دہلی کی انتخابی مہم میں اروند کیجریوال کو گھیرنے کی
ساری کوششیں جب ناکام ہوگئیں تو انہیں بی جے پی نے دہشت گرد قرار دے
دیا۔مغربی دہلی سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایم پی پرویش صاحب
سنگھ ورما کے انتخابی مہم کے دوران یہ بدزبانی کی ۔ حد تو یہ ہے کہ بی جے
پی کی سینئر وزیر پرکاش جاوڈیکر کو بھی اچانک یاد آگیا کہ اروند کیجریوال
نے کسی خالصتانی دہشت گرد کے گھر میں قیام کیا تھا ۔ کپل مشرا نے انہیں
اربن نکسلیوں سے جوڑ دیا مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ بی جے پی کو نہ تو جامعہ
میں گولی چلا کر شاداب فاروق کو زخمی کرنے والا رام بھکت گوپال دہشت گرد
نظر آتا ہے اور نہ اسے شاہین باغ میں ہوائی فائر کرنے والے کپل گجر پر
کوئی اعتراض ہوتا ہے۔ ان لوگوں کو نہ تو گولی مارو سالوں کو کا اعلان لگانے
والا بدمعاش انوراگ ٹھاکر نظر آتا ہے اور نہ’بولی سے نہیں تو گولی سمجھیں
گے‘ کہنے والا یوگی نام کا ٖڈھونگی دکھائی دیتا ہے ۔ این آر سی اور این پی
آر کے خلاف احتجاج کرنے والے کے خلاف تو یہ لوگ دن رات بکواس کرتے ہیں
لیکن دیویندر سنگھ اور پربیش کمار پر اپنی زبان نہیں کھولتے ۔
دیویندر سنگھ کے بارے میں تو سبھی جانتے ہیں لیکن قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ
یہ دوسرا پربیش کمار درمیان میں کہاں سے آگیا ۔ یہ بھی ممکن ہے دیویندر
سنگھ نے بھی پربیش کمار کا نام نہیں سنا ہو لیکن ان دونوں کے درمیان’ دہشت
گردی‘ اسی طرح مشترک ہے جیسے گوپال اور کپل کے بیچ ہے ۔ سنگھ پریوار اور
مودی سرکار کو دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے بجائے اس پر سیاست کرنے میں
زیادہ دلچسپی ہے۔ وہ اسے باقی رکھ کر اس پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنا چاہتی
ہے۔ اس لیے یہ حکومت نہ صرف دیویندر سنگھ جیسے دہشت گردوں کو بچاتی ہے بلکہ
پربیش جیسے دہشت گردوں کو پالتی ہے اس لیے دونوں کے بچنے کا روشن امکان ہے
۔ پربیش کیرالہ کا رہنے والا سنگھ سیوک ہے اور اسے 16 جنوری کو کیرالا کے
کننور ضلع میں تھلسیر مقام پر پولس تھانے کے اوپر بم پھینکنے کے الزام میں
پولس نے گرفتار کررکھا ہے ۔ سی سی ٹی وی کیمروں میں قید تصاویر نے پربیش کی
نشاندہی کردی تھی اکیس جنوری کو ا سے تمل ناڈو کے کوئمبٹور سے گرفتار کرلیا
گیا جہاں وہ اپنے ایک رشتے دار کے پاس چھپا ہوا تھا۔
زعفرانی دہشت گردوں کی گرفتاری اب کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ مرکز کے اندر جب
سے مودی سرکار آئی ہے ان کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں۔ امیت شاہ اور یوگی کو
تو اپنے گروہ کا آدمی سمجھتے ہیں اس لیے ان لوگوں نے ملک بھر میں قتل و
غارتگری کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ پربیش نے اپنی گرفتاری کے بعد ایک نہایت
