مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک - تیسری قسط

جوار بھاٹا (اُتار چڑھاﺅ)

چٹاگانگ جانے میں ابھی دو روز باقی تھے اور یہ وقت کیسے گزاریں ا س پر سوچ بچار ہو رہی تھی۔ رائے صاحب نے ایک بنگالی بھائی جو ہمارے کھانے کا انتظام کرتے تھے انہیں اپنے پاس بلا کر بٹھا لیا ، وہ چونکہ اردو بھی اچھی بول لیتے تھے اس لیے انہیں سے گپ شپ ہوتی رہتی تھی اُن کا نام افسارالدین تھا ہم لوگ انہیں افسار بھائی کہہ کر بلاتے ۔رائے صاحب نے بڑی خوشدلی سے انہیں مخاطب کرتے ہوئے پوچھا ، افسار بھائی سُنا ہے آپ کا دیس پانیوں کا دیس ہے اور یہاں ندیاں اور دریا بہت ہیں کیا یہ صحیح بات ہے۔؟ افسار بھائی نے بھی مسکراتے ہوئے کہا، جی ہاں صاب یہاں بہت بڑے بڑے دریا ہیں، ایک تو یہاں ڈھاکہ کے نزدیک ہی ہے اس کا نام ”بوڑھی گنگا“ ہے، آپ کو اگر دیکھنا ہو تو میں آپ کو لے چلوں گا اُدھر دریا کے پار میرے ایک رشتہ دار کا لوہے کا سریا بنانے کا فیکٹری بھی ہے آپ سے ملاقات کر کے وہ بھی بہت خوش ہوگا۔ وہ اردو بھی اچھا بول سکتا ہے کیونکہ وہ بہت دن کراچی میں رہا ہے اب بھی آتا جاتا رہتا ہے۔رائے صاحب یہ سن کر بہت خوش ہوئے کہ ان کو کشتی پر سواری کرنے کا بڑا شوق تھا جس کا اظہار وہ مجھ سے باتوں باتوں میں کئی دفعہ کر بھی چکے تھے۔ لہٰذا میں نے موقع غنیمت سمجھا اور افسار بھائی سے کہا ،بھئی دیر کس بات کی چلو آج ہی چلو، ہم لوگ تو فارغ ہیں تمہار اگر کوئی کام کا ہرج نہ ہو تو ناشتہ کر کے نکلتے ہیں، اور ساتھ ہی میں نے رائے صاحب کی رضا مندی جاننے کے لیے اُن کی طرف دیکھا ،انہوں نے میری ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے افسار بھائی کی طرف اپنا دایاں ہاتھ بڑھاتے ہوئے خوشی سے ہاتھ ملایا اور کہا، ارے بھائی آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا ہمارے پنجاب میں تو کشتی کی سواری بہت کم ، کبھی کبھار دریائے راوی میں اگر پانی ہو تو شوقیہ سیر کرنے جاتے ہیں ، یہاں تو سنا ہے کہ مال برداری بھی زیادہ تر کشتیوں میں ہوتی ہے۔ہم نے ناشتہ آملیٹ اور پراٹھے کے بعد چائے پی کر ختم کیا، اتنے میں افسار بھائی بھی اپنے دفتر سے اجازت لے کر آ گئے اور ہم لوگ بوڑھی گنگا کی سیر کرنے کے لیے ایک سائیکل رکشہ میں صدر گھاٹ کی طرف روانہ ہوئے جہاں سے ہم کو کشتی میں سوار ہو کر دریا کے پار جانا تھا۔

