بڑے دنوں سے برادر وقاص وکی کی خواہش تھی کہ اپنے آبائی
شہر آؤں وہاں کے لوگوں سے ملوں کچھ اپنی سناؤں کچھ ان کی سنوں
صحافی معاشرے کی آنکھ ہوتا ہے میں ذاکر تنولی سے تو نہ مل سکا جس کا مجھے
افسوس رہے گا لیکن وقاص سے ملاقات ہو گئی اس میں کمال یہ ہے کہ وہ وکیل بھی
ہے اور صحافی بھی۔اس روز وہاں ثمینہ ریاض چودھری کی جانب سے کچھ معذور
لوگوں کو ویل چیئرز دینے کا پروگرام تھا پاور نامی ایک تنظیم کا فنکشن تھا
اس کی ضد تھی کہ میں مہمان خصوصی بنوں۔کچھ مصروفیات تھیں کچھ خود پیدا کر
لیں ۔ادھر سے دل بہت اداس تھا آپ کو علم ہی ہے کچھ معزز ڈاکو فروری کی سترہ
اور اٹھارہ تاریخ کو گھر پے آئے تھے سعودی پلٹ شکیل افتخار کا سر بھی پھاڑ
گئے اور ہماری ساری جمع پونجی بھی لے اڑے اسی دن شکیل کی واپسی بھی تھی دل
بھی بوجھل تھا کہ بیٹا ایک ہفتے کے لئے آیا مال مطاع بھی گنوا بیٹھا اور
اوپر سے لٹ کے ساتھ کٹ بھی سمیٹی۔بیرون ملک مقیم پاکستانی معصوم لوگ ہوتے
ہیں بڑے شوق سے پاکستان آتے ہیں ۔آنکھوں میں خواب لئے ماں باپ بھی ان کے
منتظر ہوتے ہیں یہاں بہت سے دیئے ان لوگوں کی وجہ سے جلے ہوئے ہیں ۔میں بھی
ایک مدت وہاں رہا ہوں مجھے بھی پاکستان آنے والے دن یاد ہیں کہ کس طرح
انسان تاریخیں گنتا رہتا ہے کیلینڈروں کے اوپر لکیریں کھینچتا ہے ۔شکیل کے
گھر خوشیوں کی آمد تھی کوئی بیس ہزار ریال نقد لایا جمعے والے دن پہنچا
ڈاکو رات کو پہنچ گئے ۔ہمیں اپنے اپنے کمرے میں رسیوں سے باندھا اور دو
گھنٹے گھر کی تلاشی لی دس لاکھ نقد اور کوئی بیس لاکھ کے زیورات لوٹ
لئے۔یقین کیجئے اپنی آنکھوں کے سامنے چند غیر لوگوں کی اس غنڈہ گردی کو
دیکھنا بہت تکلیف دہ مرحلہ تھا ۔خیر یہ قیامت گزری پارٹی کے دوستوں کو پتہ
چلا تو میری مدد کو آئے میں بابر اعوان علی محمد خان شہر یار آفریدی غلام
سرور خان شیخ راشد شفیق کا شکر گزار ہوں باقی دوستوں نے فون کئے کچھ کو
توفیق نہیں ہوئی اﷲ انہیں خوش رکھے۔ اگلے روز شکیل کے گھر انابیہ آئیں اﷲ
کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ شکیل سلامت تھا ہم اس ننھی پری کو دیکھ کر دکھ بھول
گئے شکیل کی فلائیٹ صبح نو بجے تھے پہلے بتایا گیا کہ دس بجے ہے خیر دڑک
لگائی اسے ایئر پورٹ چھوڑا ساتھ میں پیارے بھانجے ماجد کو ساتھ لیا اور
اگلا سفر ہری پور کا تھا خیر سے نیا ایئر پورٹ اب ہم سے بھی اتنا ہی دور ہے
جتنا ہری پور سے ۔نو بجے ہم غلام فرید کے گھر پہنچے جو میری چچا زاد کا
خاوند ہے سعودی عرب کے قوانین کی بھینٹ چڑھ کر کوئی سال بھر پہلے گھر آ گیا
ہے ریاض میں دکان کرتا تھا اس کی دکان سے سے اشیاء پکڑی گئیں جو اسے بیچنے
