’’امریکی امن منصوبے ڈیل آف دی سنچری ‘‘ کیا ہے ؟ اور
مسلم دنیا پراس اثرات کیا ہونگے ؟۔ اس معاہد ے کے بارے میں بے نقاب ہونے
والی سازش سے معلوم ہوا ہے کہ یہ معاہدے اس لئے کیا گیا ہے کہ اس معاہدے کے
تحت کسی بھی مسلمان دہشت گرد ثابت کرنا آسان ہو جائے گا ۔ اسرائیلی
وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کے اعلان کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تیار
کردہ امن فارمولے ’’صدی کی ڈیل‘‘کے مطابق جس فلسطینی ریاست کی تجویز شامل
کی گئی ہے اس کا دارالحکومت بیت المقدس کا نواحی علاقہ’’ابو دیس‘‘ ہوگا۔
اسرائیلی حکومت غرب اردن میں قائم یہودی کالونیوں پر اپنی خود مختاری کے
لیے رائے شماری کرے گا۔نیتن یاہو کی موجودگی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے
مشرق وسطی کے لیے اپنے مزعومہ منصوبے کے اہم خدو خال کا اعلان کیا۔ اس
موقعے پر انہوں نے فلسطینیوں کے لیے ایک ریاست کا بھی تصور پیش کیا جس کا
نقشہ کچھ ایسا ہے جیسے سمندر کا ایک ٹکڑا ہو جس میں کئی چھوٹے چھوٹے جزیرے
ہوں اور ہر جزیرہ دوسرے سے الگ ہو۔ اس طرح اس ریاست سے کئی کلو میٹر دور اس
کا دارالحکومت ہو۔ عرف عام میں ایسی ریاست کو’’Archipelago‘‘ کا نام دیا
جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں یا جزیروں پر مشتمل علاقہ۔
ٹرمپ نے اپنے منصوبے کے اعلان کے بعد جو نقشہ ٹویٹر پر شائع کیا ہے اس کے
مطابق سنہ 1967 سے مقبوضہ مغربی کنارے میں بستیوں کے ارد گرد اور یا ان کے
درمیان مستقبل کی فلسطینی ریاست ’’جزیرہ نما‘‘ کے طور پر نمودار ہوگی۔
اسرائیلی میڈیا، بشمول یدیعوت آحرونوت اور معاریو اخبارات نے اس منصوبے کے
کچھ پہلو شائع کیے ہیں جنہیں فلسطینیوں نے یکسر مسترد کردیا ہے۔منصوبے کی
سب سے نمایاں پہلو
1۔مشرقی بیت المقدس میں چار مربع کلو میٹر کا علاقہ مستقبل کی فلسطینی
ریاست کا دارالحکومت ہوگا۔2۔فوری طور پر اسرائیلی خودمختاری کو وادی اردن
سمیت مغربی کنارے کے 30 فیصد پر مسلط کیا جائے گا۔3۔غزہ کی پٹی میں حماس کے
ہتھیاروں کو ’’ختم‘‘ اور غزہ کو بغاوت کا زون قرار دیا۔4۔فلسطینیوں کو
اسرائیل کو ’’یہودی ریاست‘‘ کے طور پر تسلیم کرنے کا پابند بنایا
گیا۔5۔تمام یہودی بستیاں جوں کی توں برقرار رہیں گی انہیں خالی نہیں کیا
جائے گا۔6۔مقبوضہ بیت المقدس اسرائیل کا متحدہ دارالحکومت ہوگا۔7۔القدس کی
تاریخی دیوار سے باہر جو کچھ بھی ہے وہ فلسطینی سرزمین ہے۔8۔پناہ گزینوں کو
اسرائیلی سرحدوں سے باہر رکھا جائے گا۔9۔فلسطینی پناہ گزینوں کو بعد میں
فلسطینی ریاست میں واپس کیا جا سکتا ہے۔10۔مہاجرین کو معاوضہ دینے کے لئے
فنڈ قائم کرنے کی تجویز۔11۔فلسطینیوں کو’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف کام کرنے اور
’’اشتعال انگیزی‘‘ روکنے پر مجبور کیا جائے گا۔12۔فلسطینی ریاست میں مغربی
کنارے کو غزہ کی پٹی سے مربوط کرنے کے لیے سڑکیں اور سرنگیں تعمیر کی جائیں
گی۔13۔چار سال تک فلسطینی عبوری انداز میں کام کریں گے۔ اس دوران فلسطینیوں
اور اسرائیل کے درمیان فلسطینی ریاست کے حوالے سے مذاکرات ہوں گے۔14۔خلیجی
ممالک کی مالی مدد سے 50 ارب ڈالر کی مالیت فلسطینی ریاست میں منصوبے قائم
