میری عادت ہے کہ اپنے مضمون کے شروع میں ایک واقعہ، قصہ
یا کوئی مثال تحریر کرتا ہوں جس سے تحریر اگر چہ طویل ہو جاتا ہے لیکن اس
سے قارئین کو بحث کا حاصل سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ آج تبدیلی سرکار کے
ہاتھوں ملک میں جو تباہی برپا ہوئی ہے اس کا تجزیہ کرتے ہوئے طبیعت میں کچھ
عجلت سی آگئی ہے کہ آج بغیر تمہید باندھے اپنے قلم سے اپناسینہ چاک کر دوں
اور اپنا سوزِ دروںبیاں کردوں۔
عزیزانِ من۔ ہمارے بزرگوں نے بہت بھاری قیمت چکا کر زمین کا یہ ٹکڑا حاصل
کیا تھا جسے پاکستان کے نام سے موسوم کیا گیا تھا۔ لفظ پاکستان کے خالق"
چودھری رحمت علی" کے مطابق پاکستان کے پکا تعلق پنجاب ،ا کا تعلق افغان"
پختون" ک کا تعلق کشمیر، س کا تعلق سندھ اور تان کا تعلق بلوچستان سے ہے۔
ان بندگانِ خدا نے جانومال کے نظرانے اسی لیے تو پیش کیے تھے کہاگر ہم نہیں
تو ہماری اولاد زمین کے اس حصے پر آزادی کے ساتھ رہیں گے۔کثیراللسان
ہونےباوجود کے ہم ایک ملت بن کر رہیں گے اور آزادانہ طور پراپنی دینی اور
ثقافتی اقدار کو قائم رکھے گے۔ اس وقت صورتحال کچھ یوں تھی کہ مسلمانانِ
ہند کی بڑی سیاسی جماعت جو ایک علیحدہ ملک کے لیے جدو جہدکر رہی تھی وہ"
مسلم لیگ" تھی۔ جس کے روحِ رواں قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔ اگر چہ ان کی
جماعت میں جاگیرداروں اور چودھریوں کی کثرت تھی لیکن قائد اعظم اور دوسرے
مسلمانوں کی طرح وہ چودھری اورجاگیردار بھی علیحدگی کے لیے سنجیدگی سے برسرِ
پیکارتھے۔ بلآخر ان سب کی مخلصانہ جدوجہد کے نتیجے میں نصرت خداوندی آپہنچی
اور وہ ایک علیحدہ ملک کے حصول میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن قائد اعظم اور ان
بزرگوں کی قربانیاں اسوقت رائیگاں ہوگئی جب وہ جاگیردار اور چودھری یعنی
چند امیر خاندان اقتدار کے حصول کے لیے مشت وگریباں ہوگئےاور ایک دوسرے کے
خلاف سازشیں کرنے لگے۔ نتیجتاً آزادی کے صرف چار سال بعد پاکستان کا پہلا
وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان سر عام گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ اس کے
بعد 1951 سے لیکر 1958 تک 6 وزرائے اعظمپے در پے محلاتی موسیقی کے ساز پر
رقص کرتے چلے گئے۔ پاکستانی وزرائے اعظم کے اس رقص پر جہاں ہندوستان کے
وزیراعظم جواہر لعل نہرو کو یہ کہنے کی جرأت ہوئی کہ میںتو اتنی جلدی
دھوتیاں نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستانی وزیراعظمبدلتے ہیں، ویسے ہی پاکستان
کے سرحدوں کے رکھوالوں کو وہ رقص براہِ راست دیکھنے کا شوقہوا اور انہوں نے
صدارتی محل کی طرف پیش قدمی شروع کی۔ اس وقت کا سپہ سالار جب صدارتی محل
پہنچا تو اسےرقص سے زیادہ وہ محل پسند آیاچناں چہ سپہ سالارزبردستی
صدارتیکرسی پر براجمان ہوا۔ لیکن عوامجن کی گردنوں پر غلامی کے طوق کے
نشانات ابھی تک باقی تھے وہ دوبارہ کیسے محکوم بننا گوارا کر سکتے تھے۔ وہ
