پاکستان سے بنگلہ دیش تک -دوسری قسط

ساڑھے تین سو جوان لاپتہ

مُکتی باہنی کو ان کے حال پر چھوڑا اور ہم لوگ چائے بسکٹ کھا کر واپس اپنے ڈیرے پر آ کر موجودہ صورت حال پر غور کرنے بیٹھ گئے ، رائے عبدالغفور صاحب نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں میں ایسا جذبہ کہاں سے آیا جب کہ یہاں غربت کے مارے لوگ دال بھات(دال چاول) کھانے کے لیے سارا دن سائیکل رکشہ چلاتے ہیں اور اتنی مشقت کرنے کے بعد بھی اچھا کپڑا اور پاﺅں میں جوتا نصیب نہیں ہوتا، دیکھنے میں تو یہ نوجوان جس کو ہم لوگ مُکتی باہنی کے روپ میں دیکھ کر آئے ہیں کوئی سائیکل رکشہ چلانے والا ہی لگتا تھا۔ جی رائے صاحب ہو سکتا آپ نے درست اندازا لگایا ہو، مجھے بھی ایسا ہی لگا کیونکہ بھوک اور غربت ہی انسان کو گمراہ کر دیتی ہے اور اسی کمزوری سے لیڈر لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں غریب کو روٹی کپڑے کا اور امیر بنانے کا لالچ دے کر آگے کر دیتے ہیں جو اپنی جان کی بازی لگا دیتا ہے اور آخر کار اس شعر کے مصداق بن جاتا ہے ”نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم“ (شعر کا دوسرا مصرہ آگے کسی مناسب موقع پر آئے گا) میں نے یہ کہہ کر اپنا بستر ٹھیک کیا اور سونے کی تیاری کرنے لگا، رائے صاحب کو شاید نیند نہیں آ رہی تھی ، انہوں نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ، اگر شیخ مجیب کو اکثریت ملی ہے تو حکومت کرنے کا بھی حق تو اسی کا بنتا ہے، آپ کا کیا خیال ہے ؟ مجھے بھی ان کے خیال سے اتفاق تھا مگر ہمارے حکمران یا کرتا دھرتا پتہ نہیں کیا سوچ رہے تھے جبکہ ایک بات تو طے تھی کہ اگر مجیب کو حکومت مل جاتی تو وہ سب سے پہلے اپنے چھ نکات پر عمل کرتے ہوئے اپنی کرنسی علیحدہ کرتا اس کے بعد وہاں کی آمدنی وہیں خرچ ہوتی مرکز وہاں ہوتا فوج علیحدہ ہوتی یعنی عملی طور پر وہ ایک علیحدہ ملک بن جاتا ، اور یہ بات یہاں والوں کو قبول نہیں تھی حالانکہ جغرافیائی اور ثقافتی لحاظ سے تو ویسے بھی وہ ہم سے الگ ہی تھا ، بہر حال میں نے رائے صاحب سے بحث کرنے کی بجائے یہ سوال کر کے بات کو پلٹ دیا کہ اب واپسی کے بارے میں آپ کیا سوچ رہے ہیں ؟ رائے صاحب نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ،پتہ چلا ہے کہ یہاں پنجاب پولیس کے کچھ لوگ ڈیوٹی پر آئے ہوئے ہیں ان سے یہاں کے حالات کا صحیح اندازہ مل سکے گا کیوں نہ کل ان سے ملاقات کریں ؟ میں نے حامی بھرتے ہوئے کروٹ لی اور سو گیا۔

دوسرے دن صبح نہا دھو کر ناشتہ کیا اور راجر باغ پولیس لائن کا رخ کیا، یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس وقت مشرقی پاکستان میں سول نافرمانی کی تحریک زوروں پر تھی اور ڈاﺅن ٹو ڈیسک ہڑتالیں بھی ہو رہی تھیں جسکا مقابلہ کرنے کے لیے مغربی پاکستان سے ہر شعبہ کے کچھ لوگ مشرقی پاکستان بھیجے گئے تھے تا کہ کسی رکاوٹ کے بنا حکومت کا نظام چلتا رہے ، اسی سلسلے میں پنجاب پولیس کی کچھ نفری وہاں بھیجی گئی تھی۔

