افغانستان سے امریکا کی واپسی ، طالبان کی جنگ بندی

 امریکا اور اس کے اتحادی ممالک نے 7 اکتوبر 2001 کو افغانستان پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں وہاں لاکھوں افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے جبکہ 20 سال سے یہ ملک عدم استحکام کا شکار ہے۔ ویسے تو دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ نے ہر مسلمان ملک کو متاثر کیا ہے لیکن سب سے زیادہ نقصان افغانستان میں ہوا جہاں طالبان کی حکومت پر حملہ کرکے ختم تو کیا گیا لیکن آج 19سال بعد بھی آئے روز وہاں پرتشدد کارروئیاں ہوتی ہے جس میں زیادہ تر افغانی ہی ٹارگٹ ہوتے ہیں ۔ امر یکی حملے کے بعد افغانستان میں کوئی دن بھی پرتشدد کارروئیوں کے بغیر نہیں گزرا ہے۔ یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح موجود ہے کہ جہا ں امریکا نے اس جنگ میں میں کھر بوں کا نقصان کیا وہاں ہزار وں کی تعداد میں امریکی فوجی بھی ہلاک ہوئے جس کو امریکی انتظامیہ ہمیشہ چھپاتی رہی ہے لیکن ہلاک ہونے والے سکیورٹی فورسز کی تعداد کئی ہزار ہے ۔جس کو دیکھ کر امریکا نے مجبور ی میں مذاکرات شروع کیے ۔ جس کے بارے میں پہلے امریکہ نا صرف انکاری تھا بلکہ طالبان کو دہشت گرد کا لقب بھی دیا لیکن آج افغانستان کی تاریخ نے ایک دفعہ پھر ثابت کیا کہ افغانستان میں اصل قوت طالبان ہی کی ہے ۔ مختلف رپورٹس اور ذرائع کے مطابق طالبان کی افغانستان کے 70فی صد علاقے پر ان ڈائر یکٹ حکومت آج بھی قائم ہے جس کو مقامی لوگوں کی بھر پور حمایت بھی حاصل ہے۔

دوحہ قطر میں تقریباً دو سال سے جاری مذاکرات کا آخرکار اختتام آہی کیا ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے کہا کہ حالیہ دنوں میں طالبان سے امن مذاکرات میں نمایاں پیش رفت ہوگئی ہے تاہم تاحال امن معاہدہ نہیں ہوا ہے اور مذاکرات کافی پیچیدہ ہیں، جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بات چیت میں مزید آگے بڑھنے کی منظوری دے دی ہے۔

امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہونے کا امکان پر مائک پومپیو نے امید ظاہر کی کہ افغانستان میں خونریزی میں نمایاں کمی کے حصول میں کامیاب ہوجائیں گے جو صرف کاغذ تک ہی محدود نہیں ہوگی بلکہ حقیقت میں بھی نظر آئے گی، اگر خونریزی میں کمی کا یہ ہدف حاصل ہوگیا اور اس میں کچھ عرصے کے لیے استحکام بھی آگیا، تو ہم ایک سنجیدہ بات چیت شروع کرسکیں گے جس میں تمام افغان گروہ شریک ہوں گے اور حقیقی مصالحت کو تلاش کریں گے۔ رپورٹس کے مطابق امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں جزوی جنگ بندی پر اتفاق ہوا ہے جس پر آج جمعے سے عمل درآمد شروع ہونا ہے۔امریکہ کے سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو نے دعویٰ کیا ہے کہ حالیہ دنوں میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔امریکی سیکر ٹری دفاع مارک اس پر پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ انھوں نے ہفتے بھر کے لیے پرتشدد کارروائیوں میں کمی سے متعلق ایک تجویز پر بات چیت کی ہے۔

خیال رہے کہ طالبان اور امریکا بہت عرصے سے افغانستان میں 19 برس سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں۔اس عرصے کے دوران ان کو کئی چیلنجز کا سامنا بھی رہا ہے۔ گذشتہ سال ستمبر 2019میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ مذاکرات اپنی موت مر چکے ہیں۔