کیے جائیں گے۔15۔مشرقی یروشلم کے مقدس علاقوں میں جمود برقرار
رکھنا۔16۔صحرائے نقب کا علاقہ فلسطینیوں کو دینے اور اسے فلسطینی ریاست
شامل کرنے کی تجویز ہوگی۔
اب بات کی جائے کہ اس معاہدے سے اسرائیل کو کیا فائدہ پہنچے گا؟۔1۔ یہودی
آباد کاروں پر فوجی انتظامیہ کو ہٹا دیا جائے گا۔2۔ فوری طور پر غرب اردن
کے 30 فی صد علاقے پر اسرائیلی خود مختاری تسلیم کی جائے گی۔3۔امریکا ’’اسرائیل‘‘
کو کیا دینا چاہتا ہے؟۔4۔تمام یہودی کالونیوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کیا
جا رہا ہے۔5۔اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ میں ہر اقدام کو امریکا ویٹو
کرائے گا۔6۔پورے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا
اعادہ۔7۔فلسطینی مہاجرین کے حق واپسی کا سقوط۔8۔فلسطینی ریاست کے قیام کے
لیے شرائط۔10۔حماس غیر مسلح ہوگی۔11۔غزہ کا علاقہ ہرطرح کے اسلحہ سے پاک
ہوگا۔12۔فلسطینی حق واپسی سے دست بردار ہوجائیں گے۔13۔اسرائیل کویہودی
ریاست تسلیم کیا جائے گا۔14۔اسرائیل کی نئی سرحدوں کو تسلیم کیا جائے
گا۔15۔فلسطینی متحدہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کریں
گے۔16۔فلسطینی شہداء اور اسیران کے اہل خانہ کی مالی مدد بند کی جائے
گی۔17۔فلسطینی تعلیمی اداروں نے اسرائیل کے خلاف ’’نفرت‘‘پرمبنی مواد
پڑھانے پر پابندی عائد کی جائے گی۔ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ان کا یہ منصوبہ 80
صحافت پر مشتمل ہے اور اسے ایک مفصل منصوبے میں تبدیل کرنے کے لیے ایک
مشترکہ کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ متفقہ امور فلسطینیوں اور اسرائیل کے
درمیان مذاکرات کے ذریعے طے پائے جائیں گے۔
دوسری جانب اسلامی تحریک مزاحمت’’حماس‘‘کے سینئر رہنما اور جماعت کے خارجہ
امور کے انچارج ڈاکٹر ماہر صلاح نے امریکا کے بدنام زمانہ امن منصوبے’’صدی
کی ڈیل‘‘ کو بم سے زیادہ خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی سازش کو
فلسطینی قوم اور حماس مزاحمت کی طاقت سے ناکام بنائیں گی۔مقامی میڈیا کو
خصوصی انٹرویو میں کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ کا نام نہاد امن منصوبہ بم سے
زیادہ تباہ کن اور خطرناک ہے۔ اس منصوبے نے تنازع فلسطین کے منصفانہ حل کی
برس ہا برس سے جاری بین الاقوامی اور علاقائی کوششوں پرپانی پھیر دیا
ہے۔ماہر صلاح نے کہا کہ یہ منصوبہ ایک ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے جب
امریکی صدر ٹرمپ اندرونی سطح پر احتساب کے مراحل سے گذر رہے ہیں جبکہ ان کے
حلیف اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کرپشن، امانت میں خیانت اور رشوت
ستانی جیسے سنگین جرائم میں مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ امریکی امن منصوبے
ڈیل آف دی سنچری میں جہالت، غرور، طیش اورتکبر واضح طورپر دکھائی دیتی ہے۔
فلسطینی قوم کے حقوق کی 50 ارب ڈالر قیمت لگا کر انہیں برباد کرنے کی کوشش
کی گئی ہے۔
ڈاکٹر ماہر صلاح کا کہنا تھا کہ فلسطینی قوم نے تمام تر سازشوں اور قوم کے
خلاف سامنے آنے والی ہر ریشہ دوانی کو مزاحمت کی طاقت سے ناکام بنایا۔
