مشرق وسطی میں امریکہ چین سرد جنگ کا آغاز

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

امریکہ کے خلاف پوری دنیا میں عمومی نفرت کا جو بازار گرم اس کی حدت مشرق وسطی میں بھی بخوبی دیکھی جا سکتی ہے،فرق صرف اتنا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اور خصوصاََ عرب ممالک کے اندر چونکہ شخصی آزادیاں میسر نہیں ہیں اس لیے نفرت کا لاوا پکتا رہتا ہے اور آواز بلند ہونے کی بجائے ہتھیار بلند ہونے لگتے ہیں جس کی اول تو خبریں ہی دبا لی جاتی ہیں یا پھر ان جذبات کے اظہار کے لیے ان علاقوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جہاں سامراج کی پہنچ ممکن نہیں رہتی ،ایشیا اور افریقہ کے وہ دور درازعلاقے جو پہاڑوں کی وادیوں میں گھرے ہیں اپنے اندر نوجوانوں کے گروہ کے گروہ پرورش کررہے ہیں جو روس کے بعد امریکہ کو بھی اپنے ہاتھوں سے انجام یافتہ کرنا چاہتے ہیں۔دنیا کی بہترین افواج جدید ترین ہتھیاروں سے لیس اور وقت کی تیز ترین فراہمی معلومات کے وسائل ہونے کے باوجود ان افواج کی تمام تر کاروائیاں صرف ناکامیوں سے ہی عبارت ہیں۔عوام الناس میں امریکہ اور یورپ کے خلاف نفرت کا عالم یہ ہے مغربی مصنوعات کے مقاطعہ کے بعد کئی کثیرالقومی اداروں کو اپنا بوریا بستر باندھتے ہی بنی،یا پھر تاریخ کے بدترین مندے سے انہیں گزرنا پڑا۔

سقوط ماسکو کے بعد سے امریکہ نے پوری دنیا کو بالعموم اور مسلمان دنیا میں سے مشرق وسطی کے عرب ممالک کو بالخصوص اپنی ریشہ دوانیوں کا نشانہ بنایا اور کوشش کی کہ جہاں اشتراکیت وقومیت پرستی کے سائے لمبے ہوتے چلے جا رہے ہیں وہاں اسلامیت کے بلند و بالا مینار ہائے نورانیت کو بھی اپنی پھونکوں سے بجھا ڈالے۔1989ء کے بعد جب روس کا خطرہ ٹل گیا اور نیٹو افواج کا سفید ہاتھی امریکی معیشیت پر بوجھ بننے لگا تو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت 1991کی خلیجی جنگ کی بساط بچھائی گئی اور اس سے مطلوبہ نتائج حاصل کر کے تو امریکہ نے اپنی افواج عرب علاقوں میں اتار دیں اور دنیا کی ان مہنگے ترین عساکر کے اخراجات اپنے مہروں مدد سے امت مسلمہ کے حلق سے نچوڑنے لگا۔ اور یوں صدیوں کے بعد پہلی مرتبہ یہودونصاریٰ کی افواج کے ناپاک قدم ارض مقدس کو تاراج کرتے ہوئے نظر آئے۔قطر،بحرین،کویت اور سعودی عرب جیسے ملک کی قیادت نے بھی بڑی فراخ دلی سے اپنی اپنی زمینوں کے ساتھ ساتھ اپنے خزانوں کے منہ بھی امریکی افواج کے لیے کھول دیے۔

امریکی سازشوں کے پھیلتے ہوئے جال سے مشرق وسطی کی مقامی حقیقی مسلمان قیادت سمیت کرہ ارض کے عالمی پردھان منتری بھی پریشان تھے اور سرکرداں تھے کہ کس طرح امریکی اثر نفوذ کو مختصر تر کیا جائے۔امریکہ اور یورپ کے خلاف نفرت کی اس گرم بھٹی سے جہاں اپنوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے اور دشمن کو پہچاننے میں تاخیر نہیں کی وہاں غیروں نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ جمہوریہ اشتراکی چین وہ ریاست ہے جس نے مشرق وسطی میں اپنی پالیسیوں میں بہت پہلے سے امریکہ کی گرتی ہوئی دیوار کو دھکا دینا شروع کر دیا تھا۔خاص طور پر 1991ءکی خلیجی جنگ کے بعد ©”عالمی ترتیب نو“کی امریکی ”بڑک“ نے دنیا کے سامنے امریکی فاشزم کے ارادے بے نقاب کر دیے تھے اور جاپان اور یورپی یونین نے مل کر اشتراکی جمہوریہ چین کو آگے لانے کا عندیہ دیا تھا جو دفاعی ومعاشی خودمختاری کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر بھی امریکہ کے خونیں پنجہ سے آزاد تھا۔جاپان اور یورپی یونین کے نزدیک مشرق وسطی میں امریکی اثرات کو کنارے لگانے کا کام اشتراکی چین اس لیے بھی کرسکتا تھا کہ وہ نظریاتی طور پر روس کا جانشین سمجھا جاتا تھا اور عرب کے ریگستانوں میں اشتراکیت کے بچے کھچے اثرات ابھی جھلس رہے تھے جو اشتراکی چین کے لیے موقع شناسی کا کام دے سکتے تھے۔

