یوم یکجہتی کشمیر اور اور 5فروری بھی گزر جائے گا اور ہم
فیس بک پر ایک پوسٹ اور واٹس ایپ کے اسٹیٹس سے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی
کریں گے۔
اپنی ہی سڑکوں کو بلاک کرے گے ،فیس بک پر ہی تھوڑا سا شور مچائیں گے بھارت
کو برا بھلا کہیں گے اور یوں 5فروری اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا۔
ہاں لیکن یہ بھی ٹھیک ہے کیونکہ اخلاقی جدو جہد جاری رہنی چاہیے۔کیونکہ اگر
ہم یہ کچھ بھی نہ کریں تو ہم تو کشمیریوں کو بھول ہی جائیں۔
اور یہ بھی صرف کچھ پاکستانی کریں گے کچھ کو تو پتہ ہی نہیں کہ 5 فروری کو
کیا ہوا،کچھ تو 5 فروری کا اصلیے انتظار کرتے ہیں کہ اس دن چھٹی ہوتی ہے۔
چھٹی والے دن کیا کرنا ہے بس یہی سوچا جاتا ہے۔اور ایسا ہمیشہ سے ہی چلتا
آرہا ہے۔
اگر میں اپنا خیال بتاؤ تو جتنا کشمیر کاز کے لیے عمران خان حکومت نے کام
کیا اتنا آج تک نہیں ہوا۔عمران خان نے اقوام متحدہ میں جس طرح سے کشمیریوں
کے لیے آواز اٹھائیں اس کی مثال نہیں ملتی۔دنیا بھر کے سربراہان سے ملاقات
میں کشمیر کا مسئلہ اٹھایا،وزارت خارجہ امور نے بھی بہترین سفارتکاری کے
ذریعے کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرکے رکھا۔جس کا فائدہ یہ ہوا کہ بہت سے
ممالک نے کشمیر کے حق کے لئے لیے آواز اٹھائیں،ایمنیسٹی انٹرنیشنل اقوام
متحدہ نے بھی بھارت کی کشمیر کے خلاف اقدامات کی مذمت کی۔
میں اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ یہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے،لیکن اس
بات کی خوشی ہے کہ کچھ شروعات ہوئی اور اس سے زیادہ ابھی ہم کچھ کر بھی
نہیں سکتے۔ماضی میں کشمیر کاز کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا گیا۔
کشمیر کے موجودہ حالات کے باوجود دنیا کی خاموشی بلاشبہ شرمناک ہے۔ لیکن ہم
مغرب سے کیا گلہ کریں ہمارے اپنے مسلم ممالک ہی کشمیریوں کے قاتل کو ایوارڈ
سے نواز رہے ہیں۔
سوال پھر وہی ہے کہ آخر کشمیر کیسے آزاد ہوگا۔
کشمیر کی آزادی کے لیے ہم نے تین جنگیں لڑیں لیکن نتیجہ صفر رہا۔اب میں
پرانی باتوں کو نہیں دہرانا چاہتا کہ کن حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے
کشمیر آزاد نہیں ہو سکا۔کشمیر کو آزاد کرنے کے ہمارے پاس بہت سے مواقع آئے
لیکن نااہل حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے ہم نے وہ موقع گنوا دیے۔لیکن اب
ہمیں آگے بڑھنا ہے اور یہ طے کرنا ہے کہ کشمیر ہر جمعہ آدا گھنٹہ کھڑے ہونے
سے آزاد ہو گا،جنگ لڑنے سے آزاد ہوگا یا ہر سال پانچ فروری یوم یکجہتی
کشمیر کے لئے سڑکوں کو بلاک کرکے یا فیس بک پر شور مچا سے آزاد ہوگا یا پھر
کچھ عملی اقدامات کرنے ہونگے۔
سوال یہ ہے کہ وہ عملی اقدامات کیا ہیں اور کشمیر کیسے آزاد ہوگا۔
تو اس کے لئے سب سے پہلے ہمیں خود مضبوط ہونا پڑے گا،جو ملک معاشی طور پر
مضبوط ہی نہیں جس کے بیرون ملک ممالک سے کوئی سفارتی تعلقات ہی نہیں،جس ملک
میں سڑکیں ، پل اور بسیں قرضے لے کر چلائی جاتی ہیں،جس ملک کے ادارے پی آئی
اے ،ریلوے، سٹیل ملز اربوں روپے کے خساروں پر چل رہے ہو۔جس ملک کے ائیرپورٹ
بیرون ملک کمپنیوں کے پاس گروی رکھے ہوئے ہوں تو آپ یہ بھول جائیں کہ اس
ملک کی آواز کوئی ملک سنتا ہوگا اور آپ یہ بھی بھول جائیں کہ وہ ملک کشمیر
کو آزاد کروا سکے گا۔
بھارت کے اس وقت سعودی عرب روس امریکا فرانس اور بہت سے ملکوں کے ساتھ
اربوں روپے کے تجارت چل رہی ہیں تو آپ یہ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ یہ ملک
بھارت کے خلاف جائیں گے یا پھر یہ آپ کو سپورٹ کرینگے۔
تو یاد رکھیں معاشی طور پر مضبوط ہوئے بغیر آپ کشمیر کے لئے کبھی کچھ بھی
نہیں کر پائیں گے۔اس کے لیے آپ کو معاشی طور پر مضبوط ہونا ہوگا دوسروں
ملکوں کے ساتھ اپنی تجارت بڑھانی ہوگی سفارتی تعلقات کو مضبوط بنانا ہوگا
تو پھر ہی آپ کشمیر کیلئے آواز اٹھا سکتے ہیں اور پھر جب آب معاشی طور پر
مضبوط ہوں گے تو پھر آپ کی آواز دنیا بھر میں سنی بھی جائے گی اور مانی بھی
جائے گی۔
اس کے لئے ہم سب کو مل کر جدوجہد کرنی ہوگی،آپ اخلاقی طور پر کشمیر کے لئے
جدوجہد جاری رکھیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی معیشت کو مضبوط بنائے تاکہ وہ
ٹائم جلد آئے جب دنیا میں آپ کا مقام ہوں اور پھر آپ کشمیر کیلئے آواز اٹھا
سکے۔
اس وقت آپ کی آواز نہ کشمیری سن رہے ہیں اور نہ ہی دنیا کے حکمرانوں کے
کانوں تک پہنچ رہی ہیں۔
تو اس بار 5فروری کو یہ عہد کریں کہ ہم اپنے پاکستان کو بدلنے کے لیے
جدوجہد شروع کریں گے،جس حد تک ہو سکے اپنے آپ کو بدلیں گے۔ نچلی سطح سے
کرپشن کو ختم کریں،اپنے لیے اچھے لیڈروں کا چناؤ کریں گے،اور ایک ذمہ دار
شہری کے طور پر پاکستان کی بہتری کے لیے اقدامات کریں گے۔کیونکہ ہم سب کے
بدلنے سے ہی پاکستان بدلے گا اور پاکستان کے بدلنے سے ہی کشمیر آزاد ہوگا۔ |