حکمرانوں نے عجیب تماشہ لگایا ہوا ہے وہ سمجھتے ہیں
عوام اندھی ،گونگی اور بہری ہوچکی ہے ہاں البتہ بے حس ضرور ہوگئی ہے،تبدیلی
سرکار نے اپنی غریب کش اورا ٓئی ایم ایف کی مسلط کردہ پالیسیوں کے باعث ملک
اور عوام کا وہ حال کیا ہے جو ہمارے گزشتہ حکمرانوں نے 70 سالوں میں نہیں
کیا ،اس کے باوجود سابق وزیر خزانہ اسد عمر کہتے ہیں کہ ہم مہنگائی کے ذمہ
داروں کو کڑی سزا دیں گے تو گویا خود کو سزا دیں گے جو کہ ظاہر ہے وہ نہیں
دیں گے ،ہاں البتہ عوام ان کی حکومت کے لئے یہ سزا تجویز کرتی ہے کہ وہ 21
کروڑ عوام اور اس ملک کی جان چھوڑ دیں کیونکہ حکومت کرنا ،معیشت ،افراط زر
،مہنگائی ،بے روزگاری کو آکسیجن فراہم کرنا ان کے بس کی بات ہے ہی نہیں ،وزیر
اعظم فرماتے ہیں کہ تنخواہ دار طبقے کی مشکلات کا ادراک ہے اب بھائی آپ کو
کسی بھی طبقے کی مشکلات کا ادراک نہیں ہے ،ہر طبقہ زبوں حالی کا شکار ہے ۔آپ
کا دو لاکھ میں گزارا نہیں ہوتا تو مزدور کا پندرہ ہزار روپے میں کیسے
گزارا ہوتا ہوگا ۔آپ نے تمام یوٹیلیٹی بلز کی قیمتوں میں تاریخی اضافہ کرکے
عوام کو ڈپریشن،فرسٹریشن کا شکار کردیاہے ،آئے روز آپ تیل ،گیس ،بجلی کی
قیمتوں ا ور ان پر ٹیکسوں کا اضافہ کرتے رہتے ہیں ،تازہ ترین اطلاع کے
مطابق آئی ایم ایف کی ٹیم تین سو ارب کے نئے ٹیکسز کیلئے پہنچ چکی ہے ،نیپرا
اور اوگرا کو مزید آذادانہ کام کرنے کی تجویز ہے ،پہلے ہی وہ آذاد ہیں ان
پر کون ساقدغن لگاہوا ہے ۔آئے روز اضافہ اور 72 اقسام کے ٹیکسز بلوں میں
شامل ہیں ،مزید لگا دیں لیکن کرپشن کو کنٹرول نہ کرنا ،چینی ،آٹا ،بجلی ،پیٹرول
،ڈیزل مافیا کے خلاف کوئی کاروائی حکمران نہیں کرتے ،صرف عوام کوٹارگٹ کیا
ہواہے۔آٹا اور چینی کے سیکنڈلز میں کیونکہ ان کے اپنے ملوث ہیں اس لئے
تحقیقات کا ڈرامہ رچایا جارہا ہے ،صرف عوام کو دکھانے کے لئے اوپر سے وزیر
اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان فرماتی ہیں کہ ناجائز
ذرائع سے اثاثے بنانے والوں کو جوابدہ ہونا ہوگا ،پہلے تو وہ خود بسوں کے
سیکنڈلز میں اپنے احتساب کے بارے میں تحقیقات کروائیں ،پھر واحد میگا
پراجیکٹ بی آر ٹی اور چینی ،آٹا مافیا کے خلاف کھربوں کے ناجائز اثاثہ جات
بنانے اور اربوں کے قرضے معاف کروانے والے جہانگیر ترین ،خسرو بختیار ،پرویز
الہی کے خلاف کاروائی کا آغاز کروائیں تاکہ خالی خزانہ بھر سکے ،عوام کے
ٹیکسوں سے غبن کیا ہوا سرمایا وآپس آسکے لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ،ایسے
ناگفتہ بہ حالات میں جب متوسط طبقہ ،غریب ،مزدور ،تنخواہ دار کسان ،زمین
