بھارت بھر میں مسلمانوں کی قیادت کرنے کے لئے سینکڑوں
تنظیمیں موجود ہیں ، موجود تھیں اور وجود میں آرہی ہیں ، ہر کوئی تنظیم
مسلمانوں کی قیادت کرنے اور مسلمانوں کی رہبری کرنے کی دعویدار ہے ، کچھ
تنظیمیں مسلمانوں کی آخرت سنوارنے کے دعویدار ہیں تو کچھ تنظیمیں مسلمانوں
کی دنیا سنوارنے کے لئے پابند رہنے کی بات کرتے ہیں اور کچھ تنظیمیں دنیا و
آخرت دونوں میں کامیابی دلانے کی ضمانت لیتے ہیں اور کچھ تنظیمیں بھوک سے
آزادی دلانے کی بات کرتے ہیں تو کچھ تنظیمیں خوف سے آزادی دلانے کی بات
کرتے ہیں ، کچھ کا کہنا ہے کہ ہماری تنظیم ملک میں مسلم نوجوانوں میں تعلیم
کوعام کرنے کا کام کریگی اور کچھ تو قوم کے ہر مسئلے کے حل کو اپنی تنظیم
سےہی ممکن ہے ایسا قرار دیتے ہیں ۔ سرسری طورپر جائزہ لیں تو آج پورے
ہندوستان میں لگ بھگ ایک درجن کےقریب ایسی تنظیمیں مسلمانوں کی قیادت کے
دعویدار ہیں جنہیں ہم اور آپ ام التنظمین کہہ سکتے ہیں لیکن ان تمام
تنظیموں کے نتائج پر نظر دوڑائیں تو آپ کو افسوس ہوگا کہ آپ کو کس طرح سے
ہماری ہی تنظیمیں بے وقوف بنا رہے ہیں ۔بھارت میں 1924 میں قائم شدہ آر یس
یس کی شروعات کسی بڑے گروہ نے نہیں کی تھی بلکہ ہیڈگیواڑ اور گوالکر نامی
دو افراد نے کی تھی ۔ انہوںنے آر یس یس کا وجود بھارت کو ہندوراشٹر بنانے
کے لئے کیا تھا اس کے لئے انہوںنےملک بھر میں ہندو دھرم شالا ، آشرم یا
گوروکل نہیں بنائے تھے بلکہ ایسی سوچ کے لوگ کو تیار کیا جو انکے خواب کو
پورا کرسکیں ، آریس یس نے ملک کو آزاد ہوتا دیکھ کر آزادی سے پہلے ہی
ایسے لوگوں کو آگے کیا جو بھارت کو مستقبل میں ہندوراشٹر بنانے میں کام
آسکیں ، انہوںنے مندروں کی پجاریوں کو آگے نہیں کیا بلکہ برہمنوں کے اس
تعلیم یافتہ طبقے کو آگے کیا جو ملک بھر میں پھیل کر ہندوراشٹر بنانے
والوں کو تیار کرسکیں ۔ اسکولوں ، کالجوں ، سرکاری محکموں ، کارپوریٹ
سیکٹرز اور بڑے بڑے کاروباری مراکز میں انہوںنے برہمن واد اور ہندوراشٹر کی
فکر رکھنے والوں کو آگے کیا ۔ تعلیمی نظام و نصاب کو بدلا، جمہوریت کے
معنوں کو بدلا اسکے بعد اب آئین کو بدلنے کی کوشش کی جارہی ہےیہ صرف اور
صرف اس وجہ سے ہے کہ انہوںنے مذہب کو لازم بنانے سے زیادہ سوچ کو مضبوط
بنایا ہے ۔ ہمارے پاس آزادی سے پہلے سے مسلمانوں کی قیادت کرنے والی تنظیم
جمیعت العلماء ہند ہے اسکے بعد آزادی کے بعد عمل میں آنے والی جماعت
اسلامی ہند ، پاپولر فرنٹ آف انڈیا ، جمیعت العلماء محمود مدنی ، جمیعت
اہل حدیث جیسی مضبوط نمائندہ تنظیمیں ہیں ایسے اور بھی کچھ تنظیمیں ہیں جو
اندازََ ایک درجن کے قریب نمائندہ تنظیموں میں شمار ہوتی ہیں ، اگر ایک
درجن نمائند ہ تنظیموں نے اس سمت میں پچھلے پچاس سالوں سے کام کیا ہوتا تو
آج نوکر شاہی طبقے میں مسلمانوں کی نمائندگی 2 فیصد نہیں بلکہ 20 فیصد
ہوتی اور مسلمانوں کو ہندوراشٹر جیسی سوچ سے لڑنےکے لئے ایک مضبوط طبقہ
ملتا۔ 20 فیصد نوکر شاہی طبقہ اگر ہمارے پاس ہوتا تو نہ ہمارے پاس سی اے اے
ہوتا نہ ہی ین آر سی عمل میں لایا جاتا۔ نہ ای وی یم گھوٹالے ہوتے نہ ہی
فسطائی جماعتیں عروج پر آتی۔دراصل مسلمانوںنے ہندوراشٹر کے مقابلے میں
کوئی طاقت بنانے پر فکر ہی نہیں کی ہے ۔ اگر ہم نے آزادی کے بعد کسی کام
کو پابندی کے ساتھ زور دار طریقے سے انجام دیا ہے تو وہ مسجدوں کی تعمیر
اور مدرسوں کو گلی گلی میں قائم کرنا ۔ جبکہ مسجد وں اور مدرسوں کا قیام
بھی دین کی اشاعت سے زیادہ مسلکوں اور مکتبہ فکر کو مضبوط ثابت کرنے کے لئے
اکثر علاقوں میں قائم کیا گیا ہے ۔ بہت کم مدارس ایسے ہونگے جو تقوے کی
بنیاد پر قائم کئے گئے ہیں ورنہ اکثر مدارس انانیت کی بنیادپر بنائے جارہے
ہیں ۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ مدرسوں کا قیام کرنا ضروری نہیں بلکہ ایسے
مدرسوں کی ضرورت ہے جو ہماری قوم کو دنیا و آخر ت میں کامیاب کراسکیں ۔
مسلمانوں کی قیادت کرسکیں جو دنیا وی اور دینی دونوں اعتبار سے ممکن ہو ۔
ملک میں آئی اے ایس اور آئی پی یس افسروں کی جو تعداد ہے اس تعداد میں
مسلم نوجوانوں بھی شامل ہوجائیں تو فسطائی طاقتوں سے لڑی جانے والی جنگ
آسان ہوجائیگی ۔ اس کام کو اگر انجام دینا ہے تو مسلمانوں کے پاس محض 10
سالوں کا وقت ہے ان دس سالوں میں جتنی تیاری ہو وہ پوری کرلیں ورنہ دس سال
کے بعد ہمارا وجود بھی باقی نہیں رہے گا ۔
|