دِل میں لڈّو اُس وقت پھوٹنے لگے جب سماجی رابطوں
کے ایک گروپ میں دوستوں نے گوادر جانے کے پروگرام کا اعلان کیا۔ روانگی سے
ایک شام قبل کراچی سے میرے بھتیجے عبداﷲ کا فون آیا، شاید اس کے کان میں
ہمارے پروگرام کی بِھنک پڑ گئی تھی ، اُس نے بلوچستان والے راستوں پر اپنی
معلومات کے مطابق روشنی ڈالی اور بتایا کہ کوئٹہ سے براہِ راست گوادر جانے
کی غلطی کبھی نہ کرنا، بلکہ براستہ کراچی بہتر ہے۔ میں نے کہا کہ اپنی چچی
(جو کہ اُس کی خالہ بھی ہے) کے سامنے تو کم از کم ایسی باتیں نہ کرو، اگلی
صبح سفر کا آغاز تھا۔ ہمارے راستے کا پہلا قابلِ ذکر مقام فورٹ منرو تھا،
جسے جنوبی پنجاب کی ’ کوہ مری‘ کہا جاتا ہے۔ وہاں پہنچ کر مایوسی نے ہمیں
گھیر لیا، اداسی اور ویرانی بھی مایوسی کے ہمرکاب ہو لی۔ موسم میں تو
معمولی خنکی تھی، سیاح نہ ہونے کے برابرتھے، دکانیں بند اور ہوٹلوں والے
رخصت پر تھے،نہ صفائی، نہ بیٹھنے کی جگہ، اور نہ ہی کوئی قابلِ دید منظر۔
گَرد اُڑ رہی تھی، نیچے دور بارش کا پانی جمع ہو جانے سے ایک تالاب سا
دکھائی دے رہا تھا،جسے جھیل کا نام دیا گیا تھا۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے
والے سادہ دل وزیراعلیٰ کے دور میں فورٹ منرو پر ایک روپے کا کام ہوا یا
ہوتا دکھائی نہیں دیا۔ البتہ جس سڑک پر ہم گامزن تھے، وہ نہایت خوبصورت تھی،
فورٹ منرو سے کچھ ہی پیچھے بنائے گئے ایک پُل نے ماحول میں مزید خوبصورتی
پیدا کردی ہے۔
میرے ذہن میں بلوچستان کے علاقوں کا منظر انتہائی پسماندہ اور ویرانے کا
تھا، مگر سفر کی تھکاوٹ تو زبردست سڑک نے ہونے ہی نہ دی، سڑک کی وجہ سے ہی
علاقے کی پسماندگی اُس شدت سے محسوس نہ ہوئی، جس کا ہمارے ذہن میں خاکہ بنا
ہوا تھا۔ لورالائی میں مغرب ہو چکی تھی، قلعہ سیف اﷲ سے ہوتے ہوئے کوئٹہ تک
کا سفر ہم لوگوں نے رات میں ہی کیا۔ طویل راستوں کے ویرانوں میں دو اور
چیزوں نے بھی بہت متاثر کیا، اوّل؛ خشک پہاڑ جو کہ پورے سفر میں میزبانوں
کی طرح کھڑے ہمیں خوش آمدید کہتے رہے، چند کلومیٹر چلنے کے بعداور شکل کے
پہاڑ آجاتے تھے، کہیں ایسے لگتا کہ ریت کے ٹیلے ہیں، کہیں صدیوں کی بارشوں
سے جھریوں والے پہاڑ آجاتے، کہیں کالے سنگلاخ، کہیں سڑک کے قریب بھورے رنگ
کے چھوٹے اور ان کے بہت پیچھے کالے رنگ کے بہت بڑے پہاڑ دکھائی دیتے۔ کہنے
کو تو یہ خشک پہاڑ تھے، سبزے کو آنکھیں ترس گئی تھیں، مگر ان کی بناوٹ میں
قدرت کی صناعی ایسی تھی کہ دیکھنے والا دیکھتا ہی رہتا۔ اور میرے جیسا
دیکھنے والا ہر منظر کو اپنے کیمرے کی یادداشت میں محفوظ کرنے کی کوشش کرتا۔
دوم؛ جہاں تھوڑی بہت آبادی موجود ہوتی وہاں سڑک کے کنارے وسیع میدانوں میں
کرکٹ یا فٹ بال کا میچ ہو رہا ہوتا اور بیسیوں کاریں ، موٹر سائیکل وغیرہ
کھڑے ہوتے ، دور دراز سے میچ دیکھنے کے لئے آنے والوں کے جذبے قابلِ قدر
اور حیران کن تھے۔