کی اجازت نہیں تھی یعنی بادام اخروٹ تو بیچ سکتا تھا پرفیوم نہیں بیچ سکتا
تھا اسی جرم میں اسے جہاز پر چڑھا دیا اس کی زندگی کی کل پونجی اب اس کے
ایک دوست کے رحم و کرم پر ہے جو اس دکان کو چلا رہا ہے ۔جب اسے دیکھتا ہوں
اور یہاں کے دکانداروں کو پریشان ہو جاتا ہوں کہاں وہاں کا نظام اور کہاں
یہاں کا ۔اب وہ مزید چار سال وہاں نہیں جا سکتا ۔ناشتہ اپنی چچا زاد کے گھر
کیا میری بیٹیوں جیسی عم زاد میری بیگم کی چھوٹی بہن بھی ہے اسے میں نے
ڈولی میں بٹھا کر موضع بوکن بھیجا تھا ۔اﷲ اسے تتی ہوا نہ لگائے مجھے عزیز
از ربیعہ ہے۔بہترین دیسی کڑھی کا ناشتہ ہلکے کاغذی پراٹھے اور اوپر سے خالص
دودھ کی چائے اور سب سے زیادہ حیران کن بات کہ ہم سوئی گیس کے چولہے کے
سامنے بیٹھے تھے۔جو ایئر پورٹ سوسائٹی میں نا پید ہے پتہ نہیں ہم یہاں کیوں
پڑے ہیں نہ گیس نہ پانی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی اوپر سے انتہائی نالائق انتظامیہ
۔ایک بد مزاج ریٹارڈ کرنل جسے نہ اپنی عزت کا خیال ہے اور نہ کسی اور کا بے
رخے اس بد تمیز شخص کو اﷲ سنبھالے۔یہ الیکشن سے پہلے تقریروں میں کہا کرتا
تھا کہ میں حضرت ابراہیم کی وہ چڑیا ہوں جو بساط بھر کوشش کروں گا مجھے علم
تھا کہ یہ پسوڑی اس سوسائٹی کو تباہ کر دے گی اسی لئے اس کا نام کرنل بندش
رکھا تھا ۔ یہ کہا کرتا تھا کرپشن کی آگ میں چونچ سے پانی بھر کے لاؤں اور
اسے ختم کروں گا سوسائٹی کا کا حال اس کے بد ہئیت چہرے سے بھی برا ہے۔خیر
چھوڑیں کس سیاہ رو کی بات چھڑ گئی ہے۔
ملک اقبال ہری پور شہر کی رونق ہیں انہیں پتہ چلا تو فون کر کے بلوا لیا
ضیاء السلام سے پرانا تعلق ہے اسی نے انہیں نمبر دیا ہم وقت مقررہ پر وہاں
پہنچے پانی والی ٹینکی کے پاس ان کا ایک پلازے میں دفتر ہے جیو ہزارہ کے
نام سے اخبار نکالتے ہیں آج نیوز کے نمائندے بھی ہیں ۔پیار بھرے جذبات کے
ساتھ پھول پیش کئے عزیزم بلاول پیش پیش تھا ۔ان پھولوں میں ہری پور کی
خوشبو تھی تیسرے فلور پر بیٹھک ہوئی خوبصورت دفتر تھا وہیں لائیو انٹرویو
دیا اسی دوران شکیل پسوال کی کال آ گئی آج نیٹ نے دنیا قریب کر دی
ہے۔بہترین چائے لوازمات کے ساتھ پیش کی گئی چھوٹے اخبارات کے اپنے مسائل
ہیں میری کوشش ہو گی میں ان کے کام آ سکوں ۔وقت بڑی تیزی سے نکل رہا تھا
وقاص نے بار آفس میں بہت سے وکالاء کو بلا رکھا تھا میں پروگرام سے کچھ لیٹ
تھا وہاں پہنچا تو دفتر خالی تھا لیکن آدھے گھنٹے کے اندر وہ دفتر فل ہو
گیا وکلاء سے بڑی کھل کے گفتگو ہوئی بڑے مزے کے لوگ تھے سینئر وکیل شیر