خیر ہم لوگ ڈی۔ سی پولیس کے آفس پہنچے اور ایک چٹ پر اپنا اپنا نام اور پتہ لکھ کر چٹ اندر بھیجی تو ہمیں فوراً ہی بلا لیا گیا ،ڈی سی صاحب جن کا تعلق لاہور سے تھا بڑی خوش مزاجی سے پیش آئے چائے کا آرڈر دیا اور ہماری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے فرمانے لگے، کہیے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔؟ رائے صاحب نے بھی خوش مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا، بس آپ سے ملنے کو دل چاہا اور کچھ یہاں کے حالات جاننے کی بھی خواہش تھی کیونکہ ہم لوگ دو روز پہلے ہی یہاں پہنچے ہیں اور یہاں کے بارے آپ سے بہتر کون جان سکتا ہے ۔اسی سلسلے میں حاضر ہوئے ہیں کہ آپ سے کچھ صحیح معلومات مل جائیں گی ورنہ یہاں تو لوگوں نے ہمیں ڈرا ہی دیا ہے اور کہتے ہیں فوراً واپس چلے جاﺅ، کیا حالات اتنے ہی بگڑ چکے ہیں ؟

ڈی سی صاحب نے ذرا غور سے ہمیں دیکھا جیسے اندازہ کر رہے ہوں کہ کہیں ہم لوگ کسی خفیہ ادراے کے لوگ تو نہیں ہیں کیونکہ ان دنوں پاکستانی خفیہ ادارے کے لوگ بھی وہاں سرگرم تھے، ہمارا حلیہ بھی ایسا نہیں تھا اور رائے صاحب کی لمبی ریش بڑھتی عمر اور سر پر جناح کیپ دیکھ کر وہ مطمئن ہو کر بولے، آپ کو حالات کا کیا بتائیں صاحب یہاں تو سب کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں ، کچھ دیر توقف کے بعد بولے، ہماری پنجاب پولیس کے تین سو پچاس کے قریب جوان لا پتہ ہیں جن کی کوئی خبر نہیں کہ ان کو زمین کھا گئی کہ آسمان نگل گیا، یہ کہہ کر وہ پریشا نی کے عالم میں ادھر اُدھر دیکھنے لگے، رائے صاحب نے بھی پریشا ن ہو کر پوچھا، وہ کیسے ۔ ڈی سی صاحب نے تفصیل بتاتے ہوئے کہنا شروع کیا، جیسا کہ آپ کو معلوم ہے یہاں سول نافرمانی زوروں پر ہے یہاں کی پولیس بھی کوئی تعاون نہیں کرتی ، لہٰذا پانچ پانچ جوان جو پنجاب پولیس سے ہیں ہم نے یہاں ہر تھانے میں تعینات کر رکھے ہیں،انہیں میں سے یہ لوگ لاپتہ ہیں۔ رائے صاحب نے لقمہ دیتے ہوئے کہا، صاحب آپ تو پولیس والے ہیں آپ سے کیا چیز چھپ سکتی ہے آخر کوئی نہ کوئی سراغ تو ملا ہو گا جس سے پتہ چلے کہ یہ لوگ کہاں غائب ہوئے۔ڈی سی صاحب نے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے کہنا شروع کیا جی ہاں کچھ پتہ چلا ہے کہ اس میں کچھ عورتوں کا ہاتھ ہے جو کچھ تو انڈیا سے اسی مقصد کے لیے بلائی گئی ہیں زور کچھ یہاں کی عورتیں بھی اس میں ملوث ہیں ،واردات کا طریقہ وہی پرانا ہے کہ وہ آنکھ کے اشاروں سے ہمارے جوانوں کو اپنے پیچھے لگا کر ایسی جگہ لے جاتی ہیں جہاں پہلے سے ان کے ساتھی چھپے ہوتے ہیں بس جوان جب اسلحہ وغیرہ ایک طرف رکھ دیتا ہے تو چھپے ہوئے لوگ اچانک نکل کر ہمارے جوانوں کو بے دردی سے مار کر وہیں گڑھا کھود کر دفن کر دیتے ہیں اس میں لوکل پولیس والے بھی ان سے ملے ہوتے ہیں، شاید ان میں سے کچھ جوان چوری چھپے واپس بھی چلے گئے ہوں کیونکہ صرف تین سو پچاس روپے کی ڈھاکہ کراچی کی پی۔آئی ۔اے کی ٹکٹ ہے ایک ہی ملک ہے لہٰذا ویزے پاسپورٹ کی بھی ضرورت نہیں،کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بڑے حسرت بھرے لہجے میں بولے ،کاش میں بھی ایک عام سا سپاہی ہوتا تو میں بھی اس انجانے دیس میں کبھی نہ رکتا جہاں کی نہ زبان سمجھ میں آتی ہے نہ پتہ چلتا ہے کہ دشمن کون ہے اور دوست کون ہے، ویسے میں نے بھی ٹرانسفر کی درخواست بھیجی ہوئی ہے مگر میری جگہ پر آنے کے لیے کوئی تیار ہی نہیں ،!! بہرحال ان کی باتیں سن کر جب واپس آ رہے تھے تو میں تو اپنے دل ہی دل میں سوچ لیا کہ اب تو رکنے کا سوال ہی نہیں اسی دھن میں رائے صاحب سے پوچھا کیوں رائے صاحب اب کیا ارادہ ہے ؟ رائے صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا، ڈیرے پہ چل کر بتاﺅں گا!!!

