کشمیریوں سے عملی یکجہتی کب ہوگی

یہ عنوان دیکھ کر ایک دفعہ آپ ضرور حیرت کی وادیوں میں ڈوب گئے ہوگئے کہ ہم تو ہر سال 5 فروری کو رسمی یکجہتی کشمیر مناتے ہیں تو پھر یہ عنوان کیسا....؟

جی بالکل حقیقت یہی ہے کہ جیسے ہی فروری کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو جماعت کے سربراہان کی طرف سے سوشل میڈیا پر رسمی بیانات نشر ہونا شروع ہو جاتے ہیں کہ'' ہم کشمیریوں کے ساتھ ہیں اور سیاسی و اخلاقی حمایت کرتے رہیں گے، کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلئے 5 فروری کو ملک گیر سطح پر یوم یکجہتی کشمیر منائیں گے

اقوام متحدہ کو چاہئے کہ کشمیریوں پر ظلم و ستم بند کرایا جائے اور کرفیو کا فی الفور خاتمہ کیا جائے
، ہم کشمیریوں کے حقوق کی خاطر اس دفعہ یکجہتی کشمیر جوش و خروش سے منائیں گے۔
الغرض یہ گردشی اور رسمی بیانات ہم ستر سال سے سنتے آرہے ہیں،لیکن کشمیریوں کو ان کا تسلیم شدہ حق خودارادیت دے دیا جائے تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ کیوں ختم نہیں ہو رہا ہے؟ انہیں بغیر وجہ بتائے کیوں قتل کیا جا رہا ہے؟ ان کا مستقبل کیا ہو گا، انہیں اپنے مذہب اور ثقافت کے مطابق زندگی گزارنے سے کیوں روکا جا رہا ہے؟ ان تمام باتوں کو کشمیری ہر لمحہ محسوس کرتے ہیں، سوچتے ہیں۔ ان سوالوں کے آخری حل پر سوچ و بچار کرتے ہیں، بھارت اور پاکستان، چین اور عالمی طاقتوں کے موقف اور رویے کا تجزیہ کرتے ہیں۔ پاک بھارت جنگوں اور روزانہ کی بنیاد پر اپنے پیاروں کی گرتی ہوئی لاشوں کو اٹھاتے ہیں۔ کشمیر جنت نظیر کو کھنڈرات اور ویرانے میں بدلتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ یہ عمل ستر برس سے ان کی آنکھوں کے سامنے دوہرایا جا رہا ہے۔ تیسری نسل قتل گری اور ناموس و تقدس پر حملے دیکھ رہی ہے۔ یہ سب کچھ برداشت کیا گیا۔ تیسری نسل کو دوسری نسل نے پہلی کا یہ پیغام دیا کہ کشمیر کے تمام انسان تہہ تیغ کر دیے جائیں، ان کے چمنستانوں کو جلا دیا جائے، مسکنوں کو گرا دیا جائے، اس کی پروا نہ کرنا اور ہندو کا ناپاک قبضہ مستقل نہ ہونے دینا۔
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گیا

آج مسئلہ کشمیر جس قدر دنیا کے سامنے آچکا ہے اور ہندوستانی مظالم کا پردہ چاک ہو رہا ہے، اس سے فائدہ اٹھانے کیلئے جارحانہ خارجہ پالیسی اور دفاعی انداز کی ضرورت ہے۔ آخر ہمارے دوست ممالک سمجھے جانے والوں کو یکایک کیا ہوگیا کہ یہ قاتل و سفاک مودی کو اعلیٰ ترین سول ایوارڈ دینے لگے ہیں، اپنے ممالک میں بڑے پیمانے پر بت کدے تعمیر کروا رہے ہیں، مودی کیساتھ بھاری رقوم کے اقتصادی پراجیکٹ سائن کر رہے ہیں، کہاں گئی وہ امت مسلمہ کی غیرت اور نام نہاد اسلامی قیادت کا دم بھرنے والے، جن کو یمن، بحرین، شام، عراق، لبنان میں سازشیں کرنے اور ان کو تہس نہس کرنے سے فرصت نہیں، عالمی اتحاد بنا کر اپنے ہمسائے مسلم ممالک کو تباہ برباد کرکے رکھ دیا ہے، ان کو ارض مقدس فلسطین اور جنت ارضی کشمیر میں سسکتے مسلمان بچے، چیختی مسلمان مائیں بہنیں اور تاراج ہوتی بستیاں کیوں دکھائی نہیں دیتیں.....!