امریکا کی سنچری ڈیل کی سازش کو بھی مزاحمت کی قوت سے ناکام بنائیں گے۔
فلسطینی قوم اور قضیہ فلسطین کے خلاف ماضی میں بھی خانتیں اور دھوکہ دہی
ہوتی رہی ہے مگر امریکی صدر ٹرمپ نے فلسطینی قوم سے خیانت اور بد دیانتی کے
تمام حدیں پھلانگ دی ہیں۔
امریکی سازشی منصوبے صدی کی ڈیل کے خلاف فلسطینی قوم اور تمام قومی قوتوں
کے درمیان مفاہمت اور اتحاد کی ضرورت ہے۔ ٹرمپ کی سازشوں کو ناکام بنانے کے
لیے فلسطینیوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کی جتنی آج ضرورت ہی ماضی میں
نہیں تھی۔
حماس اس وقت تمام فلسطینی قوتوں کو باہم متحد کرنے اور ان کی صفوں میں
یکجہتی کے قیام کی کوشش کررہی ہے۔ امریکا کے مکروہ منصوبے کے اجراء سے قبل
حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ نے فلسطینی صدر محمود عباس سے
رابطہ کیا اور تمام تر اختلافات بھلا کر قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کی
ضرورت پر زور دیا۔فلسطینی صدر محمود عباس نے تحریک فتح کا ایک اعلیٰ
اختیاراتی وفد غزہ بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ایک مثبت اقدام اور قومی
مصالحتی عمل کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔
ڈاکٹر ماہر صلاح نے کہا کہ ٹرمپ نے’’سنچری ڈیل‘‘ کے ذریعے صہیونی ریاست کو
القدس اور مسجد اقصیٰ کو یہویانے کا نیا موقع فراہم کیا ہے مگر اس کے
باوجود عالمی برادری کی طرف سے مثبت رد عمل سامنے آیا ہے۔ عالم اسلام اور
عرب ممالک نے امریکا کے سنچری ڈیل منصوبے کو بالاتفاق مسترد کردیا ہے۔ یہ
فلسطینی قوم اور فلسطینی کاز کی کامیابی ہے۔ایک دوسرے سوال کے جواب میں
انہوں نے کہا کہ قضیہ فلسطین،حق واپسی دو ایسے ایشوز ہیں جن میں امریکی
منصوبے کو خاص طورپر نشانہ بنا کرانہیں ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ بعض عرب ممالک کے سفیروں نے ٹرمپ کے مشرق
وسطیٰ کے لیے منحوس اعلان کے وقت ان کے ساتھ پریس کانفرنس میں حصہ لیا۔
ٹرمپ کا ساتھ دینے والے عرب ممالک کا کردار انتہائی شرمناک ہے جو ظالم اور
قابض ریاست کے ساتھی بن کر مظلوم فلسطینی قوم کے دیرینہ حقوق اور بین
الاقوامی قراردادوں تک کو فراموش کر بیٹھے۔ مجموعی طورپر عرب ممالک اور
عالم اسلام نے امریکی صدر کے مشرق وسطیٰ کے لیے سازشی منصوبے کی مذمت کی
ہے۔ اسے صریح جانب دارانہ اور ظالمانہ قرار دیا گیا ہے۔
حماس رہ نما ڈاکٹر ماہر صلاح کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت
قابض دشمن کا مقابلہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ ماضی میں مزاحمت نے
صہیونی دُشمن کو عبرت ناک سبق سکھائے ہیں۔ غرب اردن اور غزہ کی پٹی میں
فلسطینی مزاحمتی قوتوں نے دشمن کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ فلسطینی مزاحمت کو
نہ صرف فلسطینی قوم بلکہ عرب ممالک اور عالم اسلام میں بھی پذیرائی حاصل
رہی ہے۔ فلسطینی قوم کو اپنی طاقت اور صلاحیت پر پورا اعتماد ہے۔ فلسطینی
قوم امریکی اور اسرائیلی سازش کو کسی صورت میں کامیاب نہیں ہونے دے گی۔
فلسطینی قوم مزاحمت کی طاقت سے امریکی منصوبے کو ناکام بنائیں گے۔
|