دریا کا پارٹ کافی چوڑا تھا اور اس میں چھوٹی چھوٹی کشتیوں سے لے کر بڑے بڑے اسٹیمر جن میں سینکڑوں مسافر سوار تھے رواں دواں تھے، میں نے کشتی میں سوار ہو کر افسار بھائی سے پوچھا کہ یہ اسٹیمر کہاں جاتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ یہ سب دریاﺅں کے راستے چاند پور،باریسال،کھلنا اور منگلا پورٹ تک جاتے ہیں، یہ تین چا سو مسافروں کے علاوہ تجارتی سامان بھی ادھر سے اُدھر پہنچاتے ہیں، رائے صاحب جو حیرانی سے یہ منظر دیکھ کر محظوظ ہو رہے تھے وہ بھی بولے بنا نہ رہ سکے اور افسار بھائی کو حیرت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے جب اتنے بڑے بڑے جہاز اس دریا میں چل رہے ہیں تو اس کی گہرائی کتنی ہوگی ؟ افسار بھائی نے دریا کی سطح پر نظریں جماتے ہوئے جواب دیا، یہی کوئی تیس چالیس ہاتھ ۔ میں نے سوچتے ہوئے ان کی بتائی ہوئی لمبائی کا حساب لگاتے ہوئے کہا، یعنی آپ کا کہنے کا مطلب ہے پچاس ساٹھ فٹ ؟ جی ہاں اور کہیں کہیں تو سو فٹ سے بھی زیادہ گہرائی ہے تبھی تو اس میں اتنے بڑے بڑے جہاز اتنی سواریاں اور سامان لے کر چلتے ہیں!!

اب ہماری کشتی دریا کے بیچوں بیچ چل رہی تھی، میں نے گدلے پانی پر نظریں جما کر دیکھا مگر میری سمجھ میں نہ آیا کہ پانی مشرق کی طرف جا رہا ہے یا مغرب کی طرف آخر میں نے تجسس بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے افسار بھائی سے پوچھ ہی لیا کہ یہ پانی کس طرف جا رہا ہے بھائی ؟ تو انہوں نے بڑے فلسفیاں انداز میں کہا، ابھی یہ پانی رُکا ہوا ہے تھوڑی دیر میں یہ پانی مشرق کی طرف جانا شروع ہو گا پھر تین گھنٹے بعد یہ پانی مغرب کی طرف واپس جانا شروع ہوجائے گا۔ یہ سن کر میں اور بھی حیرت زدہ ہو گیا ، کیونکہ میں نے راوی دریا کو ہمیشہ ایک ہی طرف بہتے دیکھا تھا اب یہاں کے دریا دونوں طرف بہتے ہیں یہ کم از کم میرے لیے تو ایک نئی بات ہی تھی ، میں نے افسار بھائی سے پھر پوچھا، ”یہ کیسے ہو سکتا ہے یہ تو وہی بات سچ ہو گئی کہ گنگا الٹی بہنے لگی ؟‘ ‘ میری آواز میں حیرت کا عنصر دیکھ کر اور رائے صاحب کو بھی اپنی طرف متوجہ پا کر ہمارے بنگالی بھائی نے سمجھانے والے انداز میں کہنا شروع کیا۔ آپ نے کبھی ”جوار بھاٹا“ کا نام سنا ہے ۔؟ میں نے کہا، سنا ہو گا مگر یہ ہوتا کیا ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ جوار کا مطلب ہے چڑھنا اور بھا ٹا کے معنی اُترنا ، یہ بنگالی زبان کے الفاظ ہیں ، کیونکہ یہاں کے سب دریا ندی نالے سمندر سے کنیکٹیڈ(جڑے ہوئے) ہیں اس لیے جب سمندر میں جوار ہوتی ہے یعنی سمندر چڑھنا شروع ہوتا ہے تو دریاﺅں اور ان سے نکلے ندی نالوں میں بھی پانی چڑھنا شروع ہو جاتا ہے اور جب سمندر اُترنا شروع ہوتا ہے تو ان میں آیا ہوا پانی واپس سمندر کی طرف چلا جاتا ہے، یہ عمل چوبیس گھنٹوں میں چار دفعہ ہوتا ہے اس کا وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں ہوتا بدلتا رہتا ہے، جیسے دن اور رات منٹوں کے حساب سے گھٹتے بڑھتے ہیں اسی حساب سے اس کے ٹائم میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے ۔