یقین مانیں کہ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ کشمیر جنت نظیر وادی ہے، لیکن اس کے مکین اس لحاظ سے بدقسمت ہیں کہ اس وادی کو حکمران سوداگر ملے، جنہوں نے کشمیریوں کے مسائل حل کرنے کے بجائے ہمیشہ وہاں کے لوگوں کا استحصال کیا، 16 مارچ 1846 کو انگریز نے 75 لاکھ کے عوض کشمیر گلاب سنگھ ڈوگرہ کو فروخت کیا، امرتسر معاہدہ ہوا جس کے بعد اس کا بیٹا زنبیر سنگھ جانشین بنا، پھر پرتاب سنگھ جانشین بنا، وہ افیون کا نشہ کرتا تھا، پھر امر سنگھ کا بیٹا ہری سنگھ سازش سے جانشین بنا. حکیم نور دین جو مرزا قادیانی کا دست راست اور سرکاری حکیم تھا اس سازش میں پیش پیش تھا، قادیانی کشمیر میں الگ قادیانی ریاست کے خواہاں تھے، ہری سنگھ 1925 میں گدی نشین بنا جسے قادیانی حمایت حاصل تھی، اس کے بعد مسلمانوں پر ظلم و استبداد شروع ہوا، 1929 میں شیخ عبد اﷲ نے ریڈنگ روم تنظیم اور اے آر ساغر نے ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن بنائی، 1931 میں پہلی مسجد ریاسی میں شہید ہوئی، کوٹلی میں نماز جمعہ پر پہلی بار پابندی لگائی گئی، ایک ہندو کانسٹیبل نے قرآن کریم کی بے حرمتی کی، عبدالقدیر نامی مسلمان نے بے مثال احتجاجی جلسے کئے، وہ گرفتار ہوا تو پھر مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا، جس کے بعد تحریک آزادی کشمیر 1931 میں مکمل شروع ہوئی، 25 جولائی 1931 میں فئیر ویو منزل شملہ میں ایک میٹنگ میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی، جس کی صدارت قادیانی مرزا بشیرالدین محمود نے کر ڈالی یہ مرزا قادیانی کا بیٹا تھا کیونکہ اس نے پروپیگنڈہ کیا کہ تمام مسلمان قادیانی کے نبی ہونے کو مان چکے ہیں اسی لیے مرزا بشیر کو صدر منتخب کیا، اس کمیٹی میں علامہ اقبال بھی شامل تھے، سازش بے نقاب ہوئی تو سب مسلمان فورا اس کمیٹی سے دستبردار ہوئے، عطائاﷲ شاہ بخاریؒ فورا کشمیر بھیجے گئے، علامہ اقبال مجلس احرار کے سرپرست بنے اور بشیر قادیانی کی سازش ناکام ہوئی، 14 اگست 1931 کو پہلی بار کشمیر ڈے منایا گیا اکتوبر 1931 میں علامہ اقبال کی سرپرستی میں مسلمان وفد مہاراجا ہری سنگھ اور اس کے وزیر اعظم ہری کرشن کول سے مذاکرات کے لیے ملے، مذاکرات ناکام ہوئے تو سیالکوٹ سے کشمیر چلو کشمیر چلو تحریک چلی، تب سے آج تک کشمیری تحریکوں میں ہی چل رہے ہیں، پاکستان قائم ہوا، یہاں بھی کئی نشیب و فراز آئے پاکستان میں کئی جماعتوں کی حکومتیں آئیں، کئی حکمران بنے لیکن یہ اﷲ کا شکر رہا کہ کشمیر پر پاکستان کا مؤقف کبھی تبدیل نہیں ہوا، قائد اعظم محمد علی جناح پہلے ہی کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دے چکے تھے، محترمہ فاطمہ جناح کہتی ہیں کہ جب قائد اعظم کی وفات کا وقت قریب آیا تو قائد اعظم تین چیزوں کے لئے بہت پریشان تھے، نمبر ون کشمیر، نمبر ٹو فلسطین اور نمبر تھری انڈیا سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین جو اپنا سب کچھ ہندوستان میں چھوڑ کر پاکستان آئے تھے، قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے وقت یہ ترجیحات بتا رہی ہیں کہ وہ ایک وژنری لیڈر تھے، بدقمستی سے ہماری قوم نے وژنری لیڈر دیکھے نہیں ہیں، جگاڑی اور مال بناو لیڈر اس قوم کو اکثریت میں ملے یہی وجہ بنی کہ اس قوم کے حقیقی مسائل آج بھی جوں کے توں ہیں، کشمیر کی جدوجہد یقیناً دہائیوں پر محیط ہے بلکہ اب تو ایک صدی مکمل ہونے کو ہے، آج ہم سب اس حقیقت کو مانتے ہیں کہ کشمیر اقوام متحدہ کے فورم پر آج بھی نامکمل ایجنڈا ہے لیکن 57 اسلامی ممالک مل کر بھی اقوام متحدہ سے مظلوم کشمیریوں کو ان کا حق نہیں دلا سکے ہیں، ہماری مزید بدقمستی یہ ہے کہ نریندر مودی اور نیتن یاہو جیسے انتہا پسند لوگ آج امریکی صدر ٹرمپ کے پسندیدہ لوگوں میں شامل ہیں، امریکا نے فلسطین کے ساتھ گزشتہ دنوں زیادتی کردی ہے جبکہ نریندر مودی نے بھی 5 اگست 2018 کو کشمیریوں کا پرچم تک سلب کر لیا ہے، کشمیر میں 180 دن سے کشمیری محصور ہیں، مین اسٹریم میڈیا تو درکنار وہاں انٹرنیٹ تک کے استعمال پر مکمل پابندی ہے، جب کشمیروں پر ظلم و ستم بیان کئے جائیں تو ہمارے عوام کی دو رائے ہوتی ہیں ایک تو کشمیر جہاد سے آزاد ہوگا اور دوسرا حکومت کچھ کرتی کیوں نہیں، میری گزارش اس میں یہ ہے کہ جنگ کرنا یا نہ کرنا یہ ہماری حکومت کا اختیار ہے ہم اپنی حکومت سے مطالبہ تو کر سکتے ہیں لیکن یقیناً خود اعلان جنگ نہیں کرسکتے، میری یہ سوچ بھی ہے کہ رب کریم مجھ سے اتنا ہی حساب لیں گے کہ دنیا میں جتنا مجھے اختیار دیا ہے، جو میرے اختیار اور طاقت میں نہیں ہے اس کا مجھ سے حساب نہیں ہوگا، اب جب میں اپنا اختیار دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ کیسے اپنے مظلوم کشمیری، روہنگیا، شامی اور فلسطینی بھائیوں کی مدد کرسکتا ہوں تو مجھے یہ سمجھ آتا ہے کہ ان کے لئے جو آواز اٹھے اس آواز سے ہمیں اپنی آواز ملانی چاہیئے، 5 فروری کو ملک بھر میں کشمیری مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کا دن منایا جائے گا، انسان ہونے کے ناطے ہمارے اپنے بہت سے تقاضے ہیں اپنے ان تقاضوں کو آگے پیچھے کر کے ہمیں اس دن سڑکوں پر نکلنا چاہیئے،
آپ بھی اپنا قیمتی وقت نکال کر کشمیریوں کی آواز بنیں، ہم نے عزم کر لیا ہے کہ اپنے حصے کا کام ہم کریں گے، خاموش تماشائی نہیں بنیں گے کیونکہ نبی کریم ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ:
''مسلمان کی مثال ایک جسم کی مانند ہے اگرجسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا وجود بے چین رہتا ہے'' ایک دوسرے ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ ''برائی کو ہاتھ سے روکنے کی طاقت ہو تو ہاتھ سے روک دو، ورنہ زبان سے روکو یہ بھی نہ ہو تو دل میں برا جانو'' یقیناً برائیاں اور بھی بہت ہیں، کام اور بھی بہت کرنے ہیں لیکن سردست 5 فروری آرہی ہے تو ہم کشمیر میں ظلم و ستم پر دنیا کو بیدار کرنے کے لئے جو راستہ اختیار کر سکتے ہیں ہمیں وہ راستہ ضرور اختیار کرنا چاہیئے....!

کیا سات دہائیوں سے کشمیریوں پر ہوئے مظالم عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ کشمیر بھارت کا حصہ کبھی نہیں بن پائے گا۔ بھارت کے مذموم ارادے کبھی پورے نہیں ہو پائیں گے۔ جنوبی ایشیا کے مسلمان بھارتی غلامی کو کبھی قبول نہیں کر سکتے۔ یہی کشمیریوں کی پکار تھی اور یہی للکار ہے۔ کشمیریوں کے اس موقف کی باز گشت اب دنیا کے تمام ممالک تک پہنچ چکی ہے۔ مسئلہ کشمیر کا حل وہی ہے جو طے شدہ اصولوں کے تحت تسلیم کیا جا چکا ہے۔

اب آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آپ نے یوم یکجہتی کشمیر کیسے منانا ہے...!

Muhammad Nafees Danish
About the Author: Muhammad Nafees Danish Read More Articles by Muhammad Nafees Danish: 43 Articles with 32941 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.