امن کمیٹیاں
آج کا دن جماعت کے دفتر میں گزاریں گے اور یہیں سے کچھ چٹاگانگ کے بارے میں
معلومات حاصل کریں گے، میں نے رائے صاحب کو صبح ناشتے کرتے ہوئے کہا ، رائے
صاحب نے بھی میری ہاں میں ہاں ملا ئی، کیونکہ دوسرے دن صبح نو بجے کی فلائٹ
سے ہم کو چٹاگانگ جانا تھا۔ہم لوگ جماعت کے دفتر جو ساتھ ہی تھا ،داخل ہوئے
تو ہمیں نائب امیر صاحب نے بتایا کہ مغربی پاکستان سے راجہ بشارت اور ڈاکٹر
نذیر صاحب آئے ہیں جو دھان منڈی میں پروفیسر غلام اعظم صاحب (جو اُس وقت
وہاں جماعت کے امیر تھے) کے گھر پر ٹھہرے ہیں ۔یہ سن کر رائے صاحب نے اُن
سے ملاقات کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو نائب امیر صاحب نے فون کر کے پروفیسر
صاحب سے وقت لے کر ہم کو بتایا کہ ابھی وہ لوگ میٹنگ میں ہیں لہٰذا آپ لوگ
شام کے وقت ان سے ملاقات کر سکتے ہیں۔میں نے ایک سوال جو بہت دنوں سے میرے
ذہن میں گھوم رہا تھا اور نائب امیر صاحب سے پوچھنے کے لیئے موقع کی تلاش
میں تھا اسے زبان پر لاتے ہوئے کہا، مولانا صاحب ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں
اگر اجازت ہو ۔؟ انہوں مسکراتے ہوئے کہا پوچھئے آپ تو مہمان ہیں آپ کے سوال
کا جواب دینا تو میرا فرض ہے !!
میں نے بغیر کسی تمہید کے کہا ، مولانا صاحب میں جس دن سے آیا ہوں آپ کے
دفتر میں کچھ لوگوں کو اسلحہ کے ساتھ آتے جاتے دیکھ رہا ہوں انہوں نے کوئی
وردی بھی نہیں پہنی ہوتی جس سے اندازہ ہو کہ وہ کس محکمہ سے تعلق رکھتے
ہیں!! بس لنگی اور شرٹ میں ملبوس ہوتے ہیں اور بعض تو پاﺅں میں جوتا بھی
نہیں پہنے ہوتے، یہ کون لوگ ہیں ؟؟؟مولانا صاحب نے بدستور مسکراتے ہوئے
جواب دیا”رضاکار“ یہ لوگ رضاکار ہیں اور اللہ کی رضا کے لیے اور اپنے ملک
پاکستان کی حفاظت کے لئے رضاکار فورس میں بھرتی ہوئے ہیں اور ہم لوگوں نے
ان کی خدمات پاک فوج کو پیش کی ہیں، ان کا کام ہے پاک آرمی جو ویسٹ پاکستان
سے آئی ہے ان کے ساتھ رہ کر اُن کو راستے دکھانا اور جس علاقے یا گاﺅں کے
یہ لوگ ہیں وہاں کے لوگوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنا کہ کون دوست ہے
اور کون دشمن یہ آکر ہم لوگوں کو بتاتے ہیں پھر ہم لوگ پاک آرمی کو مطلع
کرتے ہیں کہ فلاں علاقے میں مکتی باہنی چھپے ہوئے ہیں اور ان کا ساتھ وہاں
کون دے رہا ہے اس کے بعد پاک آرمی ایکشن لیتی ہے۔ کیونکہ وہ تو یہاں کی
زبان اور راستوں سے لاعلم ہیں، اس لیے ان لوگوں کی اس وقت بڑی خدمات
ہیں۔میں نے ذرا اور وضاحت کے لیئے پوچھا ،تو کیا یہ سب جماعت کے کارکن ہیں؟
انہوں نے جواب میں بتایا کہ کچھ لوگ مسلم لیگ اور جمیعت العلمائے اسلام سے
بھی تعلق رکھتے ہیں ہم لوگوں نے یہاں ”امن کمیٹیاں“ بنائی ہیں جس میں”
عوامی لیگ “ کے علاوہ ہر پارٹی کے لوگ ہیں، جو ہر علاقے سے رضا کار بھرتی
کر کے ہمارے پاس بھیجتے ہیں اور ہم لوگ ان کو چھا ن بین کرنے کے بعدایک
شناختی کارڈ جاری کر دیتے ہیں جس پر پاک آرمی کی طرف سے اُن کو بندوق وغیرہ
مل جاتی ہے۔ میں نے تعریف کرتے ہوئے کہا یہ تو آپ لوگ ملک کی بہت بڑی خدمت
کر رہے ہیں اور جزاک اللہ کہہ کر ان سے ہاتھ ملایا۔( قارئین کو یہاں موجودہ
صوت حال سے بھی آگاہی دینا ضروری ہے کہ وہی رضاکار آج موجودہ عوامی لیگ کی
حکومت کے عتاب میں آئے ہوئے ہیں اور بڑھاپے میں جیل کی سختیاں اور ریمانڈ
کے ٹارچروں کا سامنا کر رہے ہیں ان پر جنگی جرائم، پاک فوج کا ساتھ دینے
اور مجموعی قتل عام جیسے الزا مات ہیں، دنیا بڑی سمٹ گئی ہے !! ابھی بیس
اپریل دو ہزار گیارہ کو میں نے ایک بنگلہ دیشی نیوز چینل اے۔ٹی۔این جو کہ
کراچی میں بھی دیکھا جا تا ہے مولانا دلاور حسین سیدی کو دیکھا جو اپنی
