تحریر۔۔ جنید علی گوندل
دنیا بھر میں ہر کسی دن کسی نہ کسی مناسبت سے منایا جاتاہے ‘جیسے مئی کے
دوسرے ہفتے میں مدھر ڈے ‘جون کے تیسرے ہفتے میں فادر ڈے‘یکم مئی مزدوروں کے
عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے کہ بلکل اسی طرح ہر سال 5فروری کشمیریوں
کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جاتا ہے ‘پاکستان سمیت ماسوائے کچھ
چیدا چیدا ملکوں کے دنیا بھر میں 5فروری کا مہینہ شروع ہوتے ہی کشمیری حریت
پسندوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لئے کانفرنسیں اور تقاریب شروع ہو جاتی
ہیں۔ ان تقاریب میں جہاں کشمیریوں کی آزادی کی بات کی جاتی ہے وہیں بھارت
کے متعصّب رویہ کے خلاف قراردادیں منظور کی جاتی ہیں ان کانفرنسز میں بڑے
زور و شور کے ساتھ بلند و بانگ دعوے کئے جاتے ہیں اور نعرے لگائے جاتے ہیں
کہ کشمیر پاکستان کا اٹوٹ انگ ہے،کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ،کشمیر بنے گا
پاکستان وغیرہ وغیرہ
لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا جاتا۔پاکستان میں جو بھی وزیر اعطم آتا ہے
کہ بھارت سے مذاکرات کیلئے ہاتھ بڑھاتا ہے ۔مگر بار بھارت کے دوستی کے جواب
بدلے پاکستان پر ناکام حملے کی صورت میں دیا۔باوجود اس کے کچھ سیاستدان اب
بھی بھارت کے ساتھ مذکرات اور امن کا راستہ اپنانے کا راگ الاپ رہے
ہیں۔لیکن انہیں کبھی بھولنا نہیں چاہئے کہ یہ وہی بھارت ہے جس نے کبھی
پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ وہی بھارت ہے
جس میں پاکستان کا نام لینے والے کے لئے بھارت کی زمین تنگ کر دی گئی ہے
ہندو توااور آر ایس ایس کے نظریہ کے مالک مودی نے گذشتہ 190روز سے کمشیر
میں مکمل کرفیوں لگایا ہوا ہے آئے ُوادی کشمیر کو گذشتہ کئی ماہ سے پوری
دنیا سے رابطہ کٹا ہوا ہے ۔ وادی میں لوگ بھوک و افلاس کا شکار ہے ‘آرایس
ایس کے غنڈے اور ہندوتوا آرمی کے نوجوان روزنہ نام نہاد سرچ آپریشن کی آڑ
میں کشمیر میں نوجواں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں اور بلاجواز گرفتاریاں
روز کا معمول بن چکی ہے جبکہ کچھ فوجی جوان و افسران کشمیری ماؤں اور بہنوں
کا جنسی استحصال کررہے ہیں ‘بھارت کمشیرں پر ہر طرح کے ظلم ڈھا رہا ہے ‘
کمشمیر کی معشیت کا بیڑہ گرک کر کے رکھ دیا گیا ہے ۔ کشمیر کے دریاؤں پر
ڈیم بناکر اس کا پانی راجھستان اور پنجاب کی طرف لیجا رہا ہے ۔ کشمیر کی
خصوصی حیثیت ختم کرکے اس میں بھارتیوں خصوصاً ہندوؤں کو زمین خریدنے کا
اختیار دیدیا گیا ہے ۔اسی دور اندیشی کے باعث بر صغیر ہند و پاک میں قائد
اعظم محمد علی جناح نے سیاسی جدوجہد سے مملکت پاکستان حاصل کیا۔برصغیر کی
تقسیم کے اس فارمولیت کے تحت ہوئی کہ جن صوبوں میں ہندؤں کی اکثریت ہے وی
علاقے ہندوستان میں شامل ہونگے اور جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ
پاکستان میں شامل ہونگے ۔اس فارمولے کے تحت کشمیر پاکستان میں شامل ہونا
چاہئے تھا ۔مگر بین الاقوامی سازش کے تحت ایسا نہ ہو سکا ۔لارڈ کلف ایوارڈ
نے جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے گرداس پور کو ہندوستان میں شامل کردیا
جبکہ کے اس کی تمام آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔وہ اس لئے کیا گیا کہ
ہندوستان کو کمشیر کا واحد زمینی راستہ مل جائے ۔یعنی درہ دینال سے راستہ ۔یہ
سازش ان لوگوں نے کی جو دنیا کو سچائی کا سبق سکھاتے ہیں یعنی کہ سلطنت
برطانیہ۔
قارئین کشمیر جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کا فطری حصہ ہے ۔کشمیر کے سارے
دریا پاکستان کی سمت بہتے ہیں ۔سارے زمینی راستے سوائے درہ دنیال کے کمشیر
سے پاکستان کی طرف آتے ہیں ۔ واحد راستے جیسے کے پہلے بتایا جاچکا ہے کہ
سازش کے ذریعے ہندوستان کو دیا گیا ہے ۔مذہبی طور پر بھی کشمیر کا الحاق
پاکستان کے ساتھ ہونا چائے تھا۔ کیوکہ 90فیصد مسلمان کشمیر میں رہتے ہیں
۔تہذیبی طور پر ایک جیسے لوگ اس خطے میں رہتے ہیں ان کا کلچر ‘ ان کی زبان
‘ان کے رہنے سہنے کے طریقے ایک ‘ شادی بیاہ کے معاملے میں ایک جیسے ہی
ہیں‘سن 1947میں جب ہندوستان نے اپنی فوجیں ہوائی جہازوں کے ذریعے سری نگر
میں اتارنی شروع کیں تو مسلمانوں نے ہندوستان کی سازش کو سمجھا تو فوراً
کشمیر کی طرف مارچ شروع کیا ‘قبائل نے پاکستان کی مدد کی ‘قائد اعظم نے
افواج پاکستان کے اس وقت کے کمانڈر جرنل گریسی کو آزادی کشمیر کیلئے کمشیر
پرحملے کا حکم دیا تو سازشی کمانڈر نے قائد اعظم کا حکم ماننے نے انکار
کردیا ‘پاک فوج اور قبائل نے موجودہ کشمیر کا 300میل اور 30میل چوڑا حصہ
آزاد کروالیا۔پاک فوج اور قبائل سری نگر پہچے ہی تھے کہ پنڈت جواہر لعل
نہروں نے اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی درخواست کردی ۔اقوام متحدہ نے جنگ
بندی کروائی اور فیصلہ کیا حالات ٹھیک ہونے کے بعد کشمیریوں سے ان کی رائے
معلوم کی جائے گی اور ان سے پوچھا جائے گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا
چاہتے ہیں یا ہندوستان کے ساتھ ۔آج کئی دہایا گزرنے جانے کے بعد بھی (مغرب
کی لونڈی )اقوام متحدہ اپنا وعدہ وفا کرنے میں ناکام رہا ۔
کشمیرمیں کرفیوں لگانے اور دو حصوں میں تقسیم کرنے پر پاکستان گذشتہ برس
اقوام متحدہ جا پہنچا جہاں تقریبا50برس بعد مسئلہ کشمیر پر بحث ہوئی ۔اقوام
متحدہ میں وزیر اعظم عمران خان اور دوست ممالک جن میں ترکی اور چین سمیت
دیگر چند ممالک نے مسئلہ کمشیر پر آوازر بلند کی ‘ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ
پہنچنے پر ایک بار ایسا محسوس ہوا کہ کہ جیسا یہ مسئلہ اب جلد حل ہونے کے
قریب ہے مگر شاہد مغرب سوار ارب کی آبادی والے ملک بھارت کو ناراض کرنے پر
رضا مند نظر نہیں آیا ۔
پاکستان کشمیر کو اپنی شہ رگ مانتا ہے ہے اسی لئے کسی شاعر نے کیا خوب ہی
کہا ہے
یاراں جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنّت
جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی
سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح دن منانے سے کیا کشمیری عوام کی نجات
ممکن ہے ؟یقینا نہیں ۔اگر ایسا ہونا ہوتا تو شاید بہت پہلے ہو چکا
ہوتا۔کشمیری عوام سے 5فروری کو یکجہتی منانے سے کشمیر آزاد نہیں ہوگا ۔اگر
اسکی آزادی منظور ہے اس کیلئے عملی اقدام کرنا ہوگے ۔آگر آج کوئی شخص کسی
کے ایک فٹ کی جگہ پر قابض ہوجا ئے تو وہ مرنے مارنے کو تیارہوجاتے ہیں ۔پھر
بھلا پاکستان کشمیر کو کیسے دشمنوں کو دے سکتا ہے ۔آج یوم یکجہتی کمشیر یا
کشمیر ڈے پر پاکستانی عوام کو یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ کشمیر عوام سے یکجہتی
کی بنیاد اور طریقہ کار کیا ہوگا ؟ کیا یکجہتی حکمران طبقہ کے نقطہ نظر پر
کی جانی چاہئے یا پھر عوام کے ؟ اس پر غور کریں ۔
2نومبر1945ء میں پشاور میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی
جناح کے وہ الفاظ بھی ذہن نشین کر لو جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’ہمارا
کوئی دوست نہیں ہے ہمیں نہ انگریز پر بھروسہ ہے نہ ہندو بنئے پر،ہم دونوں
کے خلاف جنگ کریں گے خواہ وہ آپس میں متحد کیوں نہ ہو جائیں‘‘
آئیے آج اس کشمیر ڈے کے موقع پر ہم عہد کریں کہ ہم اپنے مسلم حکمرانوں کو
کشمیر کی آزادی کیلئے مجبور کریں گے اور کشمیری بہن بھائیوں کو ان کا حق
دلائیں گے خواہ اس کیلئے ہمیں اپنی جانوں کی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔بھارت
سے اس وقت تک تعلق نہیں بنائیں گے جب تک وہ ہمارے کشمیری بہن بھائیوں کو ان
کا حق نہیں دے دیتا ۔اگر ایسا نہ ہو پھر کشمیر کی آزادی کے دن تک پاکستان
کے بچے بچے کی زبان پر ایک ہی نعرہ رہے گا ’’کشمیر کی آزادی تک جنگ رہے گی
‘جنگ رہے گی ‘بھارت کی بربادی تک جنگ رہے گی ‘جنگ رہے گی
انشاء اﷲ وہ دن دور نہیں جب شہدائے کشمیر کا خون رنگ لائے گا اور ہندو دم
دبا کر بھاگے گا اور کشمیر میں سبز ہلالی پرچم لہرائے گا۔
|