ڈیرے پر پہنچے تو کھانا تیار تھا ۔کھانے کے بعد رائے صاحب نے کہا ”بھئی آپ نے اپنے کام کے بارے میں تو کچھ بتایا ہی نہیں کہ کس کاروباری سلسلے میں آپ نے اتنا لمبا اور خطرناک سفر کیا،ذرا مجھے بھی تو پتہ چلے تاکہ میں کسی فیصلے پر پہنچ سکوں ۔

میں نے بات ٹالنے کے لیے کہا ،رائے صاحب چھوڑئے کام کو اور واپسی کی تیاری کیجئے! مگر رائے صاحب کہاں ماننے والے تھے کہنے لگے جب تک آپ کام نہیں بتائیں گے میں کوئی فیصلہ نہیں کر پاؤں گا۔ میں نے ان کا اسرار دیکھ کر کہا، بھائی میں تو یہاں بانس خریدنے کے لیے آیا تھا ( مغربی پاکستان میں اس وقت بانس بالکل پیدا نہیں ہوتا تھا سب مشرقی پاکستان سے جاتا تھا) تو کیا کچھ خریدے بغیر ہی واپس جاﺅ گے۔؟ رائے صاحب نے طنز کرتے ہوئے کہا۔ میں نے کہا حا لات اچھے ہوتے تو ضرور خریدتا ۔۔۔۔ رائے صاحب نے لاپرواہی سے کہا،کیا ہوا حالات کو۔؟ ہم لوگ جو دو تین دن سے گھوم رہے ہیں کسی نے پکڑا یا کسی نے ہم کو کچھ کہا۔؟ یہ کہتے ہوئے ان کے چہرے پر کچھ غصے کے آثار نظر آنے لگے جنہیں دیکھ کر میں اپنے آپ میں کچھ شرم سی محسوس کرنے لگا،ایسا لگتا تھا جیسے جتنی باتیں لوگوں نے ڈرانے کے لیے کی ان کا الٹا اثر ہوا تھا اُن پر ، مجھے لگا کہ میں ہی بزدلی دکھا رہا ہوں ان کے ارادے تو اور بھی مضبوط ہوئے ہیں ۔