شعلہ بیانی کے لیے پورے بنگلہ دیش میں مشہور ہیں ،مہندی لگی داڑھی سر پر
اونچی۔۔ گول ٹوپی ان کو پولیس خصوصی عدالت جو صرف” جدھو اپردھی“ (جنگی
جرائم) والوں کے لیے بنائی گئی ہے، ہتھکڑی کے ساتھ باہر لارہی تھی۔ اس کے
ساتھ ہی ایک سرکاری وکیل بتا رہا تھا کہ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے جو
ہندو پاک فوج سے ڈر کر ہندوستان بھاگ گئے تھے ان کے گھروں کی ٹین کی چھتوں
سے ٹین اتار کر انہیں بیچا اور پیسے آپس میں بانٹ لیے، کیا مضحکہ خیز الزام
تھا، میرے ذہن میں اس وقت یہ خیال آتا گیا کہ جو مغربی پاکستانی اپنا سب
کچھ چھوڑ کر آئے تھے ان کی دکانیں، فیکٹریاں اور بنگلے تک ہضم کر لیے ، مگر
ہندو کی ٹین کی چھت ہضم نہ ہوئی اس کا کیس بنا دیا کیا عجب دستورے دنیا ہے
کہ جو پاکستان کے وفادار تھے وہ بنگلہ دیش کے غدار کہلائے اور جنہوں نے
ہندو سے مل کر پاکستان کو توڑا ،، وہ ہیرو بن گئے۔ اللہ کی شان ہے کہ اچھا
انسان جب اس کی راہ سے ذرا سا بھی ہٹ جاتا ہے تو اُس کو راستے پر لانے کے
لیے تھوڑی سی آزمائش میں ڈال دیتا ہے، مثال اس کی یوں ہے کہ جیسے جماعت نے
ایک وقت میں فاطمہ جناح کا ساتھ اس لیے نہیں دیا کہ عورت کی حکومت شرع کے
خلاف کام ہے مگر بنگلہ دیش میں جماعت نے اقتدار کے لیے خالدہ ضیاء کا ساتھ
دے کر شرع کے خلاف کام کیا، نواز شریف نے پاکستان میں جمعہ کی چھٹی کی
بجائے اتوار کی چھٹی اس لیے کی کہ ہم مغربی دنیا کے ساتھ چل سکیں مگر دنیا
بنانے والے کے حکم کو پسِ پشت ڈال دیا۔ بہر حال یہ تو میرے اپنے دلی جذبات
ہیں جو اس کہانی کے ساتھ ساتھ چلتے رہیں گے۔ شام کو جب ہم لوگ پروفیسر غلام
اعظم صاحب کی کوٹھی جو کہ شیخ مجیب کی رہائش گا ہ بتیس نمبر دھان منڈی کے
قریب ہی تھی پہنچے تو پروفیسر صاحب نے بڑی خوشدلی سے ہمارا استقبال کیا
جبکہ راجہ بشارت اور ڈاکٹر نذیرصاحب بھی وہاں موجود تھے ، ڈاکٹر صاحب رحیم
یار خاں اور راجہ صاحب کا تعلق راولپنڈی سے تھا، یہ دونوں صاحبان اپنے اپنے
حلقوں سے انتخاب جیت کر ایم ۔این۔ اے منتخب ہوچکے تھے اور یہاں پر کسی ہائی
لیول کی میٹنگ جو صبح ہو چکی تھی فارغ ہو کر واپسی کی جلدی میں تھے، پر
تکلف چائے کی میز پر ایک دوسرے سے تبادلہ خیال ہوا، سب کو ایک ہی فکر لاحق
تھی کہ حالات دن بدن ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں اگر ہندوستان نے حملہ کر دیا
تو یہاں کا دفاع نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا، سب کے چہروں پر اُمید اور
نا اُمیدی کے آثار تھے، میں نے تو گفتگو میں بس معمولی سا حصہ لیا کیونکہ
میں تو سیاست کی الف ب سے بھی واقف نہیں تھا لہذا خاموشی سے ان کی باتیں
سنتا رہا جو زیادہ تر موجودہ حالات کے بارے میں تھیں کہ ان کو کیسے کنٹرول
میں لایا جائے۔چائے پی کر واپسی ہوئی تو رات ہو چکی تھی، لہذا ادھر اُدھرکی
باتیں کرتے ہوئے پتہ ہی نہیں چلا کس وقت آنکھ لگی۔صبح وقت پر ائر پورٹ
پہنچے جو ”کرمی ٹولہ“ میں دو کمروں اور ایک رن وے پر مشتمل تھا ،ائر پورٹ
لاﺅنج میں بیٹھے تھے کہ میر ی نظر ایک فوجی آفیسر پر پڑی جو ایک ساڑھی میں
ملبوس عورت کے آگے پیچھے بڑے والہانہ انداز میں گھوم رہا تھا شاید اسے
سی۔آف کرنے آیا تھا اُسے ایسا کرتے دیکھ کر مجھے نامعلوم کیوں کراہت سی
محسوس ہوئی، شاید اس لیے کہ ایک فوجی جوان کو ایسا کرنا زیب نہیں دیتا ،
لباس سے وہ عورت مقامی لگتی تھی ، بس اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ میرے دل میں
اس فوجی جوان کے لیے ایسے جذبات کیوں پیدا ہوئے۔
اس کے بعد کے حالات انشااللہ گلی قسط میں ملاخطہ فرمائیں۔ |