اب تقریباً چار ماہ بعد13 فروری کو مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ امریکی صدر نے طالبان کے ساتھ مذاکرات آگے بڑھانے کے لیے کہا ہے۔ انھوں نے حالیہ دنوں میں ہونے والے مذاکرات میں پیش رفت کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بات چیت بہت ہی پیچیدہ نوعیت کی ہے اور ابھی تک امن معاہدے تک بات نہیں پہنچ سکی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمیں امید ہے کہ ہم پرتشدد کارروائیوں میں صرف کاغذ پر ہی نہیں بلکہ حقیقت میں بڑی حد تک کمی لا سکتے ہیں۔ اگر ہم اس منزل پر پہنچ سکے اور ہم اس صورتحال کو کچھ عرصے کے لیے ایسے ہی برقرار رکھ سکے تو پھر ہم افغان عوام کی امنگوں کے مطابق صحیح معنوں میں مفاہمت کے لیے سنجیدہ بات چیت کے دور کا کا آغاز کرنے کے قابل ہو جائیں گے جس میں تمام افغان شریک ہوں گے۔

واضح رہے کہ مائیک پومپیو کا یہ تبصرہ امریکی سیکرٹری دفاع کے میڈیا کے نمائندوں کو ایک ہفتے کے لیے پرتشدد کارروائیوں میں کمی کی تجویز سے متعلق بریفنگ کے بعد سامنے آیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک سیاسی معاہدے کو ہی افغان مسئلے کا بہترین حل قرار دیا۔ اس معاملے میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے اور جلد ہم اس پر مزید کچھ کہنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ اگر ہم مذاکرات میں اسی طرح آگے بڑھتے رہے تو افغانستان میں امن بحالی کیلئے یہ مذاکرات مرحلہ وار بات چیت مسلسل آگے بڑھتی رہے گی۔
ابھی اس متعلق تفصیلات سامنے نہیں آئیں کہ پرتشدد کارروائیوں میں عارضی وقفہ کب سے شروع ہو گا تاہم ایک طالبان رہنما نے خبررساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ہے کہ تشدد میں کمی والے معاہدے کا اطلاق جمعے یعنی 14 فروری سے ہوگا۔

افغانستان سے امریکی فوجی نکالنا صدر ٹرمپ کا اہم ہدف رہا ہے۔ سنہ 2001 میں افغانستان پر حملے کے بعد سے طالبان حکومت کی بیدخلی کے بعد لاکھ سے زیادہ امریکی افواج افغانستان میں مقیم تھی ۔ صدر ٹرمپ نے کمی کرکے 13000 امریکی فوجیوں کو افغانستان میں رہنے دیا جس میں اب مزید کمی بھی ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اب امر یکی فو جیوں کی تعداد8ہزار ہے جس کی واپسی اطلاعات کے مطابق کچھ ہو بھی چکی ہے ۔ باقاعدہ معاہدے کے اعلان کے بعد ساری امریکی فوج افغانستان سے نکل جائے گی جو طالبان کی پہلی اور سب سے اہم سخت شرط تھی جس کو پہلے امریکا ماننے کو تیار نہیں تھا لیکن بعد میں زمینی حقائق کو دیکھ کر امریکا نے فیصلہ کیا کہ افغانستان میں مزید قیام کا مطلب مزید کھر بوں روپے کا نقصان ۔جو کہ امریکی معیشت اب برداشت نہیں کرسکتی۔

خیال رہے کہ دسمبر 2018 میں طالبان نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ امریکی حکام سے مل کر افغانستان میں قیام امن کی کوشش کریں گے۔ تاہم طالبان نے افغان حکومت کو امریکی کٹھ پتلیاں کہتے ہوئے ان سے مذاکرات سے انکار کر دیا۔

قطر میں مذاکرت کے نو ادوار کے بعد بظاہر فریقین امن معاہدے کے بہت قریب پہنچ گئے تھے۔ ستمبر میں واشنگٹن کے ایک اعلیٰ رہنما نے جو مذاکرات میں پیش پیش تھے طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے تناظر میں افغانستان سے بیس ہفتوں تک 5400 فوجی نکالنے کا اعلان کیا تھا۔