باتیں کرتے کرتے ہم لوگ دوسرے کنارے پر پہنچ گئے جہاں افسار بھائی نے کشتی کے ملاح(جس کو بنگالی ماجھی کہتے ہیں) پیسے دینے چاہے مگر رائے صاحب نے اس پہلے ایک روپیہ اس کی ہتھیلی پر رکھ دیا جس سے وہ خوش ہو گیا کیونکہ اس وقت ایک روپے کی بڑی اہمیت تھی، افسار بھائی نے واپسی تک اس کو انتظار کرنے کو کہا اور ہم لوگ ایک سڑک پر ہو لیے جو کہ ایک آبادی سے گزر کر فیکٹری کی طرف جا رہی تھی سڑک کے دونوں جانب ٹین کی چھت اور بانس کی بنی دیواروں والے گھر تھے جن کے دروازوں کے اوپر ایک طرف یا اللہ اور ایک طرف یا محمدﷺ لکھا ہوا نمایاں نظر آرہا تھا، میرے پوچھنے پر افسار بھائی نے بتایا کہ یہ ہماری پاکستانی فوج کو پہچاننے میں آسانی کے لیے کہ یہ مسلمان کا گھر ہے ہندوﺅں نے بھی اپنے گھروں کی چوکھٹوں پر لکھوا لیا ہے ،پاک فوج کو بتایا گیا ہے کہ ہندو سب انڈیا کے ایجنٹ ہیں اور مکتی باہنی کو اپنے گھروں میں رکھ کر چوری چھپے پاک فوج پر حملہ کرواتے ہیں اسلیے فوجی جہاں ہندو کا گھر دیکھتے ہیں اس کی تلاشی لیتے ہیں اور اگر کوئی شک ہو جائے تو جلا دیتے ہیں اس لیے سب اپنے گھروں کو محفوظ کرنے کے لیے اللہ رسولﷺ کا نام دروازوں پر لکھوا لیتے ہیں۔ یہ ٹکا خان کا دور ہے ا ور سنا ہے اس نے پاک آرمی کو آڈر دے رکھا ہے کہ جو بھی آدمی مشکوک نظر آئے اسکو فوراً گولی مار دو ہم کو یہاں کی زمین چاہیے آدمی نہیں!! یہ کہہ کر بنگالی بھائی خاموش تو ہو گیا مگر اس آنکھوں میں سوال صاف دکھائی دے رہا تھا جیسے وہ پوچھ رہا ہو کہ ایسا کیوں کہا ٹکا خان نے !! کیا ہم لوگوں کو جینے کا حق نہیں ہے ؟ کیا ہم لوگوں کو وہ انسان نہیں کیڑے مکوڑے سمجھتا ہے وہ ؟واقعی اس کی بات سن کر میرے دماغ میں بھی اسی طرح کے خیال آ رہے تھے اگر میں اس کی جگہ ہوتا تو ایسا ہی سوچتا۔یہاں ایک چیز کی وضاحت کرتا چلوں کہ انڈین لابی کا پروپیگنڈا اتنا زبردست تھا کہ ایک پاکستان سے محبت کرنے والا بھی دل برد ا شتہ ہو جاتا جب ایسی باتیں سُنتا ،ایک پوسٹر جو ہم نے عام گلیوں بازاروں میں لگا دیکھا جس پر ایک طرف مشرقی پاکستان اور دوسری طرف مغربی پاکستان کا نقشہ بنا کر اوپر ایک گائے کو کھڑا دکھایا گیا جس کا منہ مشرقی پاکستان میں اور دودھ والا حصہ مغربی پاکستان میں تھا جس سے یہ ظاہر کیا گیا کہ گائے کھاتی تو یہاں سے ہے مگر اس کا دودھ مغربی پاکستان والے پیتے ہیں، اس کے علاوہ اور بھی بہت افوائیں سننے میں آتی تھیں، مثلاً کرنافلی پیپر مل میں جو کاغذ بنتا ہے وہ پہلے ویسٹ پاکستان جاتا ہے پھر وہاں سے مُہر لگ کر آتا ہے اور یہاں مہنگے داموں ملتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے اگر آپ کو دس باتیں جھوٹی سنائی جائیں گی تو کسی ایک پر تو آپ کو یقین آ ہی جائے گا، مگر اس کے مقابلے میں ہماری قیادت بالکل خاموشی اختیار کئے ہوئے تھی۔ اور کیا بھی تو کیا کہ یہاں سے ایک ایس ۔ایف کے نام سے فورس بھرتی کر کے بھیج دی جس میں زیادہ تر ان پڑھ اور اجڈ قسم کے لوگ تھے جہنوں نے وہاں جا کر ایسے ایسے کارنامے کئے کہ اللہ کی پناہ !! ان کے سامنے تو پنجاب پولیس والے بھی شرما جائیں ،وہ اگر کسی دوکان میں گھس جاتے تو بغیر پیسے دیئے جو دل میں آتا اٹھا لیتے کسی غریب جوتا پالش کرنے والے سے جوتا پالش کرواتے تو اس کو پیسے دینے کی بجائے جھڑکیاں اور گالیاں دے کر فخر محسوس کرتے ، یہ سب میری ان گناہگار آنکھوں نے دیکھا کوئی سنی سنائی بات نہیں تھی بس یہی سوچتے سوچتے سامنے افسار بھائی کے رشتہ دار کی فیکٹری کا گیٹ آ گیا ، دربان نے چھوٹا دروازہ کھول کر ہمیں سلوٹ مارا اور اندر آنے کو کہا فیکٹری کا مالک جس کا نام عبدالمالک چوہدری تھا اپنے آفس کے دروازے پر ہمیں خوش آمدید کہنے کے لیے کھڑا تھا کیونکہ اس کو فون پر پہلے ہی ہمارے آنے کی اطلاع مل چکی تھی،سلام کلام کے بعد آفس میں بٹھانے کے ساتھ ساتھ چائے وغیرہ کا آڈر دے دیا گیا، رائے صاحب نے رسماً منع بھی کیا مگر میزبان نے یہ کہہ کر کہ آپ تو ہمارے مہمان ہیں اور آپ کی خدمت کرنا میرا اخلاقی فرض بنتا ہے ہمیں خاموش کر دیا۔

