تحریر: ذیشان خان
مقبوضہ کشمیر کی جنت نظیر وادی میں آر ایس ایس ایجنٹ نریندر مودی کے ظلم و
جبر کے واقعات ہوں یا فلسطین میں اسلام دشمن اسرائیل کی بربریت اور سفاکیت
یا پھر روہنگیا، شام، یمن میں مسلمانوں کا قتل عام ہو، بحیثیت صحافی خبر کی
جستجو، تلاش، عوام تک رسائی فرائض میں شامل ہیں لیکن فطری رد عمل بھی خارج
از امکان نہیں، ظاہر ہے انسان بھی ہیں اور مسلمان بھی، اللہ پاک نے انسان
کو ضمیر کی صورت ایک ایسا سچا ترجمان عطاء کیا ہے، جو آپ کے اچھے اقدام کی
ستائش، برے کام کی سرزنش کرتا ہے لیکن اگر آپ کا ضمیر مرجائے تو آپ کا
ہونا نہ ہونا شمار نہیں ہوتا، وزیراعظم عمران خان کا کوالالمپور میں
ملائیشین تھنک ٹینک سے خطاب سنا تو او آئی سی کے سابق اور موجودہ ذمہ
داروں کی “مردہ ضمیری” کی فاتحہ خوانی کو دل چاہا، مسلمانوں کی نام نہاد
تنظیم او آئی سی کی کارکردگی کی جانب متوجہ ہوا، دیکھا، سوچا، سمجھا، ماضی
اور حال پر نظر دوڑائی لیکن کچھ دکھائی نہ دیا، اچانک دماغ میں تختی پر Oh
I See کے الفاظ نقش ہوگئے، غور کیا تو جانا کہ یہ الفاظ او آئی سی سے
متعلق بلکل مناسب ہیں، بلکہ بہتر ہوگا کہ Oic کا نام تبدیل کرکے Oh I see
رکھ دیا جائے، کیوں کہ وہ صرف “دیکھ” ہی تو رہے ہیں، پھر عالم اسلام کو
شکوہ ہوگا نہ شکایت، مغرب کی بھی خوب تقلید ہوتی رہے گی اور خاص کر عربوں
کی دل آزاری بھی نہیں ہوگی، او آئی سی قیام سے لیکر آج تک اغراض و مقاصد
میں بدترین ناکامی کا شکار رہی ہے، اس کی قیادت جس کے پاس بھی ہو، وہ مغرب
کی تقلید کرتا پایا گیا، شیخ صاحبان کی چاپلوسی اس کی توجہ کا مرکز رہی، اس
نے اسلام اور مسلمان پر ذاتی مفادات کو مقدم رکھا، اس تنظیم پر یہ نامور
محاورا صادق آتا ہے کہ اگر 100 گیدڑوں کے جھنڈ کا سربراہ شیر ہوتو گیدڑ
شیر کا روپ دھار لیتے ہیں، اگر 100 شیروں کا سربراہ گیدڑ ہوتو شیر بھی گیدڑ
کی طرح راہ فرار اختیار کرتے ہیں، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ زندگی
میں بہادر اور باہمت لیڈر شپ کا اہم کردار ہوتا ہے، ملک ہو، مکان ہو،
کارخانہ ہو، اسپتال ہو، مدرسہ ہو یا اسکول، کالج، بہترین لیڈر ناگریز ہوتا
ہے، یہ ہی وہ لیڈر ہوتا ہے، جو بادو باراں، طوفان کے باوجود کشتی کو ساحل
پر لانے میں کامیاب ہوجاتا ہے، یہ ہی وہ لیڈر ہوتا ہے، جو گھر کے چھوٹوں،
بڑوں کو جوڑے رکھتا ہے لیکن نہایت شرمندگی اور ندامت کے ساتھ لکھنا پڑ رہا
ہےکہ او آئی سی کو ایسا لیڈر ملا نہ مسلم ممالک کو، جو بھی آیا، ذاتی
مفاد کی تکمیل کےبعد چلتا بنا، او آئی سی کا کردار اجلاس کی میز تک ہی
