بھارت بھر میں سی اے اے، این آر سی اورا ین پی آر کے
تعلق سے مسلسل احتجاج چل رہے ہیں اور ان احتجاجات کے باوجود بھارتیہ حکومت
ان قوانین کو ختم کرنے کے بجائے مزید یہ دعویداری کررہی ہے کہ ہم ایک انچ
بھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گےاور پورے ملک میں سی اے اے کو نافذ
کرکے ہی رہینگے ۔ اس بیان سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ دال میں کالانہیں
بلکہ پوری دال ہی کالی ہے۔ یقیناً بھارت میں سی اے اے جیسے عوام دشمن قانون
سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی کوئی قوم ہے تو وہ قوم مسلمانوں کی ہے اور
اس قوم کو آزادی کے بعد سے اب تک مختلف زاویوں سے متاثر کیا جاتا رہا ہے۔
ملک میں جاری کئے جانے والے سنگین قوانین میں سے سی اے اے ،ین پی آر اور
ین آر سی جیسے قوانین بھی نہایت مہلک ہیں ان سے ملک کی عوام کو شدید
نقصانات کا سامنا کرنا پڑیگا۔ ایک طرف جمہوریت خطرے میں ہے تو دوسری طرف
ملک ہی خطرے میں آچکا ہے ۔ملک بھر میں مسلمانوں کی جانب سے سی اے اے اور
ین آر سی کے خلاف احتجاجات کا سلسلہ جاری ہے ان احتجاجوں میں مسلمانوں نے
پوری توجہ سی اے اے کو دے رکھی ہے لیکن ایک بات قابل تشویش یہ بھی ہے کہ
صرف ملک میں ای اے اے ہی بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے بلکہ بے روزگاری، عدم
مساوات، ریزرویشن، عدالتی ناانصافیاں، کارخانوں کا بند کیا جانا، سرکاری
نوکریوں سے ملازمین کو برخواست کرنا، یل آئی سی اور ایر انڈیا جیسی منافع
بخش کمپنیوں کو نقصان میں لاکر انہیں پرائیویٹ کمپنیوں میں بدلنا جیسے مدعے
بھی آواز اٹھانے کیلئے اہم ہوچکے ہیں ۔ ملک کے مختلف مقامات پر جاری
احتجاجات میں مسلمانوں کی تائید میں غیر بہت کم آرہے ہیں اسکی وجہ یہ ہے
کہ غیر اب، بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ سی اے اے اور ین آر سی صرف مسلمانوں کا
مدعا ہے اور غیر مسلموں کیلئے اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ان حالات میں
مسلمان بے، روزگاری، عدم تحفظ، کارخانوں کے بند ہونے کے مدعے ،یس سی یس ٹی
اور او بی سی کے ریزرویشن کو برخواست کئے جانے کے مدعوں پر بھی بات کرتے
ہیں تو یقیناً اسکے مثبت نتائج آئینگے اور ملک بچانے کی جو تحریک نکلی
ہےاس تحریک کو مزید طاقت ملے گی ۔ یس سی یس ٹی کو دئے جانےوالے ریزرویشن کو
ختم کرنے والی پارٹی بی جے پی، مزدوروں سے روزگار چھیننے والی پارٹی بی جے
پی، سرکاری ملازمین کو برخواست کرنے والی پارٹی بی جے پی، ین آر سی اور سی
اے اے نافذ کرنے والی پارٹی بی جے پی۔ جب یہ تمام مسائل بی جے پی سے ہی اٹھ
رہے ہیں تو سب کی دشمن جماعت ایک ہے، سب کا نشانہ ایک ہے تو کیونکر الگ الگ
لڑائی لڑی جارہی ہے ۔ مسلمان اپنے سی اے اے اور ین آر سی کے احتجاج میں ان
پالیسیوں کی مخالفت کو بھی شامل کرلیں تو یقیناً بہت بڑا کام ہوگا۔ حالانکہ
سی اے اے کا قانون صرف مسلمانوں کیلئے نقصاندہ نہیں ہے بلکہ تمام مذاہب کے
لوگوں کیلئے نقصاندہ ہے لیکن یہ بات جب تک انہیں سمجھ میں آئے اس وقت تک
دیر ہوجائیگی جبکہ حکومت کے خلاف آواز اٹھانا موجودہ وقت کی ضرورت ہے ۔ جس
طرح سے بچے کو اس کی زبان میں سمجھانے کے لئے اپنے آپ کو بچہ بنانا پڑتا
ہے اسی طرح سے ملک کے دوسرے شہریوں کو موجودہ حالات میں ایک کرنے کیلئے
انکے رنگ میں ڈھلنا پڑیگا۔ جو لوگ احتجاجات سے جڑے ہوئے ہیں انہوں نے یہ
بات دیکھی ہوگی کہ ملک میں جاری احتجاجی سرگرمیوں میں مسلمانوں کی تائید
کیلئے غیر 1فیصد سے کم ساتھ آرہے ہیں جبکہ 60 فیصد لوگ تائید کرنے کی بات
کہتے ہوئے اپنی اپنی دہلیزوں تک ہی لٹکے ہوئے ہیں یہ صرف اس وجہ سے کہ
مسلمان اب بھی اپنے وجود کو بچانے کیلئے نکلے ہیں نہ کہ ملک کو بچانا انکا
مقصد ہے۔ ہمارے خیموں میں آج بھی اسلام و فوبیا اور اسلام زنادہ باد کے
نعرے لگتے ہیں، ہمارے احتجاجی جلسوں میں اب بھی پرچم کم تنظیموں کے بینر و
جھنڈے زیادہ لہراتےہیں اس لئے غیر اب بھی دور کھڑے ہیں۔ اگر اس دوری کو ختم
کرنے کے لئے کچھ تبدیلی لائی جاتی ہے بہتر ہوگا۔ انقلابی شاعر فیض احمد فیض
کا شعر ہے کہ ۔۔
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لیکر
چلے تھے یار کہ مل جائیگی کہیں نہ کہیں
ہماری سحر صرف سی اے اے کی منسوخی نہیں بلکہ مکمل آزادی ہے اور یہ آزادی
خوف سے آزادی، بے روزگاری سے آزادی، بھوک مری سے آزادی اور فسطائی
طاقتوں سے آزادی ہے ۔۔
|