہے
کہ پاکستانی عوام اپنے کشمیری بھائیوں کی پشت پہ کھڑے ہیں ۔
جب غاصب قوم سے آزادی کے لیے اجتماعی غیرت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے تو تصادم
اور جنگ لازمی ہے ۔اور جب معاملہ فنا اور بقا کا ہو تو اپنی بقاکی جنگ لا
محالہ لڑنا ہی پڑتی ہے۔کشمیر کا مسئلہ پاکستان کے لیے بقا کا مسئلہ ہے اس
لیے اس آتش نمرود میں کودنا ہی ہوگا۔ماضی میں پاکستان کی جانب سے کشمیری
عوام کا بھرپور ساتھ دیا گیا اور قومی غیرت کا بھرپور مظاہرہ کیا گیا لیکن
قدرت کی جانب سے آزادیٔ کشمیر کے کئی مواقع بروقت اور دانشمندانہ اقدام نہ
کرنے کی وجہ سے گنوا دئے گئے ۔1947 میں والیٔ سوات کا قبائلی لشکر سری نگر
سے چند گھنٹوں کی مسافت پہ رک گیا اور دو دن تک صرف اس بحث و تمحیص میں صرف
کر دیے گئے کہ کشمیر فتح ہونے کے بعد ہمارا مستقبل کیا ہو گا۔اسی موقع سے
فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستانی فوج نے اپنے دستے سرینگر ائیرپورٹ پہ اتار
دیئے۔قائد اعظم ؒ نے پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل گریسی کو حکم دیا
کہ وہ بھی اپنی فوجیں کشمیر میں اتاریں لیکن اس نے پس وپیش سے کام لیا اور
اجازت کے لیئے دونوں ممالک کے مشترکہ کمانڈر انچیف کو لکھ بھیجا۔اس اثنا
میں بہت سارے مفتوحہ علاقے بھی بھارت کے قبضے میں چلے گئے ۔اور جب فوج کو
پیش قدمی کے لیے احکامات دینے کے لیے کاغذات قائداعظم کی خدمت میں پیش ہوئے
تو انہوں نے اجازت کے ساتھ یہ نوٹ بھی لکھا کہ Gentle man you have missed
the Train” “ یعنی تم سے ریل چھوٹ چکی ہے ۔قسمت کی دیوی ہم پہ ایک بار پھر
مہربان ہونے کو آئی،1962 میں جب چین اور بھارت کے مابین جنگ ہوئی توبھارت
نے اپنی تمام فوج چینی سرحدوں پہ لگا دی۔اس وقت چین نے بھارت پہ حملے کی
دعوت بھی دی لیکن ہم نے بروقت اقدام نہ کر کے وہ موقع بھی گنواڈالا۔قسمت نے
ہمارے لیے لوہا گرم کر دیا جب 1989 میں کشمیری عوام نے بندوق ہاتھ میں اٹھا
لی اور بھارتی فوج کو ناکوں چنے چبوا دیئےلیکن ہم نے گرم لوہے کو اپنی مرضی
سے موڑنے کے بجائے خالصتان تحریک کے راز ہندوستان کو دے کر اس لوہے کوٹھنڈا
کر دیا۔ہم نے اس وقت بھی دانشمندی کا مظاہرہ نہ کیا جب 1999میں کارگل کی
چوٹیوں پہ ہمارا قبضہ تھااگر چند دن مزید انتظار کر لیا جاتا تو بھارتی فوج
گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور ہو جا تی لیکن ہم نے موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے
بروقت اور دانشمندانہ فیصلہ نہ کیا ۔اب ایک طویل عرصہ کے بعد قسمت ہمیں
دعوت دے رہی ہے۔اگر ہم نے یہ موقع بھی ضائع کیا تو گردش ایام ہمیں بڑے
حادثات و سانحات کا شکار کر دےگی اور ہم اپنی تباہی و بربادی کا ماتم بھی
نہ کر پائیں گے ۔
گزشتہ ادوار پہ ماتم کناں ہونے کے بجائے ہمیں اس وقت سے فائدہ اٹھانے کی
ضرورت ہے ۔قومی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے درست فیصلے کرنا ہوں گے ۔تاریخ کے
اس نازک موڑ پہ کشمیری عوام ممکنہ طور پہ ہتھیار اٹھائیں گے اور دشمن سے
ٹکرائیں گے ۔ہمیں آگے بڑھ کر ان کی پشتیبانی کرناہوگی۔ہمیں دنیا کو باور
کرانا ہوگا کہ کشمیر میں لڑنے والے دہشت گرد نہیں بلکہ آزادی کی جنگ لڑ رہے
