تحریر : عثمان عبدالقیوم
سکول سے لے کر کالج تک اور وہاں سے یونیورسٹی تک یہ بات اساتذہ کرام سے
سنتے آ رہے ہیں کتابوں میں پڑھتے آ رہے کہ تقسیم ہند کے وقت وائسرائے ہند
لارڈ ماونٹ بیٹن نے کہا تھا کہ تقسیم ہند کے وقت کسی بھی ریاست کے ساتھ کسی
قسم کی زیادتی نہیں ہو گی اگر کوئی ریاست میں موجود لوگوں کا اس بات پر
اختلاف ہو کہ پاکستان کے ستاھ شامل ہونا ہے یا بھارت کے ساتھ تو ایسی
صورتحال میں وہاں کی عوام سے رائے لے اسکے نتائج کے مطابق فیصلہ حتمی اور
قابل قبول ہوگا ریاست جموں کشمیر پر اسی طرز پر حالات کی سنگینی معمول پر
آنے تک رائے دہی کروا کر اسکی الحاق کا وعدہ کیا گیا جو آج تک مکمل نہیں ہو
سکا۔
1947 میں راجہ مہاراجہ کشمیر اور بھارت کے درمیان غاصبانہ قبضہ کی غرض سے
اپنی فوج کو وادی میں داخل کر کے بڑے حصے پر قابض ہو گیا تاہم اہلیان کشمیر
کی کی جانب سے بھرپور مذاہمت پر بھارت نے اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے
گیا اور بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے دنیا کے سامنے یہ وعدہ
کیا کہ وہ جلد اس مسئلے پر تقسیم ہند کے وقت الحاق کے حوالے سے جو طریقہ
کار اس وقت کے وائسرائے کے طریقہ کے مطابق رائے شماری کروا کر اس کے مطابق
فیصلہ کروا دے گا مگر تب سے آج تک بھارت اس وعدے سے مکمل طور پر مکر گیا
اور یہ راگ الاپنے لگا کشمیر تو بھارت کا اٹوٹ انگ ہے حالانکہ مسلم اکثریت
کی وجہ سے اسکا پاکستان کے ساتھ ملنا لازم ہے مگر اقوام متحدہ گونگی بنے
دیکھ رہی ہے۔
دوسری جانب دنیا کے نزدیک کشمیر سب سے حسین اور خوبصورت ٹکڑا ہے کیونکہ یہ
وادی اپنے دامن میں پہاڑوں کے سائے تلے دریاوں سے زرخیز ہونے والی سرزمین
ہے اوراسی قدرتی حسن کے باعث و نسبت وادی زمین پر جنت تصورکی جاتی ہے مگر
دنیا والوں تم کیا جانو خطہ ارض پر وادی کشمیر سب سے زیادہ ظلم و جبر سہنے
والے خطوں میں صف اول پر ہے کیونکہ یہ وہ وادی ہے جہاں بارود اور خون کی
مہک اب وہاں کے پھولوں اور پھلوں سے زیادہ تیز ہے دریا اپنی موجوں میں خون
لیے پہاڑوں سے ٹکراتی ہیں وہاں بسنے والے جوان ہوں یا بوڑھے بچے ہوں یا
عورتیں سب ہرآہٹ پر خود کو بھارتی فوجیوں کی گولی کا نوالہ بنتے محسوس کرتے
ہیں۔ یہاں تک بھارت کے ظلم و ستم سے اب تک تقریبا 1 لاکھ افراد شہادت کے
عظیم مرتبے پر فائز ہوئے ہزاروں بچے یتیم، ہزاروں بہنیں بیوہ ہو چکیں 10 سے
12 ہزار نوجوان بھارتی آرمی کے ہاتھوں اغواء ہونے کے بعد لاپتہ ہوئے
سینکڑوں بہنوں کی عزت کو تار تار کیا ہزاروں کی تعداد میں نا معلوم قبریں
ملی ہیں یہاں تک کے شاید کوئی ایسا ظلم نہیں جو مظلوم کشمیری پر آزمایا نا
ہو بلکہ پچھلے سالوں میں میں پیلٹ گن اور کیمکلز کا بے جا استعمال کیے گئے
اور سینکڑوں معصوم انکا شکار ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھوں کی
بنائی کھو بیٹھے حالات اس قدر خوف زدہ ہیں کے 9 لاکھ فوجی اس وادی میں
تعینات ہیں ایک اندازے کے مطابق 7 کشمیریوں پر ایک ظالم فوجی تعینات ہے اور
اسی غرور میں دنیائے کفر کے بڑے بڑے سرداروں کی مدد سے پچھلے سال اپنے کالے
قانون میں ترمیم کر کے کشمیر کی آزادی کی حیثیت کو ختم کر کے اپنا ؑعلاقہ
بنانے کی کوشش کی اور کشمیر میں پچھلے 6 ماہ سے تمام بنیادی سہولتیں مطعل
ہیں کھانے پینے کی اشیاء ، میڈیکل کی سہولیات سمیت موبائل فون اور انٹرنیٹ
مسلسل بند ہیں اس ظلم کے خلاف نا ہی کوئی ملالہ بولی نا امن کی این جی اوز
نا کفار کی لونڈی اقوام متحدہ بولی باوجود اتنے ظلم و بربریت وہ آج بھی
پاکستان زندہ باد، کشمیر بنے گا پاکستان، پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا
اللہ محمد الرسول اللہ جیسے نعرے بلند کرتے ہوئے قربانیاں دے رہیں ہیں
مسجدوں میں پاکستان کے ترانے گونجتے ہیں شہداء کو پاکستان کے پرچم میں قبر
میں اتارا جاتا ہے دن رات لبوں پر ایک دعا رہتی ہے اے اللہ کشمیر کو
پاکستان بنا دے آزادی کے لیے اس طرح مسلسل ڈٹے ہیں وہاں موجود بھارتی فوج
کا اپنی حکومت سے یہ کہنا ہے اگر فوج کودئے گئے مخصوص کالے قانون واپس لیے
گئے تو کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور کالے قانون کی وجہ سے ہی
ابھی تک کشمیر آزاد نہیں ہوا۔
افسوس کی بات یہ ہے ایک طرف ہم کشمیریوں کی حق خوداریت کے حق میں اور
بھارتی قبضہ کے خلاف بات کرتے ہیں اور دوسری جانب ہمارے سابقہ وزیر اعظم کا
رویہ ایسا ہے کہ بھارت میں جا کر حریت قیادت سے ملاقات نہیں کرنا چاہتا تھا
پچھلے دور حکومتوں میں خارجہ کے اہم امور کے لئے ہمارا وزیر خارجہ نہیں جو
عالمی سطح پر کشمیر پر بات کر سکے دنیا کو یہ بتا سکے تحریک آزادی کشمیر
ایک نظریہ کی بنیاد پر ہے کشمیر اور پاکستان کے رشتے کی نطریاتی بنیاد دنیا
کے سامنے رکھ سکیں یہاں تک کو کشمیر کے لئے بین الاقوامی فورم پربات کرنے
والے افراد کشمیر کے نقشے و تاریخ کے مطلق نہیں جانتے سول سطح پر کشمیر پر
ہماری کوئی منظم پالیسی نہیں کشمیر کمیٹی پر کئی سال براجمان رہنے والے صرف
سہولیات اور دعوتیں اڑانیں میں حالات کی سنگینیوں سے غافل سوتے رہے بہت بھی
کیا تو رٹہ رٹایا مذمتی بیان دے دیا اور اب محب وطن لوگوں کو بھارت کے کہنے
پر کشمیر پار بات کرنے والوں کو پابند سلاسل کرتے رہے بطور عوام کشمیر کی
آزادی کو لطیفہ کے طور پر لیتے ائے اگر کوئی ذاتی مسئلہ حل ناہو تو ہم یہ
کہ دیتے ہیں یار یہ تو مسئلہ کشمیر بن گیا ہے یہ تو حل ہو ہی نہیں سکتا
دوکانوں کے اوپر پوسٹر آویزاں ہیں کشمیر کی آزادی تک ادھار بند ہے جب
مایوسی کے یہ حالات ہوں تو کیسے مان لیں کشمیرکی ہم مدد کر سکیں گے بلکہ
پچھلے سال وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اقوام متحدہ کشمیر کا کیس بہت
اچھے انداز میں ہیش کیا گیا دنیا کے سامنت سیکولر اور جمہوریت کا دعویدار
بھارتی ظلم و بربریت کا پردہ فاش کیا جب بھارت کو دنیا کے سامنے رسوائی کا
سامنا کروایا بلکہ حریت قیادت نے خان صاحب کا شکریہ ادا کیا مگر بطور قوم
ہم نے سراہنے کی بجائے اس کا بھی خوب مزاق کیا اپوزیشن کے چند اراکین نے یہ
تک کہ دیا کہ یہ تقریر نہیں بچگانہ زہن کی حامل تقریر تھی ان سب باتوں کو
چھوڑ کر کشمیر کی ازادی کے لئے ہمیں خود ہی محمد بن قاسم پیداء کرنا ہوگا
ہمیں خالد بن ولید رضی اللہ جیسے بہادر نڈر حوصلہ اپنانا ہوگا حیدر کرار
جیسی شجاعت پیداء کرنی ہوگی ہمیں اپنے اندر ایسا محمود غزنوی تلاش کرنا
ہوگا جو کشمیر کی آزادی کا مجاہد بن سکے اور اگر ایسا کچھ کر نہیں سکتے تو
کم از کم انکے لیے میسر سوشل میڈیاکے ذریعے مظلوموں کی آواز بنیں فیس بک
پوسٹ اپروو نا بھی کرے تو پریشان نا ہوں واٹس ایپ، ٹویٹر یا دیگر سماجی
سائٹس پر انکے لیے لکھیں بولیں آخرمیں اپنی قوم سے حکمران جماعت و اپوزیشن
سے ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ اب پھر 5 فروری کا دن آ رہا ہے جسکو دنیا
بھر میں پاکستانی اور کشمیری یوم یکجتی کشمیر کے طور پر ہر سال کی طرح
سرکاری سطح پرمنانے کا اعلان ہو چکا ہے یہ مسئلہ ہمارا اپنا ہے نیند سے
بیدار ہو کر اب ہمارے جاگنے کا وقت ہے کیونکہ اگر ہم مشترکہ آواز بلند کریں
گے دنیا بات سنے کی اگر بکھر کر ماضی دہرائیں گے دنیا بھی ہماری بات پر
توجہ نہیں دے گی مختصر یہ کہ گر آج نہ جاگے تو کبھی جاگ نہ پائیں گے دعا ہے
اللہ رب العزت کے حضور کے دنیا کی جنت نظیر وادی جلد آزاد ہو
#UsmanAQ #زادمسافر #عثمانیات
|