تو سمندر کی موجوں کی طرح جوش مارنے لگی۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم نے ان لوگوں
سے اپنا حقوصول کیا ہے جن کی سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ لیکن
افسوس انہیں معلوم نہیں تھا کہ اس بار وہ اتحاد نہیںرہے گا اس بار"اُدھرتم
ادھر ہم " جیسے نفرت کا بیچ بویا گیا تھا۔ بلآخر زمین وآسمان نے وہ منظر
بھی دیکھ لیا کہ بے گناہوں کی آہو بکا اس شام کا نغمہ بنا جس میں اپنوں کے
ہاتھوں بہائے گئے خون کے سمندر میں مشرقی پاکستان کا آخریسورج ڈوب گیا۔
• عزیزانِ من۔ سقوط ڈھاکہ کے عظیم سانحہ کے بعد پاکستانی قوم واقعی روٹی،
کپڑے اور مکان کے لیے ترستی تھی کیوں کہ ملک کی ساری دولت صرف چند خاندانوں
کی گھر کی لونڈی بنی رہتی تھی عین اسی وقت ذوالفقار علی بھٹو غریب کی آواز
بن کر ابھرے اور اس نے جو نعرہ لگایا وہ ہر غریب کے دل کی صدا تھی " کہ یہ
خدا کا قانون نہیں ہے کہ غریب ہمیشہ غریب رہے گا" بھٹو صاحب کے نعروں نے
پاکستان کے مردہ جسم میں نئی روح پھونک دی اور پوری قوم بھٹو صاحب کے ساتھ
کھڑی ہوگئی اور یہ وہ جذبہ تھا جس نے ہمیں ایٹمی طاقت بنایا۔ بھٹو صاحب نے
قوم پر بہت سارے احسانات کیے اور ہر وقت یہ باور کراتا رہا کہ طاقت کا
سرچشمہ عوام ہے لیکن عواماب یہ سمجھ چکی تھی کہ ہم نے طاقت کا مظاہرہ پہلے
کیا تھا جس کے بدلے ملک کے دو ٹکڑے ہوئے تھے۔ چناں چہ عوام نے بھٹو صاحب کا
جنازہ پڑھ کر امیر المومنین ضیاء الحق کے ہاتھ پر بیعت کر کے ملک کو مزید
سانحات سے بچا لیا۔ بہرحال امیر المومنین نے اپنی مرضی کے بغیر جب اس دنیا
سے پردہفرمایا تو جمہوریت کی گاڑی دوبارہ پٹری پر چل پڑی۔ لیکن اب صورتحال
کچھ یوں تھی کہ انہی جاگیرداروں اور چودھریوں کی نسل نے دو سیاسی جماعتوں
کا لبادہ اوڑھ لیاتھا یعنی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی۔ ان دونوں جماعتوں نے
بھی محلاتی موسیقی کے ساز پر خوب رقص کیااور دو دو مرتبہ سٹیج پر پرفارم
کرنے آئے۔ پیپلز پارٹی کے بارے میں تو طے ہے کہ وہ صاحبان آمرکو سرے سے
قبول ہی نہیں ہے اور رہے میاں صاحب وہ اگر چہ صاحبان آمر کو قبول تھے لیکن
ان کی بدقسمتییہ تھی کہ انہوں نے بہتجلد عوام کا اعتماد حاصل کیا اور اس
ملک کے معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی غلطی کر بیٹھا، سڑکیں اور
ترقیاتی منصوبے بنا کر بطور معمار بن کر ابھرا جس کا بدلہ انہیں جلاوطنی کی
صورت میں دیا گیا۔ نتیجتاً دونوں جماعتوں میں معاہدہ ہوا کہ آئیندہایک
دوسرے کی حکومت نہگرائیں گے اور باری باری اقتدار کی گاڑی چلائیں گے۔ لیکن
افسوسپیپلز پارٹی نےمحترمہ بینظیر کا جنازہ پڑھ کراس ملک کی معیشت کا بھی
جنازہ نکال دیا۔ پاکستان قطارستان بن گیا آٹے اور چینی وغیرہ لینے کے لیے
کھڑے لوگوں کی لمبی قطاریں چاند سے نظر آنے لگے، بجلی اور گیس غائب ہوگیا،
مہنگائی کا جن بوتل سے پورا نکل آیا تھا، ملک کا صرف کا ڈھانچہ رہ گیا تھا
اندر کچھ بھی نہیں تھا ۔ ملک بلکل حالت نزع میں تھا جب مسلم لیگ ن اقتدار
میں آئی، اور آئیکیا کہ بس چھا گئی۔ اتنی سخت مزاحمتوں کے باوجود ان کی
پرفامنس غضب کی تھی جس کا اعتراف ہر ذی شعور انسان کریگا بے شعور تو معذور
ہیں ان سے کیا گلہ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس ملک کے صاحبان امر نے کھلم کھلا
نواز شریف کی مخالفت کی، ان کے خلاف دھرنے دیئے گئے، عدالتوں کے ذریعے ان
پر پریشر ڈالا گیا ، جھوٹے مقدمات بنائے گئے الغرض قدم بہ قدم روکاوٹیں
ڈالی گئی لیکن جو کام کرنا جانتا ہو وہ کر لیتا ہے اور دنیا نے دیکھ لیا کہ
سی پیک پر کام شروع ہوا، کراچی سے دہشت گردی ختم کی گئی، 11 ہزار میگاواٹ
بجلی پیدا کرکے سسٹم میں شامل کی گئی، گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں کمی
آئی، ڈالر کے تو پر کاٹ لیے گئے تھے جس میں اڑنے کی طاقت نہیں رہی تھی،
ملکی تاریخ میں پہلی بار اورنج لائن ٹرین اور میٹرو بس سروسشروع کی گئی جو
ایک عجوبے سے کم نہیں ہے۔
• عزیزانِ من۔سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا عوامی مسائل حل ہورہےتھے لیکن صاحبان
امر کو یہ ڈر تھا کہ نواز شریف تو پاکستان کا اردگان بن رہا ہے لہذٰا انہیں
عوام کے دلوں سے نکالنے کے لیےانہوں نے گٹر سے تبدیلی کا کیڑا اٹھایا اور
اسے بے شعور لوگوں میں ڈال دیا جس وہ اچھلنے کودنے لگے کہ تبدیلی آئی ہے۔
تبدیلی یہ آئیکہ ہر لحاظ سے نا اہل، اور دنیا کا سب سے بڑا جھوٹا شخص اس
ملک کا حکمران بنا۔ تبدیلی یہ آئی کہ آج مہنگائی کی شرح بلند ترین سطح پر
پہنچ گئی، ڈالر نے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیے، ملک کے چھوٹے بڑے سب
کاروباررک گئے، کراچی پھر سے سٹریٹ کرائم اور دہشت گردی کا اڈا بن گئی ہے،
ریاستی اداروں میں کرپشن کا بازار گرم ہے اور آٹے اور چینی کا بحران تو ان
لوگوں نے پیدا کیا ہے جو ہمہ وقت کپتانکے دائیں اور بائیں رہتے ہیں لیکن
کپتانکی اتنی جرأت نہیں ہورہی کہ انہیں روک سکےاور کیسے روکے کپتان تو اپنے
لیے کسی پتلی گلی کی تلاش میں ہے کہ جس سے بھاگا جاسکے ۔ آپکبھی غور کریں
کہ اس جملے کا کیا مطلب ہے کہ سیڑھیوں سے گرنے کے بعد جب مجھے ٹیکہ لگایا
گیا تو مجھے تبدیلی نظر آئیاور پاس کھڑی نرسیں حوریں نظر آنے لگی۔ کپتان
صاحب عوام سمجھتی ہیں کہ آپ کے"قمر" کو گرہن لگ چکا ہے اور آپجان بوجھ کر
ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ اور اپنے وزیرکے ہاتھوں ٹاک شو کے ٹیبل پر بوٹ رکھ
کر آپعوامکو یہ باور نہیں کراسکتے کہ اس تباہی کی ذمہ دار یہ ہے۔ یہ آپکا
بویا ہوا ہے جو آپکاٹ رہےہیں۔
• عزیزانِ من۔ خلاصۂ بحث یہ ہے کہ کپتان نیازی کلین بولڈ ہو چکے ہیں لہذا
ایمپائرکو چاہیے کہ وہ انگلی اٹھا کر کپتان کو پویلین بیجھے۔ اور موجودہ
حالات کے تناظر میں نواز شریفہی وہ ناخدا ہے جو طوفان میں گھیری اس کشتی کو
سلامتی کے ساتھ ساحل پر پہنچا سکتا ہے کیوں کہ نواز شریفاور اس کی ٹیم میں
یہ اہلیت ہے جس کا جائزہ ہم استحریر میں لےچکے ہیں۔ |