تحصیل کلرسیداں کی موجودہ صورتحال

تحصیل کلرسیداں 2007سے پہلے کہوٹہ کا حصہ تھی 2007میں اس کو ایک الگ تحصیل کا درجہ دے دیا گیا کہوٹہ کی کل 22یو سیز تھیں جن میں سے گیارہ کلرسیداں میں شامل کر دی گئی ہیں جس کے تحت یہ ایک چھوٹی سی تحصیل معرض وجود میں آئی تھی اس تحصیل کا نام بہت پیارا ہے جس طرح اس کا نام پیارا ہے بلکل اس طرح یہ تحصیل انتھائی خوبصورت علاقوں پر مشتمعل ہے یہ تحصیل کشمیر کے بلکل ساتھ لگتی ہے کشمیر جانے والی ٹریفک بھی ادھر سے ہی گزرتی ہے جو ڈحڈیال اور میر پور کے علاقوں کو چھوتی ہے اس کو تحصیل کا درجہ دلوانے میں اس وقت پنجاب کے وزیر قانون راجہ محمد بشارت اور ان کے بھائی راجہ ناصر کی بہت بڑی کاوشیں شامل ہیں جنہوں نے کلرسیداں کے عوام کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کیلیئے ایک الگ تحصیل کا قیام عمل میں لایا ہے جب اس کا قیام عمل میں لایا گیا تو کچھ سرکاری اداروں کے دفاتر تو اس وقت بن گئے لیکن کچھ سرکاری محکمے جو ایک مکمل تحصیل کیلیئے بہت ضروری ہیں ان کا قیام آج تک ممکن نہیں ہو سکا ہے جو سرکاری ادارے ابھی تک نہیں بن سکے ہیں ان میں تحصیل سپورٹس آفیسر،آڈٹ آفیسر،اور دیگر چند محکمے شامل ہیں ان کے علاوہ لائبریری،پبلک پارک،اور پاسپورٹ آفس کا ہونا بھی نہایت ضروری ہے خصوصی بچوں کا ایک سکول تو موجود ہے لیکن اس کیلیئے ابھی تک سرکاری بلڈنگ نہیں بن سکی ہے ان کے علاوہ محکمہ زراعت،نادرا آفس،واٹر منیجمنٹ،کے دفاتر بھی ابھی تک پرائیویٹ بلڈنگز میں قائم ہیں جن پر گورنمنٹ کو سالانہ کروڑوں کے حساب کرائے کی مد میں ادا کرنے پڑ رہے ہیں اگر تمام سرکاری محکموں کیلیئے ایک جہگہ پر کمپلیکس کی طرز کی بلڈنگ بنا دی جائے تو بہت بہتری لائی جا سکتی ہے اور عوام جو کسی کام کے سلسلے میں کبھی کلرسیداں کے ایک کونے میں اور کبھی دوسرے کونے میں دھکے کھانے سے بچ سکتے ہیں اور بدقسمتی سے جو سرکاری ادارے اس وقت فعال ہیں ان میں عوامی مفاد کا کوئی کام ہوتا نظر ہی نہیں آ رہا ہے ہر ادارے میں جانے والے سائلین کو صرف مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہیں سے بھی کوئی کام با آسانی نکلوانا ناممکن ہو چکا ہے اور خاص طور پر تھانہ کلرسیداں کی پولیس تو اپنے قاعدے قانون بلکل علاقہ غیر کے قانون کے مطابق چلا رہی ہے اور وہ اپنے آپ کو ہر قانون سے بالا تر سمجھ رہے ہیں محکمہ مال میں اگر جایا جائے تو وہاں کے طور طریقے دیکھ کر تورونا آتا ہے کسی بھی سرکاری ادادے سے جائز کام کروانا جان جوکھوں کا کام سمجھا جاتا ہے پٹوار خانے منشی خانوں میں تبدیل ہو چکے ہیں جس کسی بھی پٹواری کے دفتر میں کسی کام کیلیئے جا نا پڑ جائے تو وہاں پر صرف منشی ہی ملتے ہیں جو یہ جواب دے کر ٹال دیتے ہیں کہ میں بھی کہیں جا رہا ہوں آپ کل آ جانا اور جب کل آتا ہے تو ان کا دفتر ہی بند ملتا ہے ایک فرد کے حصول کیلیئے کئی کئی دن گزر جاتے ہیں نہ پٹواری صاحبان ملتے ہیں اور نہ ہی ان کے منشی ملتے ہیں کتنی حیرت کی بات ہے کہ سرکاری ریکارڈ پر پرائیویٹ لوگوں نے قبضے کر رکھے ہیں جبکہ دوسری طرف