میں نے چپ رہنے میں خیریت جانی، تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد وہ خود ہی گویا ہوئے، کل انشااللہ ہم لوگ آپ کے کام کے لیے نکلیں گے دیکھیں گے کیا صورت بنتی ہے کام کی پھر کوئی فیصلہ کریں گے۔ کہ خالی ہاتھ واپس جانا ہے یا کچھ لے کر جانا ہے اتنی دور اتنا خرچہ کر کے آئے ہو خالی ہاتھ واپس جاﺅ گے تو وہی لوگ مذاق اڑائیں گے جنہوں نے آتے وقت آپ کو منع کیا تھا کہ حالات خراب ہیں آپ نہ جائیں جب آتے وقت کسی کی نہیں سنی تو اب جا کر سن سکو گے۔؟

واقعی میں نے تو یہ سوچا ہی نہیں تھا ،کہ میرا کیسا مذاق بنے گا مارکیٹ میں لوگ کیا کہیں گے بڑے دعوے کے ساتھ گیا تھا کہ مال لے کر ہی آﺅں گا ، کہاں ہے مال اپنے چچا نے منع کیا بھائی نے روکا مگر اس وقت تو بس ایک دھن سوار تھی !! اور بات بھی کچھ ایسے ہی ہوئی کہ ایک پارٹی سے مال مانگا اس نے کہا مال تو مشرقی پاکستان سے آتا ہے اور وہاں کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے مال کی ترسیل بند ہے آپ کو مال کہاں سے دیں ،! میں نے بھی اس وقت جوش میں آکر ان سے کہہ دیا کہ دیکھ لینا میں بھی ڈھاکے جاﺅں گا اور مال لے کر آﺅں گا پھر تم میرے پاس آﺅ گے تو میں تمہیں خالی نہیں لوٹاﺅں گا،۔۔ انہوں نے بھی میرا مذاق بناتے ہوئے کہا ہاں ہاں تم ڈھاکے ڈھاک پر چڑھ کر جاﺅ گے وہاں کے حالات اتنے خراب ہیں کہ اگر جاﺅ گے تو بہت پچھتاﺅ گے۔ میں نے اس کو اپنی آن کا مسئلہ بنا لیا اور بغیر سوچے سمجھے سب کے منع کرنے کے باوجود چلا آیا اس پہلے کبھی یہاں آیا بھی نہیں تھا اس لیے حالات سے بے خبر نہ کوئی جان نہ پہچان صرف ایک کزن کا ایڈریس لے کر چل پڑا ۔ یہ تو یہاں آ کر پتہ چلا کہ یہاں کی زبان مختلف ہے ، یہاں کے لوگ اجنبی، ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے کوئی اردو جاننے والا ڈھونڈنا پڑتا ہے ۔ بہر حال میں نے رائے صاحب کی ہاں میں ہاں ملائی اور وہاں کے لوگوں سے جو ہماری زبان سمجھتے تھے بانس کی مارکیٹ کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنا شروع کر دیں۔ سب نے ایک ہی مشورہ دیا کہ بانس کی پیداوار زیادہ تر پہاڑی علاقے میں ہوتی ہے اور اس کے لیے آپ کو چٹاگانگ جانا پڑے گا ، وہیں پر بندرگاہ بھی ہے آپ کا مال چونکہ بحری جہاز میں جائے گا اس لیے آپ کو سب سہولتیں وہاں مل جائیں گی۔۔

رائے صاحب نے اپنا فیصلہ صادر کرتے ہوئے کہا، میرا کوئی کام تو چٹاگانگ میں نہیں مگر پھر بھی میں آپ کے ساتھ جاؤں گا ، لہٰذا ہم لوگ تیاری میں لگ گئے ایک فوجی بھائی کے توسط سے ہوائی جہاز کے دو ٹکٹ حاصل کئے جو دو دن بعد کے تھے اس وقت کرایہ بھی صرف پچاس روپے ہوتا تھا اب دو دن کا پروگرام بنانے لگے کہ کیسے گزارنے ہیں۔

اس کے بعد کا حال انشااللہ اگلی قسط میں ملاخطہ فرمائیں۔
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 84035 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.