جمہوریت کے عمومی اصول کے مطابق وزیر اعظم اور اس کی
کابینہ دلائل کے ساتھ اپنی کارکردگی عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔اگر یہ
حکومتی بیان حقائق کے مطابق ہو تو حکومت کے دعوے سیاسی طور پر اس کی مضبوطی
کا باعث بنتے ہیں لیکن اگر حکومتی دعوے حالات حاضرہ کے برعکس صورتحال پر
اصرار کر رہے ہوں تو حکومتی عہدیداران کے کہنے پر اعتبار کرنا مشکل ہو جاتا
ہے۔وزیر اعظم عمران خان اپنی ہر تقریر اور بیان میں اپنی تعریف کرنا نہیں
بھولتے ۔خود کو پاک صاف،ہر برائی اور خرابی سے مبرا قرار دینے کے فتوے بار
بار بیان کرتے ہیں۔وزیر اعظم بنتے ہی عمران خان نے ملک کو ریاست مدینہ
بنانا اپنا ہدف قرار دیا اور مشکلات و معاشی مصائب سے عاجز عوام کو مسلسل
صبر کی تلقین کرتے چلے آ رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ فوج کا ڈر انھیں ہوتا ہے جو کرپشن کرتے
ہیں اور یہ کہ فوج ان کے ساتھ اس لیے کھڑی ہے کہ نہ تو میں کرپٹ ہوں اور نہ
پیسے بنا رہا ہوں۔وزیراعظم ہائوس میں صحافیوں سے گفتگو میں وزیر اعظم نے
کہا فوج کی ایجنسیوں کو علم ہوتا ہے کہ کون کیا کر رہا ہے، میں نہ تو کرپشن
کر رہا ہوں اور نہ ہی پیسے بنا رہا ہوں اس لیے فوج میرے ساتھ ہے، حکومت اور
فوج میں کوئی تنا ئونہیں۔وزیر اعظم عمران خان نے دعوی کیا کہ ملک کو
دیوالیہ ہونے سے بچانا حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کبھی تو کہتے ہیں کہ فوج حکومت کے پیچھے ہے،کبھی کہتے
ہیں کہ حکومت کے ساتھ ہے ،ساتھ ہی کبھی کبھی جمہوریت کے فوائد یاد کرانا
بھی نہیں بھولتے۔یہ درست ہے کہ جب فوج کسی حکومت کی سرپرستی کر رہی ہوتی ہے
تو اس حکومت کے عہدیدار باکردار ہوتے ہیں۔تاہم سالہا سال بعد جا کر معلوم
ہوتا ہے کہ جنہیں باکردار قرار دیا گیا تھا، نئی صورتحال میں ان کو بے
کردار ثابت کرنا یا کم از کم ان کے بد کردار ہونے کا پروپیگنڈہ بھر پور
انداز میں کرنا وقت کا اہم تقاضہ ہی نہیں بلکہ یہ بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ
ملک کو اسی طرح تباہی سے بچایا جا سکتا ہے۔
ملک میں کروڑوں نوکریوں،لاکھوں مکانات کی تعمیر کے '' سبز باغ'' دکھاتے
ہوئے اب تک دو ملین کے قریب افراد کو اپنی پالیسیوں سے بے روزگار کیا گیا
ہے۔ماہرین اور تجزئیہ نگار وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے ملک و عوام کے
مفاد میں کسی بھی اقدام کی کھوج میں بری طرح ناکام ہیں اور ملک و عوام کے
لئے صورتحال خراب سے خراب تر ہونے کا بیان کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان
نے کہا کہ ملک میں موجود چینی اور آٹا مافیا کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں
اور ایک برس تک مہنگائی میں کمی ہو جائے گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آٹا اور
چینی بحران کی ابتدائی رپورٹ میں جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کا نام نہیں
ہے۔ چینی، گندم کی تحقیقاتی رپورٹ میں کچھ سقم تھے، اعتراض لگا کر واپس
بھجوائی ہے اور دوبارہ تحقیقات کی ہدایت کی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا
کہ معلوم ہونا چاہیے کہ مولانا فضل الرحمان کس کے اشارے پر حکومت گرانے آئے
تھے اور کس نے انھیں یقین دہانی کرائی تھی۔ وزیر اعظم نے مولانا فضل
الرحمان کے خلاف سنگین جرم میں مقدمہ چلانے کا امکان ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ
اگر میرے کسی وزیر نے مولانا کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ درج کرانے کے
بارے میں کچھ تحریری طور پر بھیجا تو وہ اس پر غور کریں گے۔
معاملہ پشاور میٹرو کا ہو،'کے پی کے 'میں احتساب کو عضو معطل بنائے رکھنے
کی بات ہو،وزیراعظم کے مختلف نوعیت کے اخراجات پورے کرنے والی شخصیات کی
تذکرے ہوں یا حکومتی عہدیداران پر مختلف نوعیت کے الزامات، ایسے تمام امور
کو نظر انداز کرتے ہوئے حکومتی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں کہ جیسے انہیں نہ تو
کچھ سنائی دیتا ہے اور نہ ہی وہ کچھ دیکھنے کے قابل ہیں۔حکومت شاید اس حکمت
عملی کو فرائض کی ذمہ داری سے فرار کی راہ سمجھتی ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ
عوام کی نظروں میں موجودہ حکومت یوں بے نقاب ہو چکی ہے کہ اس کے لئے عریاں
کا لفظ بھی موزوں نہیں رہتا۔
جب سے ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ سے تعاون پہ آمادہ ہوئی
ہیں،تب سے وزیر اعظم عمران خان کی تشویش میں اضافہ ہوتا نظر آتا ہے اور
انہیں بار بار،ہر بار اپنا وزن ظاہر کرنے کے لئے یہ یاد کرانا پڑتا ہے کہ
فوج ان کی حکومت کے ساتھ ہے اور اسی لئے اب تک ان کی حکومت قائم ہے۔ معلوم
نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان اپنی حکومت کے عہدیداروں اور ہمنوائوں سے
مایوس ہو گئے ہیں کہ انہیں خود اپنی تعریفیں کر نا پڑتی ہیں ۔سنجیدہ حلقوں
کی رائے یہی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان آسمانوں پہ پرواز کرنے کی امیدیں
ظاہر کرتے ہوئے ملک و عوام کو زمین پہ نہیں بلکہ پاتال میں دھکیلنے کا پورا
پورا اہتمام کرتے نظر آ رہے ہیں۔
|