اچھے وقتوں میں کوئٹہ ایک بہت بڑا کاروباری مرکز اور بہترین سیر گاہ تھا،
پھر یہ ہوا کہ دہشت گردی کی سُرخ آندھی نے اِسے اُجاڑ دیا، اب یہی تصور تھا
کہ خوف اور ویرانیاں کوئٹہ پر قبضہ جمائے ہوئے ہوں گی، مگر حیرت انگیز طور
پر خوش کُن حالات نے فرطِ جذبات سے اپنی بُکل میں لپیٹ لیا۔ خوشی کے مارے
ہمارے چہروں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں آنسو آگئے۔ یا اﷲ ! تیرا شکر ہے،
ہمارے شہروں کو یونہی آباد رکھ اور امن کا گہوارہ بنا دے۔ کوئٹہ کی صبح
ایسی پُر رونق تھی، کہ ناشتے کے لئے ہوٹلوں پر جگہ دستیاب نہ تھی۔ سیاحوں
کے جھرمٹ ہر طرف دیکھے جاسکتے تھے، بہت سے لوگ اپنے بال بچوں کے ساتھ آئے
ہوئے تھے۔ کوئٹہ میں دوسری چیز گداگری کا عذاب ہے۔ قدم قدم پر میلے کچیلے
کپڑوں میں ملبوس افراد ہاتھ پھیلائے کھڑے دکھائی دیں گے، اور تو اور بہت
بڑی تعداد میں سات آٹھ برس کی پیاری پیاری بچیاں ، جنہیں یونیفارم پہن کر
کسی سکول میں ہونا چاہئے، ناشتہ کرتے انکلوں کے کندھوں پر بھیک کے لئے دستک
دینے میں مصروف ہیں۔ جب کوئٹہ کی بحال ہونے والی رونق کو دیکھ کر دل خوش
ہوتا ہے، وہاں اِ ن بھکاری بچیوں کو دیکھ کر دل ڈوبنے لگتا ہے اور افسردگی
چھا جاتی ہے۔
کوئٹہ کی سیر ادھوری رہ جاتی ہے، اگر ’ہنّہ جھیل‘ کا چکر نہ لگایا جائے۔
شہر سے جھیل کی طرف جانے والی سڑک کو دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے، کہ شہر میں
سڑک ٹوٹی پھوٹی ہے، تاہم باہر نکل کر گزارہ ہے۔ جھیل پر بھی صفائی اور رونق
دونوں چیزوں کی قلت تھی، حالانکہ حکومت جھیل کی حالت کو مزید بہتر کرکے اس
سیاحتی مقام کو ترقی دے سکتی ہے۔ شہر سے نکل کر جھیل تک کے راستوں کی
رہنمائی کرنے والے بورڈز وغیرہ بھی کم ہی دیکھنے کو ملے، اس لئے نئے جانے
والوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہاں سیب کے بے شمار باغات
ہیں، جو خزاں رسیدہ تھے، مارچ کے بعد یہ علاقہ سبزے اور سیبوں کے باغات کی
وجہ سے یقینا جنت نظیر ہوگا۔ اگلے روز صبح ہم نے گوادر کے لئے روانہ ہونا
تھا، ہمارے علاقے کے ایک واقف کار وہاں مل گئے، پولیس میں ملازم تھے، انہوں
نے ہمیں آگے براہِ راست گوادر کے سفر سے منع کیا، بتایا کہ پہلے ’’اوتھل‘‘
جائیں، وہاں سے کوسٹل ہائی وے کے ذریعے گوادر، (یاد رہے کہ اوتھل سے کراچی
محض ڈیڑھ سو کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے) ۔ گویا کوئٹہ سے کراچی اور پھر
گوادر ۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ تربت وغیرہ کے راستے گوادر جانے والوں کو
روکا جاتا ہے، اُن کے شناختی کارڈ ملاحظہ کئے جاتے ہیں، اور پنجاب سے آنے
والوں کو موقع پر ملکِ عدم کا ویزا لگوا دیا جاتاہے۔ اِس راستے پر جانا
گویا جانتے ہوئے بھی موت کے منہ میں جانے کے مترادف ہے۔ اِن تمام تر خطرات
کے باوجود ہم لوگوں نے اُسی پُر خطر راستے سے گوادر جانے کافیصلہ کر لیا۔
|