پنجاب حکومت نے واضح ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ سرکاری آراضی سے قبضے ختم کروائے جائیں جو حکومت اپنے سرکاری اداروں پر سے ناجائز اور پرائیویٹ افراد کے قبضے نہیں چھڑوا سکتی ہے وہ سرکاری زمینوں سے قبضے کیوں اور کیسے چھڑوا سکتی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت بھی ڈنگ ٹپاؤ والی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے ترقیاتی کام جو تھوڑے بہت ہوتے ہیں ان پر کوئی بھی چیکینگ نہیں ہے جس وجہ سے کام ناقص کیئے جاتے ہیں جو کچھ وقت گزرنے پر بلکل کھٹارہ بن جاتے ہیں ٹھیکداروں کو کہیں کووئی پوچھنے والا نہیں ہے وہ چند ٹاؤٹوں کو اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں اور وہ ٹاؤٹ سیاسی رہنماؤں کو کور کر لیتے ہیں اور ناقص کام بھی اچھے بنا کر پیش کیئے جاتے ہیں اس وقت تحصیل میں بے شمار سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں کوئی ان کی طرف دھیان نہیں دے رہاہے بعض سڑکیں تو ایسی ہیں کہ ان پر سے گزرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے کہ ہم کس علاقے میں رہ رہے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ پچھلے کئی عرصہ سے صرف برادری عزم کو مد نظر رکھ کر ووٹ دیتے ہیں ہم نے کبھی بھی میرٹ کو سامنے نہیں رکھا ہے جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ آج کلرسیداں کے عوام کو ہر لیڈر صرف لالی پاپ ہی دے رہا ہے عملی طور پر کچھ نہیں ہو رہا ہے کلرسیداں کے عوام نے ایک نہایت ہی شریف سیاستدان شاہد خاقان عباسی کو مسترد کر کے ایک نوجوان لیڈر صداقت علی عباسی کا انتخاب کیا ہے صرف اس سوچ کو سامنے رکھ کر کہ شاید یہ نوجوان ہمارے دکھوں کا مداوہ بنے مگر ان کے انتخاب نے انہیں مایوسیوں کے سوا کچھ نہیں دیا ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبورر ہو چکے ہیں کہ شاید ان کا انتخاب غلط نکلا ہے اور اب تو ایسا محسووس ہو رہا ہے کہ انہوں نے کلرسیدا ں سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا ارادہ بنا لیا ہے اور ایک لمبے عرصے سے وہ ادھر کا رخ نہیں کر رہے ہیں اور اب تو ان کے کارکن بھی ٹوٹ کر بکھر چکے ہیں وہ ان کو اکٹھا کرنے سے بھی قاصر دکھائی دے رہے ہیں چند مخصوص افراد کے علاوہ ان کا باقی عوام سے رابطہ بلکل کٹ چکا ہے صداقت عباسی بنیادی طور ایک شریف شخص ہیں وہ آج تک تھانہ کچہری کی سیاست سے گریز کر رہے ہیں اس بات کی ہر کوئی گواہی دے رہا ہے کہ وہ اداروں میں مداخلت نہیں کرتے ہیں لیکن مداخلت نہ کرنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہونا چاہیئے کہ وہ اداروں کو بلکل بے لگام چھوڑ دیں زیادہ نہیں تو کم از کم ان سے پوچھ گچھ ضرور کریں ان کو عوای بھلائی کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے کی ہدایات کریں آج کلرسیداں کے عوام کو صرف کسی ایک مسئلے نہیں بلکہ مسائلستان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے گیس اس وقت سب سے اہم مسئلہ ہے مگر اس جانب کسی کا بھی دھیان نہیں ہے کلرسیداں