دار ،تاجر ،صنعتکار سب پریشانی کا شکار ہوں تو مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم
اورنگزیب کا یہ مطالبہ جائز نظر آتاہے کہ عمران خان مستعفی ہوکر ہی عوام کو
ریلیف دے سکتے ہیں ،انہوں نے کہا کہ عمران خان کے دوستوں یعنی جہانگیر خان
ترین کی چوری نے انہیں امیر ترین بنادیا لیکن غریب کو غریب ترین اور
مہنگائی کی چکی میں پیس دیا ۔ان کا کہناہے کہ عمران خان نااہل ترین ،نالائق
ترین اور ان کے کرپٹ ترین ٹولے نے ملک کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ایسے
حالات میں بعض سیاستدان ان ہاؤس تبدیلی کی بات کررہے ہیں جس کی جماعت
اسلامی کے رہنما سراج الحق نے مخالفت کا اعلان کردیا ہے ،ان کے بقول نئے
الیکشن اور نیا مینڈیٹ وقت کی ضرورت ہے ۔ان ہاؤس تبدیلی سے خریدوفروخت اور
ہارس ٹریڈنگ کا سلسلہ شروع ہوگا ،مولانا فضل الرحمٰن نے دوبارہ مارچ میں
اسلام آباد مارچ کا اعلان کردیا ہے ۔انہوں نے دوبڑی جماعتوں پی ایم ایل این
اور پی پی کو مدعو نہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ۔ان کے بقول ان جماعتوں کی
مفاد پرستانہ پالیسوں کے باعث پہلے اپوزیشن تقسیم ہوئی ،انہوں نے چوہدری
برادران سے مطالبہ کیا کہ وہ ان سے کیا گیا مطالبہ جو کہ امانت ہے پورا
کریں ،مولانا نے دعویٰ کیا کہ ہماری تحریک سے حکومت کے ایوانوں میں دراڑیں
پڑ چکی ہیں ۔بہر حال حکومت عوام کو مہنگائی کے بارے میں گمراہ کرنے سے باز
رہے ،یہ سب کچھ ان کی پالیسیوں کے نتائج ہیں ۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران
پاکستان شماریات بیورو کے مطابق مہنگائی کی شرح میں چینی کے علاوہ دیگر
سولہ اشیاء خوردنی جن میں کوکنگ آئل ،گھی ،پیاز ،گڑ ،لہسن ،ادرک کی قیمتوں
میں اضافہ جبکہ ٹماٹر ،آلو ،انڈے ،ایل پی جی ،آٹا ،مرغی ،دال چنا ،دال ماش
کی قیمتوں میں کمی دیکھنے میں آئی ،
اصل میں حکومت کی رٹ ضلعی سطح پر بحال نہیں ہے ،مافیا اوپر کی سطح پر حکومت
کے ساتھی ہیں جبکہ نچلی سطح پر صرف زبانی جمع خرچ اور فوٹو سیشن سے کام
چلایا جارہاہے ،پرائس ریویو کمیٹیوں میں بھی حکومتی ٹاؤٹ ،خوشامدی اکٹھے
ہوگئے ہیں جو کہ قیمتوں کو کنٹرول کرنے یا کم کرنے کی بجائے بڑھا نے پر
زیادہ زور دیتے ہیں ،تاجر طبقہ بھی لوٹ مار میں برابر کا شریک ہے ۔انتظامیہ
کے ہاتھ کرپشن سے رنگے ہوئے ہیں بیچاری عوام ہے جو کہ بھوک وافلاس اور بے
روزگاری کا شکار ہے ،عمران خان نے صحیح فرمایا تھا کہ میں ان کو رلاؤں گا
ایسا ہی ہورہا ہے ۔ان حالات میں اپنی اصلاح اور خامیوں پر نظر رکھنے کی
بجائے دوسروں کو مورد الزام ٹہرانا اور سابقہ حکمرانوں کو ذمہ دار قرار
دینے کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
|