ہیں ۔کشمیر سے آنے والے مہاجرین و مجاہدین کے ساتھ انصار مدینہ والا سلوک
کرنا ہوگا ۔اور انہیں یہ احساس دلانا ہوگا کہ آپ اکیلے نہیں ہم آپ کے ہمدرد
ہیں ۔ہر لحاظ سے ان کی دلجوئی اور اشک شوئی کرنا ہوگی ۔اور اگر بھارت سرکار
جنگ کا طبل بجائے تو آگے بڑھ کر بدر و حنین کی یاد تازہ کر دی جائے ۔
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک ِ غیر اللہ کو
خوفِ باطل کیا ، کہ خود غارت گر ِ باطل بھی تو
یہ سب کچھ کرنے کے لیے حکومت آگاہی مہم چلائے ، عوام کی تربیت کرے اور تمام
اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو ایک پلیٹ
فارم پہ جمع کرے اور اپنی تمام تر توانائیاں کشمیر کی آزادی پہ صرف کی
جائیں ۔ آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کو تمام اہل کشمیر کی حکومت قرار
دیا جائے اور انہیں کشمیر کی ترجمانی اور نمائندگی کا فریضہ سونپا جائے
۔تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو مختلف ممالک میں سفارتی مشن سونپے جائیں
تاکہ وہ رائے عامہ کو ہموار کر سکیں اور اس مشن کی رپورٹ اسمبلی میں پیش
کریں ۔اسی طرح ریٹائرڈ سول و ملٹری افسران کو بھی اسی نوعیت کی ذمہ داریاں
تفویض کی جائیں۔یہ یاد رہے کہ مقابلہ دنیا کی ایک بڑی فوج اور اس کی پشت پہ
کھڑی مسلح تربیت کی حامل آر ایس ایس سے ہے جبکہ ہماری عوام نہتھی اور غیر
تربیت یافتہ ہے ۔ فوری طور پہ شہری دفاع کی تربیت کا بندوبست کیا جائے
خصوصا آزادکشمیر میں ۔ اسی طرح سرحدی علاقوں میں دفاع کی غرض سے اسلحہ بھی
پہنچایاجائے۔ سکول ، کالج ، یونیورسٹی اور مدارس کے طلباء سے مضامین بھی
لکھوائے جائیں اور ان سے موثر اداروں اور بین الاقوامی تنظیموں ، بڑے
صحافتی اور نشریاتی اداروں ، اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیموں اور اسلامی ممالک
کی حکومتوں کو خطوط لکھوائے جائیں ۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو کردار
ادا کرنے کا کہا جائے ۔ اقوام عالم کی ہر طرح سے ذہن کشائی کی جائے اور
عالمی ضمیر کو بیدار کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے ۔ ملک بھر میں بھارتی
مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے اور بھارتی میڈیا اور اس سے پیوستہ بھارتی
ثقافی یلغار کا کو بند کیا جائے ۔ہمیں اپنے ہر قول اور ہر فعل سے یہ ثابت
کرنا ہو گا کہ ہم کشمیر کی آزادی کے لیے کمر بستہ ہیں ۔ اگر ہم اجتماعی طعر
پہ سنجیدگی کا مظاہرہ کریں تو اپنی منزل مراد کو پہنچ سکتے ہیں ۔ کشمیر میں
بہایا گیا خونِ مسلم ان شاء اللہ رائیگاں نہ جائے گا ۔شہداء کے خون کی سرخی
سے ہی آزادی کا سورج طلوع ہوگا۔
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
آملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک
بزمِ گل کی ہم نفس بادِ صبا ہو جائے گی
اور اگر اس موقع کو ہم نے گنوا دیا تو بعید نہیں کہ سقوط ِ غرناطہ اور سقوط
ِ بغداد کی تاریخ دہرائی جائے اور ہمیں بھی ایک ایک کر کے گاجرمولی کی طرح
کاٹ دیا جائے اور ہمارا نام ہڑپہ اور مو ئنجوڈارو کی تہذیبوں کے ساتھ لیا
جائے اور ہمارے کھنڈرات پہ لگے نوشتہ دیوار میں یہ تحریر لکھی ہو کہ یہ وہ
بدبخت قوم تھی جو اپنی قوت کو پہچان نہ سکی اور بقا کا سامان ہوتے ہوئے بھی
فنا ہوگئی ۔۔۔
|