رائے صاحب نے خاموشی توڑتے ہوئے پوچھا ، کیا حال چال ہے آپ کی فیکٹری کیسی چل رہی ہے؟ عبدالمالک صاحب نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے بڑے شکوہ کرنے والے انداز سے کہا، کچھ مت پوچھئے صاحب ہم تو دونوں طرف سے عتاب میں ہیں ،آرمی والے کہتے ہیں فیکٹری چلاﺅ جب کہ مکتی باہنی والے آتے ہیں تو کہتے ہیں خبردار اگر فیکٹری چلائی تو سب کچھ بم مار کے اُڑا دیں گے، ادھر بجلی بھی بند رہتی ہے کیونکہ مکتی باہنی والے بجلی کے کھمبے ہی اُڑا دیتے ہیں ، ہم کیا کریں صاحب ہماری تو جان عذاب میں ہے، نہ دن کو چین نہ رات کو آرام، اب آپ ہی کوئی حل بتائیں ہم لوگ کہاں جائیں۔ ؟ اُن کی یہ پریشان کُن باتیں سن کر سوائے ان کو تسلی دینے کے اور ہم کر بھی کیا سکتے تھے سو یہی کچھ کر کے واپس آ کر اسی کشتی میں بیٹھے تو دیکھا کہ واقعی پانی مشرق کی طرف رواں دواں تھا۔

اس کے بعد کے حالات انشاللہ اگلی قسط میں!!
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 77160 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.