کوئٹہ سے گوادر روانگی کے وقت دِل کے کسی گوشے میں
خوف کی کیفیت بھی تھی، مگر مجموعی طور پر حالات قابو میں تھے۔ مستونگ کے
بعد جب سریاب نامی قصبے کی ویرانیوں سے گزرے تو درو دیوار سے دہشت ٹپک رہی
تھی، ایسے لگا جیسے ہم لوگ بے بس ہو گئے ہیں، اور اَن جانے دہشت گردوں کے
رحم و کرم پر ہیں، دراصل سڑک بوسیدہ تھی، ہمارے اندر کے خوف نے ہمیں دہشت
زدہ کردیا تھا، مگر آبادی سے نکلنے کے تھوڑی دیر بعد جب ہم دوبارہ بڑی سڑک
پر آئے تو کچھ ہمت بندھی۔ کوئٹہ سے گوادر سفر نو سو کلومیٹر سے بھی زائد ہے۔
فیصلہ ہوا کہ حالات کے پیش نظر تربت میں شب گزاری کی جائے۔ مِیلوں تک کوئی
انسان ، یا انسانی آبادی دکھائی نہ دیتی تھی۔ ہمارے ایک ساتھی کے پاس روایت
تھی کہ پنجگور میں صحابہ کرامؓ کی قبریں ہیں، (شاید اسی حوالے سے اس شہر کا
نام ’پنج گور‘ ہے) سڑک کنارے کھڑے ایک صاحب سے معلوم کیا تو اس نے دلچسپ
جواب دیا ’’جس نے وہ قبر دیکھ لیا، دیکھ لیا، اب کسی کو خبر نہیں‘‘۔ اس کا
مطلب یہ لیا گیا کہ روایت تو ہے، مگر اب ایسی کوئی جگہ موجود نہیں۔ ہم نے
تربت کی طرف سفر جاری رکھا۔
سڑک شروع سے یہاں تک زبردست تھی، مگر اب ملک وقوم کی حفاظت کے ذمہ دار
اداروں کی چوکیاں بھی کافی تھیں، وہ تعارف معلوم کرتے ، پچھلے اور اگلے
مقام کا دریافت کرتے اور آگے جانے کی اجازت دے دیتے۔ ایک مقام پر فوج کی
چوکی تھی، وہاں انٹری کروانے کے لئے کہا گیا، اگلے سفر کی صورت حال معلوم
کرنے پر انہوں نے نہایت اطمینان سے آگے جانے کا اشارہ دے دیا۔ اب ہمارے
حوصلے بلند تھے۔ اس خوبصورت سڑک کی بنیاد میں قوم کے شہید محافظوں کا خون
شامل ہے، دہشت گردی کا مقابلہ کرتے اور قوم کے لئے محفوظ شاہراہیں بنانے
والے ہزاروں جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، یہاں موجود ہر چوکی
کسی نہ کسی شہید سے منسوب ہے۔ اب مغرب ہونے والی تھی، سورج سامنے ہی پہاڑوں
کی اوٹ میں غروب ہونے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا، اس منظر کو میں کیمرے کی
یادداشت میں محفوظ کرتا، مگر کچھ ہی دیر میں ایک کالے بادل نے سورج کو اپنی
لپیٹ میں لے لیا۔ اب منظر عجیب تھا، اندھیرا چھانے لگا تھا، اطراف میں
پھیلے پہاڑ خوف ناک دیو کی مانند ہمارے قریب تر آگئے تھے، ایسے لگتا تھا کہ
ابھی یہ آگے بڑھ کر ہمیں اپنے آہنی شکنجے میں جکڑ لیں گے، یا کسی موڑ سے
۔۔۔ کوئی برآمد ہوگا اور۔۔۔تاہم مغرب سے چند منٹ قبل ہی وہ بادل چند قطرے
بارش کے ہمارے اوپر برساتا منظر سے غائب ہو گیا۔ ہم لوگوں نے سڑک کنارے ایک
چھوٹے سے ہوٹل پر کھجور کی پرانی چٹائی پر نماز مغرب ادا کی اور خود کو رات
کی تاریکی کے حوالے کر دیا۔ اب ہماری نگاہ سڑک تک محدود تھی، کیونکہ اِرد
گِرد اندھیرا تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے اندھیرے کو ہمارے لئے دیوار بنا دیا گویا
ہمیں کسی طرف سے نہ خطرہ رہا نہ خوف۔ ہمیں سڑک پر نظریں جمائے آگے بڑھتے
رہے۔ رات کے ان لمحات میں بارش بھی ہوتی رہی، اندھیرے میں ہم اس سے لطف
اندوز تو نہ ہو سکے،مگر خوف نامی ہر چیز بھی اس بارش سے دُھل گئی تھی، ہم
نے جذباتی ہو کر تُربت میں قیام کا ارادہ بھی منسوخ کر دیا، اور رات کے
گیارہ بجے کے قریب گوادر پہنچ گئے۔
یہاں تک ہم کُل ڈیڑھ ہزار کلومیٹر سفر کر چکے تھے، تمام راستہ سڑک نہایت
خوبصورت تھی، مگر رات کے اس سفر میں جس بات نے ہمیں پریشان کیا وہ یہاں کے
پُل تھے۔ پُل کافی طویل تھے، مگر عجیب بات ہے کہ تمام پُل ٹوٹے ہوئے تھے،
ٹریفک بڑی سڑک سے نیچے اتر کر جاری تھی، یقینا ان کی مرمت بھی ہو رہی ہوگی،
مگر یہاں سوالیہ نشان ضرور پیدا ہوتا ہے، اگر گزرنے والے کے ذہنوں میں
سوالات پیدا ہوتے ہیں تو انتظامیہ بھی یقینی طور پر غور وفکر کر رہی ہوگی
اور ذمہ داروں کے خلاف ایکشن ہو رہا ہوگا۔
گوادر میں ترقیاتی کام جاری ہیں، یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ آنے والے
چند ہی سالوں میں گوادر واقعی ایک بین الاقوامی شہر بن کر نمودار ہوگا۔
تاہم اس وقت وہاں دو کام ہو رہے ہیں، اول ؛ ترقیاتی کام، جن میں سڑکیں،
سرکاری عمارات ، دفاتر اور پورٹ کا کام جاری ہے۔ دوم؛ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا
پھیلاؤ چالیس کلومیٹر تک ہو چکا ہے۔ گوادر سے ایران کی سرحد کی جانب ’’جیوانی‘‘
ساحل پر جاتے ہوئے ہر طرف ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا ہی قبضہ ہے۔ ملک کے دوسرے
حصوں میں بیٹھے ہوئے سرمایہ دار وہاں زمین خرید رہے ہیں، ٹی وی چینلز پر
پُر کشش اشتہارات دکھائے جارہے ہیں، تاہم ابھی تک ہر طرف صرف میدان یا ریت
ہی ہے۔ گوادر شہر کے قریب تر کالونیوں کے منظر کو دیکھا جائے تو خالصتاً
چولستان کی جھلک محسوس ہوتی ہے۔گوادر میں ایک اور بات جو واضح طور پر محسوس
کی جاسکتی ہے، وہ ہے مہنگائی، پاکستانی قوم کو جان لینا چاہیے، کہ اپنے ہی
ملک کے بین الاقوامی معیار کے شہر جاتے وقت اُن کی جیبیں بھری ہوئی ہونی
چاہیئں، جو واپسی پر خالی ہو چکی ہوں گی۔ گوادر اپنی قدرتی بندرگاہ کی وجہ
سے بہت خوبصورت شہر بن کر سامنے آئے گا۔
|