عرب چین سیاسی تعلقات کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے،پچاس کی دہائی میں جب دوسری جنگ عظیم کے بادل ابھی پوری طرح چھٹنے نہیں پائے تھے کہ عرب ریاستوں نے اشتراکی چین کو اور اشتراکی چین نے عرب ریاستوں کو تسلیم کیا اور یوں سفارتی تعلقات قائم ہو چلے،تعلقات کے اس آغاز میں ہی عرب ریاستوں نے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے لیے اشتراکی چین کی حمایت بھی کی۔ان تعلقات میں 1980کے دوران اس وقت گرمی آنا شروع ہوئی جب اشتراکی چین نے ایران عراق جنگ کے دوران ان ملکوں کو بلاسٹک میزائل فروخت کیے اور سعودی عرب نے بھی اشتراکی چین سے CSS-2میزائل خریدے۔سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی اشتراکی چین نے بھی اپنی منڈیوں میں وسعت کی خاطر مشرق وسطی کو اپنے فہرست میں بالائی مقام پر جگہ دینا شروع کی۔اس وقت تک اشتراکی چین کی توانائی کا58%مشرق وسطی کی درآمدات سے پورا کیا جاتا تھا جس کو 70%تک بڑھانا مقصود تھا اور یہ اضافہ تجارتی بڑھوتری سے ہی ممکن تھا۔چنانچہ اس مقصد کے لیے ”چائنانیشنل پٹرولیم اینڈ کیمیکل کارپوریشن“(SINOPEC)نے ایران اور سعودی عرب سے گیس اور پٹرولیم کے بہت بڑے بڑے معاہدے کیے۔اسی طرح کے بڑے بڑے طویل المدت معاہدے دوسرے عرب ممالک سے بھی کیے گئے۔اشتراکی چین کی اسی کمپنی نے1995کے دوران سوڈان اورالجیریا کے اندر توانائی کے شعبے میں بھی بہت بھاری بھرکم رقم کی سرمایا کاری کی۔چین اور خلیج تعاون کونسل(GCC) کے درمیان تجارتی روابط اس قدر بڑھے کہ فریقین کے درمیان ”فری ٹریڈ زون“ پر بھی بات چیت اور مذاکرات کے دور ہوتے رہے۔چین اور شام کی مشترکہ تیل کی کمپنی نے عراق کے بحالی نو کے کام کرنے کی پیشکش بھی کی۔ایک زمانے سے عرب چین کے اعلیٰ سطحی وفود کثرت سے باہمی دوروں پر بھی جاتے رہتے ہیں۔گویا تجارتی تعلقات بڑی تیزی سے سیاسی تعلقات کی حدت کی طرف بڑھ رہے ہیں اور انسانی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ سیاسی مقاصد کے لیے ہمیشہ تجارتی نقب لگائی جاتی ہے۔

امریکہ ان تعلقات کو گہری نظر سے دیکھتا ہے خاص طور پر ایران اور سوڈان کے خلاف پابندیوں میں اشتراکی چین کا کردار امریکہ کے لیے بڑا ہی تکلیف دہ ثابت ہوا،اس تکلیف کی ایک وجہ یہ بھی تھی امریکہ چین اختلافات پر خلیجی اخباروں نے کھل کر چینی موقف کا ساتھ دیا اور اس پر ایک بار امریکی وزیر خارجہ نے برہمی کا بھی اظہار کیا تھا۔اس کے علاوہ دیگر عالمی معاملات میں بھی عرب دانشوروں نے کھل کر امریکہ کی مخالفت اور چین کی حمایت شروع کر رکھی ہے،”الحرم“ کی خاتون کالم نگار نے شمالی کوریا کے بارے امریکی موقف کی ڈٹ کر مخالفت کی اور کھل کر بیجنگ کی پالیسیوں کا ساتھ دیا۔امریکہ کو شک ہے کہ اشتراکی چین اپنی ایٹمی ٹیکنالوجی کو شمالی کوریا کے ذریعے مشرق وسطی میں منتقل کرنا چاہتا ہے۔ اسی اخبار کے ایک اور کالم نگار نے تو اس حد تک لکھا کہ اس وقت مشرق وسطی میں واشنگٹن صرف بیجنگ کے ہی درپے ہے،یاد رہے کہ عرب ممالک میں اخبارات کو حکومتی موقف سے اختلاف کا یارا نہیں۔ 2002 میں مصری صدر کے دورہ اشتراکی چین کے موقع پر مصری ”محفوظ“نامی نوبل انعام یافتہ ماہر نے کہا تھا کہ اکیسویں صدی میں صرف امریکہ کی بالادستی نہیں رہنے دی جائے گی اور اس سے چند سال پہلے عرب لیگ کے اجلاس میں ایک رپورٹ پیش کی گئی جس کے مطابق اشتراکی چین کے ساتھ معاشی و سیاسی تعلقات کی بڑھوتری کو بہت اہم گردانا گیا۔چند سال بیشتر کویت نے تاریخی اہمیت کی حامل ”شاہراہ ریشم“(Silk Route)کو دوبارہ استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ مشرق وسطی کو دیگر ایشیائی ریاستوں کے ساتھ جوڑا جا سکے لیکن اس منصوبے میں سڑک کی بجائے ریلوے لائن کی سفارش کی گئی،اس منصوبے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے صدر نشین اس وقت کے کویتی وزیراعظم کے فرزند الشیخ نصر صباح الاحمد تھے۔

سرزمین عرب کے وسط میں اسرائیل کا وجود کسی ایسے زخم سے کم نہیں جو مسلسل رستا ہی چلا جا رہا ہے، جبکہ اشتراکی چین کی امریکہ مخالف پالیسیوں کے باعث عربوں میں یہ سوچ پرورش پا رہی ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کے لیے جو کردار ادا کیا ہے اگر وہی کردار اشتراکی چین عربوں کے لیے اختیار کر لے تو اسرائیل کا وجود آسانی سے ختم ہو سکتا ہے۔ایک مصری دانشور ”عبدالمالک“ نے اپنی تحریروں میں لکھا ہے کہ عربوں کو امریکی صہیونیوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے اشتراکی چین کے ساتھ لازمی چلنا ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے امریکہ چین دفاعی معاہدوں پر شدید تنقید کی ہے اور ان معاہدوں کو اشتراکی چین کے مصر اور سعودی عرب کے ساتھ کمزور تعلقات سے مشروط کرنے کو کہا ہے۔

امریکہ دشمن فکر کے لیے اگر چہ یہ عالمی تناؤ خوش آئند ہے لیکن اس سے قبل افغانستان میں امریکہ روس جنگ کے اثرات بد آج تک خطے کی عوام بھگت رہی ہے،اگر یہی کھیل مشرق وسطی میں بھی کھیلا گیا تو اس کا کیا انجام ہوگا،یہ نوشتہ دیوار ہے۔آخر مسلمان اقوام کب تک دنیا کے بھینسوں کی لڑائی کے لیے اپنی نسلوں اور فصلوں کو پیش کرتے رہیں گے؟؟؟عرب قیادت جب تک اپنی قومیت پرستی کے خول سے باہر نہیں نکلتی اس وقت تک بڑی طاقتوں کی حاشیہ برداری کی ذلت ان کے مقدر میں رہے گی اور اسرائیل کی تلوار ان کی گردنوں پر لٹکتی رہے گی۔اتحاد امت وہ واحد راستہ ہے جو عربوں سمیت کل دنیا کے مسلمانوں کو ایک اکائی میں پرو کر روشن مستقبل کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔عربوں نے ایک بار پھر ایشیا سمیت کل عالم کو موحد،صالح، دین دار اور انسان دوست قیادت فراہم کرنی ہے کہ قرآن مجید کے اولین مخاطب وہی لوگ ہیں۔بارالہ سے دعا ہے امت مسلمہ سے غلامی باقیات کا خاتمہ ہو اور امت کی شیرازہ بندی عمل میں آئے،آمین۔
Dr. Sajid Khakwani
About the Author: Dr. Sajid Khakwani Read More Articles by Dr. Sajid Khakwani: 470 Articles with 523709 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.