کے 75%ایریے میں تو گیس کے چھوٹے موٹے کام جاری ہیں لیکن یو سی گف، بشنداوٹ، اور غزن آباد میں گیس فراہمی کا سوچنا بھی مشکل نظر آ رہا ہے صداقت عباسی نے غزن آباد کیلیئے گیس فراہمی کیلیئے ایک کروڑ روپے کا اعلان تو کر رکھا ہے لیکن وہ ابھی تک صرف زبانی جمع تفریق کا معاملہ لگ رہا ہے اس پر ابھی تک کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی ہے دوسری طرف حکومت نے پہلے سے موجود بلدیاتی نظام ختم کر کے نیا نظام لانے کا اعلان کیا تھا مگر نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ نئے کی انتظار میں پرانے سے بھی گئے اگر حکومت بلدیاتی الیکشن کروا دے تو اس کی مشکلات میں واضح کمی ممکن ہو سکے گی بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے کیلیئے بہت سے اہم اہم میدوار تیار بیٹھے ہیں جن امیدواروں کے نام تحصیل چیرمین کے طور پر لیئے جا رہے ہیں ان میں سر فہرست اور سابق چیرمین یو سی بشندوٹ زبیر کیانی کا نام سننے کو مل رہا ہے اور عوام کی طرف سے ان کو اس حوالے سے زبردست پزیرائی بھی مل رہی ہے ان کے علاوہ بھی بہت سارے امیدوار امید لگائے بیٹھے ہیں جو وقت آنے پر سامنے آ جائیں گئے سابق ایم پی اے اور ن لیگ پنجاب کے نائب صدر قمر السلام راجہ بھی کافی متحرک ہو چکے ہیں اور انہوں نے پارٹی ورکرز سے روابط بھی بڑھا لیئے ہیں انہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے اور تحصیل کلرسیداں کے حوالے سے ان کا سیاسی کردار بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہو گا دوسری طرف اس تحصیل کو دو صوبائی حلقوں میں تقسیم کر کے بھی بہت سی پیچیدگیاں پیدا کر دی گئی ہیں اس کا 75% حصہ پی پی 7میں اور بقیہ 25%حصہ پی پی 10میں شامل کر دیا گیا ہے جو سمجھ سے بلکل بالا تر ہے اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ صداقت عباسی کو اپنے عوام میں موجود ہونا چاہیئے ان کو تھوڑا بہت ریلیف فرہام کرنا ان کی زمہ داریوں میں شامل ہے ان کی اپنی زمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیئے عوام سے دوریاں ان کیلیئے سخت نقصان دہ ثابت ہوں گی کلرسیداں انتظامیہ کی غفلت و لاپرواہیوں کا نوٹس لینا ہو گا ا گر انہوں نے آئندہ کیلیئے سیاست کرنی ہے تو انہیں اپنے عوام سے رابطہ رکھنا ہو گا ان سے روابط بڑھانے ہوں گئے عوام علاقہ کو فارم ہاؤس پر بلانے کے بجائے ان کے پاس چل کر آنا ہو گا ان کی کالز سننا ہوں گی اس سے ان کی عزت میں اضافہ ہو گا انہوں نے الیکشن سے قبل عوام سے جو وعدے کیئے تھے ان میں سے اگر صرف آدھے ہی پورے کر دیئے جائیں تو عوام کو شاید ان کے انتخاب پر پچھتانا نہ پڑے بصورت دیگر مثال ان کے سامنے موجود ہے کہ عوام اگر ایک لالی پاپ دینے والے سابق وزیر اعظم کو شکست سے دوچار کر سکتے ہیں تو وہ صداقت عباسی کے ساتھ بھی ویسا سلوک کرنے سے دریغ نہیں کریں گئے
 

Muhammad Ashfaq
About the Author: Muhammad Ashfaq Read More Articles by Muhammad Ashfaq: 244 Articles with 169318 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.