چونکا دینے والا انکشاف یہ کیا کہ وہ آر ایس ایس کے دفتر یہ بم پھینکنا
چاہتا تھا لیکن نشانہ چوک گیا اوروہ پولس چوکی پر جاگرا۔ زعفرانیوں کا
نشانہ کبھی نشانے پر نہیں بیٹھتا۔ اکثر یہ لوگ بم بناتے ہوئے یا لے جاتے
ہوئے ازخود مارے جاتے ہیں یا زخمی ہوجاتے ہیں ۔ پچھلے سال مارچ کے مہینے
میں کننور میں ہی آر ایس ایس کے ایک کارکن کے گھر میں دیسی بم پھٹ گیا۔ اس
سانحہ میں سنگھ کارکن متر مالا شبو کا سات سالہ بیٹا گوکل اور اس کا ۱۲
سالہ دوست کجن راج زخمی ہوگئے ۔ پرندوں کا پنجرا بنانے کے لیے یہ بیچارے
پرانے کوڑے کباڑے سے کچھ نکال رہے تھے کہ دھماکہ ہوگیا۔
اس واقعہ کے بعد جب پولس کے دستے نے گھر کی تلاشی لی اس میں سے بم بنانے کا
دھماکہ خیزاشیاء کے علاوہ کلہاڑی، تلواریں اور لوہے کی راڈ ملی یعنی فساد
کا سارا انتظام کرکے رکھا ہوا تھا ۔ اس احمق نے سازو سامان تو بہت جمع کیا
لیکن اسے اتنی عقل نہیں آئی کے انہیں حفاظت سے رکھے تاکہ اس کے اپنے بچے
اس کی زد میں نہ آئیں ۔ سنگھ کی ناقص تربیت کا یہ نتیجہ ہے کہ ان لوگوں کو
نہ بم چلانا آتا ہے اور نہ حکومت چلانی آتی ہے۔ اس سانحہ سے بھی ان لوگوں
نے کوئی سبق نہیں سیکھا بلکہ دو ماہ بعد کاسرگوڈ کے پیانور علاقہ میں بی جے
پی اور آر ایس ایس لیڈران کے گھروں سے دیسی بم کے پھٹنے کی خبریں آگئیں ۔
یہ بم غالباً انتخاب کے دوران استعمال کرنے کے لیے جمع کرکے رکھے گئے تھے
لیکن استعمال کرنے کی ہمت نہیں ہوئی اور بالآخر ایک بی جے پی کے مقامی
لیڈر پناکل بالاکشنن کے گھر میں اور دوسرا آر ایس ایس کارکن کرایل راجیش کے
گھر میں پھٹ گیا۔ راجیش کے گھرمیں پہلے بھی ایسے دو معاملات پیش آچکے ہیں۔
ویسے مہاراشٹر کے ناندیڑ اور بھیندر کے اندر بم بناتے ہوئے ان لوگوں کے
ہاتھوں میں دھماکے ہوگئے اور انہیں زخمی کردیا ۔ گوا میں بم لے جاتے ہوئے
وہ پھٹ گیا اور وہ مارا گیا ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر اتنا ڈر لگتا ہے
تو یہ ان کاموں کو کرتے ہی کیوں ہیں؟
کننور کے حالیہ واقعہ میں پربیش کوسنگھ کے دفتر پر بم پھینکنے کی ضرورت اس
لیے پیش آئی تاکہ وہ اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرکے ہندو عوام کو گمراہ کیا
جائے اور ان کی ہمدردیاں حاصل کی جائیں ۔ کوئی تحریک جب نظریاتی و اخلاقی
دیوالیہ پن کا شکار ہوجاتی ہے تو اپنے مخالفین کو بدنام کرنے کے لیے ایسے
اوچھے طریقے استعمال کرتی ہے۔ یہ لوگ ہندووں کے دلوں میں اپنی خود ساختہ
دہشت گردی سے ایک نامعلوم خوف پیدا کرکے خود کو ان کا نجات دہندہ بناکر پیش
کرتے ہیں۔ اس کام کے لیے پربیش جیسے جرائم پیشہ لوگوں کو اپنی تنظیم میں
شامل کرکے ان سے کیا کام لیا جاتا ہے؟ پربیش جیسے مجرمین کو اگر برسرِ
اقتدار سنگھ کی چھتر چھایا میسر آجائے تو ان کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں ۔
آر ایس ایس کا مذکورہ دفتر منوج نامی سنگھ رہنما کے نام سے منسوب ہے۔ منوج