محدود رہا، اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ امر یہ ہےکہ او آئی سی آج تک مقبوضہ
کشمیر جیسے اہم ترین مسئلے پر ایک اجلاس تک نہ بلاسکا، اقوام متحدہ میں
ماسوائے وزیراعظم پاکستان عمران خان کے علاوہ کسی نے مسئلہ کشمیر کو بہتر،
مربوط اور موثر انداز میں عالمی سطح پر اجاگر نہیں کیا، عمران خان کی اقوام
متحدہ میں کی جانے والی تاریخی، جاندار، شاندار تقریر نے جہاں مغرب اور
مغرب نواز مسلم حکمرانوں کے کردار پر سوالیہ نشان لگادیا، وہیں دنیا بھر
میں موجود مسلمانوں کو نئی جلا بخشی، حوصلہ دیا، اس تقریر کا ایک ایک لفظ
آج بھی اسلام دشمن قوتوں کی کانوں میں گونج رہا ہے، ان کی نیندیں حرام
ہوگئی ہیں، وہ محض ایک تقریر نہیں، ایک بہادر، دیانت دار، مخلص لیڈر کی
دشمنوں کو اور ان کے سہولت کاروں کو للکار تھی، واضح پیغام تھا، وہ تقریر
صدا بن گئی، عہد وفا بن گئی، جی ہاں، یہ ہی وہ تقریر تھی جس کےبعد اقوام
متحدہ 50 سال بعد سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے پر مجبور ہوا، یہ ہی وہ
تقریر تھی، جس کےبعد عالمی میڈیا پر پہلی بار پاکستان کے موقف کو غیر
معمولی پذیرائی ملی، لوگ کہتے ہیں تقریر سے کیا ہوتا ہے، تقریر سے بہت کچھ
ہوتا ہے، بشرط تقریر کرنے والا کون ہے، اس کی نیت کیا ہے، آج جب پاکستان
کے وزیراعظم عمران خان نے کمشیریوں کیلئے کوئی کردار ادا نہ کرنے پر او
آئی سی کو کڑؑی تنقید کا نشانہ بنایا اور آئینہ دکھادیا، ان کا ایک ایک
لفظ معنی خیر ہے، سبق آموز ہے، وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہم مسلم
ممالک تو کشمیر پر او آئی سی کا سربراہ اجلاس تک نہ بلاسکے، کشمیری اور
روہنگیا مسلمانوں کو صرف مذہب کی بنیاد پر ریاستی جبر کا سامنا ہے، پوری
دنیا میں ایک کروڑ سے کچھ زائد یہودی ہیں لیکن یہودیوں کے خلاف کوئی کچھ
نہیں کہہ سکتا، مسلمان 130 کروڑ ہونے کے باوجود بدترین دور سے گزر رہے ہیں،
کیوں کہ ان کی کوئی آواز نہیں، عالم اسلام کے مسائل کا حل اتحاد میں ہے،
امت کا اتحاد اس لئے نہیں چاہتے کہ ہمیں کسی سے جنگ کرنی ہے، چاہتے ہیں امت
کے مفادات کا اسی طرح تحفظ ہو، جیسے دنیا میں کوئی بھی کمیونٹی کرتی ہے، حل
صرف یہی ہےکہ مسلمان متحد ہوں، جب بھی کچھ ایسا ہو جیسا میانمار یا کشمیر
میں ہورہا ہے تو ہم آواز ہوں، ایک لائحہ عمل بنائیں، عمران خان نے اپنے
مختصر خطاب میں جہاں فلسطین، کشمیر، روہنگیا، یمن، شام کے مظلوم مسلمانوں
کی ترجمانی کی، وہیں ان مسائل کا مستحکم اور دیرپا حل بھی بتادیا، عالم
اسلام کے مغرب نواز حکمرانوں کیلئے بس اتنا ہی کہوں گا شاید کہ اترجائے
تیرے دل میں میری بات۔۔ |