بہادر کے علاوہ شرکاء کی بڑی تعداد وہاں موجود تھی جنہوں اس شہر سے جڑے نلہ
گاؤں کے ایک بیٹے کا پر تپاک استقبال کیا وکلاء بھی پی ٹی آئی سے تنگ
دکھائی دئے کچھ وقت دینے کے موڈ میں تھے کچھ عمران خان سے بڑی مضبوطی کے
ساتھ اظہار یک جہتی کر رہے تھے بہت سوں کا خیال تھا کہ عمران کو اور کوئی
نہیں اس کے اپنے وزیر لے ڈوبیں گے وہ ہری پور کی سیاست کے بڑوں سے سخت
نالاں تھے اور مجھے دوشی قرار دے رہے تھے کہ آپ کے ہوتے ہوئے ایک ہی خاندان
مین سارے ٹکٹ کیوں دئے گئے۔سچی بات ہے چوتھا بھی انہی کا تھا اﷲ نے کیا وہ
رک گیا کوشش تو میری تھی کہ ایک ٹکٹ عابد گجر کو مل جاتا لیکن ابھی دلی دور
تھی کچھ جاگیردارانہ مزاج کے لوگ ان کے کام آ گئے ورنہ زر گل زندہ ہے اس سے
پوچھ لیجئے۔یہاں سے میں ذاکر تنولی کے پاس گیا لیکن وہ انتظار کر کے چلے
گئے تھے اظہار ناراضگی فون بند کرنے کی صورت میں کیا۔ٹی ایم اے کے نئے ہال
میں پاور این جی او کا پروگرام چل رہا تھا وہاں شرکت کی لوگوں کو سنا اور
اپنے دکھڑے کھولے ثمینہ ریاض چودھری اچھا کام کر رہی ہیں یاور حیات عباسی
سے وہیں ملاقات ہوئی اور اسمعیل ذبیح فملی کے لوگ بھی ملے۔کافی وقت ہو گیا
تھا پریس کلب ایک دریا عبور کر کے گئے مگر وہاں کوئی نہ تھا ثمینہ نے بڑا
زور دیا کہ کھانا کھا کے جائیے کیسے ممکن تھا کہ اتنی مصروفیت میں شکم پری
میں مصروف ہو جاتے عمر حیات چودھری میرا بھانجہ اور عابد مختار جو میرا سگا
بھانجہ ہے ان سے کہا کچھ کھلائیے عمر نے ایک مچھلی شاپ کی اتنی تعریف کی ۔کہ
وہاں چلتے ہیں تربیلے کی مچھلی کھاتے ہیں در بند اڈہ کے پاس ایک مچھلی شاپ
میں پڑاؤ کیا ۔آرڈر دیا اور اس کے بعد بازار میں نکل آیا اس شہر سے جڑی
اپنے پیارے والد کی ایدیں ذہن میں آئیں کمپنی باغ میں سید عطاء اﷲ شاہ
بخاری کے جلسے کی وہ بات کیا کرتے تھے کہتے تھے ایک روز شہر گیا کہ سودہالے
جاؤں جلسہ گاہ میں پہنچ گیا ایک مولوی صاحب تقریر کر رہے تھے میں ان کی
آواز کے سحر میں کھو گیا سٹیج پر جلنے والا گیسی پمپ جو بڑی روشنی دیتا تھا
وہ بجھنے لگا میں نے سٹیج پر پہنچ کے اسے روشن کیا شاہ جی نے قریب ہی بٹھا
لیا فرمایا کرتے تھے کہ کہ میں ان کی تقریر سے اتنا متاثر ہوا کے سودے کے
پیسے کسی اور کے حوالے کئے اور میں عطاء اﷲ شاہ بخاری کے ساتھ ہند کے دورے
پر نکل گیا۔ماجد کہیں اور چلا گیا تھا عمر بھی میں اور مظہر جو میرا
ڈرائیور ہے ہم دونوں گپیں لگاتے رہے اس دوران مچھلی کی قاب آ گئی دیکھنے
میں کالا سیاہ رنگ میرے من سے اتر گئی میرے آقا کا فرمان ہے کہ جو چیز
دیکھنے میں اچھی نہ لگے اسے مت کھاؤ بھوک بھی تھی اور عمر کا اسرار بھی عمر
اس مچھلی کی شان میں قصیدے پڑھے جا رہا تھا خوبرو دراز قد سوہنے بھانجے کی
خواہش تھی کہ ماموں کی خدمت کروں ۔میں نے تھوڑا کھا کے ہاتھ کھینچ لیا ۔
یہاں سے ہم چلے سوئے وائس آف ہری پور ۔جہاں ہم نے انٹر ویو دیا ۔میں شکر
گزار ہوں ملک شاہد تبسم اور برادرم مشوانی کا جنہوں نے میرا نقطہ ء نظر
عوام تک پہنچایا ۔ملک شاہد ایک نوجوان صحافی ہیں اور انہوں نے مختلف
اخبارات اور چینیلز کے لئے کام کیا ہے وہ ہری پور کی آواز بننے کی کوشش کر
رہے ہیں اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہیں۔یہاں ہمیں شام ہونے کی تھی کہ ان
سے سلام کر کے نکلے اس شہر میں ماجد مختار گجر سے زیادہ ان کے والد کو
جاننے والوں کی بڑی تعداد بھی ملی بار میں گئے تو وہاں بھی ادھر برادر ملک
اقبال کے پاس جانا ہوا تو وہاں بھی مختار گجر مرحوم کے چر چے سنے ماجد خود
بھی بڑا تیز طرار جوان ہے جس نے یو سی جبری سے واضح کامیابی حاصل کر کے
علاقہ کے لوگوں کی خدمت کی-
ہم وہاں سے اٹھے اپنی بھتیجی کا گھر جو ٹی آئی پی کالونی میں وہاں آ گیا
یہیں بوکن سے بھائی منظور کی آنے والی اولاد رہتی ہے۔بچوں سے ملا چائے پی
مغرب ہو چکی تھی اب وہ وقت آگیا تھا کہ شعیب ارسلان بلال زین اور ننھی دنیا
سے ہاتھ ملا کر اجازت چاہتا ۔علی الصبح بابے اعوان کی دعا کر لی تھی۔بھرپور
دن کے بعد اب ہم رواں دواں تھے چیچیاں انٹر چینج سے ہم عازم راولپنڈی ہو
گئے اسی روڈ پر بھائی رشید بھی رہتے ہیں بیمار ہیں جی تو چاہتا تھا کہ ملتا
چلوں لیکن ماجد اور میں دونوں تھک چکے تھے۔چیچیاں انٹر چینج سے راستہ ناپا
البتہ تنبیہ کی خیال رکھنا کہیں چکدرہ ایکسچینج نہ لے جانا ۔رات کوئی نو
بجے کے قریب گھر پہنچا اور پھر اس مچھلی کی یاد میں تڑپنا شروع کیا وہ پوری
رات اس کے نام کی۔تربیلے کی مچھلی نے مجھے پریشان کر کے رکھ دیا ۔ لیکن جو
پیار محبت مجھے ہری پور میں ملاس کا مزہ ہی کچھ اور ہے
شہر قتیل شفائی سے رخصت ہوتے وقت بہت سے لوگ یاد آئے سوچتا رہا کہ اسی شہر
میں میرے دادا آتے ہوں گے اور اسی شہر کی رونقوں میں ایک رونق میرے والد
بھی ہوئے ہوں گے اور یہ بھی سوچا کہ انسان پیدا کہاں ہوتا ہے اور اس کو قبر
کہاں ملتی ہے کہاں ہری پور اور کہاں گجرانوالہ۔زندگی کا سفر ہے یہ کیسا سفر
کوئی سمجھا نہیں کوئی جانا نہیں(انجینئر افتخار ترجمان پنجاب حکومت ہیں اور
نلہ یو سی جبری ہری پور کے رہائیشی ہیں آج کل پنڈی میں ہوتے ہیں۔قومی جرائد
میں لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں عمران خان کے پرانے ساتھی ہیں)
|