کو 2014 میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ آر ایس ایس نے اس قتل کا الزام
سی پی ایم کے سر منڈھ دیا لیکن اب از سرِ نو تفتیش ہونی چاہیے کہ کہیں منوج
بھی کسی پربیش جیسے قاتل کے ہاتھوں سنگھ کی اس بہیمانہ حکمت عملی کا شکار
نہیں ہوا ؟
سنگھ پریوار خود کو سچا دیش بھکت اور اپنےمخالفین کو غدار کہتا ہے ۔ اس
مقصد کے لیے اس نے افضل گرو کی پھانسی پر اعتراض کرنے والے جے این یو کے
طلباء کی ویڈیو پر دوسری آواز چپکا کر انہیں ٹکڑے ٹکڑے گینگ کے لقب سے
نواز دیا حالانکہ ہندوستان کے سابق وزیر قانون شانتی بھوش نے بھی اس سزا کو
آئین ہند کے منافی قرار دیا تھا ۔ گودی میڈیا نے اس کے بہانے اشتراکیوں کو
خوب بدنام کیا لیکن اس مہم کے نتیجے میں سی پی آئی کو کنہیا کمار جیسا
ہونہار رہنما مل گیا اور سنگھ کی طلباء تنظیم اے بی وی پی کا جے این یو میں
صفایہ ہوگیا ۔ دہلی کا الیکشن جیتنے کی خاطر وزیر داخلہ امیت شاہ نے پھر سے
ٹکڑے ٹکڑے گینگ کو انتخاب میں سبق سکھانے کا راگ الاپنا شروع کردیا ۔ امیت
شاہ کی اس اشتعال انگیزی کا پہلا نتیجہ تو یہ نکلا نقاب پوش حملہ آوروں نے
سنگھ کی سرپرستی میں جے این یو کے نہتے طلباء پر حملہ کر دیا اور اس طرح
زعفرانیوں نے پورے ملک کے نوجوانوں کو اپنا دشمن بنالیا۔
یہ قدرت کی عجب ستم ظریفی ہے کہ بی جے پی کے جھوٹ کا بھانڈا خود امیت شاہ
کی وزارت نے پھوڑ دیا۔ ساکیت گوکھلے نام کے آر ٹی آئی جہت کار نے وزارت
داخلہ سے ٹکڑے ٹکڑے گینگ کے بارے میں معلومات طلب کیں تو جواب ملا کہ ان کے
پاس اس بابت کوئی معلومات نہیں ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ جس گینگ کے بارے میں
وزارت داخلہ لاعلم ہے اس کی بنیاد پر وزیر داخلہ انتخابی مہم چلارہے ہیں ۔
اس معاملے میں بجا طور پر کپل سبل نے طنز کرتے ہوئے کہا ہے کہ لگتا ہے
وزیرداخلہ ٹکڑے ٹکڑے گینگ کے بارے میں ہم سے زیادہ جانتے ہیں ۔ بڑے بڑے
میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ کی مصداق وزیر خارجہ جئے شنکر نے
بھی موٹا بھائی کے سرُ میں سُر ملاکرکہہ دیا کہ ہمارے زمانے میں جے این یو
کے اندر کوئی ٹکڑے ٹکڑے گینگ نہیں تھا ۔ اس کا بلا واسطہ مطلب یہ ہوا کہ
’اب موجود ہے‘ ۔ جس حکومت کے وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ اس قدر غیر ذمہ دار
ہوں وہ اگر ملک کے اندر اور باہر بدنام نہ ہو تو کیا نیک نام ہوگی؟ اس
معاملے میں سب سے اچھا تبصرہ ششی تھرور نے کیا ۔ وہ بولے ٹکڑے ٹکڑے گینگ
ملک میں موجود ہے اور وہ سرکار چلا رہا ہے۔ وزارت داخلہ میں یہ اعتراف کرنے
کی جرأت کیسے ہو سکتی ہے؟ اس لیے اس نے انکار کرنے میں عافیت سمجھی لیکن
اس سے حقیقت واقعہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فی الحال ایک ٹکڑے ٹکڑے گینگ
ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ |