ایک بھکاری وہ ہوتا ہے جو اللہ
کے نام پر اپنا پیٹ بھرنے کے لئے لوگوں کے سامنے اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے اور
ایک بھکاری وہ ہوتا ہے جو پاکستان کے نام پر اپنی حوس کا پیٹ بھرنے کے لئے
لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے۔ اسے سیاسی بھکاری کہتے ہیں۔ یہ سیاسی
بھکاری ٹیلیویژن، اخبار اور دیگر میڈیا کا سہارا لیتے ہوئے اپنی عوام سے
ووٹ کی بھیک مانگتے ہیں لیکن ان کا مقصد اقتدار میں آ کر پیسے اکٹھے کرنا
ہی ہوتا ہے۔ ووٹ کی بھیک مانگتے وقت ان کی زبان پر سب سے پہلے پاکستان،
روٹی کپڑا اور مکان، قرض اتارو ملک سنوارو، غربت اور مہنگائی کا خاتمہ اور
پاکستان کے لئے جان قربان کرنے کے نعرے ہوتے ہیں۔ پاکستان کی طرف بری نظروں
سے دیکھنے والوں کی آنکھیں نکالنے کا دعویٰ کرتے کرتے ان کی زبان نہیں
تھکتی لیکن جھوٹے دعوؤں کی بدولت ایوان اقتدار تک پہنچنے والا یہ سیاسی
بھکاری پاکستان کی طرف دیکھنے والی انہی بری نظروں کی آنکھوں کا تارا بن
جاتا ہے۔ سب سے پہلے پاکستان کا دعویٰ کرنے والا پاکستان کو سب سے پیچھے
دھکیل کر اپنے آقاؤں کی گود میں جا کر بیٹھ جاتا ہے۔
ووٹ کے لئے عوام کے آگے ہاتھ پھیلانے والا سیاسی بھکاری کرسی ملنے کے بعد
پیسوں کے لئے غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا شروع کر دیتا ہے۔ روٹی کپڑا اور
مکان دینے کا نعرہ لگانے والے اقتدار میں آ کر روٹی کپڑا اور مکان چھیننا
شروع کر دیتے ہیں۔ قرض اتارو ملک سنوارو کے نام پر پیسہ اکٹھا کرنے والے
ملک کے قرضے اور بڑھا کر ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ دوسرے ملکوں اور
کمپنیوں کو پاکستان میں انوسٹمنٹ کرنے کی دعوت دینے والے خود پاکستان سے
باہر انوسٹمنٹ کرتے ہیں۔ پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کا دعویٰ کرنے
والے خود اپنا پیسہ غیر ملکی بینکوں میں رکھتے ہیں۔ سیلاب ، زلزلے اور
دوسری قدرتی آفات سے متاثرہ عوام کے لئے عالمی دنیا سے مدد مانگنے والے خود
اپنے اوپر ملک و قوم کا پیسہ بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ عالمی دنیا سے
پاکستان کے لئے امداد کی اپیل کرنے والے خود پاکستان کو دونوں ہاتھوں سے
لوٹنے میں مصروف رہتے ہیں۔ پاکستان کے لئے امداد مانگنے کے لئے غیر ملکی
دوروں پر جانے والے ان ملکوں کے سربراہوں سے بھی زیادہ شان و شوکت کا
مظاہرہ کرتے ہیں اور ملک و قوم کا اربوں روپے کا سرمایہ خرچ کر دیتے ہیں۔
عوام کی جان و مال کی حفاظت اور امن و امان کا دعویٰ کرنے والے خود بلٹ
پروف گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور ملک کی پولیس فورس خود ان کی سیکورٹی پر
مامور ہوتی ہے۔ پاکستان کے لئے جان دینے کا دعویٰ کرنے والے پاکستان کی جان
لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ملکی سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنے کا دعویٰ
کرنے والے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی پر خاموش تماشائی بن جاتے ہیں اور
صرف احتجاجی بیان پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں سے مفاہمت کی پالیسی کی بات کرنے والے اپنی عوام سے مفاہمت
کیوں نہیں کرتے۔ ان کی سمجھ میں اتنی سی بات کیوں نہیں آتی کہ عوام کی طاقت
حکومت اور ملک کی طاقت ہوتی ہے۔ اس ملک اور قوم پر حکومت کرنے کے بعد یہ
سیاسی بھکاری یورپ اور امریکہ کی پناہ حاصل کرنے کی بجائے اللہ کی پناہ
کیوں نہیں مانگتے۔ غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والے یہ سیاسی بھکاری اللہ
کے سامنے ہاتھ کیوں نہیں پھیلاتے۔ عالمی دنیا سے مدد مانگنے والے یہ سیاسی
بھکاری اللہ سے مدد کیوں نہیں مانگتے۔ ان کی سمجھ میں یہ ذرا سی بات کیوں
نہیں آتی کہ اگر آج یہ پاکستان کے صدر اور وزیراعظم ہیں تو اس ملک و قوم کی
وجہ سے ہیں۔ دنیا میں اگر ان کو پروٹوکول ملتا ہے تو اس ملک کی وجہ سے ملتا
ہے۔ آج پاکستان ہے تو یہ صدر اور وزیراعظم ہیں۔ خدانخواستہ اگر یہ ملک نہیں
رہتا تو یہ کس ملک پر حکمرانی کریں گے اور کس ملک کی پناہ میں رہیں گے۔
پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کا دعویٰ کرنے والے پاکستان کو اندھیروں میں
کیوں دھکیل رہے ہیں۔ فلور ملوں اور شوگر ملوں کے مالک حکمرانوں کے دور میں
عوام آٹے، چینی، بجلی اور پانی کو ترس رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی
حفاظت کرے اور محب وظن لیڈر شپ عظا کرے (آمین)۔ |