لیکن اس اعلان کے کچھ ہی د نوں بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس وقت امن مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کیا جب طالبان نے امریکی فوجی کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔امریکی صدر نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرطالبان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کچھ لوگوں کو مار کر مذاکرات میں اپنی پوزیشن بہتر کر لیں گے تو پھر وہ بہت بڑی غلطی پر ہیں۔

جب سے امن مذاکرات ختم ہوئے تب سے لڑائی جاری رہی۔ طالبان نے خبردار کیا تھا کہ بات چیت ختم کرنے کے اعلان کا سب سے زیادہ نقصان امریکہ کو ہو گا۔ جو صرف ایک مہینے میں عملی پر یکھا کیا کہ کچھ دنوں پہلے امر یکی جہاز کو طالبان ٹارگٹ کیا جس میں اطلاعات کے مطابق سی آئی اے کے اعلیٰ عہدار ہلاک ہوئے اس کے علاوہ آئے روز حملہ بھی کیے جاتے ہیں ۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ افغانستان میں جاری کھیل میں بعض قوتیں نہیں چاہتی کہ یہ امن معاہدہ ہوا جس میں بھارت سر فہرست ہے۔ لیکن اب امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہونے کا امکان اب بہت زیادہ ہو چکا ہے کہ جب افغانستان کیلئے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل ذادہ کی طرف سے مذاکرات کا میاب ہونے کے حوالے سے بیان آیا۔افغان طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان رواں ماہ کے آخر میں امن معاہدہ ہونے کا امکان ہے۔

امن معاہدہ کی صورت میں غیر ملکی افوج کے افغانستان سے انخلا کے معاملات بھی طے پاسکتے ہیں۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق افغان طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان رواں ماہ کے آخر میں امن معاہدہ ہو جاتاہے تو اس کے بعد غیر ملکی افوج کے افغانستان سے انخلا کے حوالے سے معاملات بھی طے پائیں گے جو کہ 19سالہ جنگ کا خاتمے کریں گی۔ امریکی انخلا کے بعد افغانستان کا مستقبل کیا ہوگا، یہ سب سے اہم مسئلہ امریکا سمیت تمام قو توں کو درپیش ہوگا۔ تاریخ نے ایک دفعہ پھر ثابت کیا کہ یہ زمین سپر پاور کیلئے قبرستان ثابت ہوا ہے جہا ں لاکھوں افراد کی قربانی دے کر طالبان نے آج ہزاروں کی تعداد میں امریکا سمیت اتحادیوں کو دفن کیااور ایک بڑی تعداد میں عمربھر کیلئے آپاہج بھی کیا ہے۔

گزشتہ روز افغان صدر اشرف غنی نے سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئٹر پر کہا تھا کہ امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے ٹیلیفون کیا اور طالبان کے ساتھ جاری امن مذاکرات کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے افغانستان میں جاری پرتشدد کارروائیوں میں نمایاں کمی کی تجویز دی ہے جو کہ خوش آئند ہے۔جمعرات کو امریکہ کی طرف سے مذاکرات میں پیش رفت کا اعلان افغان صدر اشرف غنی کے اس بیان کے بعد آیا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ انھیں یہ اطلاع دی گئی ہے کہ جن مذاکرات میں ان کی حکومت شامل نہیں ان میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ تاریخ کا سب سے بڑا معاہدے اور ڈیل کا اعلان کس وقت کیا جاتا ہے ۔ ذرائع کے مطابق طالبان کی طرف سے معاملات طے پاچکے ہیں کہ طالبان نے معاہد ے یا ڈیل پر راضامندی ظاہر کردی ہے اور تمام شرائط کے پابندی کریں گے لیکن دوسرا فریق یعنی امریکا بھی معاہد ے کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔ اب امریکا اس کا اعلان باقاعدہ طور پر کب کرے گا یہ ان کو ہی معلوم ہے کہ جب صدر ٹر مپ اجازت دیں گے۔ طالبان کے مطابق امریکا کی پرامن انخلا میں کو ئی روکاٹ پیدا نہیں کی جائے گی۔

افغان امن عمل میں امن معاہدے کا نام سنتے ہی اکثر افغان عوام خوش ہیں کہ ان کے ملک میں گذشتہ چار عشروں سے جاری جنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔
 

Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 225977 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More